مولانا علی میاں ندوی نے ایک مرتبہ کراچی میں کہا تھا " کہ مرے گھرانے کا مزاج و مذاق یہ رہا ھے کہ :- یا وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل! یا خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات!
عالم اسلام کی متفق علیہ شخصیت مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ علامہ یوسف قرضاوی جو مصری ہیں اور فی الحال قطر کے شہری ہین ، دوحہ مین اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ : " اگر عالم اسلام کسی شخصیت پر متفق ہوسکتا ہے تو وہ شیخ ابوالحسن علی ندوی شخصیت ہے "۔ اگر اس قول کی روشنی مین علامہ ندوی رحمہ عالم اسلام کے لیے ایک خاص نعمت اور رحمت تھی ۔ ہندستان میں بھی جب مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاتا تو وہی اس کو ختم کرنے کے لیے انہی کی طرف رجوع کیاجاتا تھا ۔ ان کا فیض تھا کہ کسی بحران کے وقت انہی کی ذات کام اتی اج ہند کی امہ مسلمہ اپنی تاریخ کے سخت دور سے گزر رہی ہے ۔ ایسی حالت میں ہمین ان کی یاد آتی ہے ۔ عالم اسلام مین ایک غیر متنازعہ سخصیت قرار دیا جانا بہت بڑی بات ہے ۔ عالم اسلام گونا گوں رنگون کا خوبصورت نقشہ ہے ۔ ان رنگون میں عرب و عجم دو اہم رنگ ہین ۔ ان مین ہر ایک کی اپنی خصوصیت اور منفرد شان ہے ۔ عالم عرب مین مصر کو اس کی قدیم تاریخ اور اسلامی علوم و ثقافت میں مرکزی مقام اور منصب قیادت حاصل ہے ۔ عجم کے مختلف رنگون میں ترکی ، ملائشیا اور پاکستان وغیرہ کی اپنی خصوصیت اور انفرادیت ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام کی مختلف قومون کا کسی ایک شخصیت پر متفق ہونا بہت نازک مسئلہ یے ۔ ان گونا گوں رنگوں کے عالم اسلام میں علامہ یوسف قرضاوی یہ کہنا کہ شیخ ابوالحسن علی ندوی رحمہ کی ذات ہی ایک ایسی شخصیت ہے جو کہ عالم اسلام کے سیاستداں علماء اور مفکرین تمام اختلافات کے باوجود ان کی ذات پر متفق ہوسکتے ہین ۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہان علامہ یوسف قرضاوی مصری ہیں ، اس پر عالم اسلام کی سب سے بڑی اور قدیم یونیورسٹی الازہر ما رنگ بھی چڑھا ہوا ہے ۔ انہوں نے اس سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی ہے ۔ وہ عربی زبان و ادب کے ماہر اور شاعر بھی ہین ۔ انہوں نے متعدد موضوعات پر عربی مین کتابین تصنیف کی ہین ۔ ان کی مشہور کتاب ' فقہ الزکوة ' پر انہیں شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا ۔ اپنی جوشیلی خطابت مین مشہور اور امہ مسلمہ کے لیے درد مند دل رکھتے ہیں ۔ عالمی سطح کے مشہور عالم دین اور مفکر اسلام اتنی عظیم شخصیت کا یہ کہنا کہ : " شیخ ابوالحسن علی ندوی رحمہ کی شخصیت ایسی ہے کہ عالم اسلام ان پر متفق ہوسکتا ہے " یہ ایک ایسا مقام و مرتبہ ہے جسے اللہ جل شانہ کا خاص فضل ہی کہا جاسکتا ہے ۔ عالم اسلام مین غیر متنازعہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص جامع صفات ہو ، وہ مختلف علوم پر حاوی ہو اور اس کے اندر علمی تبحر ہو ، عصر حاضر کے تقاضون سے باخبر اور ، اس کی فکر عالی اور عالمی ہو وہ مقناطیسی شخصیت کا حامل ہو ۔ عالم اسلام مین وہ ہر اعتبار سے معتبر اور مستند ہو ۔ کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجا ست علامہ ندوی رحمہ ہندستان کے معروف و مشہور دینی اور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ اس خاندان میں سید احمد شہید رحمہ جیسے ولی اللہ اور مجاہد پیدا ہوئے ۔ ڈاکٹر سید محمود مرحوم کو حضرت سید احمد شہید رحمہ سے بہت محبت و عقیدت تھی ۔ وہ ان کو ہندستان کی جدو جہد آزادی کا اولین داعی اور قائد سمجھتے تھے ۔ علامہ ندوی رحمہ کی سب سے پہلی اردو تصنیف سیرت سید احمد شہید رحمہ تھی ۔ اس خاندان کے ایک بڑے بزرگ اور ولی اللہ شاہ علم اللہ ہیں ۔ رائے بریلی اس خاندان کا اصل وطن ہے ۔ دائرہ شاہ علم اللہ کے نام سے موسوم ہے ۔ علامہ ندوی رحمہ اپنی بہت سی تصانیف یہیں مکمل کیں ۔ آپ کے والد حکیم عبد الحی حسنی مرحوم ایک جلیل القدیر عالم دین ، عربی اور اردو زبان و ادب کے ادیب تھے ۔ عربی زبان میں ان کی تالیف ' نزھہ الخواطر ' آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ یہ علماء ہند اور مشاہیر کے حالات زندگی اور ان کے علمی کارناموں پر مشتمل ہے ۔ یہ ان کا عظیم علمی کارنامہ ہے ۔ جلیل القدر عالم دین مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ تحریر کرتے ہیں کہ : " نزھہ الخواطر' کی قدر و قیمت مجھے اس کتاب ( مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت) لکھنے کے وقت جتنی ظاہر ہوئی اس سے پہلی نہیں ہوئی تھی ۔ اللہ کے اس مخلص بندے نے کمال کردیاہے ۔ سمندروں کو کھنگال گئے ہیں لیکن پتہ بھی نہ چلنے دیا ۔ خدا کرے ان کی اس محنت سے دنیا کو استفادہ کا موقع مل جائے ۔ایک انقلابی کام کرکے وہ چلے گئے ہیں "۔ آج ان کی یہ شاہکار تصنیف جو ڈر حقیقت ایک انسائیکلوپیڈیا ہے عالم عرب سے شائع ہوگئی ہے ۔ عرب علماء ، محققین اور مورخین نے اس کتاب دلپذیر کو بہت پسند کیا اور اس کی تحسین کی ۔ آپ دارالعلوم ندوة العلماء کے ناظم تھے ۔ ان کے بعد علامہ ندوی رحمہ کے بڑے بھائی ڈاکٹر عبد العلی مرحوم ندوی کے ناظم ہوئے ۔ اس خاندان کی تاریخ سے بر صغیر کے اہل علم و فضل اچھی طرح واقف ہیں ۔ اس لیے علامہ ندوی رحمہ بر صغیر خصوصا ہند بڑی عزت اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ یہ ہے ان کی تعمیر شخصیت کا خشت اول ۔ دارالعلوم کے سب سے نمایاں تعلیم یافتہ اور فاضل بلکہ اس کے لیے سرمایہ افتخار و نازش سید سلیمان ندوی رحمہ تھے ۔ سید صاحب کی علمی زندگی کا سب سے نمایاں اور ممتاز پہلو طبقہ علماء میں ان کی جامعیت اور علوم و مضامین کا تنوع تھا ۔ علامہ ندوی رحمہ ان کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ : " ان کی ذات اور ان کی علمی زندگی میں قدیم و جدید سے واقفیت ، علمی تبحر اور ادبی ذوق ، نقاد و مورخ کی حقیقت پسندی اور سنجیدگی ، ادباء اور انشاء پروازوں کی شگفتگی اور حلاوت ، فکر و نظر کا لوچ اور مطالعہ کی وسعت اس طرح جمع ہوگئی تھی جو شاذ و نادر جمع ہوتی ہے "۔ " سید صاحب نے نصف صدی سے زیادہ علماء کی اس قدیم جامعیت کو زندہ و نمایاں رکھا اور دینی و علمی و ادبی حقلوں میں بیک وقت نہ صرف باریاب بلکہ اکثر صدر نشین رہے ۔ ان کی زندگی اور مختلف ذمہ داریاں جو انہوں نے مختلف وقتوں میں سنبھالیں خود ان کی جامعیت کا ثبوت ہیں " ۔ مجلس خلافت سلطان ابن مسعود کی دعوت پر مؤتمر اسلامی میں شرکت اور مسلمانان ہند کی ترجمانی کے لیے ایک وفد تشکیل کرتی ہے تو اس کی قیادت کے لیے ان سے زیادہ موزوں شخص نظر نہیں آیا جو عالم اسلام کے اس نمائندہ اور منتخب مجمع میں عربی میں اظہار خیال کی قدرت رکھتا ہو اور مسلمانان ہند کی دینی و علمی عظمت کا نقش قائم کرسکے "۔ جارى ڈاکٹرمحمد لئیق ندوی قاسمی
