علامہ ہاشم حسن رضوی بڑے دنوں بعد پھرمیدان میں
Вставка
- Опубліковано 30 вер 2024
- Allama Hashim Hassan Rizvi New Full Bayan 2022 Darya Khan TLP Jalsa
LIKE | COMMENT | SHARE | SUBSCRIBE |
▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁
𝐓𝐡𝐚𝐧𝐤𝐬 𝐟𝐨𝐫 𝐀𝐥𝐥 𝐥𝐨𝐯𝐞𝐥𝐲 𝐬𝐮𝐛𝐬𝐜𝐫𝐢𝐛𝐞𝐫 𝐭𝐨 𝐬𝐮𝐩𝐩𝐨𝐫𝐭
" 𝐁𝐚𝐫𝐯𝐢 𝐌𝐞𝐝𝐢𝐚 𝟗𝟐 " 𝐘𝐨𝐮𝐓𝐮𝐛𝐞 𝐜𝐡𝐚𝐧𝐧𝐞𝐥
▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁
copyright all rights reserved © Barvi Media 92
▂▂▂▂▂▂▂▂▂▂▂▂▂▂▂▂▂
▶ 𝗶𝘀𝗹𝗮𝗺𝗶𝗰 𝗶𝗻𝗳𝗼𝗿𝗺𝗮𝘁𝗶𝗼𝗻 𝘃𝗶𝗱𝗲𝗼
▶ 𝗶𝘀𝗹𝗮𝗺𝗶𝗰 𝗹𝗲𝗰𝘁𝘂𝗿𝗲𝘀 𝗶𝗻 𝘂𝗿𝗱𝘂/𝗽𝘂𝗻𝗷𝗮𝗯𝗶
▶ 𝗣𝗼𝗹𝗶𝘁𝗶𝗰𝗮𝗹 𝗻𝗲𝘄𝘀 𝘁𝗼𝗱𝗮𝘆 𝗽𝗮𝗸𝗶𝘀𝘁𝗮𝗻
▶ 𝗣𝗼𝗹𝗶𝘁𝗶𝗰𝗮𝗹 𝗻𝗲𝘄𝘀
▶ 𝗘𝗹𝗲𝗰𝘁𝗶𝗼𝗻 𝗿𝗲𝘀𝘂𝗹𝘁𝘀
▶ 𝗧𝗟𝗣 𝗹𝗮𝘁𝗲𝘀𝘁 𝗻𝗲𝘄𝘀 𝘂𝗿𝗱𝘂
▶ 𝗧𝗟𝗣 𝗡𝗲𝘄𝘀
▶ 𝗧𝗟𝗣 𝗨𝗽𝗱𝗮𝘁𝗲𝘀
▶ 𝗣𝗮𝗸𝗶𝘀𝘁𝗮𝗻 𝗧𝗟𝗣 𝗡𝗲𝘄𝘀
▶ 𝗣𝗮𝗸𝗶𝘀𝘁𝗮𝗻 𝗹𝗮𝘁𝗲𝘀𝘁 𝗻𝗲𝘄𝘀
▶ 𝗟𝗮𝘁𝗲𝘀𝘁 𝗻𝗲𝘄𝘀 𝗶𝗻 𝘂𝗿𝗱𝘂
▂▂▂▂▂▂▂▂▂▂▂▂▂▂▂▂▂
Please Support My Second UA-cam Channel
Link : / barvimoviesproduction
● 𝐀𝐝𝐦𝐢𝐧: Muhammad Fiaz Saqi Barvi
● 𝐖𝐡𝐚𝐭𝐬 𝐀𝐩𝐩: +92300-6500662
● 𝐄-𝐦𝐚𝐢𝐥: BarviMedia92@gmail.com
● 𝐅𝐚𝐜𝐞𝐛𝐨𝐨𝐤: / barvimoviesproduction
● 𝐓𝐰𝐢𝐭𝐭𝐞𝐫: / barvimedia92
● 𝐈𝐧𝐬𝐭𝐚𝐠𝐫𝐚𝐦: / barvimedia92
#BarviMedia92 #Barvi #TLP
میری والدہ کی طبیعت بہت خراب ہے، دعا کریں کہ وہ جلد صحت یاب ہو جائیں😢🥺❤️
Ameen
Ameen
ALLAH AP KI AMAA HAZOOR KO SEHAT TANDRUSTI ATAA KRY AMEEN SUMA AMEEN
Ammen
اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے آمین یارب العالمین
ماشاءاللہ بہت خوب باباجی خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ کی یاد تازہ کر دی ہے
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
بڑے دن بعد دیکھا ھاشم صاحب کو ۔ ان کو سن کر بابا جی کی یاد تازہ ھو جاتی ھے
Ryt
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تاجدار ختم نبوت زندہ باد
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
اللہ پاک مولانا ھاشم صاحب کو تندرستی عطا فرمائے آمین اور ان کے نیو بیان سننے کو کان ترس رہے تھے
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
Hazarat urdu Mai bhi Bayan Kara Karo
Ham log India 🇮🇳 se bhi dekte Hai
Wah g wah mashallah
Subhanallah mashallah
Masha AllAh g
Allaha AP ko slamt rkhy
MashALLAH...always love u indian Muslims 🇵🇰
ہاشم رضوی کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس گئیں تھی اور کان بہت بے چین تھے ان کی آواز سننے کے لیے۔۔اللہ دونوں جہانوں کی بھلائیاں عطا فرمائے
ھاشم صاحب ضلع میانوالی کے ناظمِ اعلٰی ہیں جناب
0
ہاشم صاحب سے میری بات ہوئی
@@tlpmianwali zr no zz r 2 AA
Haq a
