Khurshid Rizvi recites his ghazal یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے ، مجھے کھا گئے

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 28 сер 2024
  • خورشید رضوی
    یہ جو ننگ تھے ، یہ جو نام تھے ، مجھے کھا گئے
    یہ خیالِ پختہ جو خام تھے ، مجھے کھا گئے
    کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
    وہی زاویے کہ جو عام تھے ، مجھے کھا گئے
    میں عمیق تھا کہ پلا ہُوا تھا سکوت میں
    یہ جو لوگ محوِ کلام تھے ، مجھے کھا گئے
    وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جُڑ سکی
    یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے ، مجھے کھا گئے
    یہ عیاں جو آبِ حیات ہے ، اِسے کیا کروں
    کہ نہاں جو زہر کے جام تھے ، مجھے کھا گئے
    وہ نگیں جو خاتمِ زندگی سے پھسل گیا
    تو وہی جو میرے غلام تھے ، مجھے کھا گئے
    میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا
    پہ جو وسوسے تہہِ دام تھے ، مجھے کھا گئے
    جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں
    یہ جو زہر خند سلام تھے ، مجھے کھا گئے
    خورشید رضوی

КОМЕНТАРІ • 3

  • @ShahidSarwari
    @ShahidSarwari 4 місяці тому +1

    وااااہ وااااہ

  • @adilsiddiqui7914
    @adilsiddiqui7914 4 місяці тому

    Subhanallah

  • @khursheedabdullah2261
    @khursheedabdullah2261  4 місяці тому +2

    یہ جو ننگ تھے ، یہ جو نام تھے ، مجھے کھا گئے
    یہ خیالِ پختہ جو خام تھے ، مجھے کھا گئے
    کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
    وہی زاویے کہ جو عام تھے ، مجھے کھا گئے
    میں عمیق تھا کہ پلا ہُوا تھا سکوت میں
    یہ جو لوگ محوِ کلام تھے ، مجھے کھا گئے
    وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جُڑ سکی
    یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے ، مجھے کھا گئے
    یہ عیاں جو آبِ حیات ہے ، اِسے کیا کروں
    کہ نہاں جو زہر کے جام تھے ، مجھے کھا گئے
    وہ نگیں جو خاتمِ زندگی سے پھسل گیا
    تو وہی جو میرے غلام تھے ، مجھے کھا گئے
    میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا
    پہ جو وسوسے تہہِ دام تھے ، مجھے کھا گئے
    جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں
    یہ جو زہر خند سلام تھے ، مجھے کھا گئے
    خورشید رضوی