i never saw in my life any teacher who can explain so logically without ups & downs of emotions and voice, ALLAH has blessed ghamidi sb with this power and also blessed us to listen him. May ALLAH bless ghamidi sb more life to enlighten our brains with true perspectives of ISLAM.
بس کرو بھائ ۔۔۔اللہ نے سورہ اخلاص میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اس نے نہ کسی کو جنم دیا نہ وہ کسی سے جنما ۔نہ ہی کوئ اس کا ہمسر یعنی کفو ہے۔۔۔اب جہاں تک یہ بات ہے کہ اس سے کسی چیز یا بات کا صدور نہیں ہوا یہ ترجمہ غامدی صاحب نے نہ جانے کہاں سے اخز کر لیا ہے۔۔۔کیونکہ اللہ کی ذات سے اس کی مشیت کا اور اس کی مشیت سے اس کے امر کا اور اس کے امر سے ہر چیز کا صدور ہوا ہے۔۔لہکن یہ غامدی صاحب کی استطاعت سے پرے کا علم ہے 10:10
استذ محترم اللہ تعالیٰ آپکے لیے آسانیاں پیدا فرماۓ اور آپکو صحت وتندرستی اور عافیت والی زنگی عطاء فرماۓ ہم آپ سے بہت دین سیکھ رہے ہیں بس اس طرح ہی استاذ محترم اپنا کام جاری رکھیں اللہ آپکا حامی و ناصر ہو ۔
اللہ اکبر ۔۔۔ بڑے بڑے جید علماء کو میں نے سنا ، سنا ہے کسی نے 2 مہینے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی کسی نے تین مہینے میں ۔ کسی نے 2 مہینے میں بخاری شریف کو حفظ کرلیا ۔۔ ہوسکتا ہے کہ انکا حافظہ اچھا ہو ۔۔ مگر جو قوت استدلال ، غامدی صاحب کو اللہ نے دیا ہے ، مجھے تو انکے پاسنگ کا بندہ دور دور تک نظر نہیں آتا ۔ غامدی صاحب ، ایک عالم ہی نہیں بلکہ ایک مفکر بھی ہیں۔ جزاک اللہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ قدیم وہ ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے۔ جو پہلے نور الہی کی صورت میں پوشیدہ یا مخفی حالت میں تھی اور پھر نورِ محمد کی صورت میں اس کا اظہار ہوا ۔ اور حادث وہ چیز ہے جو پہلے موجود نہیں تھی پھر اسے تخلیق کیا گیا یعنی ارواح و اجسام مخلوقات ۔ نورِ محمد اللہ کا قدیم فیض ہے جس کے سبب سے حدوث (حادث کی جمع یعنی مخلوقات) کو وجود عطاء ہوا ۔ نفس بھی مخلوق ہے اور اسے بھی فیض قدیم یعنی نورِ محمد سے تخلیق کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قدیم اور پوشیدہ وجود کو حادث یعنی مخلوقات کے وجود کے ذریعے ظاہر کیا ۔ اگر مخلوق نہ ہوتی تو اللہ کو پہچاننے والا اور اس کی عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوتا۔ پس قدیم یعنی اللہ، حادث یعنی مخلوق کے ذریعے ظاہر ہوا ۔ اللہ نہ ہوتا تو کوئی شے نہ ہوتی یعنی حادث یعنی مخلوق قدیم یعنی اللہ کے سبب سے ظاہر ہوئی ۔ اسی لیے حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ظاہر کیا قدیم یعنی اللہ کو حادث کے سبب یعنی مخلوق کے سبب اور حدوث کو قِدم کے سبب یعنی قدیم اور حادث ایک دوسرے کا اظہار ہیں ۔ انسان کا باطن یعنی اس کا نفس، روح اور قلب اس کا اصل وجود ہے۔ جب یہ انسانی جسم سے علیحدہ ہو جاتے ہیں تو انسانی جسم پر موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ (جسم) بے کار ہو جاتا ہے۔ ہر انسان کے جسم میں پوشیدہ اس کا باطن ہی وہ وجود ہے جس نے اللہ کے وجود سے اپنا وجود پایا نہ کہ اس کے جسم نے۔ پس یہ انسانی باطن ہی وہ حروف اور الفاظ ہیں جو دوات یعنی ذات حق تعالیٰ اور قلم یعنی نورِ محمد میں پوشیدہ تھے اور اسی سے لکھے گئے یا ظاہر ہوئے۔ چنانچہ یہ باطن بھی قدیم ہے کہ یہ حق تعالیٰ سے ہے۔ اس باطن کو دنیا میں ظاہر کرنے کیلئے اللہ نے مادی اجسام تخلیق کیے اور ان ظاہری جسموں کے ذریعے انسانی باطن کا اظہار کیا۔ انسان کے جسم سے وہی حرکات سرزد ہوتی ہیں جو اس کا باطنی وجود چاہتا ہے۔ پس ظاہری اعمال باطنی اعمال کا اظہار ہیں۔ ان باطنی اعمال کے اظہار کے لیے جسم کی ضرورت ہے ورنہ انسان اگر خالی روح کی صورت میں ہوتا تو نہ اپنے جذبات کا اظہار کر سکتا اور نہ اپنے افعال کا۔ پس اللہ نے انسان کے باطنی وجود اور جسمانی وجود کو ایک دوسرے کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ باطن قدیم ہے اور جسم حادث ہے۔ اللہ نے ان دونوں کو جوڑ کر انسان کو مکمل کیا۔ باطن یعنی قدیم کے اظہار کا سبب جسم یعنی حادث ہے۔ اور جسم یعنی حادث قدیم کے بغیر بے کار ہے۔ انسان نہ خالی جسم ہے اور نہ خالی باطن، بلکہ دونوں کا مرکب ہے۔ باطن چھپی ہوئی روشنائی ہے اور ظاہری جسم کے افعال اس روشنائی سے نکلنے والے حروف ہیں۔ (اقتباسات مرآة العارفين)
الاول و الآخر الظاہر و الباطن کا مطلب اللہ تعالٰی زمان و مکان سے پاک ہے۔ ماشاءاللہ۔ تفصیل اس طرح ہے وہ ہمیشہ سے تھا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ظاہر ہے اپنی نشانیوں سے ظاہر ہے باطن ہے اس کو سب نظریں احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نظروں کا احاطہ کرتا ہے۔اللہ تعالٰی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائیں۔ آمین۔
ایک مسلمان کو بس سیدھا سادا یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ کائنات میں حقیقی اور مکمل وجود اللہ تعالی کا ہے ، باقی ہر وجود نامکمل اور فانی ہے ۔ (فتاوی عثمانی : ۶۶/۱) ۔
جب کچھ بھی نہیں تھا اللّٰہ تب بھی تھا اور جب کچھ بھی نہیں ہوگا اللّٰہ ہوگا میرے ہونے نے ڈبویا مجھ کو میں نہیں ہوتا تو بھی اللّٰہ ہوتا اللّٰہ تعالیٰ ہے اور اللّٰہ تعالیٰ ہی رہے گا ہم اللّٰہ تعالیٰ کے ہونے کو رسالت کے حوالے سے مانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم صادق اور آمین ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں ہمارے لئے بہترین بات یہ ہے کہ ہم درود ابرہیم دل سے پڑھیں عقیدت سے پڑھیں
Ghamidi sahab pe chache hazar ilzaam ho lekin ummat ko deen ko samajhne ka sahi nazariya inhone hi diya hai athiesm ko jawab ghamidi sahab ke raste par chalkar hi diya ja sakta hai irshad Ahmad from ghazipur up india
یوں تو ہدایت کا اللّٰہ كا ایک قانون ہے جو اس قانون کی پیروی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے ہدایت بخشتے ہیں لیکن میں اپنے بارے میں سچ عرض کرتا ہوں کہ اگر غامدی صاحب نے راہنمائی نہ کی ہوتی تو مُجھے الحاد اور گمراہی نے لپک لینا تھا۔بس دل سے دُعا نکلتی ہے ان کے اخلاص اور انکے علم و کاوش کے لئے. ایک وقت میں ان کا مخالف ہوا کرتا تھا اللّٰہ مُجھے کسی بھی عالم کی بیجا مخالفت سے پناہ دے
Listening to this clear thoughts on Touheed and knowing Ghamidi Sahib’s stance on Non Muslims’ potential inclusion for Jannat (success in hereafter) , one can get his holistic viewpoint. That is no human can comprehend the test that any other individual is going through and thus can not decide on the end result ( Akhirat) and therefore only Allah will make that decision. Only potential excuse that is being given to non-Muslims ( and heretics) is their faulty understanding of the heavenly teachings while they were being honest in their approach. It can be argued too that if those individuals were truly honest then their understanding may improve with the passage of time and before their departure from this world as Allah is All-Knowing and All-Merciful.
