Quran Majeed Ka Muqam | Ilm o Hikmat With Javed Ahmad Ghamidi | 2 May 2021 | Dunya News | HM1I

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 16 лис 2024

КОМЕНТАРІ • 3

  • @muhammadrehmansaeed9727
    @muhammadrehmansaeed9727 3 роки тому

    Sir please when you refer some Ayet, narrate its number and surah.some words used by use also demand explanation.

  • @quranacademicstudy
    @quranacademicstudy 2 роки тому

    ا نسان کو اعزازاورتکریم کے ساتھ ارادے اور فیصلے کرنے میں خود مختار حیثیت میں زمین پر ایک معینہ مدت کیلئے بھیج دیا گیا اور زمین پر خوشگوار قیام اور جنت الفردوس میں واپس آنے کا نسخہ اور راستہ ان الفاظ میں بتا دیا گیا:
    فَإِمَّا يَأْتِـيَنَّكُـم مِّنِّى هُدٙى
    اس طرح زمین میں آباد ہونے پرجب تم معاشرہ بن چکے ہوگے تو جب جب ہدایت نامہ تم لوگوں تک پہنچ جائے جس کا آغاز اور اجرا میری جانب سے ہو گا:۔
    فَمَن تَبِــعَ هُدَاىَ
    تواُس وقت جنہوں نے میرےہدایت نامہ (کتاب کی آیات )کی اس انداز میں پیروی کی کہ اس کےاور اپنی عقل کے مابین کسی اور بات کو حائل نہیں ہونے دیا۔
    فَلَا خَوْفٌ عَلَيْـهِـمْ
    تو نتیجے میں (یوم قیامت)خوف ایسے لوگوں پر نہیں چھائے گا۔
    وَلَا هُـمْ يَحْـزَنُونَ.٣٨
    [اور نہ یہ لوگ غم و ملال سے دوچار ہوں گے۔[حوالہ البقرۃ۔۳۸
    اس ذیلی جملے میں فعل کا فاعل"هُدٙى"ہے جو کہ مطلق نکرہ ہے۔اس کو واضح اور متبین کرنے کے لئےجار و مجرور"مِّنِّى"فعل اور فاعل سے متعلق ہیں جس میں حرف جر۔إبتداء الغاية۔کے لئے ہے۔یہ زمان و مکان میں ایسے فعل کی ابتدا ظاہر کرتا ہے جس میں ایک مقام سے دوسرے مقام کی جانب متحرک ہونا پایا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ منبع ہدایت وہ جناب ہیں اور اس کو بھیجنے کی ابتدا اور اس کا اجرا ان کی جانب سے ہو گا۔اور یہ بھی واضح فرما دیا کہ اس ہدایت کا اطلاق تمام پر ہو گا،اس کا تعلق خفیہ اور محض انفرادی نہیں بلکہ طشت از بام ہو گا۔
    اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہدایت بھیجے جانے اور موصول کنندہ انسان کے مابین ذریعہ اور رابطہ بیان نہیں فرمایا۔مگر انکار اور تکذیب کرنے والوں کا انجام بتاتے ہوئے واضح کر دیا تھا کہ ہدایت نامہ "آیات"کی صورت میں ہو گا۔
    وَٱلَّذِينَ كَفَـروا۟ وَكَذَّبُوا۟ بِـٔ⁠​َايَٟتِنَآ
    ذہن نشین کر لو کہ وہ لوگ جنہوں نے ہمارے رسول کا انکارکر دیا اور ہماری پہنچائی گئی آیتوں (کتاب کے مندرجات /مافوق الفطرت شئے کا مشاہدہ کرانا)کو لوگوں کے سامنے برملا جھٹلادیا:
    أُو۟لَـٟٓئِكَ أَصْحَـٟـبُ ٱلنَّارِۖ
    تو یہی ہیں وہ لوگ جو زندان جہنم میں رہنے والے ہوں گے۔
    هُـمْ فِيـهَا خَٟلِدُونَ.٣٩
    [یہ لوگ ہمیشہ اس (تپتی جہنم) کے اندر رہیں گے۔[البقرۃ۔۳۹
    عربی کا لفظ"هُدٙى"مذکراور "ءَايَٟتٚ"واحد"ءَايَةٚ" مؤنث ہیں۔یہ ہدایت کی اکائیاں ہیں جن میں ہدایت کی جزیات کو سمویا گیا ہے۔
    مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ ہدایت نامہ بصورت آیات انسان کو کس ذریعے سے پہنچے گا۔مگر اس جملے میں اظہار موجود تھا کہ درمیان میں ایک رابطہ کار ہو گا۔
    اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ نباہنے کے لئے وسیلہ،توسط کن کو بنایا؟ارشاد فرمایا:
    كَانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةٙ وَٟحِدَةٙ
    زمان میں ایک وقت ایسا بھی رہا ہے جب انسان ایک ہم خیال وحدت تھے۔
    فَبَعَثَ ٱللَّهُ ٱلنَّبِيِّــۧنَ مُبَشِّـرِينَ وَمُنذِرِينَ
    بسبب انسانوں کے مابین نظریاتی اختلاف پیدا ہو جانے پر اللہ تعالیٰ نے ازخود سے چنے اورتمام پر اشرف اور محترم قرار دئیے مخلص بندوں(نبیوں)کو حریت پرلگائی گئی قیود سے آزاد کرنے کے لئے مقرر فرمایا۔ان کے ذمہ مبنی بر حقیقت طرز عمل اپنانے والوں کو خوش کن نتائج کی بشارت/ضمانت دینا اور باطل طرز عمل پر گامزن لوگوں کو لازمی تکلیف دہ عواقب سے متنبہ کرنا تھا۔
    وَأَنزَلَ مَعَهُـمُ ٱلْـكِـتَٟبَ بِٱلْحَقِّ
    اور ان جناب نے ان تمام(نبیوں)کے ہمراہ ان کے کلام پر مشتمل مخصوص کتاب کو موقع محل کی مناسبت سے مجتمع انداز میں نازل فرمایا تھا۔
    لِيَحْكُـمَ بَيْـنَ ٱلنَّاسِ فِيمَا ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِۚ
    مقصد یہ تھا کہ وہ(اللہ تعالیٰ/کتاب)ان باتوں کے متعلق لوگوں کے مابین فیصلہ کر دے جن میں وہ باہمی اختلاف رکھتے تھے۔(حوالہ البقرۃ۔213)
    ہدایت کی اتباع اور آیات کے انکار اور تکذیب کے نتائج بشارت اور انتباہ تھے۔ہدایت کو بھیجنے کا وسیلہ اور توسط جن کو بنایا انہیں اللہ تعالیٰ نے ایک منفرد نام سے بیان فرمایا"ٱلنَّبِيِّــۧنَ"اور مرفوع "ٱلنَّبِيُّونَ"ٓ ۔ جس کا واحد "ٱلنَّبِىُّ"ہے۔اور جمع مکسر"ٱلۡأَنۢبِيَآءَ"ہے۔ان کو اس حالت میں مبعوث فرمایا کہ ہر ایک کے ہمراہ،معیت میں مدون حالت میں منفرد کتاب کو نازل فرمایا تھا جسےان کے زمان و مکان کے ماحول، تناظر کے تقاضوں کے مطابق فیصلوں کے لئے سر چشمہ ہدایت قرار دیا گیا۔اس طرح تمام زمان و مکان کے لئے مساوی اصول کوبرقرار رکھا گیا کہ منبع ہدایت اللہ تعالیٰ اور سر چشمہ ہدایت اپنے اپنے زمان میں نبیوں پر نازل کردہ منفرد کتاب:
    لِـكُلِّ أَجَلٛ كِتَابٚ
    ایک کتاب کوہر ایک دور میں لوگوں کی رہنمائی کے لئے ہر ایک رسول کے ساتھ نازل کیا گیا تھا۔(حوالہ الرعد۔۳۰)
    يَـمْحُوا۟ ٱللَّهُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُۖ
    اللہ تعالیٰ جس کے متعلق فیصلہ کرتے ہیں اسے محو فرما دیتے ہیں؛اورجس(کتاب/متن)کے متعلق چاہتے ہیں اسے دوام دے دیتے ہیں۔
    وَعِندَهُۥٓ أُمُّ ٱلْـكِـتَٟبِ .٣٩
    اور ام الکتاب(تمام تخلیق کے متعلق منبع علم)ان جناب کے پاس محفوظ اور پوشیدہ حالت میں موجود ہے۔(الرعد۔۳۹)
    وَمَآ أَهْلَـكْنَا مِن قَرْيَةٛ إِلَّا وَلَـهَا كِتَٟبٚ مَّعْلُومٚ .٤
    مطلع رہو؛ہم جناب نے بستیوں میں کسی ایک بستی کے لوگوں کو بھی صفحہ ہستی سے نہیں مٹایاماسوائے ان حالات میں کہ ایک معلوم کتاب کوان کی ہدایت کے لئے نازل کیا ہوا تھا۔(الحجر۔۴)
    اس طرح واضح ہے کہ ہدایت، آیات،نبیّ،اللہ تعالیٰ کے کلام پر مشتمل مدون کتاب،اور ان تمام کا کردار بشیر اور نذیر ایک ہی تصور،مضمون (semantic frame) کا ڈھانچہ بناتے ہیں جو اس طرح سے آپس میں مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کے متعلق مکمل علم کا ادراک نہیں ہو سکتا جب تک تمام کو بیک وقت پیش نظر رکھا جائے۔

