Akhtar Usman : Ghazal سرِ نینوا کوئی ذی نفس نہیں چل رہا یہ مقام کیا ہے مِرا فرس نہیں چل رہا

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 22 гру 2024

КОМЕНТАРІ •

  • @alibukhari5038
    @alibukhari5038 10 місяців тому

    سبحان اللہ سبحان اللہ

  • @khursheedabdullah2261
    @khursheedabdullah2261  10 місяців тому +1

    سرِ نینوا کوئی ذی نفس نہیں چل رہا
    یہ مقام کیا ہے مِرا فرس نہیں چل رہا
    کوئی کام کا ہو تو روک لے مجھے عشق سے
    کوئی کیا کرے کہ کسی کا بس نہیں چل رہا
    یونہی بھولپن میں نا اُڑ دِلا وہی قید ہے
    یہ ہَوا چلی ہے کوئی قفس نہیں چل رہا
    یہ جو تیلیاں ہیں بکار آئیں تو کِس طرح
    مِرا کارخانۂ خاک و خس نہیں چل رہا
    مِری سِسکیوں نے چلا رکھا ہے نظام کو
    یہ جو کارواں ہے یہ بے جرس نہیں چل رہا
    میں کہوں تو کیسے کہوں کہ بہتی ہے آبجو
    کوئی بیمِ موجۂ پیش و پس نہیں چل رہا
    وہ جو بہ رہا تھا لہو تھا زہر نا تھا کوئی
    تو میں کہ رہا تھا مجھے نا ڈس،نہیں چل رہا
    وہی آزمودہ رفیق یا شب و روز ہیں
    وہ جو سلسلہ تھا ،نئے برس نہیں چل رہا
    یہ دکانِ سود و زیاں نہیں ہے یہ عشق ہے
    سو یہاں وہ حیلۂ بوالہوس نہیں چل رہا
    مرا خون پی کے بڑی ہوئیں ہیں یہ سب لَویں
    یونہی کاروبارِ چراغ رس نہیں چل رہا
    وہ مہ و نجوم رُکے ہوئے ہیں سرِ فلک
    کوئی آفتاب،کوئی کلس نہیں چل رہا
    کوئی دور تھا کہ تھی قُم کے ساتھ سپردگی
    کوئی لمس کیا ہے،یہاں تو مَس نہیں چل رہا
    کوئی نکہتیں نہیں ،کوئی بادِ صبا نہیں
    یہ نگارخانۂ دل زبس نہیں چل رہا
    یہ الگ کہ جادۂ بے بہار ہے زندگی
    سرِ راہِ آبلہ ہیچ کس نہیں چل رہا
    مرا ہمقدم ہے تو اختر اک یہی آسماں
    مری ہمرہی کو نہیں ترس،نہیں چل رہا
    اختر عثمان

  • @alibukhari5038
    @alibukhari5038 10 місяців тому