First example,We don't actually see things. We see a mind generated visual representation of the thing. In this mind model, things appear to have color. Now this color which we perceive is the result of the things electrons getting excited when hit by photons, and then emiting a similar photon when the electron drops back down to its regular orbital. It's these emitted photons which our eyes detect and the wavelength of these photons determines what color the thing appears in the mind model. 2.Two particles can never touch because of a force between them. Always an amount of space will remain between two particles as long as they don’t merge. We can’t touch anything but can feel it. When we press something soft, it will bend or dent, but we cannot go beyond the force between our skin and the object we touch. Even if there is a huge impact, like two planets collide or two galaxies collide, particles won’t touch each other as long as they don’t fuse. We can get bruised from hitting, but still not touching. When we inject a drug, the needle goes through the surface of the skin, yet no touching, only the skin that gives way to the sharp edge. The drug goes into our body toward various places, but still not touching anything. Yet there is chemical reactions or drug effects we can feel, but no touching. The same to cutting. Viruses or bacteria can go into bloodstream, and these microbes would hijack some of the blood cells, but still no touching. 3.Matter is an illusion because matter made up of 99.9% empty space. Question: The way we perceive the world depend on our body designed by Allah so we see reality relative to us but not in absolute reality similar like Allah is absolute reality but we are designed in such way that we cannot see allah directly. So the relative reality that Allah doesn't exist because we cannot see directly because we are designed by Allah that we cannot do this. This give an illusion to us that Allah doesn't exist due to our designed limitation.Therefore, Allah doesn't exist is an illusion. Similarly the way we perceive the universe is illusion but it has its own absolute reality which allah has created; universe not part or come from him. The question is that is it Shirk?
I think this would further clarify that Allah tala is above and beyond his creation and the possibility that the universes or the multi universes are in reality not even a dot of his knowledge and power to create for he is Allmighty ...i think Allah tala has made it easier for us in surah ikhlass to sum it up in a nutshell JazakAllah khair.. defiinition of shirk must be looked into the quran. And i think we need to be very carefull on this matter as it is like a double edge sword.
کچھ چیزیں اللہ تعالی نے ایسی بنائی ہیں کہ ان کو صرف نظریاتی طور پر صحیح طرح نہیں سمجھا جاسکتا ،جیسے پھلوں کا ذائقہ عقلی منطقی تعریف سے سمجھ نہیں آتی، بلکہ کھانے سے آتی سمجھ آتی ہیں ،اسی طرح محبت ،نفرت ،غضب و غصہ وغیرہ جو کیفیات ہیں انکو بھی اس وقت تک صحیح طرح نہیں سمجھا جاسکتا، جب تک کہ ان سے براہے راست حسی طور پر واسطہ نہ پڑے ۔ یہ چیزیں عقلی یا منطقی نہیں ہیں۔نہ ہی ان کو صحیح طور پر عقل پر زور دینے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ بلکہ جیسے قوت شامہ ناک ایک حد تک اشیاء کی بو سونگھ سکتی ہے آنکھ ایک حد تک دیکھ سکتی ہے ،کان ایک حد تک سن سکتی ہیں ،اسی طرح عقل بھی ایک حد تک انسان کی رہنمائی کرسکتی ہے ،وہاں سے آگے عقل چلانا بے عقلی ہے ، اسی لیے اللہ رب العزت نے انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام کو انسانی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا ہے ،اور وحی کے ذریعے ان کو ان باتوں کا علم دیا ہے جن کا علم صرف عقل سے حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا ، لہذا انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام اس دنیا میں آئیں انہوں نے اللہ رب العزت کی ذات صفات ،ملائکہ جنات، جنت ،جہنم ،قبر، حشر، پل صراط وغیرہ کا تعارف کیا ،اور انکے برحق ہونے کا حکم فرمایا ،اسی طرح نماز ، روزہ، ذکات ،حج جیسے افعال کا ہمیں حکم دیا ہے ۔اور اللہ رب العزت نے انسانوں کو حکم دیا کہ نبی کا اتباع کریںان کے بتائے طریقے پر عمل کرکے دارین کا فلاح حاصل کریں ،بس عقل کا دائرہ کار یہ ہے کہ ان احکام کو صحیح طرح سمجھے اور ان پر عمل کریں ،مزید ادھر ادھر کی باتوں میں پڑے،جسیے کہ ابلیس نے اللہ رب العزت کے حکم کے سامنے اپنی سمجھداری کا اظہار کیا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مردود ہوگیا ۔ نکتے کی بات تو یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن میں اور نبی پاک ﷺ نے ہمیں اپنی مبارک احادیث میں احکام پر عمل کرنے کا تو حکم دیا ،اسی طرح بہت ساری چیزوں کے بارے میں ان کے بر حق ہونے کا عقیدہ رکھنے کا تو حکم دیا ،مگر انکی لم یا حکمت یا فلسفہ معلوم کرنے کا مکلف نہیں بنایا۔اس لیے صحابہ کرام اور سلف صالحین کو جب دیکھا جاتا ہے کہ وہ اس طرح کے نازک مسائل میں گفتگوں نہیں کرتے تھے ،بلکہ اپنی صلاحیتوں کو تزکیہ نفس اللہ رب العزت کے احکم پر عمل پیرا ہونے کے لیے استعمال کرتے تھے ،تاکہ اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل ہوجائے،پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ کس طرح بلندیوں کی چوٹیوں کو پہنچ گئے۔ ۔اس لیے ہماری لیے خیروعافیت اسی میں ہے کہ ہم اپنی عقل کو بس یہاں تک استعمال کریں کہ کس وقت اللہ رب العزت کا کون سا حکم ہم سے متعلق ہوتی ہے تاکہ اس پر عمل کرکے اپنے رب کی رضا حاصل کرسکے ،تاکہ دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل ہوجائیں۔دین میں اس سے زیادہ عقل مندی کا اظہار نہ کریں، اگر اپنی ناقص عقل کو لگام نہیں دے گے ،تو ابلیس کی طرح مردود ہونے کا قوی اندیشہ ہے اللہ رب العزت سب مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔اور اپنی دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔ باقی نتائج سب کے سامنے ہیں کہ آج ایک طرف تو پاکی ناپاکی دین کے موٹے موٹے احکام کا بھی علم نہیں پایا جاتا، اخلاق دن بدن تباہ کن ہوتے جارہے ہیں تو دوسری طرح یہ دانشور انکو مزید باریک نازک نوعیت کے مسائل میں الجھا رہے ہیں ، تاکہ ایمان کا جو بچا کچا حصہ ہے اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
