رسول اللہ (ص) عالم انسانیت کے دائمی قائد اور حکمرانوں کے لیے مشعل راہ عصر حاضر کی تہذیبی حالت اور حکمرانوں کے اخلاق پر اس کے تباہ کن اثرات ۔ ( 3 ) تہذیبی اخلاق سے مراد وہ اساسات ہیں جن پر کسی تہذیب کی بنا قائم ہوتی ہے ، جن سے کسی تہذیب کے خلیے بنتے ہیں اور یہی عناصر خون کی طرح اس کی فکر و نظر میں متحرک اور کام کرتے رہتے ہیں ۔ دنیا میں پائے جانے والے ہر نظام کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ اس تہذیب کی بنیادی فکر پر قائم ہوتی ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ وہ بنیادی فکر کتنی صحیح یا غلط ہے ۔ اس نظام کی بنیادی فکر اس تہذیب کے اساس پر استوار ہوتی ہے اور اسی سے براہ راست مربوط ، منضبط اور اسی پر منطبق ہوتی ہے ۔ مغربی اقوام نے جب سے دنیا کا زمام کار سنبھالا ہے انہوں اپنی اصل فطرت اور مادی فکر و نظر کی وجہ سے اپنی عصری تہذیب کی بنیاد مادہ پر رکھی : وہ قوم جو فیضان سماوی سے ہو محروم حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات علامہ اقبال رحمہ لیکن اٹھارویں صدی کے آغاز سے اس مادی فکر میں ایک بڑی تبدیلی آئی ۔ وہ یہ تھی کہ قدیم نظریہ ارتقا پر از سر نو بحث کا آغاز ہوا اور نئے نئے خیالات اور نظریات سامنے آنے لگے ۔ ان علماء کا یہ خیال تھا کہ تمام جانداروں میں ایک مخصوص تعلق نظر آتا ہے ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب جاندار ایک ہی اصل و نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں سال کے حیوانی ارتقا کے مختلف مراحل سے گزر کر آج کی انسانی شکل و صورت میں ظاہر ہوئے ہیں ۔ ان سب کی اصل ایک ہے ۔ ان علماء میں بوفون( 1707 -- 1788) ارازمیک ڈارون اور لامارک ( Lamark ) قابل ذکر ہیں ۔ لامارک کا نظریہ بڑی حد تک ارتقاء حیات کو عام فہم بنانے میں مددگار ثابت ہوا ۔ چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقا : ڈارون 1809 میں پیدا پیدا ہوا تھا اور 1882 میں وفات پائی ۔ ڈارون نے اس نکتہ پر غور کرنا شروع کیا کہ کیا جانداروں میں ارتقائی تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں ۔ ڈارون کی خصوصیت یہ تھی کہ اس نے ارتقا کا ایک خاص میکنزم قدرتی انتخاب ( Natural Selection) پیش کیا ۔ اس سے نظریہ ارتقا کو بڑی تقویت ملی ۔ بقاء اصلح کی بحث ایک خطہ یا جگہ پر موجود حیوانات کے افراد زندگی کی بقا کی جنگ میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے یا اپنے خارجی ماحول سے لڑتے ہوئے زندہ رہنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔ اس بقا کی جنگ میں ہر فرد انفرادی طور پر حصہ لیتا ہے ۔ اس جنگ میں ایک طرف وہ ہوتے ہیں جو " منتخب " ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو " غیر منتخب " ہوتے ہیں اور بقا کی جنگ ہار جاتے ہیں ۔ اس نظریہ میں ایک بہت اہم مرکزی نقطہ یہ ہے کہ جانداروں میں وراثتی طور پر چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اور یہ تبدیلیاں طویل عرصہ میں ترقی کرتے ہوئے نئی نوع کی شکل میں بدل جاتی ہیں اس طرح الگ الگ انواع پیدا ہوتے رہتے ہین ۔ زمین پر پائے جانے والے سارے انواع ( Species) اسی طرح وجود میں آئے ہیں اور آخر میں چمپانزی موجودہ انسانی شکل و صورت میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ نظریہ ارتقا کے مطابق ہم انسان نسل آدم کی اولاد نہیں بلکہ تاریخ کے طویل ترین عرصہ میں مادہ کے قدرتی تعامل اور ارتقا کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے ہیں اور مرکر ختم ہوجائیں گے ۔ آخرت اور جزا و سزا کی باتیں غیر سائنسی اور جہالت ہیں ۔ اب جبلی مادی نقطہ نظر جس کی طرف انسان فطری طور پر مائل ہوتا ہے ایک مکمل سائنسی نظریہ ارتقا میں تبدیل کردیا گیا اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو اسی نظریہ کے تحت استوار کردیا گیا ۔ اب اس کی ذرا سی مخالفت اس کے ماننے والوں کو گوارا نہیں ۔ اس نظریہ کی روشنی میں اب انسانی زندگی بقاء اصلح کی جنگ میں بدل گئی ۔ عصر حاضر کی مغربی تہذیب اسی نظریہ ارتقا پر قائم ہے اور یہ تہذیبوں کے تصادم اور حرب و ضرب کا دور ہے ۔ باطل کے کر و فر کی حفاظت کے واسطے یوروپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر علامہ اقبال رحمہ عصر حاضر کی اس جدید نظریاتی جنگ میں جسے " تہذیبوں کے تصادم " کا نام دیا گیا ، بقاء اصلح کی اس جنگ میں کہاں کھڑی نظر آرہی ہے؟! یہ ہمارے لیے غور و فکر کا مقام ہے ! جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی nadvilaeeque@gmail.com
