ماشاءاللہ ماشاءاللہ ۔ بہت خوب تعارف ۔ جچا تلا مناسب صحیح تبصرہ گیا ہے۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔ خود غامدی صاحب بھی اپنے تفردات سے پرہیز کریں تو زیادہ مفید ثابت ہوتے ۔۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا
رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ عالم انسانیت کے لیے آخری کتاب ہدایت رمضان المبارک کو قرآن مجید سے ایک خاص نسبت ہے ۔ قرآن کریم کی اس ماہ مبارک سے نسبت کا ذکر خود قرآن میں اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے : إنا انزلناه في ليلة القدر o ليلة القدر خير من ألف شهر o ہم نے اس کو (قرآن ) نازل کیا شب قدر میں جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے "۔ قرآن پاک کی اس ماہ مبارک سے نسبت خود قرآن میں آیا ہے ۔ اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت کا ذکر ہے اور اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت اور فضیلت کو بیان کرتے ہوئے قرآن کی عظمت کی طرف اشارے کیے گئے ہیں : " رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں " دوسری خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی آیات میں ہدایت کی واضح نشانیاں اور دلائل ہیں ۔ یہ ڈر حقیقت ایک کتاب ہدایت ہے ابتداء آفرینش سے اللہ جل شانہ کے پیش نظر نوع انسانی کی ہدایت رہی ہے ۔ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے : قلنا اهبطوا منها جميعا ، فإما يأتيكم منى هدى فمن تبع هداى فلا خوف عليهم ولا هم يحزنون o ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اترجاؤ ، پھر میری طرف سے جو ہدایت تمہارے پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے تو ان کو کوئی خوف اور حزن نہ ہوگا ۔ اگلی آیہ میں فرمایا : والذين كفروا و كذبوا باياتنا أولئك أصحاب النار هم فيها خالدون o اور جو لوگ اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائین گے ، وہ آگ میں رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ رمضان المبارک کو قرآن مجید سے ایک خاص نسبت ہے ۔ قرآن کریم کی اس ماہ مبارک سے نسبت کا ذکر خود قرآن میں اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے : إنا انزلناه في ليلة القدر o ليلة القدر خير من ألف شهر o ہم نے اس کو (قرآن ) نازل کیا شب قدر میں جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے "۔ قرآن پاک کی اس ماہ مبارک سے نسبت خود قرآن میں آیا ہے ۔ اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت کا ذکر ہے اور اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت اور فضیلت کو بیان کرتے ہوئے قرآن کی عظمت کی طرف اشارے کیے گئے ہیں : " رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں " دوسری خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی آیات میں ہدایت کی واضح نشانیاں اور دلائل ہیں ۔ یہ ڈر حقیقت ایک کتاب ہدایت ہے ابتداء آفرینش سے اللہ جل شانہ کے پیش نظر نوع انسانی کی ہدایت رہی ہے ۔ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے : قلنا اهبطوا منها جميعا ، فإما يأتيكم منى هدى فمن تبع هداى فلا خوف عليهم ولا هم يحزنون o ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اترجاؤ ، پھر میری طرف سے جو ہدایت تمہارے پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے تو ان کو کوئی خوف اور حزن نہ ہوگا ۔ آدم علیہ السلام کو کرہ ارض پر بھیجتے وقت جو بات کہی گئی کہ زمین پر تم کو یونہی نہیں چھوڑ دیا جائے گا بلکہ تم تک ( سے بنی نوع انسان ) میرا پیغام ہدایت پہنچتا رہے گا اور تم کو ان ہدایات کے مطابق زندگی بسر کرتے رہنا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنی زندگی میں خوف و حزن سے محفوظ رہوگے ۔ اس کے مقابلے میں انسانوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو اللہ جل شانہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے سے انکار کردے گا ۔ وہ لوگ گمراہی کے مختلف راستوں پر چلنے والے ہوں گے ۔ ان کا انجام جہنم کی آگ ہے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔۔ اللہ جل شانہ کی یہ ہدایت انبیاء علیہم السلام لے آتے رہے ۔ اللہ کی یہ ہدایت انسانی تاریخ کے مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے رمضان المبارک میں نزول قرآن پر مکمل کردیا گیا اور اب پوری عالم انسانیت کے لیے صرف قرآن ہی آخری کتاب ہدایت ہے ۔ یہ نسل انسانی کے لیے ابتدائے آفرینش سے قیامت تک کے لیے اللہ کا مستقل فرمان ہے اور اسی کو " عہد " تعبیر کیا گیا ہے ۔ انسان کا کام خود اپنے لیے کوئی راستہ اختیار کرنا نہیں ہے ، بلکہ بندہ اور خلیفہ ہونے کی دو گونہ حیثیتوں کے لحاظ سے وہ اس پر مامور ہے کہ اللہ کی بھیجی ہوئی آخری کتاب ہدایت کی مکمل پیروی کرے اس کے علاوہ ہر صورت غلط ہی نہیں سراسر بغاوت ہے جس کی سزا دائمی جہنم کے عذاب کے سوا اور کچھ نہیں ۔ جاری
مین مولا.نا ابوالحسن، صاحب کی تمام کتب کــا مطالعہ کیا مگراس مین جدت نھین سب سـے بڑانقصان .ندوہ العماء کاھواشبلی نےجو ندوہ سو چاتھا ان کــی فکر کو نقصان پہنچا یا
مولانا علی میاں رح بہت جامع اور با معنی گفتگو جناب غامدی صاحب کی، اقبال کے تعلق سے جو پہلو غامدی صاحب نے واضح کیا وہ صد فیصد واقعی ہے، مولانا علی میاں ندوی رح کی مجلس کا واقعہ ہے کہ ایک صاحب اقبال کے کلام کو بہت عمدگی کے ساتھ پڑھتے تھے ،مجلس میں شریک ایک عالم دین غالباً مولانا نذر الحفیظ صاحب ندوی نے عرض کیا کہ حضرت،یہ صاحب اقبال کا کلام بہت عمدہ پڑھتے ہیں اور وقفہ وقفہ سے تین مرتبہ مولانا علی میاں ندوی رح کی توجہ مبذول کروانی چاہی کہ کچھ سن لیا جائے لیکن مولانا علی میاں صاحب نے کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا حاضرین کو بڑا تعجب ہوا کہ اقبال کا اتنا بڑا شیدائی اقبال کا کلام سننے کی خواہش کیوں نہیں کر رہا ، بعد میں استفسار کرنے پر ایک سرد آ ہ بھرتے ہوئے جواب دیا کہ اقبال کا کلام سننے کے بعد آپ سب حضرات تو آرام سے جاکر سوجائیں گے اور نیند آجائگی مگرمیری رات کرب و بے چینی میں کروٹیں بدلتے گزرے گی۔ حقیقت یہی ہے کہ علی میاں صاحب کی شخصیت پر علامہ اقبال کی شخصیت کا رنگ اتنا ہی غالب تھا
معراج الرسول صلی اللہ علیہ وسلم جدید خلائی سائنس کی روشنی میں ( 4 ) واقعہ معراج اللہ جل شانہ جو اپنے بارے میں ارشاد فرمایا ہے : بديع السموات والأرض إذا قضى أمرا فإنما يقول له كن فيكون o ( البقرة : ١١٧ ) ( وہ اللہ کی ذات ) سب آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ۔ جب وہ ایک امر کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لیے صرف اتنا کہنا کافی ہوتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے ۔" ۔ کی غیر محدود قوت اور قدرت کاملہ کا مظاہرہ تھا ۔ آج کا دور خلائی تحقیقات اور اس سے متعلق مختلف نظریات کا دور ہے ۔ اس لیے ساتویں صدی کے ابتدائی زمانہ کے مقابلہ میں اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اس محیر العقول واقعہ کو سمجھنا کچھ آسان ہوگیا ہے ۔ اس سلسلے میں البرٹ آئنسٹائن کا نظریہ Special Theory of Relativity قابل ذکر ہے اس کے مطابق وقت ایک اضافی شئ ہے جو Frame of reference کے ساتھ الگ الگ ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص زمین پر ہے تو اس کا وقت الگ ہوگا اور دوسرا شخص اگر گہرے خلا میں سفر کر رہا ہے تو اس کا وقت الگ ہوگا ۔ اس نے وقت ( زمان ) اور خلا ( مکان ) کو ایک دوسرے سے مربوط کرکے زمان و مکان ( Space and Time) کو مخلوط شکل میں پیش کیا ہے روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر ہے اور یہ مستقل ( Constant) ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر ایک شخص ایک خلائی جہاز ( Spaceship) میں سوار ہو کر خلا میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتا ہے تو وقت اس کے لیے رک جائے گا ، اس کا سفر خواہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو صفر وقت ( No Time ) میں ہوگا ۔ سفر معراج جبرئیل ، میکائیل علیہما السلام اور دیگر ملائکہ کی معیت میں براق پر ہوا تھا ۔ یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔ براق جنت سے لائی ہوئی ایک نوری سواری تھی جو اللہ جل شانہ کی طرف سے بھیجی گئی تھی ۔ آئنسٹائن نے جس روشنی کی رفتار کا ذکر کیا ہے وہ ہماری معلوم دنیا کی روشنی ہے ۔ براق کی نوری سواری اپنی کیفیت میں اس روشنی سے بالکل مختلف ہے ۔ ہم صرف اتنا کہ سکتے ہین کہ اس نور کی سواری کی سرعت کا تصور آج کی سائنس کرنے سے قاصر ہے ! Tachyon particle روشنی سے تیز چلنے والا ذرہ ہے ۔ 1967 میں ایک سائنسداں Gerald Feinberg نے اپنے ایک Paper میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ Tachyon کی رفتار روشنی کی رفتار سے تیز ہے ۔ جس ذرہ ( Particle) کی کمیت نہ ( Massless) ہو اس کی رفتار روشنی سے تیز ہوتی ہے ۔ اگرچہ جیرالذ اپنے نظریہ کو ثابت نہیں کرسکے لیکن Mathematical Equation کے مطابق ایسا ہارٹیکل ہوسکتا ہے ۔ نوٹرینو ایک بنیادی ذرہ ہے ۔ اس کی کمیت نہیں ہوتی اس لیے یہ روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز ہے ۔ اطالوی سائنسدانوں نے 2011 میں سائنسی تجربہ کے بعد اس کی توثیق کی تھی ۔ نیوکلیائی طبیعیات کے ' اوپیرا ' تجربہ گاہ میں یہ تجربہ کیا گیا تھا ۔ ایک خصوصی اختیار کردہ " سیرا " شعاع کے ذریعہ اس نتیجہ کی توثیق کی گئی تھی ۔ نیوٹرینو کی ایک شعاع کو سیرن تجربہ گاہ سے جو جنیوا میں قائم ہے ، INFN تجربہ گاہ گریناسوروم روانہ کیے گئے ، وہ 60 نانو سیکنڈ میں اپنی منزل پر پہنچ گئے ۔ ان کی یہ رفتار روشنی کی شعاع کی رفتار سے تیز تھی ۔ اس اعلان کے بعد پوری دنیا میں اس کا بڑا چرچہ رہا ۔ سائنسدانوں نے اس کی رفتار کا بار بار تجربہ کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے حساب ( Calculation) میں بعض خامیاں تھیں ۔ اس لیے اس اعلان کو موقوف کردیا گیا ۔ بعض سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ ا صل دنیا میں ہیں اگر چہ اسے ثابت نہیں کیا جا سکا ہے لیکن کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ اس کا انکار کیا جاسکے ۔ بہر حال یہ نظریہ ابھی زیر تجربہ ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ کبھی اس کی توثیق ہوجائے ۔ اس کے علاوہ سائنسداں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات روشنی کی رفتار سے زیادہ سرعت کے ساتھ پھیل رہی ہے ۔ روشنی سے تیز رفتار سفر کرنا جس کو سائنس تسلیم کر چکی ہے ، 621 کے سفر معراج میں ایک واقعہ بن کر پیش آچکا ہے ۔ وقت کیا ہے ؟ کیا یہ اس یونیورس کا بنیادی حصہ ہے یا اس کا وجود ہی نہیں ہے اور کائنات کو اس کی ضرورت نہیں ہے ، اور نہ وہ کوئی خاص معنی رکھتا ہے ۔ ہم اس کو اپنے دماغ میں بنا تے ہیں ۔ نیورو لوجسٹس اس کی تشریح کرتے ہیں کہ وقت ایک دماغی عمل ہے جو واقعات کے بدلنے کے تناظر میں سمجھا جاتا ہے ۔ وہ وقت کا مستقل وجود تسلیم نہیں کرتے ۔ وقت کائنات میں آنے والے بدلاو کو کہتے ہیں ۔ یہ ایک اضافی relative شئ ہے ۔ سچائی کی گہرائی میں اس کا وجود ہی نہیں ہے ۔ آج سائنسداں اس ضرورت کو محسوس کرنے لگے ہیں کہ فزکس کے قوانین بھی وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔ اب ہمیں تمام equations پر از سر نو نظر ڈالنی ہوگی ۔ ہماری عقل و فہم کی نارسائی اس عالم محسوسات کے مختلف میدانوں میں صاف نظر آتی ہے تو ماورائے محسوسات میں ہماری عقل و فہم اور ادراک کی نارسائی بالکل عیاں ہے ۔ اللہ رب العزت کی پیدا کردہ یہ کائنات بہت وسیع ہے ۔ سائنسدان اس کائنات کے صرف % ٥ حصہ کو ہی جان سکے ہیں باقی % ٩٥ جو ڈالر میٹر اور ڈاکڑ انرجی ہے اس سے وہ ناواقف ہیں ۔ ٢٥ دسمبر ٢٠٢١ کو ناسا نے یورپی خلائی ایجنسی اور کنیڈا کے نیشنل اسپیس ایجنسی کے تعاون سے ایک جیمس ویب ٹیلسکوپ زمین سے ١٥ لاکھ کلومیٹر کی بلندی پر بھیجا( Deploy) کیا ہے ۔ کہا جارہا ہے چھ مہینے بعد جب یہ پوری طرح کام کر ے لگے گا تو اس کے بھیجی ہوئی تصاویر اور معلومات ( Data) سے سائنسدانوں کی معلومات میں بہت اضافہ اور فزکس کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوسکتا ہے ۔ ختم شد ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
As salamualekum,Maulana Abul Hasan Nadvi sahab ke ustad Abdul Muqtadir Farooqui sahab ki jante hain.unka madarsa Raebareli mein Elahiya ke naam se jante hain.