LabaikA LaBAikA LaBAikA Ya RasOol Ul ALLAH صلى الله عليه وسلم ZINDAH BAAD ZINDAH bAad ZINDAH bAad
آپ جیسے ارکان بہت ترقی کرتے ھیں جو اپنے رہنما کا قول نبھاتے ھیں زندہ باد بہت کمال لگا آپ کو سٹیج پہ اپنے نایاب موتی بکھیرتے ھُوئے سماعت کر کے جزاک اللہ
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
یہ بھی قبلہ امیر المجاھدین علامہ حافظ خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ کے منظور نظر اور انعام یافتہ ہے۔۔۔سلامت رہیں ماشاءاللہ
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
بابا جی کی یاد تازہ کر دی اللہ تعالیٰ ھاشم رضوی کو سلامت رکھے لبیک لبیک یا رسولﷺ رسولﷺ
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ○
"میرے نبی ﷺ ❤️ کا ذکر ہمیشہ بلند رہے گا""
لبیک لبیک لبیک یَا رُسولَاللّٰلهﷺ
تاجدارِ ختم نبوت زندہ آباد
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
اس وقت ہاشم رضوی کو مکمل بولنے دیا جاے
جناب ابھی کورس مکمل کرنے دو جی
@@noorzaman9867 کیا کورس کر رہے ہیں
لبیک لبیک لبیک لبیک لبیک یا رسول اللہ صلی للہ
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
Labaik Labaik Labaik ya rasulallah I love tlp and I love baba g ❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕💙💛❤♥💖💕
لبیک لبیک یارسول اللہ
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے
ہاشم رضوی سدا سلامت رہیں 😭❤️🙏🏻
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے
ماشااللہ سن کر سکون ملا اللہ سلامت رکھے
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
اللہ کی ذات سلامت رکھے ❣️❣️
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے
جزاک اللہ خیر حضرت صاحب ۔ آمین
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے
بابا جی کا شیر
ماشا اللہ
شیر ایک بار پھر میدان میں آ گیا ماشاءاللہ 😍😍😍😍
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
لبیک یا رسول اللّٰلہ صلی علیہ وآلہ وسلم
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
لبیک لبیک لبیک لبیک یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تاجدار ختم نبوت زندہ
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے
jab hashmi rizvi ko dekhty hain to baba jaan ki yad taza ho jati hai
Tajdare khatme Nabouwat zindabad zindabad zindabad tajdare khatme Nabouwat zindabad zindabad zindabad tajdare khatme Nabouwat zindabad zindabad zindabad
آواز تو ھر سمت سے آئے گی رضوی کی
پر صورت کو ترسیں گے بے درد زمانے والے
باقلم خود میرب عباسی
101% Ri8 Bro.
