Mir Hasan Mir at the grave of Mir Anees 🖤

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 9 вер 2024
  • 10 دسبر 1874۔۔۔یوم وفات ہے اس عظیم شاعر کا جس کی بلندی فکر اور ملکوتی تخلیقی صلاحییتوں نے، کسی حد تک متعصب مزاج اردو ادب کو اس بات پہ مجبور کردیا کہ شعیہ عقیدہ پہ مبنی شاعری کو اردو ادب کا مضبوط حصہ تسیلم کیا جائے۔
    انیس نے یہ کام بزور جبر نہیں کروایا۔۔اپنی فنی مہارت اور سخن کی بلاغت و فصاحت کو اس عروج پہ پہنچادیا کہ شاعری کو سر اٹھا کے دیکھنا پڑا۔۔۔
    18ویں صدی میں یہ سوچ بہت راسخ تھی کہ جوشاعر اچھی غزل نہیں کہہ سکتا وہ اپنے سخن کی کمزوری چھپانے کے لیئے مرثیہ گو بن جاتا ہے تاکہ مذہبی واقعات اور روایات لکھنے سے اس کی عامیانہ شاعری قبول عام ہو جائے۔۔ پورا دبستان دلی و لکھنو مرثیہ گو شعرا کے لیئے محاورے میں کہتا تھا۔۔" بگڑا شاعر مرثیہ گو"
    شبلی نعمانی کا عقیدہ اسے کہاں اجازت دیتا۔۔مگر میر انیس کی پراوز فکر اور شاندار سخن طرازی نے اسے مجبور کردیا کہ وہ اردو ادب میں اپنا قد بڑھانے کے لیئے موازنئہ انیس و دبیر جیسی شاہکار کتاب لکھے۔۔
    انیس صاحب قبلہ نے اردو ادب کو گٹھنے ٹکوادیئے، کان پکڑ کے معافی منگوائ اور اردو ادب نے اپنا کہا ہوا جملہ تبدیل کیا، اور اب محاورہ یہ ہے "بڑا شاعر مرثیہ گو"
    10 یا 20 نہیں۔۔۔پورے 200 سال گذر چکے ہیں۔۔۔ انیس کا کلام آج بھی روز اول کی طرح ترو تازہ ہے۔۔ زندگی سے بڑا کام۔۔۔
    اللہ رے تخلیقی صلاحییتوں کی بلندی، کون جانے کہ انیس نے یہ صدیوں کا شعور کہاں سے حاصل کیا۔۔۔
    مطالعہ، مہارت فن، قوت مشاہدہ، زبان و بیان پہ عبور تو ثانوی باتیں ہیں۔۔ کلام دیکھ کے لگتا ہے کہ انیس فرشتوں سے ہمکلام تھے۔۔
    آج انیس کے یوم وفات پہ ان کے ایصال ثواب کے لیئے انہی کا کلام پڑھیئے اور زندگی سے قریب ہوجایئے۔۔
    میرتقی میر نے شاید میر انیس کے لیئے ہی کہا ہوگا:
    جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
    تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا

КОМЕНТАРІ •