" قوموں کے عروج و زوال کا قانون " ( یو ٹیوب میں اس موضوع پر جاوید غامدی کے جواب کے حوالے سے ) امہ مسلمہ کا عروج و زوال دین سے وابستہ رہنے میں ہے ۔ کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں علامہ اقبال رحمہ دین سے وابستگی کا مطلب ہے قرآن و سنت سے ذہنی ، فکری اور علمی وابستگی ۔ قرآن سے وابستگی کا تقاضا ہے کہ امہ مسلمہ علوم و فنون یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف پوری توجہ کرے اور دوسری قوموں پر اسے تفوق و برتری حاصل ہو ۔ وہ زمانے معزز تھے مسلماں ہوکر اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر علامہ اقبال رحمہ قرآن کی تعلیمات عالمی اور آفاقی ہیں ۔ ان میں دین و دنیا کی جدائی کا سرے سے کوئی تصور نہیں ہے ۔ اسلام میں یہ بحث بالکل لغو اور عبث ہے ۔ یہ تصور خارجی اور اعداء کی سازش کا نتیجہ ہے ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امہ میں دوئی کی یہ بحث کیسے شروع ہوئی ؟ جدید تعلیم یافتہ لوگ اس کا الزام علماء پر لگاتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ دوئی ( ثنویت) یہود و نصاری کی سازش کی وجہ سے امہ مسلمہ میں در آئی ہے ۔ اس کا مقصد امہ مسلمہ کو زوال سے دوچار کرنا تھا ۔ امہ کے خلاف یہود و نصاری کی مسلسل منصوبہ بند خفیہ سازشوں نے اس کے اندر دین و دنیا کی جدائی کا تصور پیدا کردیا ، جس کے نتیجے میں امہ زوال پذیر ہونا شروع ہوگئی ۔ اہل یوروپ نے جب اٹھارویں اور انیسویں صدی میں عالم اسلام پر حملہ کرنا شروع کیا اس وقت تک ہمارے نصاب تعلیم میں ثنویت نہیں تھی ۔ نصاب تعلیم میں دونوں علوم شامل تھے ۔ اہل یوروپ نے علوم و فنون اندلس کے علمی اداروں میں سیکھے لیکن انہوں نے اپنے نصاب سے دینی علوم کو خارج کردیا اور صرف سماجی اور سائنسی علوم کو رکھا ۔ نصاب تعلیم میں عملی طور پر یہاں سے دوئی اور جدائی پیدا ہوئی ۔ مصر پر جب انہوں نے غاصبانہ قبضہ کیا تو وہاں رائج نصاب تعلیم کو خارج کرکے وہ نصاب تعلیم کو رائج کیا جس میں دینی علوم نہیں تھے اور جو جدید اور سائنسی علوم کہلائے حالانکہ یہ علوم انہوں نے اندلس میں مسلمانوں ہی سے سیکھے تھے ۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے اگر مصر کی تاریخ نصاب تعلیم کا مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت سے پردہ اٹھتا ہے کہ کس طرح نصاب تعلیم میں یہ ثنویت پیدا کی گئی تھی ۔ محمد قطب رحمہ اس کا الزام خاص طور پر محمد علی پاشا پر لگایا ہے ۔ ہمارے بزرگان دین نے جب دیکھا کہ اب وہ نصاب تعلیم رائج کردیا گیا ہے جو اسلامی تعلیمات تعلیم و تربیت سے بالکل عاری ہے تو وہ مجبور ہوئے کہ علیحدہ دینی تعلیم و تربیت کے ادارے اور مراکز قائم کریں تاکہ دینی علوم و اسلامی ثقافت کی حفاظت کی جاسکے اور اسے قائم و دائم رکھا جاسکے ۔ اگر اس مختصر تحریر کو پوری گہرائی کے ساتھ سمجھ لیں تو مسلمانوں کو دین و دنیا کی دوئی یا نصاب تعلیم میں ثنویت کی اصل حقیقت سمجھ میں آجائے گی ۔ یہ امہ ایک امہ وسط ہے ۔ اس میں افراط اور تفریط نہیں ہے اعتدال اس امہ کی بہت بڑی خصوصیت اور امتیاز ہے ۔ اب حکومتی ملازمتیں اسی نام نہاد " جدید اور عصری " تعلیم یافتہ کو ملنے لگیں اور دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ان سے محروم ہوگئے ۔ یہ جدید تعلیم و تربیت سے آراستہ طبقہ علماء کی مخالفت میں کمربستہ ہوگیا اور آج تک ہے ۔ اللہ ان سے عام مسلمانوں اور دینی مدارس کی حفاظت فرمائے ۔ یہ مختصر تحریر ہے ۔ اللہ اس کو مفید بنائے اورمسلمانوں کو صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
Maulana ne hind or duniya ke musalmano ko kayi jaroori hint di thi future ke bare me ke unko chahiye sahi tareeke se islam per amal karen or apne akhlaqi pehlu ko tarashna hoga.. Aise hi unhone barma yaani myanmar ke muslims ko bhi kuch hidayat di thi ke tumhare paas bas 8 saal hai apni dawati jimmedar puri karne ke liye.. Otherwise jo tumahre liye dilo me misconception aa rahi hai agar wo tumne apne akhlaqi jimmedari puri karke door nahi ki to koi namaz roja tumhe nahi bacha payegi... Aisa hi kuch haal India ke muslims ka hai.. Time kam hai kaam jyada.. Let's see what happens....
آپ کس کی فکرِ سے متفق ہیں، میں نے تو جب بھی دیکھا، آپ یے ہی کہتے ہیں کہ اگر چ میں اُن کا احترام کرتا ہوں لیکِن ضروری نہیں کہ میں اُن سے اتفاق بھی کروں۔ پوری اُمت میں آپ منفرد ہیں، آپ کو سب کے ساتھ اعتراض ہے۔
Mere pass bahut si book hain jo kharab ho rahi hain.jisme aurangzeb ke hath ke kalam paak Jo gold & other ink se likha gaya hai.aur bahut se book hain.
برائے مہربانی امام ابن تیمیہ پر بھی ویڈیو بنا ہیں پلیز اللہ اپ کو لمبی عمر دے
اور ساتھ ابن قیم کے بھی
جزاک اللہ خیرا ❣️ غامدی صاحب نے علی میاں کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کو بہت عمدہ پیرائے میں بیان کیا ھے ماشاءاللہ ماشاءاللہ 💓
جزاک اللہ
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ۔
بہت خوب تعارف ۔
جچا تلا مناسب صحیح تبصرہ گیا ہے۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔
خود غامدی صاحب بھی اپنے تفردات سے پرہیز کریں تو زیادہ مفید ثابت ہوتے ۔۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا
بہترین گفتگو ! ❤
الحمد لله أنا من الندويين و افتخر على هذا
Great translation faizan
ASSALAMOALAIKUM My Honorable Ustaz e Muhtaram,
May ALLAH KAREEM Shower HIS Countless Blessings on your kind self and your Respected Family (Aameen).