قیادت اور حکمرانی اسلامی نقطہ نظر ( ٢ ) عالمی قیادت شدید اخلاقی بحران کا شکار پیغمبر آخر الزماں کی زندگی عصر حاضر کے حکمرانوں کے لیے مشعل راہ رسول اللہ (ص) کو خالق کائنات نے قیامت تک کے لیے عالم انسانیت کے لیے دائمی قائد بنا کر بھیجا تھا ۔ آپ ہمیشہ کے لیے عالم انسانیت کے قائد ، ہادی و مرشد اور زندگی کے تمام شعبوں میں رہنما بناکر بھیجے گئے ہیں ۔ آپ تا قیامت پوری انسانیت کے قائد و رہنما ہیں ۔ آپ نے عدل و انصاف کی ایسی مثال قائم کی جس کی آج تک کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ ہر حال اور ہر میدان میں مطلقا عدل و ضبط قائم کیا ایسا عدل و قسط جس نے زمین سے ظلم و زیادتی کو روکا ، اسلام انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کا ضامن ہے ، آپ نے حق دار کو خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو ، اس کا حق دیا ۔ کیوں کہ اس حق میں اللہ کے نزدیک مسلم اور غیر مسلم برابر ہیں ۔ اسلام میں عدل و قسط میں قریب یا دور ، دوست یا دشمن ، مال دار و غریب سب برابر ہیں ۔ قرآن میں اللہ جل شانہ نےاس کی تاکید کرتے ہوئے حکم ارشاد فرمایا ہے : ولو علی انفسکم او الوالدین و الآقربین ۔۔ اگرچہ ( عدل و انصاف قائم کرنے ) کی زد تمہاری اپنی ذات پر یا اعزہ و اقارب اور والدین پڑتی ہو ۔ یہ انتہائی دشوار اور شاق کام ہے ، زبان سے اسے ادا کرنے اور عقل سے اس کے مفہوم و مدعا کو سمجھ لینے سے کہیں زیادہ دشوار ، عقلی طور پر اسے سمجھ لینا ایک بات ہے اور عمل کی صورت میں اسے اختیار کرنا ، بالکل دوسری باات ہے ۔ اسلام مومن کو اس دشوار و شاق تجربہ سے گزارتا ہے کیوں کہ اس کا وجود میں لایا جانا ناگزیر ہے ، نا گزیر ہے کہ زمین میں یہ قاعدہ موجود ہو ، اور ناگزیر ہے کہ ایک گروہ اس اصول کو قائم و برپا کرے ۔ فلا تتبعوا الہوی ان تعدلوا ۔۔۔ لہذا تم خواہشات کی پیروی نہ کرو کہ عدل سے باز رہو ، شہادت اور فیصلے کے موقع پر خاندان، قبیلہ ، قوم ، حکومت اور وطن کے لیے تعصب ہو آئے نفس ہے ۔ اس کے علاوہ اور بہت سی نفسانی خواہشات ہیں جو دنیا میں عدل و انصاف اور امن و امان قائم کرنے سے مانع ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالی نے ان تمام خواہشات سے متاثر ہونے اور ان سے متاثر ہوکر عدل سے روگردانی کرنے سے اہل ایمان کو روکا ہے ۔ اس عدل و انصاف پر آسمان و زمین کا نظام قائم ہے ۔ پوری دنیا میں قائم عدل و انصاف کے ادارے اور عدل و انصاف کے نئے احکام و قوانین اور عدل و انصاف کی ان تنظیموں اور طریقوں سے جو عصر حاضر میں رائج ہیں اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے چلے گئے ہیں ، آج نافع اور سود مند نہیں ہیں ، لوگ سمجھتے ہیں کہ آج کے نظام حیات اور عالمی قوانین ان سادہ احکام و قوانین سے جو گزشتہ ادوار میں تھے اسلام کے سادہ اور پرانے عدالتی صورتوں اور شکلوں سے زیاد منضبط اور زیادہ محکم ، زیادہ بہتر ، عوام کے زیادہ ترجمان ہیں ، اور عدل و انصاف کے زیادہ ضامن ہیں تو اب تک کے نتائج اور عالم انسانیت کی زبوں تر صورت حال کو دیکھتے ہوئے اسے درست نہیں سمجھا جاسکتا ہے !! جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی nadvilaeeque@gmail.com
رسول اللہ (ص) عالم انسانیت کے دائمی قائد اور حکمرانوں کے لیے مشعل راہ عصر حاضر کی تہذیبی حالت اور حکمرانوں کے اخلاق پر اس کے تباہ کن اثرات ۔ ( 4 ) وقت حاضر کے مغربی حکمراں عقیدہ و تہذیب تصور حیات و کائنات اور فکر و نظر کے لحاظ سے خالص اس مادی نقطہ نظر کے حامل ہیں جس نے عصر حاضر کی ارتقائ نظریہ کے بطن سے جنم لیا ہے ۔ اس تصور حیات میں انسان اصل حیوانی کی ایک فرع کے سوا کچھ نہیں ۔ اس کی زندگی کے تمام اصول و قوانین حیوانی زندگی کے مطابق بنائے گئے ہیں ۔ مغربی حکمرانوں کے اخلاق خالص ارتقائی تہذیب کے تحت وجود میں آئے ہیں ۔ اس کے مطابق حیوانات کا سا طرز عمل ان کے نزدیک بالکل ایک فطری طرز عمل ہے اور عالم انسانیت کے تعلق سے انہوں نے یہی طرز روش اختیار کر رکھی ہے ۔ تہذیبی اخلاق سے مراد وہ اساسات ہیں جن پر کسی تہذیب کی بنا قائم ہوتی ہے ، جن سے کسی تہذیب کے خلیے بنتے ہیں اور یہی عناصر خون کی طرح اس کی فکر و نظر میں متحرک اور کام کرتے رہتے ہیں ۔ دنیا میں پائے جانے والے ہر نظام کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ اس تہذیب کی بنیادی فکر پر قائم ہوتی ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ وہ بنیادی فکر کتنی صحیح یا غلط ہے ۔ اس نظام کی بنیادی فکر اس تہذیب کے اساس پر استوار ہوتی ہے اور اسی سے براہ راست مربوط ، منضبط اور اسی پر منطبق ہوتی ہے ۔ مغربی اقوام نے جب سے دنیا کا زمام کار سنبھالا ہے انہوں اپنی اصل فطرت اور مادی فکر و نظر کی وجہ سے اپنی عصری تہذیب کی بنیاد مادہ پر رکھی : وہ قوم جو فیضان سماوی سے ہو محروم حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات علامہ اقبال رحمہ لیکن اٹھارویں صدی کے آغاز سے اس مادی فکر میں ایک بڑی تبدیلی آئی ۔ وہ یہ تھی کہ قدیم نظریہ ارتقا پر از سر نو بحث کا آغاز ہوا اور نئے نئے خیالات اور نظریات سامنے آنے لگے ۔ ان علماء کا یہ خیال تھا کہ تمام جانداروں میں ایک مخصوص تعلق نظر آتا ہے ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب جاندار ایک ہی اصل و نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں سال کے حیوانی ارتقا کے مختلف مراحل سے گزر کر آج کی انسانی شکل و صورت میں ظاہر ہوئے ہیں ۔ ان سب کی اصل ایک ہے ۔ ان علماء میں بوفون( 1707 -- 1788) ارازمیک ڈارون اور لامارک ( Lamark ) قابل ذکر ہیں ۔ لامارک کا نظریہ بڑی حد تک ارتقاء حیات کو عام فہم بنانے میں مددگار ثابت ہوا ۔ چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقا : ڈارون 1809 میں پیدا پیدا ہوا تھا اور 1882 میں وفات پائی ۔ ڈارون نے اس نکتہ پر غور کرنا شروع کیا کہ کیا جانداروں میں ارتقائی تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں ۔ ڈارون کی خصوصیت یہ تھی کہ اس نے ارتقا کا ایک خاص میکنزم قدرتی انتخاب ( Natural Selection) پیش کیا ۔ اس سے نظریہ ارتقا کو بڑی تقویت ملی ۔ بقاء اصلح کی بحث ایک خطہ یا جگہ پر موجود حیوانات کے افراد زندگی کی بقا کی جنگ میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے یا اپنے خارجی ماحول سے لڑتے ہوئے زندہ رہنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔ اس بقا کی جنگ میں ہر فرد انفرادی طور پر حصہ لیتا ہے ۔ اس جنگ میں ایک طرف وہ ہوتے ہیں جو " منتخب " ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو " غیر منتخب " ہوتے ہیں اور بقا کی جنگ ہار جاتے ہیں ۔ اس نظریہ میں ایک بہت اہم مرکزی نقطہ یہ ہے کہ جانداروں میں وراثتی طور پر چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اور یہ تبدیلیاں طویل عرصہ میں ترقی کرتے ہوئے نئی نوع کی شکل میں بدل جاتی ہیں اس طرح الگ الگ انواع پیدا ہوتے رہتے ہین ۔ زمین پر پائے جانے والے سارے انواع ( Species) اسی طرح وجود میں آئے ہیں اور آخر میں چمپانزی موجودہ انسانی شکل و صورت میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ نظریہ ارتقا کے مطابق ہم انسان نسل آدم کی اولاد نہیں بلکہ تاریخ کے طویل ترین عرصہ میں مادہ کے قدرتی تعامل اور ارتقا کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے ہیں اور مرکر ختم ہوجائیں گے ۔ آخرت اور جزا و سزا کی باتیں غیر سائنسی اور جہالت ہیں ۔ اب جبلی مادی نقطہ نظر جس کی طرف انسان فطری طور پر مائل ہوتا ہے ایک مکمل سائنسی نظریہ ارتقا میں تبدیل کردیا گیا اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو اسی نظریہ کے تحت استوار کردیا گیا ۔ اب اس کی ذرا سی مخالفت اس کے ماننے والوں کو گوارا نہیں ۔ اس نظریہ کی روشنی میں اب انسانی زندگی بقاء اصلح کی جنگ میں بدل گئی ۔ عصر حاضر کی مغربی تہذیب اسی نظریہ ارتقا پر قائم ہے اور یہ تہذیبوں کے تصادم اور حرب و ضرب کا دور ہے ۔ باطل کے کر و فر کی حفاظت کے واسطے یوروپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر علامہ اقبال رحمہ عصر حاضر کی اس جدید نظریاتی جنگ میں جسے " تہذیبوں کے تصادم " کا نام دیا گیا ، بقاء اصلح کی اس جنگ میں کہاں کھڑی نظر آرہی ہے؟! یہ ہمارے لیے غور و فکر کا مقام ہے ! جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی nadvilaeeque@gmail.com
رسول اللہ (ص) عالم انسانیت کے دائمی قائد اور حکمرانوں کے لیے مشعل راہ عصر حاضر کی تہذیبی حالت اور حکمرانوں کے اخلاق پر اس کے تباہ کن اثرات ۔ ( 4 ) وقت حاضر کے مغربی حکمراں عقیدہ و تہذیب ، تصور حیات و کائنات اور فکر و نظر کے لحاظ سے خالص اس مادی نقطہ نظر کے حامل ہیں جس نے عصر حاضر کے نظریہ ارتقا کے بطن سے جنم لیا ہے ۔ اس تصور حیات میں انسان اصل حیوانی کی ایک فرع کے سوا کچھ نہیں ۔ اس کی زندگی کے تمام اصول و قوانین حیوانی زندگی کے تابع اور اسی کے مطابق بنائے گئے ہیں ۔ مغربی حکمرانوں کے اخلاق خالص ارتقائی تہذیب کے ترجمان ہیں اور انہوں نے اسی کے مطابق طرز عمل اختیار کر رکھا ہے ۔ یہ ان کے نزدیک بالکل ایک فطری طرز عمل ہے اور عالم انسانیت کے تعلق سے انہوں نے یہی حیوانی طرز عمل اختیار کر رکھا ہے ۔ عصر حاضر میں اس تہزیب کے پروردہ حکمرانوں کی عالمی قیادت اور لیڈرشپ نے عالم انسانیت کے اخلاق کو جس طرح تباہ و برباد کیا ہے وہ بہت تکلیف دہ ، سوہان روح اور ماتم کی جا ہے ۔ اس انکار خدا پر مبنی ارتقائی مغربی تہذیب کو اہل مغرب نے قصدا دین اسلام اور اسلامی تہذیب کے متوازی اور مقابلے میں برپا کرکے اسے ختم کردینا چاہتے ہیں ۔ یہ دین اسلام اور امہ مسلمہ کے خلاف ہے ۔ ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف خود اللہ رب الوقت نے ارشاد فرمایا ہے : اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر کفر کی طرف پلٹا کر لے جائیں ۔ اگر چہ حق ان پر ظاہر ہوچکا ہے ، اپنے نفس کے حسد کی بنا پر وہ تمہارے لیے ایسا چاہتے ہیں " ( البقرہ : ١٠٩ ) یہ تحریک اپنی اصل کے اعتبار سے وحی الہی اور ہدایت ربانی کے خلاف ہے جس کا مقصد امہ مسلمہ میں اللہ جل شانہ کی ذات پر ایمان رسالت پر ایمان اور عقیدہ آخرت کو ختم کردینا ہے ۔ یہ نظریہ ہر اس ہدایت کے انکار کی طرف لے جاتا ہے جو ربانی ہو ، ہدایت ربانی پر مبنی نظام حیات سے انحراف اور بغاوت پر آمادہ کرتا ہے اور اللہ جل شانہ کی دی ہوئی ہدایات کو رد کرکے انسانی عقل و فہم کو اس کا بدل قرار دیتا ہے ۔ اس تہذیب میں جدید سائنس سے مراد تھی ایک ایسے علم ( سائنس) کہ بنیاد ڈالنا یا انسانی اذہان کو اس سمت لے جانا جو ہر قسم کے ماوراء الطبیعاتی تصورات سے آزاد ہو ۔ نظریہ ارتقا کے ذریعہ اسی لادینی سائنس کی طرف لے جایا گیا جس کا آج نقطہ کمال ہے اور جس کی مخالفت جہالت ہے ۔ ریشنلزم یا تعقلیت : یہ وہ فلسفیانہ نقطہ نظر یا تحریک ہے جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ دنیا کی حقیقی صداقتوں کو گرفت میں لینے کے لیے ایک استخراجی عقل کی قوت کافی ہے ۔ اس کے عین مطابق وہ آج کی نیچرل سائنس کو اس کا اصل میدان کار سمجھتا ہے ۔ اب نیچر کو سمجھنا اور اس کی تحقیقات اصل دین ہے ۔ یہ در اصل ایک نقطہء نظر ہے جو عقل کو آخری اتھارٹی مانتا ہے اور ان تمام عقائد و ایمانیات کو رد کردیتا ہے جو عقل کے مطابق نہ ہوں ۔ یہ سر تا سر دین کو ڈھانے اور منہدم کرنے والا نقطہ نظر ہے ۔ یہ فکر یوروپ میں برگ و بار لانے لگی ۔ اس نے زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کیا ۔ یہ در حقیقت یوروپ میں یہود کی کاشت تھی جس نے یوروپ میں ایک ایسی فوج پیدا کردی جو اپنے مذہب کا انکار کرکے لادین ہوگئی ۔ آج ہم پوری دنیا اور خاص کر مسلمانوں میں دین سے انحراف اور بغاوت دیکھ رہے ہیں یہ اسی نظریہ اور تحریک کی دین ہے ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی nadvilaeeque@gmail.com
