Surah Al Balad | surah balad with (HD) Arabic text |surah no 90

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 15 жов 2024
  • surah balad
    1
    میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں
    2
    اور آپ اس شہر میں مقیم ہیں ۔
    Surat No. 90 Ayat NO. 2
    1: اس شہر سے مراد مکہ مکرَّمہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خصوصی تقدس عطا فرمایا ہے، اور اُس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقیم ہونے کی بنا پر اس کے تقدس میں اور اضافہ ہوا ہے۔ کیونکہ آپ کی تشریف آوری کے لئے اِس شہر کا انتخاب فرما کر اللہ تعالیٰ نے اِس کی شان اور بڑھا دی ہے۔ اس جملے کی دو تفسیریں اور بھی ہیں جن کی تفصیل ’’معارف القرآن‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔
    .3
    اور ( قسم ہے ) انسانی باپ اور اولاد کی ۔
    Surat No
    90 Ayat NO. 3
    2: باپ سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور چونکہ تمام اِنسان انہیں کی اولاد ہیں، اس لئے اس آیت میں تمام نوعِ اِنسانی کی قسم کھائی گئی ہے۔
    4
    یقیناً ہم نے انسان کو ( بڑی ) مشقت میں پیدا کیا ہے ۔Surat No. 90 Ayat NO. 4
    3: یہ ہے وہ بات جو قسم کھاکر فرمائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں اِنسان کو اِس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی مشقت میں لگارہتا ہے، چاہے کوئی کتنا بڑا حاکم ہو، یا دولت مند شخص ہو، اُسے زندہ رہنے کے لئے مشقت اُٹھانی ہی پڑتی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اُسے دُنیا میں کبھی کوئی محنت نہ کرنی پڑے تو یہ اُس کی خام خیالی ہے، ایسا کبھی ممکن ہی نہیں ہے، ہاں مکمل راحت کی زندگی جنّت کی زندگی ہے جو دُنیا میں کی ہوئی محنت کے نتیجے میں ملتی ہے۔ ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اِنسان کو دُنیا میں جب کسی مشقت کا سامنا ہو تو اُسے یہ حقیقت یاد کرنی چاہئے، خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کو مکہ مکرَّمہ میں جو تکلیفیں پیش آرہی تھیں، اِس آیت نے اُن کو بھی تسلی دی ہے، اور یہ بات کہنے کے لئے اوّل تو شہرِ مکّہ کی قسم کھائی ہے، شاید اس لئے کہ مکہ مکرَّمہ کو اگرچہ اللہ تعالیٰ نے دُنیا کا سب سے مقدس شہر بنایا ہے، لیکن وہ شہر بذاتِ خود مشقّتوں سے بنا، اور اُس کے تقدس سے فائدہ اُٹھانے کے لئے آج بھی مشقت کرنی پڑتی ہے، پھر خاص طور پر اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقیم ہونے کا حوالہ دینے میں شاید یہ اشارہ ہے کہ افضل ترین پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم، افضل ترین شہر میں مقیم ہیں، لیکن مشقّتیں اُن کو بھی اُٹھانی پڑرہی ہیں۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام اور اُن کی ساری اولاد کی قسم کھانے سے اشارہ ہے کہ اِنسان کی پوری تاریخ پر غور کرجاؤ، یہ حقیقت ہر جگہ نظر آئے گی کہ اِنسان کی زندگی مشقتوں سے پر رہی ہے۔
    5
    کیا یہ گمان کرتا ہے کہ یہ کسی کے بس میں ہی نہیں؟
    6
    کہتا ( پھرتا ) ہے کہ میں نے توبہت کچھ مال خرچ کر ڈالا ۔ Surat No. 90 Ayat NO. 6
