Akhtar Usman : Ghazal کوئی کوئی ہے سرِ دار، بیش و کم تو گئے

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 22 гру 2024

КОМЕНТАРІ • 3

  • @junaidnaseemsethi5415
    @junaidnaseemsethi5415 10 місяців тому +1

    کمال

  • @zubairashfaq4494
    @zubairashfaq4494 10 місяців тому

    سب اہل تخت ہدف ہیں بلند ہاتھوں کا
    یہ چند لوگ اگر ہوگئے بہم، تو گئے۔۔۔
    بہت ہی لاجواب

  • @khursheedabdullah2261
    @khursheedabdullah2261  10 місяців тому +2

    کوئی کوئی ہے سرِ دار، بیش و کم تو گئے
    دیارِ دہر سے زحمت کشانِ غم تو گئے
    کوئی نہ تھا سرِ دنیائے دُوں کہ دیتا ساتھ
    کوئی نہ تھا سرِ کوئے جنوں سو ہم تو گئے
    یہ اور بات کہ ہم کوزہ پُشت ہو گئے ہیں
    نگارِ ناز کم از کم تِرے وہ خم تو گئے
    فسانہ ہو گیا وہ سلسلہ غزالوں کا
    زمانہ ہو گیا صحرا سے اہلِ رم تو گئے
    ازل سے قلزمِ مَوت و حیات بہتا ہے
    سو پیچ و تاب میں ہم ہو گئے جو زم تو گئے
    خیال جاگ اُٹھے گا اگر اُگا سورج
    اب آنکھ خشک ہے بادل برس کے تھم تو گئے
    چپک گئے سرِ دیوار ہم بھی آخرِ کار
    خدا کا شکر سرِ کوئے یار جم تو گئے
    یہ پست قامتی اپنی دکھائے گی کیا دن
    مدارِ خاک سے وہ آسماں حشم تو گئے
    سب اہلِ تخت ہدف ہیں بلند ہاتھوں کا
    یہ چند لوگ اگر ہو گئے بہم، تو گئے
    اُسے پسند نہیں گریۂ ہائے نیم شبی
    ہم اُس کی سمت گئے بھی بچشمِ نَم، تو گئے
    وہ پوچھنے کے لیے آ گئے ہیں اختر کا
    انہیں بتاؤ کہ استادِ محترم تو گئے
    اختر عثمان