امين
رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ
عالم انسانیت کے لیے آخری کتاب ہدایت
رمضان المبارک کو قرآن مجید سے ایک خاص نسبت ہے ۔ قرآن کریم کی اس ماہ مبارک سے نسبت کا ذکر خود قرآن میں اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے :
إنا انزلناه في ليلة القدر o ليلة القدر خير من ألف شهر o
ہم نے اس کو (قرآن ) نازل کیا شب قدر میں جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے "۔
قرآن پاک کی اس ماہ مبارک سے نسبت خود قرآن میں آیا ہے ۔ اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت کا ذکر ہے اور اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت اور فضیلت کو بیان کرتے ہوئے قرآن کی عظمت کی طرف اشارے کیے گئے ہیں :
" رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں "
دوسری خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی آیات میں ہدایت کی واضح نشانیاں اور دلائل ہیں ۔ یہ ڈر حقیقت ایک کتاب ہدایت ہے
ابتداء آفرینش سے اللہ جل شانہ کے پیش نظر نوع انسانی کی ہدایت رہی ہے ۔
اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے :
قلنا اهبطوا منها جميعا ، فإما يأتيكم منى هدى فمن تبع هداى فلا خوف عليهم ولا هم يحزنون o
ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اترجاؤ ، پھر میری طرف سے جو ہدایت تمہارے پہنچے
تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے تو ان کو کوئی خوف اور حزن نہ ہوگا ۔
اگلی آیہ میں فرمایا :
والذين كفروا و كذبوا باياتنا أولئك أصحاب النار هم فيها خالدون o
اور جو لوگ اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائین گے ، وہ آگ میں رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ
رمضان المبارک کو قرآن مجید سے ایک خاص نسبت ہے ۔ قرآن کریم کی اس ماہ مبارک سے نسبت کا ذکر خود قرآن میں اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے :
إنا انزلناه في ليلة القدر o ليلة القدر خير من ألف شهر o
ہم نے اس کو (قرآن ) نازل کیا شب قدر میں جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے "۔
قرآن پاک کی اس ماہ مبارک سے نسبت خود قرآن میں آیا ہے ۔ اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت کا ذکر ہے اور اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت اور فضیلت کو بیان کرتے ہوئے قرآن کی عظمت کی طرف اشارے کیے گئے ہیں :
" رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں "
دوسری خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی آیات میں ہدایت کی واضح نشانیاں اور دلائل ہیں ۔ یہ ڈر حقیقت ایک کتاب ہدایت ہے
ابتداء آفرینش سے اللہ جل شانہ کے پیش نظر نوع انسانی کی ہدایت رہی ہے ۔
اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے :
قلنا اهبطوا منها جميعا ، فإما يأتيكم منى هدى فمن تبع هداى فلا خوف عليهم ولا هم يحزنون o
ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اترجاؤ ، پھر میری طرف سے جو ہدایت تمہارے پہنچے
تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے تو ان کو کوئی خوف اور حزن نہ ہوگا ۔
آدم علیہ السلام کو کرہ ارض پر بھیجتے وقت جو بات کہی گئی کہ زمین پر تم کو یونہی نہیں چھوڑ دیا جائے گا بلکہ تم تک ( سے بنی نوع انسان ) میرا پیغام ہدایت پہنچتا رہے گا
اور تم کو ان ہدایات کے مطابق زندگی بسر کرتے رہنا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنی زندگی میں خوف و حزن سے محفوظ رہوگے ۔
اس کے مقابلے میں انسانوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو اللہ جل شانہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے سے انکار کردے گا ۔
وہ لوگ گمراہی کے مختلف راستوں پر چلنے والے ہوں گے ۔ ان کا انجام جہنم کی آگ ہے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔۔
اللہ جل شانہ کی یہ ہدایت انبیاء علیہم السلام لے آتے رہے ۔ اللہ کی یہ ہدایت انسانی تاریخ کے مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے رمضان المبارک میں نزول قرآن پر مکمل کردیا گیا
اور اب پوری عالم انسانیت کے لیے صرف قرآن ہی آخری کتاب ہدایت ہے ۔ یہ نسل انسانی کے لیے ابتدائے آفرینش سے قیامت تک کے لیے اللہ کا مستقل فرمان ہے اور اسی کو " عہد " تعبیر کیا گیا ہے ۔ انسان کا کام خود اپنے لیے کوئی راستہ اختیار کرنا نہیں ہے ، بلکہ بندہ اور خلیفہ ہونے کی دو گونہ حیثیتوں کے لحاظ سے وہ اس پر مامور ہے کہ اللہ کی بھیجی ہوئی آخری کتاب ہدایت کی مکمل پیروی کرے
اس کے علاوہ ہر صورت غلط ہی نہیں سراسر بغاوت ہے جس کی سزا دائمی جہنم کے عذاب کے سوا اور کچھ نہیں ۔
جاری
Masha allah❤
مین مولا.نا ابوالحسن، صاحب کی تمام کتب کــا مطالعہ کیا مگراس مین جدت نھین سب سـے بڑانقصان .ندوہ العماء کاھواشبلی نےجو ندوہ سو چاتھا ان کــی فکر کو نقصان پہنچا یا
مولانا کی فکر قدیم صالح اور جدید نافع کے طرز پر تھا۔
لیکن تمہارے دین بیزاری کو کیا کرے
MASHAALLAH
الله يحفظك
Well said about ali miyan
مولانا علی میاں رح بہت جامع اور با معنی گفتگو جناب غامدی صاحب کی، اقبال کے تعلق سے جو پہلو غامدی صاحب نے واضح کیا وہ صد فیصد واقعی ہے، مولانا علی میاں ندوی رح کی مجلس کا واقعہ ہے کہ ایک صاحب اقبال کے کلام کو بہت عمدگی کے ساتھ پڑھتے تھے ،مجلس میں شریک ایک عالم دین غالباً مولانا نذر الحفیظ صاحب ندوی نے عرض کیا کہ حضرت،یہ صاحب اقبال کا کلام بہت عمدہ پڑھتے ہیں اور وقفہ وقفہ سے تین مرتبہ مولانا علی میاں ندوی رح کی توجہ مبذول کروانی چاہی کہ کچھ سن لیا جائے لیکن مولانا علی میاں صاحب نے کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا حاضرین کو بڑا تعجب ہوا کہ اقبال کا اتنا بڑا شیدائی اقبال کا کلام سننے کی خواہش کیوں نہیں کر رہا ، بعد میں استفسار کرنے پر ایک سرد آ ہ بھرتے ہوئے جواب دیا کہ اقبال کا کلام سننے کے بعد آپ سب حضرات تو آرام سے جاکر سوجائیں گے اور نیند آجائگی مگرمیری رات کرب و بے چینی میں کروٹیں بدلتے گزرے گی۔
حقیقت یہی ہے کہ علی میاں صاحب کی شخصیت پر علامہ اقبال کی شخصیت کا رنگ اتنا ہی غالب تھا
Bhatreen insan the
Very good analysis
Ap ko sun kr faida hota he.
معراج الرسول صلی اللہ علیہ وسلم
جدید خلائی سائنس کی روشنی میں
( 4 )
واقعہ معراج اللہ جل شانہ جو اپنے بارے میں ارشاد فرمایا ہے :
بديع السموات والأرض إذا قضى أمرا فإنما يقول له كن فيكون o ( البقرة : ١١٧ )
( وہ اللہ کی ذات ) سب آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ۔ جب وہ ایک امر کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لیے صرف اتنا کہنا کافی ہوتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے ۔" ۔
کی غیر محدود قوت اور قدرت کاملہ کا مظاہرہ تھا ۔ آج کا دور خلائی تحقیقات اور اس سے متعلق مختلف نظریات کا دور ہے ۔ اس لیے ساتویں صدی کے ابتدائی زمانہ کے مقابلہ میں اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اس محیر العقول واقعہ کو سمجھنا کچھ آسان ہوگیا ہے ۔
اس سلسلے میں البرٹ آئنسٹائن کا نظریہ
Special Theory of Relativity قابل ذکر ہے
اس کے مطابق وقت ایک اضافی شئ ہے جو
Frame of reference
کے ساتھ الگ الگ ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص زمین پر ہے تو اس کا وقت الگ ہوگا اور دوسرا شخص اگر گہرے خلا میں سفر کر رہا ہے تو اس کا وقت الگ ہوگا ۔ اس نے وقت ( زمان ) اور خلا ( مکان ) کو ایک دوسرے سے مربوط کرکے زمان و مکان ( Space and Time) کو مخلوط شکل میں پیش کیا ہے
روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر ہے اور یہ مستقل ( Constant) ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر ایک شخص ایک خلائی جہاز ( Spaceship) میں سوار ہو کر خلا میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتا ہے تو وقت اس کے لیے رک جائے گا ، اس کا سفر خواہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو صفر وقت ( No Time ) میں ہوگا ۔
سفر معراج جبرئیل ، میکائیل علیہما السلام اور دیگر ملائکہ کی معیت میں براق پر ہوا تھا ۔
یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔ براق جنت سے لائی ہوئی ایک نوری سواری تھی جو اللہ جل شانہ کی طرف سے بھیجی گئی تھی ۔
آئنسٹائن نے جس روشنی کی رفتار کا ذکر کیا ہے وہ ہماری معلوم دنیا کی روشنی ہے ۔ براق کی نوری سواری اپنی کیفیت میں اس روشنی سے بالکل مختلف ہے ۔ ہم صرف اتنا کہ سکتے ہین کہ اس نور کی سواری کی سرعت کا تصور آج کی سائنس کرنے سے قاصر ہے !
Tachyon particle
روشنی سے تیز چلنے والا ذرہ ہے ۔ 1967 میں ایک سائنسداں Gerald Feinberg نے اپنے ایک Paper میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ Tachyon کی رفتار روشنی کی رفتار سے تیز ہے ۔ جس ذرہ ( Particle) کی کمیت نہ ( Massless) ہو اس کی رفتار روشنی سے تیز ہوتی ہے ۔ اگرچہ جیرالذ اپنے نظریہ کو ثابت نہیں کرسکے لیکن Mathematical Equation کے مطابق ایسا ہارٹیکل ہوسکتا ہے ۔
نوٹرینو ایک بنیادی ذرہ ہے ۔ اس کی کمیت نہیں ہوتی اس لیے یہ روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز ہے ۔ اطالوی سائنسدانوں نے 2011 میں سائنسی تجربہ کے بعد اس کی توثیق کی تھی ۔ نیوکلیائی طبیعیات کے ' اوپیرا ' تجربہ گاہ میں یہ تجربہ کیا گیا تھا ۔ ایک خصوصی اختیار کردہ " سیرا " شعاع کے ذریعہ اس نتیجہ کی توثیق کی گئی تھی ۔ نیوٹرینو کی ایک شعاع کو سیرن تجربہ گاہ سے جو جنیوا میں قائم ہے ، INFN تجربہ گاہ گریناسوروم روانہ کیے گئے ، وہ 60 نانو سیکنڈ میں اپنی منزل پر پہنچ گئے ۔ ان کی یہ رفتار روشنی کی شعاع کی رفتار سے تیز تھی ۔
اس اعلان کے بعد پوری دنیا میں اس کا بڑا چرچہ رہا ۔ سائنسدانوں نے اس کی رفتار کا بار بار تجربہ کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے حساب ( Calculation) میں بعض خامیاں تھیں ۔
اس لیے اس اعلان کو موقوف کردیا گیا ۔
بعض سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ ا صل دنیا میں ہیں اگر چہ اسے ثابت نہیں کیا جا سکا ہے لیکن کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ اس کا انکار کیا جاسکے ۔ بہر حال یہ نظریہ ابھی زیر تجربہ ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ کبھی اس کی توثیق ہوجائے ۔ اس کے علاوہ سائنسداں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات روشنی کی رفتار سے زیادہ سرعت کے ساتھ پھیل رہی ہے ۔
روشنی سے تیز رفتار سفر کرنا جس کو سائنس تسلیم کر چکی ہے ، 621 کے سفر معراج میں ایک واقعہ بن کر پیش آچکا ہے ۔
وقت کیا ہے ؟ کیا یہ اس یونیورس کا بنیادی حصہ ہے یا اس کا وجود ہی نہیں ہے اور کائنات کو اس کی ضرورت نہیں ہے ، اور نہ وہ کوئی خاص معنی رکھتا ہے ۔ ہم اس کو اپنے دماغ میں بنا تے ہیں ۔ نیورو لوجسٹس اس کی تشریح کرتے ہیں کہ وقت ایک دماغی عمل ہے جو واقعات کے بدلنے کے تناظر میں سمجھا جاتا ہے ۔ وہ وقت کا مستقل وجود تسلیم نہیں کرتے ۔
وقت کائنات میں آنے والے بدلاو کو کہتے ہیں ۔ یہ ایک اضافی relative شئ ہے ۔ سچائی کی گہرائی میں اس کا وجود ہی نہیں ہے ۔ آج سائنسداں اس ضرورت کو محسوس کرنے لگے ہیں کہ فزکس کے قوانین بھی وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔ اب ہمیں تمام equations پر از سر نو نظر ڈالنی ہوگی ۔
ہماری عقل و فہم کی نارسائی اس عالم محسوسات کے مختلف میدانوں میں صاف نظر آتی ہے تو ماورائے محسوسات میں ہماری عقل و فہم اور ادراک کی نارسائی بالکل عیاں ہے ۔ اللہ رب العزت کی پیدا کردہ یہ کائنات بہت وسیع ہے ۔ سائنسدان اس کائنات کے صرف % ٥ حصہ کو ہی جان سکے ہیں باقی
% ٩٥ جو ڈالر میٹر اور ڈاکڑ انرجی ہے اس سے وہ ناواقف ہیں ۔
٢٥ دسمبر ٢٠٢١ کو ناسا نے یورپی خلائی ایجنسی اور کنیڈا کے نیشنل اسپیس ایجنسی کے تعاون سے ایک جیمس ویب ٹیلسکوپ
زمین سے ١٥ لاکھ کلومیٹر کی بلندی پر
بھیجا( Deploy) کیا ہے ۔ کہا جارہا ہے چھ مہینے بعد جب یہ پوری طرح کام کر ے لگے گا
تو اس کے بھیجی ہوئی تصاویر اور معلومات ( Data) سے سائنسدانوں کی معلومات میں بہت اضافہ اور فزکس کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوسکتا ہے ۔
ختم شد
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
ڈائرکٹر
آمنہ انسٹیٹوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
A Global and Universal Research Institute
nadvilaeeque@gmail.com
A very helpful translation Faizan, keep up the great work
Kya ap gamhidi sb ko sunti hain?
As salamualekum,Maulana Abul Hasan Nadvi sahab ke ustad Abdul Muqtadir Farooqui sahab ki jante hain.unka madarsa Raebareli mein Elahiya ke naam se jante hain.
Can anyone plz tell me the name of the book in which Maulana Ali miya written about the buzurg of Bar E Sageer.
پرانے چراغ
پاجا سراغ زندگی
اذا ہبت ریح الایمان
ماذا خسر العالم بأنحطاط المسلمین
Tareekhe dawato azeemat
❤️❤️
تاریخ دعوت وعزیمت
" قوموں کے عروج و زوال کا قانون "
( یو ٹیوب میں اس موضوع پر جاوید غامدی
کے جواب کے حوالے سے )
امہ مسلمہ کا عروج و زوال دین سے وابستہ رہنے میں ہے ۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
علامہ اقبال رحمہ
دین سے وابستگی کا مطلب ہے قرآن و سنت سے ذہنی ، فکری اور علمی وابستگی ۔ قرآن سے وابستگی کا تقاضا ہے کہ امہ مسلمہ علوم و فنون یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف پوری توجہ کرے اور دوسری قوموں پر اسے تفوق و برتری حاصل ہو ۔
وہ زمانے معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
علامہ اقبال رحمہ
قرآن کی تعلیمات عالمی اور آفاقی ہیں ۔ ان میں دین و دنیا کی جدائی کا سرے سے کوئی تصور نہیں ہے ۔ اسلام میں یہ بحث بالکل لغو اور عبث ہے ۔ یہ تصور خارجی اور اعداء کی سازش کا نتیجہ ہے ۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امہ میں دوئی کی یہ بحث کیسے شروع ہوئی ؟ جدید تعلیم یافتہ لوگ اس کا الزام علماء پر لگاتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ دوئی ( ثنویت) یہود و نصاری کی سازش کی وجہ سے امہ مسلمہ میں در آئی ہے ۔ اس کا مقصد امہ مسلمہ کو زوال سے دوچار کرنا تھا ۔ امہ کے
خلاف یہود و نصاری کی مسلسل منصوبہ بند خفیہ سازشوں نے اس کے اندر دین و دنیا کی جدائی کا تصور پیدا کردیا ، جس کے نتیجے میں امہ زوال پذیر ہونا شروع ہوگئی ۔
اہل یوروپ نے جب اٹھارویں اور انیسویں صدی میں عالم اسلام پر حملہ کرنا شروع کیا اس وقت تک ہمارے نصاب تعلیم میں ثنویت نہیں تھی ۔ نصاب تعلیم میں دونوں علوم شامل تھے ۔
اہل یوروپ نے علوم و فنون اندلس کے علمی اداروں میں سیکھے لیکن انہوں نے اپنے نصاب
سے دینی علوم کو خارج کردیا اور صرف سماجی اور سائنسی علوم کو رکھا ۔ نصاب تعلیم میں عملی طور پر یہاں سے دوئی اور جدائی پیدا ہوئی ۔
مصر پر جب انہوں نے غاصبانہ قبضہ کیا تو وہاں رائج نصاب تعلیم کو خارج کرکے وہ نصاب تعلیم کو رائج کیا جس میں دینی علوم نہیں تھے اور جو جدید اور سائنسی علوم کہلائے حالانکہ یہ علوم انہوں نے اندلس میں مسلمانوں ہی سے سیکھے تھے ۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
اگر مصر کی تاریخ نصاب تعلیم کا مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت سے پردہ اٹھتا ہے کہ کس
طرح نصاب تعلیم میں یہ ثنویت پیدا کی گئی تھی ۔ محمد قطب رحمہ اس کا الزام خاص طور پر محمد علی پاشا پر لگایا ہے ۔
ہمارے بزرگان دین نے جب دیکھا کہ اب وہ نصاب تعلیم رائج کردیا گیا ہے جو اسلامی تعلیمات تعلیم و تربیت سے بالکل عاری ہے تو وہ مجبور ہوئے کہ علیحدہ دینی تعلیم و تربیت کے ادارے اور مراکز قائم کریں تاکہ دینی علوم و اسلامی ثقافت کی حفاظت کی جاسکے اور اسے قائم و دائم رکھا جاسکے ۔
اگر اس مختصر تحریر کو پوری گہرائی کے ساتھ سمجھ لیں تو مسلمانوں کو دین و دنیا کی دوئی یا نصاب تعلیم میں ثنویت کی اصل حقیقت سمجھ میں آجائے گی ۔ یہ امہ ایک امہ وسط ہے ۔ اس میں افراط اور تفریط نہیں ہے
اعتدال اس امہ کی بہت بڑی خصوصیت اور امتیاز ہے ۔
اب حکومتی ملازمتیں اسی نام نہاد " جدید اور عصری " تعلیم یافتہ کو ملنے لگیں اور
دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ان سے محروم ہوگئے ۔ یہ جدید تعلیم و تربیت سے آراستہ طبقہ علماء کی مخالفت میں کمربستہ ہوگیا
اور آج تک ہے ۔ اللہ ان سے عام مسلمانوں اور دینی مدارس کی حفاظت فرمائے ۔ یہ مختصر تحریر ہے ۔ اللہ اس کو مفید بنائے اورمسلمانوں کو صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
nadvilaeeque@gmail.com
Maulana ne hind or duniya ke musalmano ko kayi jaroori hint di thi future ke bare me ke unko chahiye sahi tareeke se islam per amal karen or apne akhlaqi pehlu ko tarashna hoga..
Aise hi unhone barma yaani myanmar ke muslims ko bhi kuch hidayat di thi ke tumhare paas bas 8 saal hai apni dawati jimmedar puri karne ke liye.. Otherwise jo tumahre liye dilo me misconception aa rahi hai agar wo tumne apne akhlaqi jimmedari puri karke door nahi ki to koi namaz roja tumhe nahi bacha payegi...
Aisa hi kuch haal India ke muslims ka hai..
Time kam hai kaam jyada..
Let's see what happens....
ڈاکٹر حمیداللہ صدیقی صاحب جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل ان کے حوالے سے بھی وی لاگ کریں اور ان سے علما کے اختلاف کی وجہ؟
آپ کس کی فکرِ سے متفق ہیں، میں نے تو جب بھی دیکھا، آپ یے ہی کہتے ہیں کہ اگر چ میں اُن کا احترام کرتا ہوں لیکِن ضروری نہیں کہ میں اُن سے اتفاق بھی کروں۔ پوری اُمت میں آپ منفرد ہیں، آپ کو سب کے ساتھ اعتراض ہے۔
Mere pass bahut si book hain jo kharab ho rahi hain.jisme aurangzeb ke hath ke kalam paak Jo gold & other ink se likha gaya hai.aur bahut se book hain.
So what we do
علامہ صاحب کی طبیعت کچھ نا ساز لگتی ہے-