    4: مکہ مکرَّمہ میں کئی کافر ایسے تھے جنہیں اپنی جسمانی طاقت پر ناز تھا۔ جب اُنہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا جاتا تو کہتے تھے کہ ہمیں کوئی قابو میں نہیں کرسکتا۔ نیز وہ آپس میں دکھاوے کے طور پر کہتے تھے کہ ہم نے ڈھیر ساری دولت خرچ کی ہے۔ اور خرچ کرنے کو اُڑا ڈالنے سے تعبیر اس لئے کرتے کہ گویا ہمیں اس خرچ کی بالکل پروا بھی نہیں ہے۔ خاص طور پر یہ بات وہ اُس دولت کے بارے میں کہتے تھے جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور دُشمنی میں خرچ کی ہے۔
    7
    کیا ( یوں ) سمجھتا ہے کہ کسی نے اسے دیکھا ( ہی ) نہیں؟Surat No. 90 Ayat NO. 7
    5: یعنی جو کچھ خرچ کیا، دِکھاوے کے لئے کیا، پھر اُس پر ناز کرنا کیسا؟ کیا اللہ تعالیٰ دیکھ نہیں رہے تھے کہ وہ کس کام میں اور کس مقصد سے خرچ کر رہا ہے۔
    8
    کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہیں بنائیں ۔
    9
    اورزبان اور ہونٹ ( نہیں بنائے ) ۔
    10
    ہم نے دکھا دیئے اس کو دونوں راستے ۔
    Surat No. 90 Ayat NO. 10
    6: اِنسان کو اللہ تعالیٰ نے نیکی اور بدی کے دونوں راستے دِکھادئے ہیں، اور اختیار دیا ہے کہ اپنی مرضی سے جو راستہ چاہو اِختیار کرسکتے ہو، لیکن بدی کا راستہ اختیار کروگے تو سزا ہوگی۔
    11
    سو اس سے نہ ہو سکا کہ گھاٹی میں داخل ہوتا ۔
    Surat No. 90 Ayat NO. 11
    7: گھاٹی دو پہاڑوں کے درمیانی راستے کو کہتے ہیں۔ عام طور سے جنگ کے دوران ایسے راستے کو دُشمن سے بچنے کے لئے اِختیار کیا جاتا ہے، اور یہاں گھاٹی میں داخل ہونے سے مراد ثواب کے کام کرنا ہے، جیسے کہ اگلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے خود تشریح فرما دی ہے۔ ان کو گھاٹی میں داخل ہونا اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ اِنسان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے میں مدد دیتے ہیں۔
    12
    اور کیا سمجھا کہ گھاٹی ہے کیا؟
    13
    کسی گردن ( غلام لونڈی ) کو آزاد کرنا ۔
    14
    یا بھو ک والے دن کو کھانا کھلانا ۔
    15
    کسی رشتہ دار یتیم کو ۔
    16
    یا خاکسار مسکین کو ۔
    17
    پھر ان لوگوں میں سے ہو جاتا ہے جو ایمان لاتے اور ایک دوسرے کو صبر کی اور رحم کرنے کی وصیت کرتے ہیں ۔
    18
    یہی لوگ ہیں دائیں بازو والے ( خوش بختی والے ) ۔ Surat No. 90 Ayat NO. 18
    8: یہ ’’اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ‘‘ کا ترجمہ ہے، اور اس کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ: ’’وہ دائیں ہاتھ والے ہیں‘‘ اور اِن سے مراد وہ نیک لوگ ہیں جن کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔
    19
    اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا یہ کم بختی والے ہیں ۔
    Surat No. 90 Ayat NO. 19
    9: یہ ’’اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ‘‘ کا ترجمہ ہے اور اس کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ: ’’وہ بائیں ہاتھ والے ہیں‘‘ اور اِن سے مراد وہ بد کار ہیں جن کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔
    20
    انہی پر آگ ہوگی جو چاروں طرف سے گھیری ہوئی ہوگی Surat No. 90 Ayat NO. 20
    10: یعنی اس کے دروازے بند کردئیے جائیں گے، تاکہ دوزخیوں کے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ رہے، والعیاذ باللہ العظیم۔۔

КОМЕНТАРІ • 4