😔😔😔
Jab jalal m ate hn yehi mehsos hota h baba g bayan kr rehe hn Allah pak sehyat o tundrusti de aameen
علامہ صاحب خدا کے واسطے بیان ضرور دیا کریں ہمیں بابا جی کی یاد آجاتی ہے ۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے
ہاشم بھاٸ بابا جی کے بعد بڑی دیر بعد آۓ ہیں اللہ کریم انکی علم و عمل عمر میں برکتیں عطا فرماۓ
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
ماشااللہ بہت خوب جناب علامہ صاحب سلامت رہیں
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے
Khadim Hussain rizvi zindabad khadim Hussain rizvi zindabad
لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تاجدار ختم نبوت زندہ باد
ماشاء اللہ ماشاء اللہ ماشاء اللہ
سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر
لبیک یا رسول اللہ (ص)
ماشاء اللہ🌈😍🌹🌸🤲❤️💚💫🇵🇰🐆🐆🐆🌏
تحریک لبیک میں باباجی سے سب سے زیادہ مماثلت ہاشم رضوی رکھتے ہیں انداز آواز سب کچھ وہی
بابا جی دی آواز
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے
لبیک یارسول اللہ
واہ بابا جی آپ کو لاکھوں سلام
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے
ماشاءالللہ ہاشم رضوی صاحب بابا جی کی یاد تازہ کر دی ❤❤❤❤
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ❤️♥️❤️♥️🥰
ماشاءاللہ اللہ پاک استقامت فرمائے
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے
Tajdare khatme Nabouwat zindabad zindabad zindabad Tajdare khatme Nabouwat zindabad zindabad zindabad tajdare khatme Nabouwat zindabad zindabad zindabad
TLP ❤️ TLP ❤️ TLP ❤️ TLP ❤️ TLP ❤️ TLP ❤️ TLP ❤️ TLP ❤️ TLP ❤️
لمبے عرصے بعد آج علامہ ہاشم حسین رضوی صاحب کا بیان سن کر دل خوش ہوا
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
InShaAllah TLP
LABAIK LABAIK YA RASOOL ALLAH S.A W.W ❤❤
Labbaik labbaik labbaik ya rasool allah labbaik labbaik labbaik ya rasool allah labbaik labbaik labbaik ya rasool allah
LABIK LABIK YA RASOOL ALLAH LABIK.hasim razvi sb ko dakh kr boht khushi hoi.