مولانا رابع حسنی مدظله آپ حضرت سلمان ندوی کےمزاج اور انکی علمی وتحقیی لیاقت سے واقف هیں مولانا کے قلم وتقریر سے نکلی باتوں سے آپ کو زک پهونچی رجوع کروایءں انهوں نے جو کچھ لکھا دلاءل وبراهین کی روشنی میں لکھا مولاناکیء بڑی کانفرس میں شرکت کرتے رهیں هیں جن کے علم وفضل کا اعتراف علامه یوسف القرضاوی سلمان العوده نادر النوری دیگر اساطین نے کیا معمولی لغزش پر نکال دیا ان کے رهنے سیے ندوه کو کوءی نفصان نهیں تھا ان کی ذات سے ندوه کاکافی حد تک تعارف هوتا رها عالم اسلام کے ممتاز عالم هیں میڈیا کے بے تحشا پروپیگنڈے سے شاید گھبرا گےء یا کویء اور وجہ هے
Subahanallah
اللہ تعالا حضرت مولانا کے درجات کو بلند فرماۓ
Aameen
Ma sha Allah
Jazak Allah khair
Alhumdulillah
Aameen
اللہ تعالی دونوں بزرگوں کو جنت کا اعلی درجہ عطاء فرمائے .
Aameen
Allah hamare dono bozurgon k darjaat buland farmay.
Allah Unke Darajat Buland Farmay.
Aameen
Allah darjat buland farmai.....aamin...
ما شاء الله
Allah apke darzat buland farmaye
ماشاء الله تبارك الله
نورالله مرقدهم رحمهم الله أجمعين
Jazakallah
MashaAllah.. Allah humko bhi aisi fiqar ata farma.. Ameen
Aameen
Allah apko buland darjaat de nawaze...
ALLAH ulamao ka faj tamam insano ko pahonj ta raha ALLAH Islam ke hedayat da insano ko
ماشا الله
Masha Allah bhot hi important bayan aj ki Halat k hisab se
Jazakallah, pls share with your contacts.
مولانا علی میاں ندوی نے ایک مرتبہ کراچی میں کہا تھا
" کہ مرے گھرانے کا مزاج و مذاق یہ رہا ھے کہ :-
یا وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل!
یا خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات!
Maulana Syed Abul Hasan Ali Nadwi ki full Biography ke lye click Karen : ua-cam.com/video/vlyfyD3KVOU/v-deo.html
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب وجگر.
I am phd Dr
Islamic scholar
عالم اسلام کی متفق علیہ شخصیت
مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ
علامہ یوسف قرضاوی جو مصری ہیں اور فی الحال قطر کے شہری ہین ، دوحہ مین اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ :
" اگر عالم اسلام کسی شخصیت پر متفق ہوسکتا ہے تو وہ شیخ ابوالحسن علی ندوی شخصیت ہے "۔ اگر اس قول کی روشنی مین علامہ ندوی رحمہ عالم اسلام کے لیے ایک خاص نعمت اور رحمت تھی ۔ ہندستان میں بھی جب مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاتا تو وہی اس کو ختم کرنے کے لیے انہی کی طرف رجوع کیاجاتا تھا ۔ ان کا فیض تھا کہ کسی بحران کے وقت انہی کی ذات کام اتی
اج ہند کی امہ مسلمہ اپنی تاریخ کے سخت دور سے گزر رہی ہے ۔ ایسی حالت میں ہمین ان کی یاد آتی ہے ۔
عالم اسلام مین ایک غیر متنازعہ سخصیت قرار دیا جانا بہت بڑی بات ہے ۔ عالم اسلام
گونا گوں رنگون کا خوبصورت نقشہ ہے ۔ ان رنگون میں عرب و عجم دو اہم رنگ ہین ۔ ان مین ہر ایک کی اپنی خصوصیت اور منفرد شان ہے ۔ عالم عرب مین مصر کو اس کی قدیم تاریخ اور اسلامی علوم و ثقافت میں مرکزی مقام اور منصب قیادت حاصل ہے ۔ عجم کے مختلف رنگون میں ترکی ، ملائشیا اور پاکستان وغیرہ کی اپنی خصوصیت اور انفرادیت ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام کی مختلف قومون کا کسی ایک شخصیت پر متفق ہونا بہت نازک مسئلہ یے ۔
ان گونا گوں رنگوں کے عالم اسلام میں علامہ یوسف قرضاوی یہ کہنا کہ شیخ ابوالحسن علی ندوی رحمہ کی ذات ہی ایک ایسی شخصیت ہے جو کہ عالم اسلام کے سیاستداں
علماء اور مفکرین تمام اختلافات کے باوجود ان کی ذات پر متفق ہوسکتے ہین ۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہان
علامہ یوسف قرضاوی مصری ہیں ، اس پر عالم اسلام کی سب سے بڑی اور قدیم یونیورسٹی الازہر ما رنگ بھی چڑھا ہوا ہے ۔ انہوں نے اس سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی ہے ۔ وہ عربی زبان و ادب کے ماہر اور شاعر بھی ہین ۔ انہوں نے متعدد موضوعات پر عربی مین کتابین تصنیف کی ہین ۔ ان کی مشہور کتاب ' فقہ الزکوة ' پر انہیں شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا ۔
اپنی جوشیلی خطابت مین مشہور اور امہ مسلمہ کے لیے درد مند دل رکھتے ہیں ۔ عالمی سطح کے مشہور عالم دین اور مفکر اسلام
اتنی عظیم شخصیت کا یہ کہنا کہ :
" شیخ ابوالحسن علی ندوی رحمہ کی شخصیت ایسی ہے کہ عالم اسلام ان پر متفق ہوسکتا ہے " یہ ایک ایسا مقام و مرتبہ ہے جسے اللہ جل شانہ کا خاص فضل ہی کہا جاسکتا ہے ۔
عالم اسلام مین غیر متنازعہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص جامع صفات ہو ، وہ مختلف علوم پر حاوی ہو اور اس کے اندر علمی تبحر ہو ، عصر حاضر کے تقاضون سے باخبر اور ، اس کی فکر عالی اور عالمی ہو
وہ مقناطیسی شخصیت کا حامل ہو ۔
عالم اسلام مین وہ ہر اعتبار سے معتبر اور مستند ہو ۔
کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجا ست
علامہ ندوی رحمہ ہندستان کے معروف و مشہور دینی اور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ اس خاندان میں سید احمد شہید رحمہ جیسے ولی اللہ اور مجاہد پیدا ہوئے ۔ ڈاکٹر سید محمود مرحوم کو حضرت سید احمد شہید رحمہ سے بہت محبت و عقیدت
تھی ۔ وہ ان کو ہندستان کی جدو جہد آزادی
کا اولین داعی اور قائد سمجھتے تھے ۔ علامہ ندوی رحمہ کی سب سے پہلی اردو تصنیف سیرت سید احمد شہید رحمہ تھی ۔ اس خاندان کے ایک بڑے بزرگ اور ولی اللہ شاہ علم اللہ ہیں ۔ رائے بریلی اس خاندان کا اصل وطن ہے ۔ دائرہ شاہ علم اللہ کے نام سے موسوم ہے ۔ علامہ ندوی رحمہ اپنی بہت سی تصانیف یہیں مکمل کیں ۔
آپ کے والد حکیم عبد الحی حسنی مرحوم ایک جلیل القدیر عالم دین ، عربی اور اردو زبان و ادب کے ادیب تھے ۔ عربی زبان میں ان کی تالیف ' نزھہ الخواطر ' آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ یہ علماء ہند اور مشاہیر کے حالات زندگی اور ان کے علمی کارناموں پر مشتمل ہے ۔ یہ ان کا عظیم علمی کارنامہ ہے ۔
جلیل القدر عالم دین مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ تحریر کرتے ہیں کہ :
" نزھہ الخواطر' کی قدر و قیمت مجھے اس کتاب ( مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت) لکھنے کے وقت جتنی ظاہر ہوئی اس سے پہلی نہیں ہوئی تھی ۔ اللہ کے اس مخلص بندے نے کمال کردیاہے ۔ سمندروں کو کھنگال گئے ہیں لیکن پتہ بھی نہ چلنے دیا ۔ خدا کرے ان کی اس محنت سے دنیا کو استفادہ کا موقع مل جائے ۔ایک انقلابی کام کرکے وہ چلے گئے ہیں "۔
آج ان کی یہ شاہکار تصنیف جو ڈر حقیقت ایک انسائیکلوپیڈیا ہے عالم عرب سے شائع ہوگئی ہے ۔ عرب علماء ، محققین اور مورخین نے اس کتاب دلپذیر کو بہت پسند کیا اور اس کی تحسین کی ۔ آپ دارالعلوم ندوة العلماء کے ناظم تھے ۔ ان کے بعد علامہ ندوی رحمہ کے
بڑے بھائی ڈاکٹر عبد العلی مرحوم ندوی کے ناظم ہوئے ۔ اس خاندان کی تاریخ سے بر صغیر
کے اہل علم و فضل اچھی طرح واقف ہیں ۔ اس لیے علامہ ندوی رحمہ بر صغیر خصوصا ہند بڑی عزت اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ یہ ہے ان کی تعمیر شخصیت کا خشت اول ۔
دارالعلوم کے سب سے نمایاں تعلیم یافتہ اور فاضل بلکہ اس کے لیے سرمایہ افتخار و نازش
سید سلیمان ندوی رحمہ تھے ۔ سید صاحب کی علمی زندگی کا سب سے نمایاں اور ممتاز پہلو طبقہ علماء میں ان کی جامعیت اور علوم و مضامین کا تنوع تھا ۔
علامہ ندوی رحمہ ان کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ :
" ان کی ذات اور ان کی علمی زندگی میں قدیم و جدید سے واقفیت ، علمی تبحر اور ادبی ذوق ، نقاد و مورخ کی حقیقت پسندی اور سنجیدگی ، ادباء اور انشاء پروازوں کی شگفتگی اور حلاوت ، فکر و نظر کا لوچ اور مطالعہ کی وسعت اس طرح جمع ہوگئی تھی جو شاذ و نادر جمع ہوتی ہے "۔
" سید صاحب نے نصف صدی سے زیادہ علماء کی اس قدیم جامعیت کو زندہ و نمایاں رکھا اور دینی و علمی و ادبی حقلوں میں بیک وقت نہ صرف باریاب بلکہ اکثر صدر نشین رہے ۔ ان کی زندگی اور مختلف ذمہ داریاں جو انہوں نے مختلف وقتوں میں سنبھالیں خود ان کی جامعیت کا ثبوت ہیں " ۔
مجلس خلافت سلطان ابن مسعود کی دعوت پر مؤتمر اسلامی میں شرکت اور مسلمانان ہند کی ترجمانی کے لیے ایک وفد تشکیل کرتی ہے تو اس کی قیادت کے لیے ان سے زیادہ موزوں شخص نظر نہیں آیا جو عالم اسلام کے اس نمائندہ اور منتخب مجمع میں عربی میں اظہار خیال کی قدرت رکھتا ہو اور مسلمانان ہند کی دینی و علمی عظمت کا نقش قائم کرسکے "۔
جارى
ڈاکٹرمحمد لئیق ندوی قاسمی
مولانا رابع حسنی مدظله آپ حضرت سلمان ندوی کےمزاج اور انکی علمی وتحقیی لیاقت سے واقف هیں مولانا کے قلم وتقریر سے نکلی باتوں سے آپ کو زک پهونچی رجوع کروایءں انهوں نے جو کچھ لکھا دلاءل وبراهین کی روشنی میں لکھا مولاناکیء بڑی کانفرس میں شرکت کرتے رهیں هیں جن کے علم وفضل کا اعتراف علامه یوسف القرضاوی سلمان العوده نادر النوری دیگر اساطین نے کیا معمولی لغزش پر نکال دیا ان کے رهنے سیے ندوه کو کوءی نفصان نهیں تھا ان کی ذات سے ندوه کاکافی حد تک تعارف هوتا رها عالم اسلام کے ممتاز عالم هیں میڈیا کے بے تحشا پروپیگنڈے سے شاید گھبرا گےء یا کویء اور وجہ هے
Islam ki shan hai hazrat Maulana Ali Miyan rahmatullah alayh
بھائ . یہ بیچ میں سلمان ندوی کہاں ٹپک پڑے.