نبیﷺ کی وفات کے 600 سال بعد شیخ محی الدین ابن عربی نے تصوف یعنی صوفی مذہب کی بنیاد ڈالی اور وحدت الوجود کا فلسفہ لکھا۔ اللہ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے -( فنا فی الشیخ - فنا فی الرسول - فنا فی اللہ - ) کی نیء ڈزائن پیش کی۔ پھر کیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انڈیا بنگلہ دیش پاکستان اور افغانستان میں موجود چشتیہ قادریہ غوثیہ سہروردیہ نقش بندیہ جنیدیہ وغیرہ سلسلے والے سارے بزرگ ولی بن گئے - ٹھیک ہے - لیکن جس راستے پر چل کر یہ لوگ ولی بنے ہیں وہ فنا فی الشیخ والا راستہ نہ قرآن کا فلسفہ ہے نہ نبیﷺ کی حدیث ہے۔ جو لوگ غیر نبی کے فلسفہ پر چل کر ولی بنے ہیں ان کی ولایت والی ڈگری پر سوال تو بنتا ہے۔ صوفی ازم بھی ایک ازم ہے۔ جیسے بدھ ازم - جین ازم- پارسی ازم -ٹھیک ویسے ہی صوفی ازم بھی ہے۔ صوفی مذہب چونکہ ایک ازم ہے اس لئے تصوف کے اپنے اصول اور ضابطے ہیں اور فلسفے ہیں۔ صوفی مذہب کے اصول کے مطابق خالق اور مخلوق میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں کہ خالق اور مخلوق ایک ہی زات کے دو جلوے ہیں۔ اس لئے صوفی مذہب میں ( اللہ اور بندہ ) والا رشتہ نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ رشتہ ( کُل اور جُز ) کا رشتہ ہوتا ہے۔ جس طرح پانی کا قطرہ سمندر کا جُز ہوتا ہے ٹھیک ویسے ہی ہر انسان اللہ کا جُز ہوتا ہے۔ اسے وحدت الوجود کا فلسفہ کہتے ہیں۔ اس فلسفہ کے مطابق صوفی مذہب میں عاشق( یعنی بندہ) اور معشوق( یعنی اللہ ) میں فرق کرنا شرک ہے اور دونوں کو ایک ماننا توحید ہے۔ اس لئے صوفی بزرگ مرتا نہیں ہے بلکہ اس کا وصال ہوتا ہے۔ یعنی مرنے کے بعد صوفی بزرگ اپنے ہی وجود سے جا ملتا ہے۔ اس لئے صوفی بزرگ کی یومِ وفات پر عرس منایا جاتا ہے۔ عرس کا مطلب صوفی بزرگ کی اللہ سے شادی کی سالگرہ۔ تصوف یعنی صوفی مذہب کی عمارت شیخ محی الدین ابن عربی کے وحدت الوجود کے فلسفہ پر کھڑی ہے اور دوسری طرف اسلام کی عمارت نبیﷺ کے واحدہٗ لا شريك کے فلسفہ پر کھڑی ہے۔ یہ سچائی لوگوں کو بتانا چاہیےء۔ حوالہ📕 کتاب - صوفی مذہب کی کتاب - فلسفہ وحدت الوجود - نوٹ📒 حیران کن بات یہ ہے کہ : شیخ محی الدین ابن عربی کے فلسفہ وحدت الوجود کی " توحید " والے عقیدہ کو بریلوی مفتی مولوی " صحیح العقیدہ مزہب کی توحید مانتے ہیں یہ سچائی بھی لوگوں کو بتانا چاہیےء۔
مالک الملک ایک ہیے اور ہر چیز جو ہم دیکھ سکتے ہیں یا جو ہم سے اوجھل ہیے وہ اس کی تخلیق ہیے۔ اس لیئے اللہ رب العالمين کو کسی مخلوق سے وحدت کرنا شدید گناہ ہیئے۔ مالک واحد ہیے اور باقی سب اس کے حکم سے پیدا ھوئ ھوئ ہیے تو یہ مالک اور مخلوق کا رشتہ ہیے۔
Spirtuality do exists ...its experinced in all cultures but its interpretation is subjective...when u touch a higher reality ..what name u give to it is based on your existing thoughts.....carl jung has called it super- subconcious...
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ قدیم وہ ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے۔ جو پہلے نور الہی کی صورت میں پوشیدہ یا مخفی حالت میں تھی اور پھر نورِ محمد کی صورت میں اس کا اظہار ہوا ۔ اور حادث وہ چیز ہے جو پہلے موجود نہیں تھی پھر اسے تخلیق کیا گیا یعنی ارواح و اجسام مخلوقات ۔ نورِ محمد اللہ کا قدیم فیض ہے جس کے سبب سے حدوث (حادث کی جمع یعنی مخلوقات) کو وجود عطاء ہوا ۔ نفس بھی مخلوق ہے اور اسے بھی فیض قدیم یعنی نورِ محمد سے تخلیق کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قدیم اور پوشیدہ وجود کو حادث یعنی مخلوقات کے وجود کے ذریعے ظاہر کیا ۔ اگر مخلوق نہ ہوتی تو اللہ کو پہچاننے والا اور اس کی عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوتا۔ پس قدیم یعنی اللہ، حادث یعنی مخلوق کے ذریعے ظاہر ہوا ۔ اللہ نہ ہوتا تو کوئی شے نہ ہوتی یعنی حادث یعنی مخلوق قدیم یعنی اللہ کے سبب سے ظاہر ہوئی ۔ اسی لیے حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ظاہر کیا قدیم یعنی اللہ کو حادث کے سبب یعنی مخلوق کے سبب اور حدوث کو قِدم کے سبب یعنی قدیم اور حادث ایک دوسرے کا اظہار ہیں ۔ انسان کا باطن یعنی اس کا نفس، روح اور قلب اس کا اصل وجود ہے۔ جب یہ انسانی جسم سے علیحدہ ہو جاتے ہیں تو انسانی جسم پر موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ (جسم) بے کار ہو جاتا ہے۔ ہر انسان کے جسم میں پوشیدہ اس کا باطن ہی وہ وجود ہے جس نے اللہ کے وجود سے اپنا وجود پایا نہ کہ اس کے جسم نے۔ پس یہ انسانی باطن ہی وہ حروف اور الفاظ ہیں جو دوات یعنی ذات حق تعالیٰ اور قلم یعنی نورِ محمد میں پوشیدہ تھے اور اسی سے لکھے گئے یا ظاہر ہوئے۔ چنانچہ یہ باطن بھی قدیم ہے کہ یہ حق تعالیٰ سے ہے۔ اس باطن کو دنیا میں ظاہر کرنے کیلئے اللہ نے مادی اجسام تخلیق کیے اور ان ظاہری جسموں کے ذریعے انسانی باطن کا اظہار کیا۔ انسان کے جسم سے وہی حرکات سرزد ہوتی ہیں جو اس کا باطنی وجود چاہتا ہے۔ پس ظاہری اعمال باطنی اعمال کا اظہار ہیں۔ ان باطنی اعمال کے اظہار کے لیے جسم کی ضرورت ہے ورنہ انسان اگر خالی روح کی صورت میں ہوتا تو نہ اپنے جذبات کا اظہار کر سکتا اور نہ اپنے افعال کا۔ پس اللہ نے انسان کے باطنی وجود اور جسمانی وجود کو ایک دوسرے کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ باطن قدیم ہے اور جسم حادث ہے۔ اللہ نے ان دونوں کو جوڑ کر انسان کو مکمل کیا۔ باطن یعنی قدیم کے اظہار کا سبب جسم یعنی حادث ہے۔ اور جسم یعنی حادث قدیم کے بغیر بے کار ہے۔ انسان نہ خالی جسم ہے اور نہ خالی باطن، بلکہ دونوں کا مرکب ہے۔ باطن چھپی ہوئی روشنائی ہے اور ظاہری جسم کے افعال اس روشنائی سے نکلنے والے حروف ہیں۔ (اقتباسات مرآة العارفين)
Concept of SAJI - is different Super mutlaq is explained by Iqbal. Surah Al.Hasher Fehm e Quran is required.Isma ul.Hasana of Allah zahir o batan negates Muqaam Whild Awal o Aakhir negates about zaat Taweel / argument can be wrong as per one one's perception.
Indeed, ˹it is˺ We ˹Who˺ created humankind and ˹fully˺ know what their souls whisper to them, and We are closer to them than ˹their˺ jugular vein.(50:16) Kindly explain this verse
This closeness is about the knowledge of our Creator.. He knows about me more than what i know about myself. Try understanding first 3 verses of surah hadeed.
It means that me and my family are two separate entities. Likewise,Allah and a human's jugular vein, or for that matter the human himself are two separate entities. Logical refusal/ denial of "wahdat ul wajood/ wahdat usher shuhood....the blasphemous " Pantheism". Islam is clear simple,and transparent....and not a jungle of confusions and inner contradictions.
غامدی صاحب کا جواب سوال سے یکسر مختلف ھے۔ وحدت الوجود کے دعویدار اللہ کے ساتھ کسی کو کسی بھی معنی میں شریک نہیں کرتے, بلکہ ان کا دعوی یہ ھے کہ کائنات میں اللہ کے سواء کوئی شئے موجود ہی نہیں, جو کچھ ھے وہ اللہ کے وجود ہی کا حصہ ھے۔ اس طرح وہ خالق اور مخلوق کو ایک ہی وجود ٹھہراتے ہیں۔ اسی دعوی کی بنیاد پر امام غزالی کا کہنا ھے کہ عوام کی توحید اور ھے یعنی "لا الہ الللہ" "La Ilaha illallah" اور خواص یعنی صوفیاء کی توحید ھے " لا الہ الا "ھو" یہاں "ھو" سے مراد اللہ ھے۔ توحید کی صوفیانہ تعریف قرآن کی تعلیم سے یکسر مختلف ھے۔ قرآن توکہتا ھے کہ اللہ کے سواء کوئی الہ (معبود) نہیں جبکہ صوفیاء کا دعوی ھے کہ اللہ کے سواء کوئی شئے موجود ہی نہیں۔یعنی خالق و مخلوق سب اللہ ہی ھے۔ اگر ایسا ھے تو قرآن میں جگہ جگہ "دون اللہ, دون اللہ ( یعنی, اللہ کے سواء, اللہ کے سواء)" ۔۔۔۔۔۔۔ کی تکرار کیا اور کیوں ھے؟؟؟ جب اللہ کے سواء کسی شئے کا وجود ہی نہیں ھے, تو پھر یہ "دون اللہ" کون ھے ؟؟؟ غامدی صاحب کا طول طویل جواب اس بحث سے بلکل خالی ھے, جو "وحدت الوجود" کا بنیادی نکتہ ھے۔
i never saw in my life any teacher who can explain so logically without ups & downs of emotions and voice, ALLAH has blessed ghamidi sb with this power and also blessed us to listen him. May ALLAH bless ghamidi sb more life to enlighten our brains with true perspectives of ISLAM.
I was thinking the exact same thing. But you said it better
Yup
سبحان اللہ اللہ پاک حق کو باطل سے احسن طریقے سے الگ کرنے پر آ پ کو جزائے خیر عطا فرمائے
How calmly he destroys false perspectives* ♥️
you described his way perfectly 👍
بس کرو بھائ ۔۔۔اللہ نے سورہ اخلاص میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اس نے نہ کسی کو جنم دیا نہ وہ کسی سے جنما ۔نہ ہی کوئ اس کا ہمسر یعنی کفو ہے۔۔۔اب جہاں تک یہ بات ہے کہ اس سے کسی چیز یا بات کا صدور نہیں ہوا یہ ترجمہ غامدی صاحب نے نہ جانے کہاں سے اخز کر لیا ہے۔۔۔کیونکہ اللہ کی ذات سے اس کی مشیت کا اور اس کی مشیت سے اس کے امر کا اور اس کے امر سے ہر چیز کا صدور ہوا ہے۔۔لہکن یہ غامدی صاحب کی استطاعت سے پرے کا علم ہے 10:10
@MuhammadAsif-gc4sp
@@aghashafqathabib4669chup kr jahil k bacha
استذ محترم اللہ تعالیٰ آپکے لیے آسانیاں پیدا فرماۓ اور آپکو صحت وتندرستی اور عافیت والی زنگی عطاء فرماۓ ہم آپ سے بہت دین سیکھ رہے ہیں بس اس طرح ہی استاذ محترم اپنا کام جاری رکھیں اللہ آپکا حامی و ناصر ہو ۔
اللّٰہ تعالیٰ غامدی صاحب کی کوشش قبول فرمائے آمین یارب العالمین
اللّٰہ تعالیٰ سے ھدایت مانگتے رہیں ہدایت پر رہیں گے 🎉
آج میرا بہت بڑا مخالطہ دور ہوا۔
جزاك اللهُ استاد محترم۔
آج کل مسلمانوں کو ہدایت پر لانے کی ضرورت ہے اللّٰہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو ہدایت دے آمین
اللہ اکبر ۔۔۔ بڑے بڑے جید علماء کو میں نے سنا ، سنا ہے کسی نے 2 مہینے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی کسی نے تین مہینے میں ۔ کسی نے 2 مہینے میں بخاری شریف کو حفظ کرلیا ۔۔
ہوسکتا ہے کہ انکا حافظہ اچھا ہو ۔۔
مگر جو قوت استدلال ، غامدی صاحب کو اللہ نے دیا ہے ، مجھے تو انکے پاسنگ کا بندہ دور دور تک نظر نہیں آتا ۔
غامدی صاحب ، ایک عالم ہی نہیں بلکہ ایک مفکر بھی ہیں۔
جزاک اللہ
Beshak ✅ Imam ul asar
اللّٰہ تعالیٰ سے ھدایت مانگتے رہیں ہدایت پر رہینے کی آمید ہے
اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں میں اتحاد پیدا فرمائے آمین
اللّٰہ تعالیٰ غامدی صاحب کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے آمین یارب العالمین
وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود پر بہت بلیغ تبصرہ فرمایا۔
اللہ آپ کی عمر اور صحت میں برکت دے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ قدیم وہ ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے۔ جو پہلے نور الہی کی صورت میں پوشیدہ یا مخفی حالت میں تھی اور پھر نورِ محمد کی صورت میں اس کا اظہار ہوا ۔ اور حادث وہ چیز ہے جو پہلے موجود نہیں تھی پھر اسے تخلیق کیا گیا یعنی ارواح و اجسام مخلوقات ۔ نورِ محمد اللہ کا قدیم فیض ہے جس کے سبب سے حدوث (حادث کی جمع یعنی مخلوقات) کو وجود عطاء ہوا ۔ نفس بھی مخلوق ہے اور اسے بھی فیض قدیم یعنی نورِ محمد سے تخلیق کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قدیم اور پوشیدہ وجود کو حادث یعنی مخلوقات کے وجود کے ذریعے ظاہر کیا ۔ اگر مخلوق نہ ہوتی تو اللہ کو پہچاننے والا اور اس کی عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوتا۔ پس قدیم یعنی اللہ، حادث یعنی مخلوق کے ذریعے ظاہر ہوا ۔ اللہ نہ ہوتا تو کوئی شے نہ ہوتی یعنی حادث یعنی مخلوق قدیم یعنی اللہ کے سبب سے ظاہر ہوئی ۔ اسی لیے حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ظاہر کیا قدیم یعنی اللہ کو حادث کے سبب یعنی مخلوق کے سبب اور حدوث کو قِدم کے سبب یعنی قدیم اور حادث ایک دوسرے کا اظہار ہیں ۔ انسان کا باطن یعنی اس کا نفس، روح اور قلب اس کا اصل وجود ہے۔ جب یہ انسانی جسم سے علیحدہ ہو جاتے ہیں تو انسانی جسم پر موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ (جسم) بے کار ہو جاتا ہے۔ ہر انسان کے جسم میں پوشیدہ اس کا باطن ہی وہ وجود ہے جس نے اللہ کے وجود سے اپنا وجود پایا نہ کہ اس کے جسم نے۔ پس یہ انسانی باطن ہی وہ حروف اور الفاظ ہیں جو دوات یعنی ذات حق تعالیٰ اور قلم یعنی نورِ محمد میں پوشیدہ تھے اور اسی سے لکھے گئے یا ظاہر ہوئے۔ چنانچہ یہ باطن بھی قدیم ہے کہ یہ حق تعالیٰ سے ہے۔ اس باطن کو دنیا میں ظاہر کرنے کیلئے اللہ نے مادی اجسام تخلیق کیے اور ان ظاہری جسموں کے ذریعے انسانی باطن کا اظہار کیا۔ انسان کے جسم سے وہی حرکات سرزد ہوتی ہیں جو اس کا باطنی وجود چاہتا ہے۔ پس ظاہری اعمال باطنی اعمال کا اظہار ہیں۔ ان باطنی اعمال کے اظہار کے لیے جسم کی ضرورت ہے ورنہ انسان اگر خالی روح کی صورت میں ہوتا تو نہ اپنے جذبات کا اظہار کر سکتا اور نہ اپنے افعال کا۔ پس اللہ نے انسان کے باطنی وجود اور جسمانی وجود کو ایک دوسرے کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ باطن قدیم ہے اور جسم حادث ہے۔ اللہ نے ان دونوں کو جوڑ کر انسان کو مکمل کیا۔ باطن یعنی قدیم کے اظہار کا سبب جسم یعنی حادث ہے۔ اور جسم یعنی حادث قدیم کے بغیر بے کار ہے۔ انسان نہ خالی جسم ہے اور نہ خالی باطن، بلکہ دونوں کا مرکب ہے۔ باطن چھپی ہوئی روشنائی ہے اور ظاہری جسم کے افعال اس روشنائی سے نکلنے والے حروف ہیں۔ (اقتباسات مرآة العارفين)
Ma SHA Allah. May Allah SWT bless you with the best health and happiness to serve Islam.
الاول و الآخر الظاہر و الباطن کا مطلب اللہ تعالٰی زمان و مکان سے پاک ہے۔ ماشاءاللہ۔ تفصیل اس طرح ہے وہ ہمیشہ سے تھا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ظاہر ہے اپنی نشانیوں سے ظاہر ہے باطن ہے اس کو سب نظریں احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نظروں کا احاطہ کرتا ہے۔اللہ تعالٰی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائیں۔ آمین۔
ایک مسلمان کو بس سیدھا سادا یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ کائنات میں حقیقی اور مکمل وجود اللہ تعالی کا ہے ، باقی ہر وجود نامکمل اور فانی ہے ۔ (فتاوی عثمانی : ۶۶/۱) ۔
جب کچھ بھی نہیں تھا اللّٰہ تب بھی تھا اور جب کچھ بھی نہیں ہوگا اللّٰہ ہوگا میرے ہونے نے ڈبویا مجھ کو میں نہیں ہوتا تو بھی اللّٰہ ہوتا اللّٰہ تعالیٰ ہے اور اللّٰہ تعالیٰ ہی رہے گا ہم اللّٰہ تعالیٰ کے ہونے کو رسالت کے حوالے سے مانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم صادق اور آمین ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں ہمارے لئے بہترین بات یہ ہے کہ ہم درود ابرہیم دل سے پڑھیں عقیدت سے پڑھیں
Ghamidi sahab pe chache hazar ilzaam ho lekin ummat ko deen ko samajhne ka sahi nazariya inhone hi diya hai athiesm ko jawab ghamidi sahab ke raste par chalkar hi diya ja sakta hai irshad Ahmad from ghazipur up india
مرحبا ۔
a true genius... ماشاءاللہ
Thanks!
Ghamdi sahib is a 'wonderful scholar' and always he explains a complcated issue in its' true sense and in a easy manner with logic.
Jazakum Alllahu Khaira
Every word, every sentence and all the discourse stands up to every test and standard of logic and Reason.
excellent explanation of Shirk in Muslims.,.,.,salute Ghamidi sir.,.,.
Ghamidi sahab ki mahnat ko Allah kabool kare.
Ma sha Allah May Allah stay him in peace and blessfull
Surah Al Kahf and Surah Al Mulk and Surah Al Sajjda are worth reading.
mahshAllah Mubarak oh nice analyst
100% agreed. MashaAllah, how nicely he explained the concept.
Really impress with knowledge of Ghamdi Sahab
Your knowledge and understanding is next level...May Allah bestow you with good health ..
Thank you for such illuminating discussion. Saces us from many wrong concepts.
very right explanation jazaKallah Khair
Great.. Such an amazing respinse. Ma sha Allah
یوں تو ہدایت کا اللّٰہ كا ایک قانون ہے جو اس قانون کی پیروی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے ہدایت بخشتے ہیں لیکن میں اپنے بارے میں سچ عرض کرتا ہوں کہ اگر غامدی صاحب نے راہنمائی نہ کی ہوتی تو مُجھے الحاد اور گمراہی نے لپک لینا تھا۔بس دل سے دُعا نکلتی ہے ان کے اخلاص اور انکے علم و کاوش کے لئے. ایک وقت میں ان کا مخالف ہوا کرتا تھا اللّٰہ مُجھے کسی بھی عالم کی بیجا مخالفت سے پناہ دے
ماشاء اللہ
Mashallah Ghamidi Sahab Allah salamat rakhe aapko ahle khana ko
MashaAllah Ghamdi Sahabs elaboration is worth listening!
سب سے بڑا شرک ہی یہی ہوگا کہ "میں ' بھی ' ہیں اور اللہ ' بھی ' ہے
جزاک اللہ۔بہترین و ضاحت ۔
جزاک اللّٰہ جی
اللّٰہ آپ تمام احباب کو سلامت رکھے عافیت کے ساتھ آمین
زبردست علمی جوابات ہیں ان کے،
اللّٰہ تعالیٰ کو ابلیس بھی ایک تنہا مانتا ہے ہم مسلمان اللّٰہ تعالیٰ کو رسالت پر ایمان کے ساتھ ایک مانتے ہیں
Jazakallah khair ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
Jazak Allah khyr Ghamdi sb.
Jazzak Allah ❤
Surah Akhlass is the best Surah for Tauheed.He is omnipotent and most powerful.
حقیقت تو یہ ہے کہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ تعالیٰ کے محبوب بندے اور خاتم الانبیاء ہیں
Per Holland is best country
Excellent and clear explanation. Jazaak Allah Ghamidi Saahab!
Listening to this clear thoughts on Touheed and knowing Ghamidi Sahib’s stance on Non Muslims’ potential inclusion for Jannat (success in hereafter) , one can get his holistic viewpoint. That is no human can comprehend the test that any other individual is going through and thus can not decide on the end result ( Akhirat) and therefore only Allah will make that decision. Only potential excuse that is being given to non-Muslims ( and heretics) is their faulty understanding of the heavenly teachings while they were being honest in their approach. It can be argued too that if those individuals were truly honest then their understanding may improve with the passage of time and before their departure from this world as Allah is All-Knowing and All-Merciful.
Ghamidhi sahab great source of knowledge ❤
جزاک اللّہ خیر
Thank you ghamdi sb for explaiñing this greatest fact so beautifully
Thought provoking indeed.....💝🥀🥀
so beautifully described ..Ghamdi Sab
True Scholar of Islam..
patiently waiting for english subtitles to be added, so i can realllly capture all the knowledge from Ghamidi saab...
Jazak Allah khair
Bihtreen maloomat
Jazak Allah
SubhanAllah ❤.
May you live long sir. I really pray for your good health, and long live.
Jazzak Allah
Asa.jazakallah ghamdi sahab
جزاک اللہ خیر غامدی صاحب۔۔ہاؤ لاجیکلی یو کلئیرڈ اِٹ ❤
لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے کیا ان کے دلوں میں ۔۔۔۔۔۔۔😢
Allah o Akbar!
Very good and simple explanation ghamdi sb 👍
اگر انسان دل کی آنکھیں کھول کر زخمت کر یں،تو کھبی بھی شر ک نہیں کریگا،اور ہماری جو عام آنکھیں ہیں وہ اللہ کے وجود کا محاسبہ نہیں کر سکتا،
First example,We don't actually see things. We see a mind generated visual representation of the thing. In this mind model, things appear to have color. Now this color which we perceive is the result of the things electrons getting excited when hit by photons, and then emiting a similar photon when the electron drops back down to its regular orbital. It's these emitted photons which our eyes detect and the wavelength of these photons determines what color the thing appears in the mind model.
2.Two particles can never touch because of a force between them. Always an amount of space will remain between two particles as long as they don’t merge. We can’t touch anything but can feel it. When we press something soft, it will bend or dent, but we cannot go beyond the force between our skin and the object we touch. Even if there is a huge impact, like two planets collide or two galaxies collide, particles won’t touch each other as long as they don’t fuse. We can get bruised from hitting, but still not touching. When we inject a drug, the needle goes through the surface of the skin, yet no touching, only the skin that gives way to the sharp edge. The drug goes into our body toward various places, but still not touching anything. Yet there is chemical reactions or drug effects we can feel, but no touching. The same to cutting. Viruses or bacteria can go into bloodstream, and these microbes would hijack some of the blood cells, but still no touching.
3.Matter is an illusion because matter made up of 99.9% empty space.
Question: The way we perceive the world depend on our body designed by Allah so we see reality relative to us but not in absolute reality similar like Allah is absolute reality but we are designed in such way that we cannot see allah directly. So the relative reality that Allah doesn't exist because we cannot see directly because we are designed by Allah that we cannot do this. This give an illusion to us that Allah doesn't exist due to our designed limitation.Therefore, Allah doesn't exist is an illusion. Similarly the way we perceive the universe is illusion but it has its own absolute reality which allah has created; universe not part or come from him. The question is that is it Shirk?
I think this would further clarify that Allah tala is above and beyond his creation and the possibility that the universes or the multi universes are in reality not even a dot of his knowledge and power to create for he is Allmighty ...i think Allah tala has made it easier for us in surah ikhlass to sum it up in a nutshell
JazakAllah khair.. defiinition of shirk must be looked into the quran. And i think we need to be very carefull on this matter as it is like a double edge sword.
ua-cam.com/video/EDR79IfHlJU/v-deo.html
ua-cam.com/video/EDR79IfHlJU/v-deo.html
Yes, the universe is not part of Allah nor it came from Allah. Allah Almighty is beyond this universe, but Allah created the Universe.
خدا سلامت رکھے۔ ❤
ماشاءاللہ
Good information
ماشا اللہ
mashallah . subhanallah ,
JAZAKALLAH
کچھ چیزیں اللہ تعالی نے ایسی بنائی ہیں کہ ان کو صرف نظریاتی طور پر صحیح طرح نہیں سمجھا جاسکتا ،جیسے پھلوں کا ذائقہ عقلی منطقی تعریف سے سمجھ نہیں آتی، بلکہ کھانے سے آتی سمجھ آتی ہیں ،اسی طرح محبت ،نفرت ،غضب و غصہ وغیرہ جو کیفیات ہیں انکو بھی اس وقت تک صحیح طرح نہیں سمجھا جاسکتا، جب تک کہ ان سے براہے راست حسی طور پر واسطہ نہ پڑے ۔ یہ چیزیں عقلی یا منطقی نہیں ہیں۔نہ ہی ان کو صحیح طور پر عقل پر زور دینے سے سمجھا جاسکتا ہے۔
بلکہ جیسے قوت شامہ ناک ایک حد تک اشیاء کی بو سونگھ سکتی ہے آنکھ ایک حد تک دیکھ سکتی ہے ،کان ایک حد تک سن سکتی ہیں ،اسی طرح عقل بھی ایک حد تک انسان کی رہنمائی کرسکتی ہے ،وہاں سے آگے عقل چلانا بے عقلی ہے ، اسی لیے اللہ رب العزت نے انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام کو انسانی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا ہے ،اور وحی کے ذریعے ان کو ان باتوں کا علم دیا ہے جن کا علم صرف عقل سے حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا ، لہذا انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام اس دنیا میں آئیں انہوں نے اللہ رب العزت کی ذات صفات ،ملائکہ جنات، جنت ،جہنم ،قبر، حشر، پل صراط وغیرہ کا تعارف کیا ،اور انکے برحق ہونے کا حکم فرمایا ،اسی طرح نماز ، روزہ، ذکات ،حج جیسے افعال کا ہمیں حکم دیا ہے ۔اور اللہ رب العزت نے انسانوں کو حکم دیا کہ نبی کا اتباع کریںان کے بتائے طریقے پر عمل کرکے دارین کا فلاح حاصل کریں ،بس عقل کا دائرہ کار یہ ہے کہ ان احکام کو صحیح طرح سمجھے اور ان پر عمل کریں ،مزید ادھر ادھر کی باتوں میں پڑے،جسیے کہ ابلیس نے اللہ رب العزت کے حکم کے سامنے اپنی سمجھداری کا اظہار کیا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مردود ہوگیا ۔
نکتے کی بات تو یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن میں اور نبی پاک ﷺ نے ہمیں اپنی مبارک احادیث میں احکام پر عمل کرنے کا تو حکم دیا ،اسی طرح بہت ساری چیزوں کے بارے میں ان کے بر حق ہونے کا عقیدہ رکھنے کا تو حکم دیا ،مگر انکی لم یا حکمت یا فلسفہ معلوم کرنے کا مکلف نہیں بنایا۔اس لیے صحابہ کرام اور سلف صالحین کو جب دیکھا جاتا ہے کہ وہ اس طرح کے نازک مسائل میں گفتگوں نہیں کرتے تھے ،بلکہ اپنی صلاحیتوں کو تزکیہ نفس اللہ رب العزت کے احکم پر عمل پیرا ہونے کے لیے استعمال کرتے تھے ،تاکہ اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل ہوجائے،پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ کس طرح بلندیوں کی چوٹیوں کو پہنچ گئے۔
۔اس لیے ہماری لیے خیروعافیت اسی میں ہے کہ ہم اپنی عقل کو بس یہاں تک استعمال کریں کہ کس وقت اللہ رب العزت کا کون سا حکم ہم سے متعلق ہوتی ہے تاکہ اس پر عمل کرکے اپنے رب کی رضا حاصل کرسکے ،تاکہ دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل ہوجائیں۔دین میں اس سے زیادہ عقل مندی کا اظہار نہ کریں، اگر اپنی ناقص عقل کو لگام نہیں دے گے ،تو ابلیس کی طرح مردود ہونے کا قوی اندیشہ ہے اللہ رب العزت سب مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔اور اپنی دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔
باقی نتائج سب کے سامنے ہیں کہ آج ایک طرف تو پاکی ناپاکی دین کے موٹے موٹے احکام کا بھی علم نہیں پایا جاتا، اخلاق دن بدن تباہ کن ہوتے جارہے ہیں تو دوسری طرح یہ دانشور انکو مزید باریک نازک نوعیت کے مسائل میں الجھا رہے ہیں ، تاکہ ایمان کا جو بچا کچا حصہ ہے اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
نبیﷺ کی وفات کے 600 سال بعد شیخ محی الدین ابن عربی نے تصوف یعنی صوفی مذہب کی بنیاد ڈالی اور وحدت الوجود کا فلسفہ لکھا۔ اللہ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے -( فنا فی الشیخ - فنا فی الرسول - فنا فی اللہ - ) کی نیء ڈزائن پیش کی۔ پھر کیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انڈیا بنگلہ دیش پاکستان اور افغانستان میں موجود چشتیہ قادریہ غوثیہ سہروردیہ نقش بندیہ جنیدیہ وغیرہ سلسلے والے سارے بزرگ ولی بن گئے - ٹھیک ہے - لیکن جس راستے پر چل کر یہ لوگ ولی بنے ہیں وہ فنا فی الشیخ والا راستہ نہ قرآن کا فلسفہ ہے نہ نبیﷺ کی حدیث ہے۔ جو لوگ غیر نبی کے فلسفہ پر چل کر ولی بنے ہیں ان کی ولایت والی ڈگری پر سوال تو بنتا ہے۔
صوفی ازم بھی ایک ازم ہے۔ جیسے بدھ ازم - جین ازم- پارسی ازم -ٹھیک ویسے ہی صوفی ازم بھی ہے۔
صوفی مذہب چونکہ ایک ازم ہے اس لئے تصوف کے اپنے اصول اور ضابطے ہیں اور فلسفے ہیں۔ صوفی مذہب کے اصول کے مطابق خالق اور مخلوق میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں کہ خالق اور مخلوق ایک ہی زات کے دو جلوے ہیں۔ اس لئے صوفی مذہب میں ( اللہ اور بندہ ) والا رشتہ نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ رشتہ ( کُل اور جُز ) کا رشتہ ہوتا ہے۔ جس طرح پانی کا قطرہ سمندر کا جُز ہوتا ہے ٹھیک ویسے ہی ہر انسان اللہ کا جُز ہوتا ہے۔ اسے وحدت الوجود کا فلسفہ کہتے ہیں۔ اس فلسفہ کے مطابق صوفی مذہب میں عاشق( یعنی بندہ) اور معشوق( یعنی اللہ ) میں فرق کرنا شرک ہے اور دونوں کو ایک ماننا توحید ہے۔ اس لئے صوفی بزرگ مرتا نہیں ہے بلکہ اس کا وصال ہوتا ہے۔ یعنی مرنے کے بعد صوفی بزرگ اپنے ہی وجود سے جا ملتا ہے۔ اس لئے صوفی بزرگ کی یومِ وفات پر عرس منایا جاتا ہے۔ عرس کا مطلب صوفی بزرگ کی اللہ سے شادی کی سالگرہ۔
تصوف یعنی صوفی مذہب کی عمارت شیخ محی الدین ابن عربی کے وحدت الوجود کے فلسفہ پر کھڑی ہے اور دوسری طرف اسلام کی عمارت نبیﷺ کے واحدہٗ لا شريك کے فلسفہ پر کھڑی ہے۔ یہ سچائی لوگوں کو بتانا چاہیےء۔
حوالہ📕 کتاب - صوفی مذہب کی کتاب - فلسفہ وحدت الوجود -
نوٹ📒
حیران کن بات یہ ہے کہ :
شیخ محی الدین ابن عربی کے فلسفہ وحدت الوجود کی " توحید " والے عقیدہ کو بریلوی مفتی مولوی " صحیح العقیدہ مزہب کی توحید مانتے ہیں یہ سچائی بھی لوگوں کو بتانا چاہیےء۔
what is your views on man o yazdan book by allama niaz fatah puri
مالک الملک ایک ہیے اور ہر چیز جو ہم دیکھ سکتے ہیں یا جو ہم سے اوجھل ہیے وہ اس کی تخلیق ہیے۔ اس لیئے اللہ رب العالمين کو کسی مخلوق سے وحدت کرنا شدید گناہ ہیئے۔ مالک واحد ہیے اور باقی سب اس کے حکم سے پیدا ھوئ ھوئ ہیے تو یہ مالک اور مخلوق کا رشتہ ہیے۔
Phir tou jannet mein hamesha rehna kyunkay jannet bhee hamesha rahe gee shirk hua
Kyunke hameshz tehne wali zaat tou sirf allah kee hai
Ager jannet bhee hamesha rahe gee tou shirk hua
Wahan aitrazz nahin ghamidi sahab ko
I agree Allah is alone Almighty
Beautifully defined... Great lecture dear
Well done sahibain
Spirtuality do exists ...its experinced in all cultures but its interpretation is subjective...when u touch a higher reality ..what name u give to it is based on your existing thoughts.....carl jung has called it super- subconcious...
Plzzz Kya chla gya hai is py b video bnayein
سورہ اخلاص تفکر کے ساتھ پڑھنے سے شرک کے سارے در بند ہو جاتے ہیں شرک کی بحث نے لوگوں کو شرک پر لگا رکھا ہے اللّٰہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو ہدایت دے آمین
Usstad_e_muhthram🌹🌹🌹
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ قدیم وہ ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے۔ جو پہلے نور الہی کی صورت میں پوشیدہ یا مخفی حالت میں تھی اور پھر نورِ محمد کی صورت میں اس کا اظہار ہوا ۔ اور حادث وہ چیز ہے جو پہلے موجود نہیں تھی پھر اسے تخلیق کیا گیا یعنی ارواح و اجسام مخلوقات ۔ نورِ محمد اللہ کا قدیم فیض ہے جس کے سبب سے حدوث (حادث کی جمع یعنی مخلوقات) کو وجود عطاء ہوا ۔ نفس بھی مخلوق ہے اور اسے بھی فیض قدیم یعنی نورِ محمد سے تخلیق کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قدیم اور پوشیدہ وجود کو حادث یعنی مخلوقات کے وجود کے ذریعے ظاہر کیا ۔ اگر مخلوق نہ ہوتی تو اللہ کو پہچاننے والا اور اس کی عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوتا۔ پس قدیم یعنی اللہ، حادث یعنی مخلوق کے ذریعے ظاہر ہوا ۔ اللہ نہ ہوتا تو کوئی شے نہ ہوتی یعنی حادث یعنی مخلوق قدیم یعنی اللہ کے سبب سے ظاہر ہوئی ۔ اسی لیے حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ظاہر کیا قدیم یعنی اللہ کو حادث کے سبب یعنی مخلوق کے سبب اور حدوث کو قِدم کے سبب یعنی قدیم اور حادث ایک دوسرے کا اظہار ہیں ۔ انسان کا باطن یعنی اس کا نفس، روح اور قلب اس کا اصل وجود ہے۔ جب یہ انسانی جسم سے علیحدہ ہو جاتے ہیں تو انسانی جسم پر موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ (جسم) بے کار ہو جاتا ہے۔ ہر انسان کے جسم میں پوشیدہ اس کا باطن ہی وہ وجود ہے جس نے اللہ کے وجود سے اپنا وجود پایا نہ کہ اس کے جسم نے۔ پس یہ انسانی باطن ہی وہ حروف اور الفاظ ہیں جو دوات یعنی ذات حق تعالیٰ اور قلم یعنی نورِ محمد میں پوشیدہ تھے اور اسی سے لکھے گئے یا ظاہر ہوئے۔ چنانچہ یہ باطن بھی قدیم ہے کہ یہ حق تعالیٰ سے ہے۔ اس باطن کو دنیا میں ظاہر کرنے کیلئے اللہ نے مادی اجسام تخلیق کیے اور ان ظاہری جسموں کے ذریعے انسانی باطن کا اظہار کیا۔ انسان کے جسم سے وہی حرکات سرزد ہوتی ہیں جو اس کا باطنی وجود چاہتا ہے۔ پس ظاہری اعمال باطنی اعمال کا اظہار ہیں۔ ان باطنی اعمال کے اظہار کے لیے جسم کی ضرورت ہے ورنہ انسان اگر خالی روح کی صورت میں ہوتا تو نہ اپنے جذبات کا اظہار کر سکتا اور نہ اپنے افعال کا۔ پس اللہ نے انسان کے باطنی وجود اور جسمانی وجود کو ایک دوسرے کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ باطن قدیم ہے اور جسم حادث ہے۔ اللہ نے ان دونوں کو جوڑ کر انسان کو مکمل کیا۔ باطن یعنی قدیم کے اظہار کا سبب جسم یعنی حادث ہے۔ اور جسم یعنی حادث قدیم کے بغیر بے کار ہے۔ انسان نہ خالی جسم ہے اور نہ خالی باطن، بلکہ دونوں کا مرکب ہے۔ باطن چھپی ہوئی روشنائی ہے اور ظاہری جسم کے افعال اس روشنائی سے نکلنے والے حروف ہیں۔ (اقتباسات مرآة العارفين)
Concept of SAJI - is different
Super mutlaq is explained by Iqbal.
Surah Al.Hasher Fehm e Quran is required.Isma ul.Hasana of Allah zahir o batan negates Muqaam
Whild Awal o Aakhir negates about zaat
Taweel / argument can be wrong as per one one's perception.
please also make subtitles available in English for better understanding of difficult Urdu words used by Ghamidi saheb
Yehi baat me apne ghr walo ko smjha raha hun kafi arse lekin woh smjh nhi rehe
Indeed, ˹it is˺ We ˹Who˺ created humankind and ˹fully˺ know what their souls whisper to them, and We are closer to them than ˹their˺ jugular vein.(50:16)
Kindly explain this verse
What does it mean when someone says I’m very close to my family or my children
This closeness is about the knowledge of our Creator.. He knows about me more than what i know about myself. Try understanding first 3 verses of surah hadeed.
It means that me and my family are two separate entities.
Likewise,Allah and a human's jugular vein, or for that matter the human himself are two separate entities.
Logical refusal/ denial of "wahdat ul wajood/ wahdat usher shuhood....the blasphemous " Pantheism".
Islam is clear simple,and transparent....and not a jungle of confusions and inner contradictions.
اگر اکثر مسلمان قرآن کو سمجھ کر (اپنی زبان میں) پڑھ لے تو یہ مسائل تقریباً اختتام کو پہنچ سکتے ہیں۔
"Ala lahum qalqa wal amar" reference of quran please
غامدی صاحب کا جواب سوال سے یکسر مختلف ھے۔
وحدت الوجود کے دعویدار اللہ کے ساتھ کسی کو کسی بھی معنی میں شریک نہیں کرتے, بلکہ ان کا دعوی یہ ھے کہ کائنات میں اللہ کے سواء کوئی شئے موجود ہی نہیں, جو کچھ ھے وہ اللہ کے وجود ہی کا حصہ ھے۔ اس طرح وہ خالق اور مخلوق کو ایک ہی وجود ٹھہراتے ہیں۔ اسی دعوی کی بنیاد پر امام غزالی کا کہنا ھے کہ عوام کی توحید اور ھے یعنی "لا الہ الللہ" "La Ilaha illallah" اور خواص یعنی صوفیاء کی توحید ھے " لا الہ الا "ھو" یہاں "ھو" سے مراد اللہ ھے۔
توحید کی صوفیانہ تعریف قرآن کی تعلیم سے یکسر مختلف ھے۔ قرآن توکہتا ھے کہ اللہ کے سواء کوئی الہ (معبود) نہیں جبکہ صوفیاء کا دعوی ھے کہ اللہ کے سواء کوئی شئے موجود ہی نہیں۔یعنی خالق و مخلوق سب اللہ ہی ھے۔
اگر ایسا ھے تو قرآن میں جگہ جگہ "دون اللہ, دون اللہ ( یعنی, اللہ کے سواء, اللہ کے سواء)" ۔۔۔۔۔۔۔
کی تکرار کیا اور کیوں ھے؟؟؟
جب اللہ کے سواء کسی شئے کا وجود ہی نہیں ھے, تو پھر یہ "دون اللہ" کون ھے ؟؟؟
غامدی صاحب کا طول طویل جواب اس بحث سے بلکل خالی ھے, جو "وحدت الوجود" کا بنیادی نکتہ ھے۔
قل ھو اللہ احد۔ وہ اللہ اکیلا ہے۔ وہ اپنی مخلوق سے الگ ہے۔ یہی پر واحد الوجود کی نفی ہو جاتی ہے۔ اس نظریے کی سو تاویلیں کریں یہ باطل عقیدہ ہی رہے گا۔
What is the theory of Aflatoon about Wadat tul wajood??
Wahdatul wajood ka concept is very dengourus...
Kia dunya aik khawab hei