Labbaik labbaik labbaik ya rasool Allah 🌹 T I p zindabad 🌹 mashallah 🥰
Labik labik ya rasolila
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے
Labbaik Labbaik Labbaik ya rasool Allah ❤️ ❤️ 💝 💝 💝
Labbaik Ya Rasool Allah ❤️
ماشاء اللہ اللہ تعالی آپکو سلامت رکھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ باباجی جوانی میں خطاب فرما رہے ہوں،،،،ماشاءاللہ بہت خوب
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
Ya Allah Tera shukar ha inn ki zyarat ki😘💞
Allah pak salamat rakhy shar nu
Wohi andaz Allah pak salamat rahky....❤❤
ماشاء اللہ i love tlp
جاگ کشمیری جاگ حق ہے ہمارا آزادی آزاد وطن جموں و کشمیر۔
InshAllah
لبیک لبیک لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے
❤❤❤لبیک لبیک لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تاجدار ختم نبوت زندہ باد زندہ باد زندہ باد ❤❤❤❤
MashAllah ❣️♥️♥️♥️
لبیک لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ❤🌹❤🌹❤🌹❤🌹❤🌹❤💗❤🌹❤🌹❤🌹❤
ماشاءاللہ
Hasim sahb kahmos na rha Karo Allah Pak nye apko ameer mojahid ki awaz baksi hai suna diya karo sakun mil jata hai
Labek Labek Labek ya rasulallah
Baba g ki yad taza kar diya alama sahab jeo khush raho salam hay is bandy ko
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ عَلیَ النَّبِیْ یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْاصَلُّواعَلَیْہِ وَسَلِّمُوْاتَسْلِیْماً•❣
الصلوۃ والسلام علیک یاسیدی یا رسول اللہ ﷺ ⚘
الصلوۃ والسلام علیک یاسیدی یا حبیب اللہ ﷺ ⚘
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
Labbaik Labbaik Labbaik YARUSLLAH 🇵🇰🇸🇦 INSHALLAH mara tan man nachana chanda ae Manu Labbaik da nach ncha baba Manu hor kisay da nai Hona Manu taray hon da Cha baba main panshi taray pinjray da Manu Labbaik Labbaik Labbaik YARUSLLAH SAW di chog Chaga baba
Mashallah bhai
واللہ بابا جانی کی یاد دلا دی ہاشم رضوی. صاجب سلامت رہیں
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے
ماشاءالله ماشاءالله اهلا وسهلا
مجھے علامہ خادم حسین رضوی صاحب کی آواز لگتی ہے اللہ تعالیٰ علامہ ہاشم رضوی صاحب کی حفاظت فرمائے
سبحان الله سبحان الله ماشاء الله تبارك
Bilkul BABA JAAN wala LAHJAAA SUBHAN ALLAH
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
علامہ ھاشم حسن رضوی صاحب زندہ باد
Masha Allah
ساجد حسن گورکھپور ضلع
labbaik labbaik labbaik yaa rsool Allah sallallahu alayhi wa alayhi wa sallam 💯 Taj dary khatmy nabowat zindabad zindabad zindabad 💯
Labaik ya rassol allah
ماشاءاللہ بھائی
Mashallah ❤️❤️❤️❤️❤️ labbaik labbaik labbaik ya rasulullah
ماشاء اللہ
وہ اب لہجہ نہیں رہا بابا جی والا
Love from 🇮🇳🇮🇳🇮🇳
Labbaik ya rasulallah
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
ماشاءاللہ لبیک لبیک لبیک لبیک لبیک لبیک لبیک یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے
MashAllah
Labaik labaik labaik Ya RASOOL ALLAH SAWW
Mashallah
اویس نیاز سعیدی رحیم یار خان سے
لبیک لبیک لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے-
ﷲﷻ سلامت رکھے
لبیک والوں کو سلام
Baba jee ki yad aa jati hai inko sun kay aur Dil rota
ماشاءاللّٰه
الحمد للہ
اللہ تعالیٰ کا شُکر ہے کہ میں نے بابا جی کی زیارت کی تھی
ماشاء اللہ
ماشاءاللہ
labbaik ya rasool allah
تاجدار ختم نبوت زندہ باد لبیک لبیک یا رسول اللہ
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے
Wah wah kmal. لبیک لبیک لبیک یا رسول اللہ saw
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے
Labbaik Ya Rasool Allah ﷺ
ماشاءاللّٰه
لبیک لبیک لبیک یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: گمراہ کرنے والے علماء اور حکمران ) پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل ہیں اور اس کے ساتھ علماء بھی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث میں ہے-