  • @quranacademicstudy
    @quranacademicstudy 2 роки тому

    آقائے نامدار،رسول کریم محمد ﷺ کی جانب وحی فرمائے گئے قرءان مجید کے متعلق سورۃ فاطر کی آیت۔۳۱ میں بتایا کہ یہ ’’مِنَ ٱلْـكِـتَٟبِ‘‘یعنی مخصوص کتاب کے مندرجات میں سے ہے۔یہ جار و مجرورجملے میں ’’حال‘‘سے متعلق ہے۔بلاغت کے اصول کے تحت اس کتاب کے متعلق متکلم اور مخاطب دونوں کو معلوم ہے کہ کس مخصوص کتاب کا حوالہ ہے۔اور اس موضوع پر دوسرے مقامات پر بیان سے دوسروں کے لئے واضح ہو جاتا ہے کہ ام الکتاب کا حوالہ ہے جس میں سے حسب وعدہ تمام انبیاء علیہم السلام کو وحی کیا گیا۔اگر ہم تصریف آیات کے انداز بیان کو یاد رکھیں تو کسی بھی مقام پر محذوف بات کو دوسرے مقام سے ازخود متعین کر سکتے ہیں۔قرءان مجید کے متعلق ہم نے پڑحا’’مُصَدِّقٙا لِّمَا بَيْـنَ يَدَيْه‘‘ ۔ اور مکمل بات کو المائدہ کی آیت ۔۴۸ میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ’’مُصَدِّقٙا لِّمَا بَيْـنَ يَدَيْهِ مِنَ ٱلْـكِـتَٟبِ‘‘۔قرءان مجید خود’’مِنَ ٱلْـكِـتَٟبِ ‘‘ہےاور جس تمام کی تصدیق کرتا ہے وہ بھی ’’مِنَ ٱلْـكِـتَٟبِ‘‘ہے ۔ مگر دونوں میں فرق بتایا:
    وَمُهَيْمِنٙا عَلَيْهِۖ
    اوراس(قرءان)کی حیثیت اس پر(جو قبل ازیں کتابوں میں نازل ہوا)اہم اور فائز ہے۔(حوالہ المائدہ۔۴۸)
    اسم فاعل’’مُهَيْمِنٙا‘‘اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ میں سے ہے اور قرءان مجید میں صرف دو بار استعمال ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ میں ابدیت کا عنصر ہے۔ اور قرءان مجید کا ’’حال‘‘بیان کرتا یہ اسم فاعل کس پر ہے؟بتایا ’’عَلَيْهِ‘‘۔اس جار و مجرور میں حرف جر کے معنی کسی شئے پر،اس کے اوپر ہونا ہے۔اس کی متصل واحد مذکر غائب کی ضمیرماضی میں نازل/ وحی کردہ کو راجع ہے۔اس کا مادہ ’’ھ۔ی۔م۔ن‘‘اور اس لفظ کے معنی جناب ابن فارس نے ’’االشاهد‘‘گواہ، شہادت دینے والا،تصدیق کرنے والالکھے ہیں ۔اور صاحب محیط نے ’’حافِظاً‘‘۔ عربی۔انگلش ڈکشنری المورید میں اس کے معنیascendancy, supremacy , preponderance لکھے ملتے ہیں جن کا اردو میں مطلب زیادہ اہم، بلند، بالا دست ہیں ۔ یہ معنی اور مفہوم ایک دوسرے مقام سے واضح ہیں:
    وَإِنَّهُۥ فِـىٓ أُمِّ ٱلْـكِـتَٟبِ لَدَيْنَا لَعَلِـىٌّ حَكِيـمٌ .٤
    اور اِس(عربی میں تالیف و تدوین دیا متن بعنوان قرءان)کے متعلق حقیقت جان لو،بلاشبہ یہ ہمیشہ سے ام الکتاب کے مندرجات میں اعلی ترین مقام رکھتا ہے؛وہ(ام الکتاب)ہمارے پاس محفوظ ہے۔یہ(قرءان)حکمت و دانائی اور پنہاں حقیقتوں کو سموئے ہوئے ہے۔(الزخرف۔۴)
    اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کا کردار بشیر اور نذیر بتایا ہے۔اور آقائے نامدار،رسول کریم ﷺ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:
    يَـٰٓأَيُّـهَا ٱلنَّبِىُّ
    اے ہمارے اپنےلئے مختص کردہ اور کائنات کے لئےبرگزیدہ قرار پائے بندے(محمد ﷺ)
    إِنَّـآ أَرْسَلْنَٟكَ شَٟهِدٙا وَمُبَشِّـرٙا وَنَذِيرٙا .٤٥
    حقیقت یہ ہے کہ ہم جناب نے آپ(ﷺ)کوزمین پر بھیجا ہے بحثیت گواہ/تصدیق کنندہ؛ اورخوش کن نتائج کی خبر اور ضمانت دینے والے،اور زمان و مکان میں کفر و نافرمانیوں کے خوفناک انجام سے پیشگی خبردار اور انتباہ کرنے کا فریضہ انجام دینے کے لئے۔(سورۃ الاحزاب۔۴۵ ۔اور الفتح۔۸)
    وَدَاعِيٙا إِلَـى ٱللَّهِ بِإِذْنِهِٚۦ
    اوران کی اجازت سے اللہ تعالیٰ کی جانب آنے کی دعوت دینے والے کی حیثیت سے۔
    وَسِرَاجٙا مُّنِيـرٙا .٤٦
    اور آپ(ﷺ)کو بھیجا ہے ایک ایسے یکتادرخشاں حسن و جمال کے پیکر کے طور جو نور کو منعکس کر دینے والا ہے ۔(سورۃ الاحزاب۔۴۶)