قرآن اور جدید سائنس قرآن جدید سائنس سے متصادم نہیں قرآن مجید کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ " السموات " اور " ارض " کا مبدع اور موجد اللہ رب العزت کی ذات ہے ۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ : بديع السموات و الأرض إذا قضى أمرا فإنما يقول له كن فيكون o (البقرة: ١١٧) الله تمام آسمانوں کا مبدع ہے جب وہ کسی امر ( شئی) کا ارادہ کرتا ہے تو وہ صرف اتنا کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے ( یعنی وجود میں آجاتی ہے) ۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ رب العزت اس کائنات کو اس میں ودیعت کردہ قوانین کے مطابق چلاتا ہے ۔ قرآنی آیات اس حقیقت کی طرف اشارے کرتی ہیں ۔ سائنسدان سمجھتے ہیں کہ فزکس کے قوانین ارتقا کے ذریعہ بن گئے ہیں ۔ یہ بات قرآن کے بیانات کے خلاف ہے ۔ مغربی سائنسداں اور فلاسفہ کے نزدیک مذہب بائبل اور عیسائیت کا نام ہے ۔ یہ تحریف شدہ کتاب جدید سائنسی نظریات کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہی اور ایک خونی کشمکش کے بعد کلیسا نے جدید سائنس کے مقابلہ شکست کھائی ۔ سائسندانوں کو صرف اسی ایک مذہب سے واسطہ پڑا ہے ۔ اس لیے وہ اسلام کو بھی اسی پر قیاس کرتے ہیں ۔ اگر وہ قرآن کا مطالعہ کرتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ قرآن علم کے خلاف نہیں ہے اور اس کے بیانات سائنس سے متصادم نہیں ہیں ۔ قرآن مجید میں جو علمی حقائق ڈیڑھ ہزار سال پہلے اللہ کی علیم اور قدیر ذات نے بیان کیا ہے سائنس اسے بیسویں صدی میں سائنس اور جدید ٹکنالوجی کی ترقی کے بعد جان پا رہی ہے ۔ مثال کے طور پر ایڈون ہبل (Adwin ( Hubble امریکی ( Astronaut ) نے 1929 میں اپنی تحقیق سے دنیا کو آگاہ کیا کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ سائنسداں دعوی کرتے ہیں کہ یہ بیسویں صدی کی بہت بڑی نئی سائنسی دریافت ہے ۔ انسان اس سے پہلے اس علمی حقیقت سے واقف نہیں تھا ۔ پہلی بات ہم یہ کہیں گے قرآن اس کا مخالف نہیں ہے بلکہ اللہ جل شانہ نے اس سائنسی حقیقت کو قرآن میں ساتویں صدی کی ابتدا میں بیان کردیا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ کا ارشاد ہے کہ " و السماء بنينها بأيد و إنا لموسعون ا ( الذاريات : ٤٧ ) اور ہم نے آسمان کو اپنی طاقت اور قدرت سے بنایا اور ہم پھیلا رہے ہیں ۔ We have built the heaven with might, and We it is who make the vast extent (thereof). دلچسپ بات یہ کہ البرٹ آئنسٹائن 1930 تک یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ جب اسے اس کے بارے میں بتایا گیا تو اسے یقین نہیں آیا لیکن جب ایڈون ہبل نے اسے اس کے شواہد دکھائے تو اسے یقین ہوا اور اس نے کہا کہ : constant universe theory was my blunder mistake) یہاں یہ بالکل واضح ہے کہ قرآن اس سائنسی دریافت سے ٹکرا نہیں رہا ہے بلکہ اسے اس پر سبقت حاصل ہے ۔ علامہ ابن جوزی رحمہ( م ٥٩٧ ) اپنی تفسیر میں ابن زید کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اس ( لموسعون ) سے مراد آسمان میں وسعت دینا ہے " القول الثانی: لموسعون السماء " قالہ ابن زید زاد السیر فی علم التفسیر ، ابن جوزی ٨ / ٤١ ، دمشق ١٩٦٧ بحوالہ معارف جنوری ٢٠٠١ ، آسمان کیا ہے ؟ علامہ شہاب الدین ندوی رحمہ ص ٦ ، ٧ اس تحقیق سے ہمیں چھٹی صدی عیسوی کی تفسیر میں کائنات کے پھیلنے کے بارے میں ابن زید کا یہ قول مل گیا ۔ ابن زید سمجھتے تھے کہ یہ کائنات قرآن کے بیان کے مطابق پھیل رہی ہے ۔ ایڈون ہبل نے اس کے پھیلنے کی تشریح اور تفصیل بیان کیا ہے جو ان کے بنائے ہوئے ٹیلیسکوپ کے ذریعہ ہی ممکن ہوا ۔ یقینا یہ تشریحات قابل قدر ہیں اور یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کائنات کے پھیلنے کے بارے میں یہ تشریحات پہلی بار کی گئی ہیں ۔ ٹیلیسکوپ بھی ایک عرب مسلم سائنسداں کی ایجاد ہے ۔ جديد فلکیات کی بنیاد بھی عرب مسلمانوں کی فلکیاتی تحقیقات پر ہے ۔ مغرب نے دنیا کو یہ غلط بات بتائی کہ ٹیلسکوپ کا موجد گلیلیو ہے ۔ ابو اسحق ابراہیم ابو جندب ( 767ء) نے ٹیلیسکوپ بنایا تھا ۔ اہل یوروپ کو ٹیلسکوپ عربوں سے ملا تھا ۔ گلیلیو نے اسے مزید ترقی دی ۔ یہ فن مزید ترقی کرتے ہوئے آج کے ترقی یافتہ ٹیلیسکوپ تک پہنچا ۔ رابرٹ بریفالٹ نے لکھا ہے کہ " جس چیز کو ہم سائنس کہتے ہیں وہ نئے تجرباتی ، مشاہدات اور حسابی طریقوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے اور یہ چیز یوروپ کو عربوں سے ملی ہے ۔ جدید سائنسی اسلامی تہذیب کی سب سے بڑی دین ہے " ۔ عصر حاضر میں مسلم اور عرب حکومتوں نے امہ مسلمہ کو سائنس اور ٹکنالوجی کے تمام میدانوں میں پسماندہ کرکے رکھ دیا ہے ۔ یہ اپنے مغربی آقاؤں کی غلامی کرتے رہے اور عالم اسلام کے مسلمانوں کو دھوکے پہ دھوکے دیتے رہے ۔ آج اگر امہ مسلمہ سائنس و ٹکنالوجی میں پسماندہ ہے تو اس کا ذمہ دار مغرب اور تربیت کردہ اور محکوم و فرمان بردار مسلم حکمراں ہیں ۔ رولےاب دل کھول کر اے دیدہ خوں نابہ بار وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار علامہ اقبال رحمہ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی nadvilaeeque@gmail.com
جزاک اللہ
❤❤❤
رسول اللہ (ص) عالم انسانیت کے دائمی قائد
اور حکمرانوں کے لیے مشعل راہ
عصر حاضر کی تہذیبی حالت اور حکمرانوں
کے اخلاق پر اس کے تباہ کن اثرات ۔
( 3 )
تہذیبی اخلاق سے مراد وہ اساسات ہیں جن پر کسی تہذیب کی بنا قائم ہوتی ہے ، جن سے کسی تہذیب کے خلیے بنتے ہیں اور یہی عناصر خون کی طرح اس کی فکر و نظر میں متحرک اور کام کرتے رہتے ہیں ۔
دنیا میں پائے جانے والے ہر نظام کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ اس تہذیب کی بنیادی فکر پر قائم ہوتی ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ وہ بنیادی فکر کتنی صحیح یا غلط ہے ۔ اس نظام کی بنیادی فکر اس تہذیب کے اساس پر استوار ہوتی ہے اور اسی سے براہ راست مربوط ، منضبط اور اسی پر منطبق ہوتی ہے ۔
مغربی اقوام نے جب سے دنیا کا زمام کار سنبھالا ہے انہوں اپنی اصل فطرت اور مادی فکر و نظر کی وجہ سے اپنی عصری تہذیب کی بنیاد مادہ پر رکھی :
وہ قوم جو فیضان سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
علامہ اقبال رحمہ
لیکن اٹھارویں صدی کے آغاز سے اس مادی فکر میں ایک بڑی تبدیلی آئی ۔ وہ یہ تھی کہ قدیم نظریہ ارتقا پر از سر نو بحث کا آغاز ہوا اور نئے نئے خیالات اور نظریات سامنے آنے لگے ۔ ان علماء کا یہ خیال تھا کہ تمام جانداروں میں ایک مخصوص تعلق نظر آتا ہے ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب جاندار ایک ہی اصل و نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں سال کے حیوانی ارتقا کے مختلف مراحل سے گزر کر آج کی انسانی شکل و صورت میں ظاہر ہوئے ہیں ۔ ان سب کی اصل ایک ہے ۔ ان علماء میں بوفون( 1707 -- 1788) ارازمیک ڈارون اور لامارک ( Lamark ) قابل ذکر ہیں ۔ لامارک کا نظریہ بڑی حد تک ارتقاء حیات کو عام فہم بنانے میں مددگار ثابت ہوا ۔
چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقا :
ڈارون 1809 میں پیدا پیدا ہوا تھا اور 1882 میں وفات پائی ۔ ڈارون نے اس نکتہ پر غور کرنا شروع کیا کہ کیا جانداروں میں ارتقائی تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں ۔ ڈارون کی خصوصیت یہ تھی کہ اس نے ارتقا کا ایک خاص میکنزم قدرتی انتخاب ( Natural Selection) پیش کیا ۔ اس سے نظریہ ارتقا کو بڑی تقویت ملی ۔
بقاء اصلح کی بحث
ایک خطہ یا جگہ پر موجود حیوانات کے افراد زندگی کی بقا کی جنگ میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے یا اپنے خارجی ماحول سے لڑتے ہوئے زندہ رہنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔ اس بقا کی جنگ میں ہر فرد انفرادی طور پر حصہ لیتا ہے ۔ اس جنگ میں ایک طرف وہ ہوتے ہیں جو " منتخب " ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو " غیر منتخب " ہوتے ہیں اور بقا کی جنگ ہار جاتے ہیں ۔
اس نظریہ میں ایک بہت اہم مرکزی نقطہ یہ ہے کہ جانداروں میں وراثتی طور پر چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اور یہ تبدیلیاں طویل عرصہ میں ترقی کرتے ہوئے نئی نوع کی شکل میں بدل جاتی ہیں اس طرح الگ الگ انواع پیدا ہوتے رہتے ہین ۔ زمین پر پائے جانے والے سارے انواع ( Species) اسی طرح وجود میں آئے ہیں اور آخر میں چمپانزی موجودہ انسانی شکل و صورت میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ نظریہ ارتقا کے مطابق ہم انسان نسل آدم کی اولاد نہیں بلکہ تاریخ کے طویل ترین عرصہ میں مادہ کے قدرتی تعامل اور ارتقا کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے ہیں اور مرکر ختم ہوجائیں گے ۔ آخرت اور جزا و سزا کی باتیں غیر سائنسی اور جہالت ہیں ۔
اب جبلی مادی نقطہ نظر جس کی طرف انسان فطری طور پر مائل ہوتا ہے ایک مکمل سائنسی نظریہ ارتقا میں تبدیل کردیا گیا اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو اسی نظریہ کے تحت استوار کردیا گیا ۔ اب اس کی ذرا سی مخالفت اس کے ماننے والوں کو گوارا نہیں ۔ اس نظریہ کی روشنی میں اب انسانی زندگی بقاء اصلح کی جنگ میں بدل گئی ۔
عصر حاضر کی مغربی تہذیب اسی نظریہ ارتقا پر قائم ہے اور یہ تہذیبوں کے تصادم اور حرب و ضرب کا دور ہے ۔
باطل کے کر و فر کی حفاظت کے واسطے
یوروپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
علامہ اقبال رحمہ
عصر حاضر کی اس جدید نظریاتی جنگ میں
جسے " تہذیبوں کے تصادم " کا نام دیا گیا ، بقاء اصلح کی اس جنگ میں کہاں کھڑی نظر آرہی ہے؟! یہ ہمارے لیے غور و فکر کا مقام ہے !
جاری
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
nadvilaeeque@gmail.com
21:00
قیادت اور حکمرانی اسلامی نقطہ نظر
( ٢ )
عالمی قیادت شدید اخلاقی بحران کا شکار
پیغمبر آخر الزماں کی زندگی عصر حاضر کے
حکمرانوں کے لیے مشعل راہ
رسول اللہ (ص) کو خالق کائنات نے قیامت تک کے لیے عالم انسانیت کے لیے دائمی قائد بنا کر بھیجا تھا ۔ آپ ہمیشہ کے لیے عالم انسانیت کے قائد ، ہادی و مرشد اور زندگی کے تمام شعبوں میں رہنما بناکر بھیجے گئے ہیں ۔ آپ تا قیامت پوری انسانیت کے قائد و رہنما ہیں ۔ آپ نے عدل و انصاف کی ایسی مثال قائم کی
جس کی آج تک کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ ہر حال اور ہر میدان میں مطلقا عدل و ضبط قائم کیا
ایسا عدل و قسط جس نے زمین سے ظلم و زیادتی کو روکا ، اسلام انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کا ضامن ہے ، آپ نے حق دار کو
خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو ، اس کا حق دیا ۔ کیوں کہ اس حق میں اللہ کے نزدیک مسلم اور غیر مسلم برابر ہیں ۔ اسلام میں عدل و قسط میں قریب یا دور ، دوست یا دشمن ، مال دار و غریب سب برابر ہیں ۔ قرآن میں اللہ جل شانہ نےاس کی تاکید کرتے ہوئے حکم ارشاد فرمایا ہے :
ولو علی انفسکم او الوالدین و الآقربین ۔۔
اگرچہ ( عدل و انصاف قائم کرنے ) کی زد تمہاری اپنی ذات پر یا اعزہ و اقارب اور والدین پڑتی ہو ۔ یہ انتہائی دشوار اور شاق کام ہے ، زبان سے اسے ادا کرنے اور عقل سے اس کے مفہوم و مدعا کو سمجھ لینے سے کہیں زیادہ دشوار ، عقلی طور پر اسے سمجھ لینا ایک بات ہے اور عمل کی صورت میں اسے اختیار کرنا ، بالکل دوسری باات ہے ۔ اسلام مومن کو اس دشوار و شاق تجربہ سے گزارتا ہے کیوں کہ اس کا وجود میں لایا جانا ناگزیر ہے ، نا گزیر ہے کہ زمین میں یہ قاعدہ موجود ہو ، اور ناگزیر ہے کہ ایک گروہ اس اصول کو قائم و برپا کرے ۔
فلا تتبعوا الہوی ان تعدلوا ۔۔۔
لہذا تم خواہشات کی پیروی نہ کرو کہ عدل سے باز رہو ، شہادت اور فیصلے کے موقع پر خاندان، قبیلہ ، قوم ، حکومت اور وطن کے لیے تعصب ہو آئے نفس ہے ۔ اس کے علاوہ اور بہت سی نفسانی خواہشات ہیں جو دنیا میں عدل و انصاف اور امن و امان قائم کرنے سے مانع ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالی نے ان تمام خواہشات سے متاثر ہونے اور ان سے متاثر ہوکر عدل سے روگردانی کرنے سے اہل ایمان کو روکا ہے ۔
اس عدل و انصاف پر آسمان و زمین کا نظام قائم ہے ۔
پوری دنیا میں قائم عدل و انصاف کے ادارے
اور عدل و انصاف کے نئے احکام و قوانین اور عدل و انصاف کی ان تنظیموں اور طریقوں سے جو عصر حاضر میں رائج ہیں اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے چلے گئے ہیں ، آج نافع اور سود مند نہیں ہیں ، لوگ سمجھتے ہیں کہ آج
کے نظام حیات اور عالمی قوانین ان سادہ احکام و قوانین سے جو گزشتہ ادوار میں تھے
اسلام کے سادہ اور پرانے عدالتی صورتوں اور شکلوں سے زیاد منضبط اور زیادہ محکم ، زیادہ بہتر ، عوام کے زیادہ ترجمان ہیں ، اور عدل و انصاف کے زیادہ ضامن ہیں تو اب تک کے نتائج اور عالم انسانیت کی زبوں تر صورت حال کو دیکھتے ہوئے اسے درست نہیں سمجھا جاسکتا ہے !!
جاری
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
nadvilaeeque@gmail.com
رسول اللہ (ص) عالم انسانیت کے دائمی قائد
اور حکمرانوں کے لیے مشعل راہ
عصر حاضر کی تہذیبی حالت اور حکمرانوں
کے اخلاق پر اس کے تباہ کن اثرات ۔
( 4 )
وقت حاضر کے مغربی حکمراں عقیدہ و تہذیب
تصور حیات و کائنات اور فکر و نظر کے لحاظ سے خالص اس مادی نقطہ نظر کے حامل ہیں جس نے عصر حاضر کی ارتقائ نظریہ کے بطن سے جنم لیا ہے ۔ اس تصور حیات میں انسان اصل حیوانی کی ایک فرع کے سوا کچھ نہیں ۔ اس کی زندگی کے تمام اصول و قوانین حیوانی زندگی کے مطابق بنائے گئے ہیں ۔ مغربی حکمرانوں کے اخلاق خالص ارتقائی تہذیب کے تحت وجود میں آئے ہیں ۔ اس کے مطابق حیوانات کا سا طرز عمل ان کے نزدیک
بالکل ایک فطری طرز عمل ہے اور عالم انسانیت کے تعلق سے انہوں نے یہی طرز روش اختیار کر رکھی ہے ۔
تہذیبی اخلاق سے مراد وہ اساسات ہیں جن پر کسی تہذیب کی بنا قائم ہوتی ہے ، جن سے کسی تہذیب کے خلیے بنتے ہیں اور یہی عناصر خون کی طرح اس کی فکر و نظر میں متحرک اور کام کرتے رہتے ہیں ۔
دنیا میں پائے جانے والے ہر نظام کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ اس تہذیب کی بنیادی فکر پر قائم ہوتی ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ وہ بنیادی فکر کتنی صحیح یا غلط ہے ۔ اس نظام کی بنیادی فکر اس تہذیب کے اساس پر استوار ہوتی ہے اور اسی سے براہ راست مربوط ، منضبط اور اسی پر منطبق ہوتی ہے ۔
مغربی اقوام نے جب سے دنیا کا زمام کار سنبھالا ہے انہوں اپنی اصل فطرت اور مادی فکر و نظر کی وجہ سے اپنی عصری تہذیب کی بنیاد مادہ پر رکھی :
وہ قوم جو فیضان سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
علامہ اقبال رحمہ
لیکن اٹھارویں صدی کے آغاز سے اس مادی فکر میں ایک بڑی تبدیلی آئی ۔ وہ یہ تھی کہ قدیم نظریہ ارتقا پر از سر نو بحث کا آغاز ہوا اور نئے نئے خیالات اور نظریات سامنے آنے لگے ۔ ان علماء کا یہ خیال تھا کہ تمام جانداروں میں ایک مخصوص تعلق نظر آتا ہے ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب جاندار ایک ہی اصل و نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں سال کے حیوانی ارتقا کے مختلف مراحل سے گزر کر آج کی انسانی شکل و صورت میں ظاہر ہوئے ہیں ۔ ان سب کی اصل ایک ہے ۔ ان علماء میں بوفون( 1707 -- 1788) ارازمیک ڈارون اور لامارک ( Lamark ) قابل ذکر ہیں ۔ لامارک کا نظریہ بڑی حد تک ارتقاء حیات کو عام فہم بنانے میں مددگار ثابت ہوا ۔
چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقا :
ڈارون 1809 میں پیدا پیدا ہوا تھا اور 1882 میں وفات پائی ۔ ڈارون نے اس نکتہ پر غور کرنا شروع کیا کہ کیا جانداروں میں ارتقائی تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں ۔ ڈارون کی خصوصیت یہ تھی کہ اس نے ارتقا کا ایک خاص میکنزم قدرتی انتخاب ( Natural Selection) پیش کیا ۔ اس سے نظریہ ارتقا کو بڑی تقویت ملی ۔
بقاء اصلح کی بحث
ایک خطہ یا جگہ پر موجود حیوانات کے افراد زندگی کی بقا کی جنگ میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے یا اپنے خارجی ماحول سے لڑتے ہوئے زندہ رہنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔ اس بقا کی جنگ میں ہر فرد انفرادی طور پر حصہ لیتا ہے ۔ اس جنگ میں ایک طرف وہ ہوتے ہیں جو " منتخب " ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو " غیر منتخب " ہوتے ہیں اور بقا کی جنگ ہار جاتے ہیں ۔
اس نظریہ میں ایک بہت اہم مرکزی نقطہ یہ ہے کہ جانداروں میں وراثتی طور پر چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اور یہ تبدیلیاں طویل عرصہ میں ترقی کرتے ہوئے نئی نوع کی شکل میں بدل جاتی ہیں اس طرح الگ الگ انواع پیدا ہوتے رہتے ہین ۔ زمین پر پائے جانے والے سارے انواع ( Species) اسی طرح وجود میں آئے ہیں اور آخر میں چمپانزی موجودہ انسانی شکل و صورت میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ نظریہ ارتقا کے مطابق ہم انسان نسل آدم کی اولاد نہیں بلکہ تاریخ کے طویل ترین عرصہ میں مادہ کے قدرتی تعامل اور ارتقا کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے ہیں اور مرکر ختم ہوجائیں گے ۔ آخرت اور جزا و سزا کی باتیں غیر سائنسی اور جہالت ہیں ۔
اب جبلی مادی نقطہ نظر جس کی طرف انسان فطری طور پر مائل ہوتا ہے ایک مکمل سائنسی نظریہ ارتقا میں تبدیل کردیا گیا اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو اسی نظریہ کے تحت استوار کردیا گیا ۔ اب اس کی ذرا سی مخالفت اس کے ماننے والوں کو گوارا نہیں ۔ اس نظریہ کی روشنی میں اب انسانی زندگی بقاء اصلح کی جنگ میں بدل گئی ۔
عصر حاضر کی مغربی تہذیب اسی نظریہ ارتقا پر قائم ہے اور یہ تہذیبوں کے تصادم اور حرب و ضرب کا دور ہے ۔
باطل کے کر و فر کی حفاظت کے واسطے
یوروپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
علامہ اقبال رحمہ
عصر حاضر کی اس جدید نظریاتی جنگ میں
جسے " تہذیبوں کے تصادم " کا نام دیا گیا ، بقاء اصلح کی اس جنگ میں کہاں کھڑی نظر آرہی ہے؟! یہ ہمارے لیے غور و فکر کا مقام ہے !
جاری
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
nadvilaeeque@gmail.com
بھیا بحران ہےبہران نہیں اپناتلفظ تودرست کرلو مولانا کی روح تڑپ رہی ہوگی کن کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں
رسول اللہ (ص) عالم انسانیت کے دائمی قائد
اور حکمرانوں کے لیے مشعل راہ
عصر حاضر کی تہذیبی حالت اور حکمرانوں
کے اخلاق پر اس کے تباہ کن اثرات ۔
( 4 )
وقت حاضر کے مغربی حکمراں عقیدہ و تہذیب ، تصور حیات و کائنات اور فکر و نظر کے لحاظ سے خالص اس مادی نقطہ نظر کے حامل ہیں جس نے عصر حاضر کے نظریہ ارتقا کے بطن سے جنم لیا ہے ۔ اس تصور حیات میں انسان اصل حیوانی کی ایک فرع کے سوا کچھ نہیں ۔ اس کی زندگی کے تمام اصول و قوانین حیوانی زندگی کے تابع اور اسی کے مطابق بنائے گئے ہیں ۔ مغربی حکمرانوں کے اخلاق خالص ارتقائی تہذیب کے ترجمان ہیں اور انہوں نے اسی کے مطابق طرز عمل اختیار کر رکھا ہے ۔ یہ ان کے نزدیک بالکل ایک فطری طرز عمل ہے اور عالم انسانیت کے تعلق سے انہوں نے یہی حیوانی طرز عمل اختیار کر رکھا ہے ۔
عصر حاضر میں اس تہزیب کے پروردہ حکمرانوں کی عالمی قیادت اور لیڈرشپ نے عالم انسانیت کے اخلاق کو جس طرح تباہ و برباد کیا ہے وہ بہت تکلیف دہ ، سوہان روح اور
ماتم کی جا ہے ۔
اس انکار خدا پر مبنی ارتقائی مغربی تہذیب کو اہل مغرب نے قصدا دین اسلام اور اسلامی تہذیب کے متوازی اور مقابلے میں برپا کرکے اسے ختم کردینا چاہتے ہیں ۔ یہ دین اسلام اور امہ مسلمہ کے خلاف ہے ۔
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
خود اللہ رب الوقت نے ارشاد فرمایا ہے :
اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر کفر کی طرف پلٹا کر لے جائیں ۔ اگر چہ حق ان پر ظاہر ہوچکا ہے ، اپنے نفس کے حسد کی بنا پر وہ تمہارے لیے ایسا چاہتے ہیں "
( البقرہ : ١٠٩ )
یہ تحریک اپنی اصل کے اعتبار سے وحی الہی اور ہدایت ربانی کے خلاف ہے جس کا مقصد امہ مسلمہ میں اللہ جل شانہ کی ذات پر ایمان
رسالت پر ایمان اور عقیدہ آخرت کو ختم کردینا ہے ۔ یہ نظریہ ہر اس ہدایت کے انکار کی طرف لے جاتا ہے جو ربانی ہو ، ہدایت ربانی پر مبنی نظام حیات سے انحراف اور بغاوت پر آمادہ کرتا ہے اور اللہ جل شانہ کی دی ہوئی ہدایات کو رد کرکے انسانی عقل و فہم کو اس کا بدل قرار دیتا ہے ۔
اس تہذیب میں جدید سائنس سے مراد تھی ایک ایسے علم ( سائنس) کہ بنیاد ڈالنا یا انسانی اذہان کو اس سمت لے جانا جو ہر قسم کے ماوراء الطبیعاتی تصورات سے آزاد ہو ۔ نظریہ ارتقا کے ذریعہ اسی لادینی سائنس کی طرف لے جایا گیا جس کا آج نقطہ کمال ہے اور جس کی مخالفت جہالت ہے ۔
ریشنلزم یا تعقلیت :
یہ وہ فلسفیانہ نقطہ نظر یا تحریک ہے جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ دنیا کی حقیقی صداقتوں کو گرفت میں لینے کے لیے ایک استخراجی عقل کی قوت کافی ہے ۔ اس کے عین مطابق وہ آج کی نیچرل سائنس کو اس کا اصل میدان کار سمجھتا ہے ۔ اب نیچر کو سمجھنا اور اس کی تحقیقات اصل دین ہے ۔
یہ در اصل ایک نقطہء نظر ہے جو عقل کو آخری اتھارٹی مانتا ہے اور ان تمام عقائد و ایمانیات کو رد کردیتا ہے جو عقل کے مطابق نہ ہوں ۔ یہ سر تا سر دین کو ڈھانے اور منہدم کرنے والا نقطہ نظر ہے ۔ یہ فکر یوروپ میں برگ و بار لانے لگی ۔ اس نے زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کیا ۔ یہ در حقیقت یوروپ میں یہود کی کاشت تھی جس نے یوروپ میں ایک ایسی فوج پیدا کردی جو اپنے مذہب کا انکار کرکے لادین ہوگئی ۔ آج ہم پوری دنیا اور خاص کر مسلمانوں میں دین سے انحراف اور بغاوت دیکھ رہے ہیں یہ اسی نظریہ اور تحریک کی دین ہے ۔
جاری
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
nadvilaeeque@gmail.com
قرآن اور جدید سائنس
قرآن جدید سائنس سے متصادم نہیں
قرآن مجید کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ " السموات " اور " ارض " کا مبدع اور موجد اللہ رب العزت کی ذات ہے ۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ :
بديع السموات و الأرض إذا قضى أمرا فإنما يقول له كن فيكون o (البقرة: ١١٧)
الله تمام آسمانوں کا مبدع ہے جب وہ کسی امر ( شئی) کا ارادہ کرتا ہے تو وہ صرف اتنا کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے ( یعنی وجود میں آجاتی ہے) ۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ رب العزت اس کائنات کو اس میں ودیعت کردہ قوانین کے مطابق چلاتا ہے ۔ قرآنی آیات اس حقیقت کی طرف اشارے کرتی ہیں ۔ سائنسدان سمجھتے ہیں کہ فزکس کے قوانین ارتقا کے ذریعہ بن گئے ہیں ۔ یہ بات قرآن کے بیانات کے خلاف ہے ۔
مغربی سائنسداں اور فلاسفہ کے نزدیک مذہب بائبل اور عیسائیت کا نام ہے ۔ یہ تحریف شدہ کتاب جدید سائنسی نظریات کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہی اور ایک خونی کشمکش کے بعد کلیسا نے جدید سائنس کے مقابلہ شکست کھائی ۔ سائسندانوں کو صرف اسی ایک مذہب سے واسطہ پڑا ہے ۔ اس لیے وہ اسلام کو بھی اسی پر قیاس کرتے ہیں ۔ اگر وہ قرآن کا مطالعہ کرتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ قرآن علم کے خلاف نہیں ہے اور اس کے بیانات سائنس سے متصادم نہیں ہیں ۔
قرآن مجید میں جو علمی حقائق ڈیڑھ ہزار سال پہلے اللہ کی علیم اور قدیر ذات نے بیان کیا ہے سائنس اسے بیسویں صدی میں سائنس اور جدید ٹکنالوجی کی ترقی کے بعد جان پا رہی ہے ۔ مثال کے طور پر ایڈون ہبل (Adwin
( Hubble
امریکی ( Astronaut ) نے 1929 میں اپنی تحقیق سے دنیا کو آگاہ کیا کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ سائنسداں دعوی کرتے ہیں کہ یہ بیسویں صدی کی بہت بڑی نئی سائنسی دریافت ہے ۔ انسان اس سے پہلے اس علمی حقیقت سے واقف نہیں تھا ۔
پہلی بات ہم یہ کہیں گے قرآن اس کا مخالف نہیں ہے بلکہ اللہ جل شانہ نے اس سائنسی حقیقت کو قرآن میں ساتویں صدی کی ابتدا میں بیان کردیا ہے ۔
قرآن مجید میں اللہ کا ارشاد ہے کہ "
و السماء بنينها بأيد و إنا لموسعون
ا ( الذاريات : ٤٧ )
اور ہم نے آسمان کو اپنی طاقت اور قدرت سے بنایا اور ہم پھیلا رہے ہیں ۔
We have built the heaven with might, and We it is who make the vast extent (thereof).
دلچسپ بات یہ کہ البرٹ آئنسٹائن 1930 تک یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ جب اسے اس کے بارے میں بتایا گیا تو اسے یقین نہیں آیا لیکن جب ایڈون ہبل نے اسے اس کے شواہد دکھائے تو اسے یقین ہوا اور اس نے کہا کہ :
constant universe theory was my blunder mistake)
یہاں یہ بالکل واضح ہے کہ قرآن اس سائنسی دریافت سے ٹکرا نہیں رہا ہے بلکہ اسے اس پر سبقت حاصل ہے ۔
علامہ ابن جوزی رحمہ( م ٥٩٧ ) اپنی تفسیر میں ابن زید کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اس ( لموسعون ) سے مراد آسمان میں وسعت دینا ہے
" القول الثانی: لموسعون السماء " قالہ ابن زید
زاد السیر فی علم التفسیر ، ابن جوزی ٨ / ٤١ ، دمشق ١٩٦٧
بحوالہ معارف جنوری ٢٠٠١ ، آسمان کیا ہے ؟ علامہ شہاب الدین ندوی رحمہ ص ٦ ، ٧
اس تحقیق سے ہمیں چھٹی صدی عیسوی کی تفسیر میں کائنات کے پھیلنے کے بارے میں ابن زید کا یہ قول مل گیا ۔ ابن زید سمجھتے تھے کہ یہ کائنات قرآن کے بیان کے مطابق پھیل رہی ہے ۔
ایڈون ہبل نے اس کے پھیلنے کی تشریح اور تفصیل بیان کیا ہے جو ان کے بنائے ہوئے ٹیلیسکوپ کے ذریعہ ہی ممکن ہوا ۔ یقینا یہ تشریحات قابل قدر ہیں اور یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کائنات کے پھیلنے کے بارے میں یہ تشریحات پہلی بار کی گئی ہیں ۔
ٹیلیسکوپ بھی ایک عرب مسلم سائنسداں کی ایجاد ہے ۔ جديد فلکیات کی بنیاد بھی عرب مسلمانوں کی فلکیاتی تحقیقات پر ہے ۔ مغرب نے دنیا کو یہ غلط بات بتائی کہ ٹیلسکوپ کا موجد گلیلیو ہے ۔ ابو اسحق ابراہیم ابو جندب ( 767ء) نے ٹیلیسکوپ بنایا تھا ۔ اہل یوروپ کو ٹیلسکوپ عربوں سے ملا تھا ۔ گلیلیو نے اسے مزید ترقی دی ۔ یہ فن مزید ترقی کرتے ہوئے آج کے ترقی یافتہ ٹیلیسکوپ تک پہنچا ۔
رابرٹ بریفالٹ نے لکھا ہے کہ " جس چیز کو ہم سائنس کہتے ہیں وہ نئے تجرباتی ، مشاہدات اور حسابی طریقوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے اور یہ چیز یوروپ کو عربوں سے ملی ہے ۔ جدید سائنسی اسلامی تہذیب کی سب سے بڑی دین ہے " ۔
عصر حاضر میں مسلم اور عرب حکومتوں نے امہ مسلمہ کو سائنس اور ٹکنالوجی کے تمام میدانوں میں پسماندہ کرکے رکھ دیا ہے ۔ یہ اپنے مغربی آقاؤں کی غلامی کرتے رہے اور عالم اسلام کے مسلمانوں کو دھوکے پہ دھوکے دیتے رہے ۔ آج اگر امہ مسلمہ سائنس و ٹکنالوجی میں پسماندہ ہے تو اس کا ذمہ دار مغرب اور
تربیت کردہ اور محکوم و فرمان بردار مسلم حکمراں ہیں ۔
رولےاب دل کھول کر اے دیدہ خوں نابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار
علامہ اقبال رحمہ
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
nadvilaeeque@gmail.com