علماء اللہ کے بندوں پر اس وقت تک رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو سمجھو کہ انہوں نے انبیاء سے خیانت کی ہے ،ایسے لوگوں سے
اجتناب کرو،اور ترک تعلق کرو-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ رعایا میں اس وقت خرابی پھیلتی ہے جب بادشاہ خراب ہوجائیں،اور بادشاہ اس وقت بگڑتے ہیں جب علماء اور قضاةکا کردار خراب ہو جائے- اگر علماء اور قاضی اچھے ہوں باکردار ہوں تو سلاطین بہت کم بگڑتے ہیں- اس وقت انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ ہماری اطاعت سے انکار نہ کریں ،
ارشاد نبوی :-یہ امت اللہ تعالٰی کی حفاظت اور پناہ میں رہے گی جب تک اس کے اقراء اس کے امراء کی اعانت اور موافقت نہ کریں گے -
حدیث میں قراء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ اس وقت قاری ہی عالم تھے، قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ان کا سرمایہ علم تھا، دوسرے تمام علوم نو ایجاد ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سرکاردوعالم صلےاللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:-
اللہ تعالٰی کے نزدیک قاریوں میں زیادہ برے وہ ہیں جو امراء کے پاس آمدورفت رکھیں-
رسول اکرم صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
عالم جب اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا چاہتا ہے تواس سے ہر چیز ڈرتی ہے، اور جب وہ علم کے ذریعہ مال جمع کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے-۔
حضوراکرم صلےاللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے تم پر دجال کے قافلوں کا خطرہ ہے-پوچھا گیا:کون ہیں؟آپ نے فرمایا:گمراہ کرنے والے علماء(حکمران )پاکستان کا بنیادی حکمران افواج پاکستان کا جنرل اور پاکستانی اسٹبلیشمنٹ ہیں
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:تم کب تک رات کے مسافروں(ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں )کے لیےراہ صاف کرتے رہو گے اور کب تک ظالموں کے ساتھ رہوگے؟
حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے :برے علماء کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جو نہر کے منہ پر گر پڑے(اور پانی کی آمد بند کر دے)نہ خود پانی پیے اور نہ ہی کھیتی کے لیے پانی چھوڑ دے -
علماء قاضیوں کی طرح ہیں -قاضیوں کے بارے میں آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے-¡قاضی تین ہے۔-ایک وہ قاضی جو حق کے مطابق
فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو،یہ قاضی جنت میں جائے گا-ایک وہ قاضی ہے جو غیر منصفانہ فیصلہ دے اور وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو یہ دونوں دوزخ میں جائیں گے۔-
علماء آخرت کی علامت یہ ہے کہ حکام وسلاطین سے دور رہیں ،جب تک ان سے دور رہنا ممکن ہو دور رہیں ،بلکہ اس وقت بھی ملنے سے احتراز کریں جب وہ خود ان کے پاس آئیں - اس لیے کہ دنیا نہایت پر لطف اور سرسبز شاداب جگہ ہے- دنیا کی باگ ڈور حکام کے قبضے میں ہے- جوشخص حکام دنیا سے ملتا ہے اسے ان کی کچھ نہ کچھ رضاجوئی اور دلداری کرنی ھوتی ہے- خواہ وہ ظالم و جابر ہی کیوں نہ ہوں -دیندار لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ظالم و جابر حکام سے ہر گز نہ ملیں -ان کے ظلم کا اظہار کریں اور ان کے افعال واعمال کی مذمت کریں -
ھمارے زمانے کے علماء بنی اسرائیل کے علماء سے بھی بد تر ہیں -آج کل کے علماء بادشاہوں(یعنی افواج پاکستان جنرنلوں کے)صرف جائز امور بتلاتے ہیں یا انہیں وہ باتیں سناتے ہیں جو ان کی مرضی کے عین مطابق ہوں -وہ انہیں ان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتے-اس خوف سے کہیں بادشاہ(یعنی افواج پاکستان کے جنرل )ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کریں یا یہ کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں-حالانکہ بادشاہوں کو ان سے فرائض واجبات سے آگاہ کرنا ہی علماء کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے