عبد الله بن عباس بن عبد المطلب الهاشمي، (3 ق هـ / 618م - 68 هـ / 687م) صحابي جليل ومحدث وفقيه وحافظ ومُفسِّر، وهو ابن عم النبي محمد صلى الله عليه وسلم، وأحد المكثرون لرواية الحديث، حيث روى 1660 حديثًا عن الرسول، ولهُ في الصحيحين 75 حَدِيثًا متفقا عليها. لازم عبد الله بن عباس النبي عليه الصلاة والسلام وروى عنه، ودعا له النبي قائلًا: “اللهم فقهه في الدين وعلمه التأويل”، وقال أيضًا: “اللهم علمه الكتاب، اللهم علمه الحكمة”، توفي النبي وعمره ثلاث عشرة سنة، فكان يفسّر القرآن بعد موت النبي، حتى لُقِّب بـ حّبر الأمة وترجمان القرآن، والحبر والبحر. Age doesn't matter in this science.
Quran may Allah Tala farmata hai. Allaho Nurus Samawate wal Arz phir agli ayat phir agli ayat. Mujhay Lagta hai Jo bhi Allah k Noor ki ek jhalak dekh lega usko saari Dunya mil kar bhi nahi Dra sakti aur uskay Dil say Maut ka Darr hi khatam ho jaaega. Musa Alaih Salam nay Allah ka Partau dekha aur behosh hogaye. Jab Hosh aaya kahnay lagay Ana awwalul muslimeen.
ماشاء اللہ دو نوں روایت اپنی جگہ درست ھین اس اختلاف سے اھلسنت کا عقیدہ بنتا ھے اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا خالق ھے اور مخلوق خالق کو نھی دیکھ سکتا مگرخالق مخلوق کو اپنا دیدار کرانے پر قادرھے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے صرف اپنے محبوب ءامام الانبیاء کوھی اپنا دیدار مبارک سے مشرف حاصل فرمایا سواءے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دیدار کاشرف حاصل نھیں فرمایا
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہوتی تو میں نے آپ ﷺ سے ضرور پوچھا ہوتا ، انہوں نے پوچھا :تم رسول اللہ ﷺ سے کیا بات پوچھتے ؟ میں نے کہا: میں پوچھتاکہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ بات تومیں نے آپ ﷺ سے پوچھی تھی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے (اپنی آنکھوں سے ) نور ( کے حجاب) کو دیکھا تھا۔ "عن عبداللّٰه بن شقیق قال: قلت لأبي ذر: لو رأیت رسول اللّٰه لسألته، فقال: عن أي شيءٍ کنت تسأله؟ قال: کنت أسأله هل رأیت ربك؟ قال أبو ذر: قد سألته، فقال: رأیت نوراً". (مسلم) معلوم ہوا کہ اس طرح دیکھنا کہ نگاہیں مکمل ادراک کریں جیسے جنت میں اللہ تعالیٰ نصیب کریں گے، ایسا دنیا میں کوئی نہیں دیکھ سکتا، ہاں فی الجملہ حق تعالیٰ شانہ کو دیکھنا ممکن ہے ،اور یہی رؤیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو شبِ معراج میں میسر ہوئی، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی خصوصیت ہے جس میں آپ کا کوئی شریک نہیں، لہٰذا اس صورت میں کوئی اختلاف نہیں رہا، تمام روایات میں بھی تطبیق ہو جاتی ہے۔ مروزی سے نقل کیا گیا ہے کہ میں نے امام احمد سے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، وہ فرماتی ہیں کہ جوشخص یہ سمجھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ بولا ہے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث پر لوگ بڑے شش وپنج میں ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا کس دلیل سے جواب دیا جائے؟ (اوپر روایات کی تطبیق سے یہ جواب مفہوم ہوگیا کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کو کامل ادراک اور سارے علم کے ساتھ جان لینے کی نفی ہے) حضرت امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا جواب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں موجود ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ’’ رَئَیْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ‘‘۔ اوپر روایات اور تطبیق سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ کے رسول اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، ہاں کامل ادراک کے ساتھ نہیں دیکھا، اس لیے کہ اس طرح کا دیدار دنیا میں ممکن نہیں، یہ دیدار اللہ تعالیٰ جنت میں کروائیں گے۔ البتہ فی الجملہ دیکھنے میں کوئی اشکال نہیں، اس طرح کا دیدار اللہ کے رسول اللہ علیہ وسلم کواللہ نے کروایا، جمہور صحابہ اور تابعین کا یہی مذہب ہے، اورمحققین کا راحج قول یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکی آنکھوں سے اللہ کو دیکھا ہے۔ فقط واللہ اعلم
یہ ادراک بمعنی احاطہ کے ہیں ۔کہ اللہ کی ذات کو نور کے طور پر دیکھا ۔مگر اس کی ذات کا صفات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا ۔یعنی ہم اللہ کی ذات کو مکمل شناخت نہیں کر سکتے ۔جیسے ہم کسی شے کو دیکھ کر مکمل طور پر اس کے اپنی نظر کے احاطے میں لے اتے ہیں
دل سےدیکھا ،یعنی خوب توجہ کے ساتھ جم کر دیکھا ،یہ رسول االلہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خصوصیت ھے- ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی دلیل "لاتد رکہ الابصار"ھے،جسکے معنی کسی ذات کو ہمہ جہت ایک نظر میں دیکھنا ،اور ظاہر ھے یہ محال ھے ،لھذا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک "ادراک"کی نفی ھے "دیدار"کی نھیں ۔
اسماعیل بن ابراہیم نے داود سے ، انہوں نے شعبی سے اور انہوں نے مسروق سے روایت کی ، کہا : میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ٹیک لگائے ہوئے بیٹھا تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ابوعائشہ ! ( یہ مسروق کی کنیت ہے ) تین چیزیں ہیں جس نے ان میں سے کوئی بات کہی ، اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا ، میں نے پوچھا : وہ باتیں کون سی ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : جس نے یہ گمان کیا کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا ۔ انہوں نے کہا : میں ٹیک لگائے ہوئے تھا تو ( یہ بات سنتے ہی ) سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور کہا : ام المومنین ! مجھے ( بات کرنے کا ) موقع دیجیے اور جلدی نہ کیجیے ، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا :’’ بے شک انہوں نے اسے روشن کنارے پر دیکھا ‘‘ ( اسی طرح ) ’’ اور آپ ﷺ نے اسے ایک اور بار اترتے ہوئے دیکھا ۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میں اس امت میں سب سے پہلی ہوں جس نے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا :’’ وہ یقیناً جبریل علیہ السلام ہیں ، میں انہیں اس شکل میں ، جس میں پیدا کیے گئے ، دو دفعہ کے علاوہ کبھی نہیں دیکھا : ایک دفعہ میں نے انہیں آسمان سے اترتے دیکھا ، ان کے وجود کی بڑائی نے آسمان و زمین کے درمیان کی وسعت کو بھر دیا تھا ‘‘ پھر ام المومنین نے فرمایا : کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں سنا :’’ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ آنکھوں کا ادراک کرتا ہے اور وہ باریک بین ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے ‘‘ اور کیا تم نے یہ نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ اور کسی بشر میں طاقت نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے ذریعے سے یا پردے کی اوٹ سے یا وہ کسی پیغام لانے والے ( فرشتے ) کو بھیجے تو وہ اس کے حکم سے جو چاہے وحی کرے بلاشبہ وہ بہت بلند اور دانا ہے ۔‘‘ ( ام المومنین نے ) فرمایا : جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے کچھ چھپا لیا تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ اے رسول ! پہنچا دیجیے جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا اور اگر ( بالفرض ) آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا پیغام نہ پہنچایا ( فریضہ رسالت ادا نہ کیا ۔ ) ‘‘ ( اور ) انہوں نے فرمایا : اور جو شخص یہ کہے کہ آپ اس بات کی خبر دے دیتے ہیں کہ کل کیا ہو گا تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ ( اے نبی ! ) فرما دیجیے ! کوئی ایک بھی جو آسمانوں اور زمین میں ہے ، غیب نہیں جانتا ، سوائے اللہ کے ۔‘‘ muslim 439
The version of Ayesha RA is correct but bcz she is the only one who raised this question before Nabi AS and he replied that he did not see Allah but saw Jibrael twice in his true shape. This conforms to Qur'anic version "La Tudrikuhul Absar". Rest of the narrations are not directly taken from Nabi AS not that of even Ibne Abbas. In fact what Ibne Abbas said is that Nabi AS experienced Mairaj physically ( with his two eyes) and not as some people who believed that it was only through dream. Therefore Surah Najam read with Surah Takeer makes it further clear.
Kindly in questions k answers par bhi roshni dalen.. JazakAllah Anmbiya se mulaqat hoi ? kese hoskati hai bad e wafat? Baitul maqdas se start hoi ? ya ghr se ? aur intiha kaha hoi ? aik dafa dekha ya do dafa ? Sidratul Muntaha par gae ya Allah k paas Moosa Alyh salam ko qabar main namaz parhte hoe dekha ? Kund hil rahi thi, pani jari tha ?? Kya dajjal se bhi Mulaqat hoi ? Jannat o Dozakh ki sair ki ?
ابن مسعود کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کی ذات کا اُس کی جمیع صفات کے ساتھ احاطہ نہیں کیا جاسکتا، تو کیا فقط ایک صفت کے ساتھ احاطہ کیا جا سکتا ہے؟؟؟ جیساکہ صفت نور کے ساتھ ہی۔۔۔
اللہ تبارک و تعالی کا احاطہ کسی بھی صورت میں نہیں کیا جاسکتا یہ شرعاً اور عقلا محال ہے۔ کسی بھی عام سی چیز کو ہی دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا احاطہ کیا گیا ہوں، اللہ تعالی کی شان بلند و بالا ہے۔
صحیح بخاری شب معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوئے : دنی الجبار رب العزة فتدلی حتی کان منه قاب قوسين او ادنی ۔ اللہ رب العزت اتنا قریب ہوا کہ دو کمانوں کے درمیان جتنا یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا ۔ (صحيح البخاری، 2 : 1120، کتاب التوحيد، رقم : 7079) دیدار کی نفی نہیں احاطہ کی نفی ہے مخلوق محدود اس کی نظر محدود جبکہ رب لا محدود ہے
حبیب خدا صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی عرش تک رسائی اور دیدار الہٰی: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "رَأَيْتُ رَبّي تَبَارَكَ وَتَعَالٰی". حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللّٰہ (ﷺ) نے فرمایا: میں نے اپنے رب تبارك وتعالٰی کو دیکھا ہے. (مسند احمد - رقم الحديث: 2481) عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ: " قُلْتُ لأَبِي ذَرّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، لَوْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ، هَلْ رَأَى رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ؟ قَالَ: قَدْ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: قَدْ رَأَيْتُهُ ". عبد اللّٰہ بن شفیق رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اگر میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتا تو ضرور آپ (ﷺ) سے پوچھتا کہ کیا آپ (ﷺ) نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ تو حضرت ابوذر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے آپ (ﷺ) سے پوچھا تھا تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے اس کو دیکھا ہے. (کتاب السنة - رقم الحديث: 474) أن ابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا حَبَّةَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَا يَقُولَانِ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ثُمَّ عُرِجَ بِي حَتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوًى أَسْمَعُ فِيهِ صَرِيفَ الْأَقْلَامِ. حضرت عبد اللّٰہ بن عباس اور حضرت ابوحبۃ الانصاری رضی اللّٰہ عنہما کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر مجھے اوپر لے جایا گیا یہاں تک کہ میں اس بلند مقام پر پہنچ گیا جہاں میں نے قلموں کی آواز سنی. (صحيح البخاري - رقم الحديث:349) قَالَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي ابْنُ حَزْمٍ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا حَبَّةَ الأَنْصَارِيَّ كَانَا يَقُولانِ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثُمَّ عُرِجَ بِي حَتَّى ظَهَرْتُ بِمُسْتَوَى الْعَرْشِ ". (كتاب الشريعة للآجري - رقم الحديث:1043) حضرت انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى وَدَنَا الْجَبَّارُ رَبُّ الْعِزَّةِ فَتَدَلّٰی حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوۡ اَدۡنٰی یہاں تک کہ آپ (ﷺ) سدرۃ المنتہیٰ پر آئے اور جبار رب العزۃ قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا یہاں تک کہ آپ (ﷺ) سے دو کمانوں کی مقدار بلکہ اس سے زیادہ قریب ہوگیا. (صحيح البخاري - رقم الحديث: 7517) محدث ابن قيم اور محدث احمد قسطلانی اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں: ودنو الرب تبارك وتعالٰی وتدليه على ما فى حديث شريك، كان فوق العرش لا إلى الأرض. رب تبارك وتعالٰی کا قریب ہونا اور اس کا زیادہ قریب ہونا جیسا کہ حدیث میں ہے، عرش کے اوپر تھا زمین پر نہیں تھا. (تفسير القرآن الكريم لابن القيم - 497/1) (المواہب اللدنیۃ - 2 /487) شہاب الدین خفاجی فرماتے ہیں : علیہ یدل صحیح الاحادیث الاحاد الدالۃ علی دخولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الجنۃ ووصولہ الی العرش اوطرف العالم کما سیأتی کل ذٰلک بجسدہ یقظہ. صحیح احادیثیں دلالت کرتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم (شب اسراء) جنت میں تشریف لے گئے اور عرش تک پہنچے یا عالم کے کنارے تک اور یہ سب بیداری میں مع جسم مبارک تھا. (نسیم الریاض - 2 /269,270) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " أَتَعْجَبُونَ أَنْ تَكُونَ الْخُلَّةُ لإِبْرَاهِيمَ ، وَالْكَلامُ لِمُوسَى ، وَالرُّؤْيَةُ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے دوستی اور حضرت موسٰی علیہ السلام کے لئے کلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے دیدار ہونے میں کیا تمہیں کچھ تعجب ہے. (السنن الكبرى للنسائي - حديث:11021) (كتاب التوحيد لابن خزيمة -حديث:581) (المستدرك على الصحيحين -حديث:201) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ : " رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ " حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ہے. (كِتَابُ التوحيد لابن خزيمة - حديث:266 (جزء القاسم بن موسى الأشيب - حديث:8) حَدَّثَنِي أَبُو مُوسَى الْأَنْصَارِي، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ، فَحَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، قَالَ: سَأَلَ مَرْوَانُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ: " هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ عَزَّوَجَلَّ؟ فَقَالَ: «نَعَمْ قَدْ رَآهُ» داود بن حصين کہتے ہیں کہ مروان نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے پوچھا: کیا حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا؟ تو فرمایا: ہاں اس کو دیکھا ہے. (كتاب السنة - حديث:218) عنْ كَعْبٍ، قَالَ: " إِنَّ اللّٰهَ قَسَمَ رُؤْيَتَهُ وَكَلامَهُ بَيْنَ مُوسَى وَمُحَمَّدٍ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَيْهِمَا فَرَآهُ مُحَمَّدٌ مَرَّتَيْنٍ، وَكَلَّمَ مُوسَى مَرَّتَيْنِ ". حضرت کعب نے فرمایا: اللّٰہ تعالی نے اپنے دیدار اور اپنے کلام کو حضرت محمد مصطفی (ﷺ) اور حضرت موسی علیہ السلام کے درمیان تقسیم کر دیا، اور حضرت محمد مصطفی (ﷺ) نے اس کو دو بار دیکھا اور حضرت موسی علیہ السلام نے دو بار کلام کیا. (كتاب التوحيد لابن خزيمة - حديث:276) وضاحت: حضور اقدس (ﷺ) کو اللّٰہ تعالیٰ کا ایسا قرب ملا جو کسی اور کو نہیں ملا, اللّٰہ تعالیٰ کے قریب ہونے یا آپ (ﷺ) کو اپنی طرف قریب کرنے کا معنی اس طرح نہیں ہے جو جگہ اور مسافت کا قرب ہو بلکہ اس سے وہ قرب مراد ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کے قرب کی کوئی حد نہیں ہے.
جناب یاسر لطیف صاحب ۔ سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر ایک کے مطابق لنوریہ من آیتنا ترجمہ اسلئیے تا کہ ہم اسکو اپنی نشانیوں میں سے دکھائیں ۔ یہاں معراج شریف کا مقصد بیان کیا گیا ہے ۔ سورہ النجم آیت نمبر اٹھارہ میں لکھا ہے کہ اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں ۔ جبرائیل آمین کو اصلی صورت دو مرتبہ دیکھنا اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہے۔ قرآن پاک میں جبکہ معراج شریف کا واضح لفظوں مقصد بیان کیا گیا ہے تو پھر آپ کیوں بضد ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو دیکھا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا موقف قرآن پاک جو کہ اللہ تعالی کا کلام اور اسکے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے عین مطابق ہے پھر آپ اسکو قبول کیوں نہیں کرتے؟ لیس کمثلہ اس جیسا کوئ نہیں اگر دیکھتے تو کفار پوچھتے وہ کیسے ہیں تو کیا جواب دیتے؟ وہ سب کو دیکھتا ہے اور اسکو کوئ نہیں دیکھ سکتا ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین ۔
جناب: دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے نکل کر ساتوں آسمانوں کے اوپر جا کر اللّٰہ پاک کا دیدار کرنا نبی پاک صلى اللّٰہ عليہ وآلہ وسلم کے خصائص میں سے ہے آپ کو اس بات کے ماننے سے کیا مسئلہ ہے جبکہ واضح مرفوع اور موقوف احادیث سے ثابت ہے اس میں ضد کی کوئی بات نہیں اور آپ خود سے مفہوم اخذ کر رہے ہیں حالانکہ آیات الْكُبْرَى کو دیکھنا تو خود دیدار الہی کرنے کی دلیل ہے نہ کہ نفی کی. احادیث شریفہ تو فقیر نے پیش کر دی ہیں اب ذرا محدثین کے اقوال بھی دیکھ لیں. آقا کریم صلى اللّٰہ عليہ وآلہ وسلم کے خصائص و فضائل کو ماننے کے لیے دل کو کشادہ کریں. قرآن اور احادیث میں جیسے آقا کریم صلى اللّٰہ عليہ وآلہ وسلم کی شان بیان ہوئی ہے ویسے ہی اللّٰہ پاک ماننے کی توفیق عطا فرمائے. آمین. محدث أبو عوانہ الإسفراييني فرماتے ہیں: باب بيان أن الجنة مخلوقة، وأن النبي - صلى اللّٰه عليه وسلم - دخلها، وأنها فوق السماوات، وأن السدرة المنتهى فوقها، وأن النبي - صلى اللّٰه عليه وسلم - انتهى إليها، [وأنه دنا من رب العزة، ورب العزة دنا منه قاب قوسين أو أدنى، وأن ما غشىي السدرة من الألوان كان من نوره تبارك وتعالى،] ۔ (مستخرج أبي عوانة - 2/47) محدث أبو حاتم بُستي فرماتے ہیں: وَاسْمُ الدُّنْيَا قَدْ يَقَعُ عَلَى الْأَرَضِينَ وَالسَّمَاوَاتِ وَمَا بَيْنَهُمَا لِأَنَّ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ بِدَايَاتٌ خَلَقَهَا اللَّهُ جَلَّ وَعَلَا لِتُكْتَسَبَ فِيهَا الطَّاعَاتُ لِلْآخِرَةِ الَّتِي بَعْدَ هَذِهِ الْبِدَايَةِ فَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي لَا يُطْلَقُ عَلَيْهِ اسْمُ الدُّنْيَا لِأَنَّهُ كَانَ مِنْهُ أَدْنَى مِنْ قَابِ قَوْسَيْنِ حَتَّى يَكُونَ خَبَرُ عَائِشَةَ أَنَّهُ لَمْ يَرَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الدُّنْيَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الْخَبَرَيْنِ تَضَادٌّ أو تهاتر. (صحيح ابن حبان - 1/260) شمس الدين ذهبي فرماتے ہیں: وأكثر الصحابة على أنه صلى الله عليه وسلم رأى ربه. (كتاب العرش للذهبي - 2/64) شمس الدين ذهبي فرماتے ہیں: قلت: "لأنه رآه في عالم البقاء، حين خرج من عالم الفناء، وارتقى فوق السموات السبع". (كتاب العرش للذهبي - 2/67) "ودنو الجبار منه، وتدليه سبحانه وتعالى بلا كيف، حتى كان من النبي صلى اللّٰه عليه وسلم قاب قوسين أو أدنى، وأنه رآه تلك الليلة". (كتاب العرش للذهبي - 2/67) ابن أبي العز حنفي فرماتے ہیں: وأما الدنو والتدلي الذي في حديث الإسراء فذلك صريح في أنه دنو الرب تعالى وتدليه. (تفسير ابن أبي العز - 121/47) امام أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) فرماتے ہیں: فَالْحَاصِلُ أَنَّ الرَّاجِحَ عِنْدَ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ إن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم رَأَى رَبَّهُ بِعَيْنَيْ رَأْسِهِ لَيْلَةَ الْإِسْرَاءِ لِحَدِيثِ بن عَبَّاسٍ وَغَيْرِهِ مِمَّا تَقَدَّمَ وَإِثْبَاتُ هَذَا لَا يَأْخُذُونَهُ إِلَّا بِالسَّمَاعِ مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (كتاب شرح النووي على مسلم - 3/5) أبو محمد، تقي الدين عبد الغني بن عبد الواحد المقدسي الحنبلي، (المتوفى: 600هـ) فرماتے ہیں: [رؤية الرسول ربه ليلة الإسراء] وأنه صلى اللّٰه عليه وسلم رأى ربه عزوجل كما قال عزوجل: {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى} سورة النجم. قال الإمام أحمد في ما روينا عنه: وأن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم رأى عزوجل، فإنه مأثور عن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم، صحيح..........والحديث على ظاهره كما جاء عن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم، والكلام فيه بدعة، ولكن نؤمن به كما جاء على ظاهره، ولا نناظر فيه أحداً. (الاقتصاد في الاعتقاد للمقدسي - 158,159)
@@yasirlatif5749 اسلام علیکم ۔ جناب بھائی یاسر لطیف صاحب ۔ جواب دینے کا بہت شکریہ ۔ آپ مجھے یہ سمجھا دیں اللہ تعالی کی آیات کبری بڑی نشانیوں کو دیکھنا خود اللہ تعالی کو دیکھنا کیسے ہوا ؟ اس مسئلے کا سو فیصد حل قرآن پاک میں ہی موجود ہے جو کہ فرقان بھی ہے حق اور باطل میں فرق کرنے والا۔ جب مسئلہ سو فیصد حل ہو جاتا ہے تو آپکو محدیثین کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ آپ صرف یہ بتا دیں کیا قرآن مجید مکمل اور جامع کتاب نہیں ہے ؟ جو اپنی تفسیر خود بیان کرتی ہے ۔ چھ سو سال تک کسی کو ہمت نہیں ہوئ کہ وہ قرآن پاک کی تفسیر لکھے۔ بعد میں جو تفسیریں لکھی گئ ہیں سو فیصد درست نہیں ہیں بے شمار اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ آپ صرف سورہ العنام آیت نمبر ایک سو تین کا ترجمہ کر دیں ۔ کیا یہ سورج کی طرح روشن دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالی کو کوئی نہیں سکتا ۔ لیس کمثلہ اس جیسی کوئ مثل نہیں ۔ خود جو اللہ تعالی اپنے بارے میں جانتے ہیں ہم نہیں جان سکتے ۔ جس طرح اور جیسا اپنے بارے میں تعارف کرایا ہے اسی طرح منہ ہمیں ایمان لانا پڑے گا ۔ اور جس طرح اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور خصائص قرآن پاک میں بیان کیے ہیں ان پر ایمان لانا لازمی ہے۔ خالق اور مخلوق کا فرق جس طرح قرآن مجید میں لکھا ہوا ہے اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کو خواب میں بہترین صورت میں دیکھا احسن تقویم ۔ اور قرآن کریم میں درج ہے اللہ تعالی نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ۔ ترجیح کس بات کو دیں گے ۔ اگر دونوں کو صحیح کہا تو خالق اور مخلوق کا فرق کہاں ہے ؟ اگر حدیث مبارکہ کو صحیح مانتے ہیں تو قرآن پاک میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ اللہ تعالی کوئ صورت رکھتا ہے ؟ہمیں تو صرف یہی بتایا گیا ہے قل ھو اللہ احد فرما دیجئے صلی اللہ علیہ وسلم وہ اللہ ایک ہے ۔ سورہ نور میں نور کی مثال دی گئی ہے نور کی کیا صورت ہوتی ہے ؟ کیا آپ کاغذ پر نور کی تصویر بنا سکتے ہیں؟ سبحان اللذی عما یصفون ترجمہ پاک ہے وہ ذات اس چیز سے وہ باندھتے ہیں ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین ۔
وعلیکم جناب: آپ کی 600 سال والی تفسیر کی بات بالکل خلاف تحقیق ہے. لگتا ہے کہ آپ کو احادیث صفات کا نہیں پتا میرا آپ کو مشورہ ہے کہ بغیر علم کے اس میں گفتگو نہ کریں شکریہ. محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب الشهير بالإمام أبو جعفر الطبري، (224 هـ - 310 هـ) هو من أشهر الكتب الإسلامية المختصة بعلم تفسير القرآن الكريم عند أهل السنة والجماعة. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْأُمَوِيّ قَالَ: ثَنَا أَبِي قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى} [النجم: 8] قَالَ: «دَنَا رَبُّهُ فَتَدَلّٰى». (جامع البيان في تفسير القرآن - 22/14) وَقَدْ أَخْرَجَ الْأُمَوِيُّ فِي مَغَازِيهِ وَمِنْ طَرِيقِهِ الْبَيْهَقِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ بن عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: وَلَقَدۡ رَاٰهُ نَزۡلَةً اُخۡرٰى. قَالَ دَنَا مِنْهُ رَبُّهُ. وَهَذَا سَنَدٌ حَسَنٌ وَهُوَ شَاهِدٌ قَوِيٌّ لِرِوَايَةِ شَرِيكٍ. (فتح الباري لابن حجر - 13/484) حضرت انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: "حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى وَدَنَا الْجَبَّارُ رَبُّ الْعِزَّةِ فَتَدَلّٰی حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوۡ اَدۡنٰی". الحديث. (صحيح البخاري - رقم الحديث: 7517) حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ قَالَ: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيُّ، عَنْ كَثِيرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمَّا عُرِجَ بِي، مَضَى جِبْرِيلُ حَتَّى جَاءَ الْجَنَّةَ» قَالَ: «فَدَخَلْتُ فَأُعْطِيتُ الْكَوْثَرَ، ثُمَّ مَضَى حَتَّى جَاءَ السّدْرَةَ الْمُنْتَهَى، فَدَنَا رَبُّكَ فَتَدَلّٰى، فَكَانَ قَابَ قَوۡسَيۡنِ اَوۡ اَدۡنٰى، فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى». (جامع البيان في تفسير القرآن - 22/19) محدث ابن خزيمة فرماتے ہیں: فَقَدْ ثَبَتَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِثْبَاتُهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَأَى رَبَّهُ، وَبِيَقِينٍ يَعْلَمُ كُلُّ عَالِمٍ أَنَّ هَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي لَا يُدْرَكُ بِالْعُقُولِ، وَالْآرَاءِ وَالْجِنَانِ وَالظُّنُونِ، وَلَا يُدْرَكُ مِثْلُ هَذَا الْعِلْمِ إِلَّا مِنْ طَرِيقِ النُّبُوَّةِ، إِمَّا بِكِتَابٍ أَوْ بِقَوْلِ نَبِيٍّ مُصْطَفًى، وَلَا أَظُنُّ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَتَوَهَّمُ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ: «رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ» بِرَأْيٍ وَظَنٍّ، لَا وَلَا أَبُو ذَرٍّ، لَا وَلَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ. (كتاب التوحيد لابن خزيمة - 2/555) إسماعيل حقي فرماتے ہیں: واما اشتمال إراءة الآيات على إراءة الله تعالى فلما كانت تلك الآيات الملكوتية فوق الآيات الملكية أشهده تعالى في تلك المشاهد ليكمل له الرؤية في جميع المراتب والمشاهد ومن المحال أن يدعو كريم كريما الى داره ويضيف حبيب حبيبا في قصره ثم يتستر عنه ولا يريه وجهه. رہا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو دکھانا، اللہ تعالیٰ کو دکھانے پر مشتمل ہے، سو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ آیات ملکوتیہ آیات ملکیہ پر فائق ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ تمام مشاہد دکھائے تاکہ تمام مراتب اور مشاہد میں مکمل ہوجائے اور یہ محال ہے کہ ایک کریم دوسرے کریم کو اپنے گھر دعوت دے اور ایک حبیب دوسرے حبیب کو اپنے محل میں مہمان بلائے اور خود اس سے چھپ جائے اور اس کو اپنا چہرہ نہ دکھائے. (كتاب روح البيان - 9/231) خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے ‘ کیونکہ اس کو حضرت ابن عباس حضرت ابوذر حضرت ابوہریرہ حضرت انس رضی اللہ عنہم نے بیان کیا ہے اور یہ انہوں نے صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر ہی بیان کیا ہے کیونکہ یہ مسئلہ محض عقل سے نہیں جانا جاسکتا اور مثبت روایت نافی پر مقدم ہوتی ہے ۔ آپ نے جو خود قرآن مجید کی دو آیتوں سے اس مسئلہ کا استنباط کیا ہے ‘ تو سورة الانعام کی آیت ١٠٣ لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ ۚ وَہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ﴿۱۰۳﴾ آنکھیں اسے احاطہ نہیں کرتیں اور سب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں اور وہ نہایت باریک بین بہت باخبر ہے. سے آپ کے استنباط کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں ادراک بہ طور احاطہ کی نفی ہے‘ مطلقاً رؤیت کی نفی نہیں‘ ہم بھی رؤیت کے قائل ہیں احاطہ کے نہیں اور سورة شوری کی آیت ٥١ سے جو استدلال ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی بلاحجاب رؤیت کی نفی نہیں ہے ‘ بلکہ بلاحجاب کلام کی نفی ہے اور رؤیت کلام کو مستلزم نہیں ہے. ویسے بھی ان دو آیتوں میں نفی کا تعلق دنیا کے حوالے سے ہے. جبکہ جمہور علماء اسلام کا موقف یہ ہے کہ دنیا سے نکل کر ساتوں آسمانوں کے اوپر جا کر یہ رؤیت صرف سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے معراج کی شب واقع ہوئی اور اس جگہ پر دنیا کا اطلاق نہیں ہوتا اور آخرت میں تمام انبیاء (علیہم السلام) اور مومنین کے لیے رؤیت واقع ہوگی ‘ میدان حشر میں بھی اور جنت میں بھی. (آیت) ” وجوہ یومئذ ناضرۃ ‘ الی ربھا ناظرۃ “۔ (القیامہ : ٢٣۔ ٢٢) ترجمہ : کتنے ہی چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اپنے رب کو دیکھتے ہوئے ۔ اس آیت میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کی تصریح ہے ؛ (آیت) ” کلا انھم عن ربھم یومئذ لمحجوبون “۔ (المطففين : ١٥) ترجمہ : بیشک وہ لوگ اس دن اپنے رب کے دیدار سے ضرور محروم ہوں گے ۔ اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ قیامت کے دن کفار اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوں گے اور یہ چیز ان کے لیے اسی وقت باعث حرمان ویاس ہوگی جب مسلمان اس دن اپنے رب کا دیدار کر رہے ہوں ‘ کیونکہ اگر مسلمانوں کو بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل نہ ہو اور نہ کافروں کو ‘ تو پھر یہ چیز ان کفار کے لیے باعث افسوس نہیں ہوسکتی.
@@yasirlatif5749 وعلیکم السلام رحمت اللہ و برکاتہ ۔ جواب دینے کا بہت شکریہ ۔ جناب بھائی صاحب میرا اشارہ ابن کثیر رحمت اللہ علیہ کی طرف تھا جو سات سو ہجری میں پیدا ہوئے ۔ ابن جریر کے متعلق پتہ ٹھا وہ پہلے کے ہیں لیکن ان کا دور یاد نہیں رہا۔ آپکی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ جب کوئ جواب نہیں بن پاتا تو جذبات میں آکر نئے نئے استعدال نکالتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ انکی اطاعت اور اتبع کی جائے اور جو انکی فضیلت اللہ تبارک و تعالی نے بیان کی ہے اسی پر سر تسلیم خم کر دیں ۔ رحمت للعلمین خاتم النبین اور پوری انسانیت کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بیجھے گے کیا اس سے بھر کر اور کوئی فضیلت ہو سکتی ہے؟ سورہ یونس آیت نمبر تین میں لکھا ہے کہ ترجمہ بے شک تمہارا رب وہ ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش کے اوپر مستوی ہونے ( اپنی شان کے لائق )۔ اپنے گھر بلایا اور اپنے محل میں اپنے چہرے کو نہیں دکھانا یہ باتیں کہاں سے آ گئیں ؟ جو باتیں قرآن پاک کے مطابق ہیں چاہے وہ احادیث مبارکہ میں ہوں یا تفسیر میں انکو ماننا چاہیے ۔ جو باتیں قرآن پاک کے مطابق نہیں وہ احادیث نہیں ہو سکتیں وہ روایتیں ہیں جن میں اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا موقف قرآن پاک کے عین مطابق ہے اسکو ماننے میں آپکو مشکل کیوں پیش آرہی ہے؟ حق بات کو قبول کرنا چاہیے یہی ایک مخلص محقق کی نشانی ہے۔ سورہ البقرہ آیت نمبر دو سو ترپن اللہ تعالی نے انبیاء کرام صلوۃ وسلام کے دراجات بلند کیے سلم تسلیما کا رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔ ایک عام مسلمان ہوں کسی گروہ سے تعلق نہیں ہے محقق کی حیثیت سے اصل اور خالص دین اسلام جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو سال پہلے لے کر آئے تھے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اسکی پہچان نصیب ہو ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین ۔
Quran is par khamosh hai ।।।। baki agar quraan ki wo ayat ko li jaye jisme latudrekul Absar Wali to fir qayamat ke din Wali ki bhi nafi hogi aur mu'tazli ise se masail akhaz karte hain
مفتی کامران صاحب،! الللہ تعالی نے قرآن پاک میں ہی تو فرما دیا ہے کہ تم ان کے دیکھنے پر جھگڑتے ہو انہوں نے تو اسے ( نور السموات العرض یعنی الللہ کریم کو) دو بار دیکھا۔ جبرائیل کو تو آپ کئی بار دیکھ چکے تھے پھر صرف دو بار دیکھنے کا ذکر اسی لئیے کیا گیا کہ وہ الللہ کریم کا ہی نور تھا جس کا ذکر زور دے کر کیا گیا ہے۔
اس کی کیفیت میں نہیں پڑنا چاہیے کہ احادیث سے ثابت نہیں، اتنا ضرور ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کی آنکھوں سے دو مرتبہ اللہ کا دیدار۔
53:8 ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ Then he approached and descended 53:9 فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ And was at a distance of two bow lengths or nearer. Quran ki in ayat ke baare me kya khayal hai apka? Apki research ek tarfa hai?
لیکن جب حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ سے درخواست کی جس کا مفہوم کہ میں آپ کی دیدار کرنا چاہتا ہوں تو جواب میں اللہ عزوجل نے فرمایا کہ مجھے دیکھ نہیں سکتے البتہ اس پہاڑ کی جانب دیکھو جب انہوں نے پہاڑ کی جانب دیکھا تو پہاڑ جل گیا اور حضرت موسی بے ھوش ھو گئے۔اس سے ثابت ھوتا ھے کہ اللہ کو کوئ دیکھ نہیں سکتا
Mufti shb agr Allah pak ka deedaar kia tha mere pyare nabi saw ne to sahaba ko to btaya mgr apni pyari or mehboob treen bivi Amma Ayesha ko kiu na btaya
Death is pre- requesite for meeting your beloved creater who cant be seen with your living eyes before death , who keeps no shape, no size and no image . Invisible things like Malayika , Heavens, Hell and Hoors cant be seen before death except in dreams or after death.🎉
Sir ! Normally you give reference from Quran in every small matter ; And today in such a big matter have you forgotten to give reference from Quran; Or any other matter ??? ( Don't take any negative things about it )
جو لوگ ریپلائی کر رہے ہیں کہ قرآن سے دیدار ثابت نہیں یا جبرائیل ع کے بارے دیدار کا مؤقف اپناتے ہیں ان سے ۔یرا سوال ہے کہ۔ اگر جبرائیل ع ک دیدار کیا ہے تو کیا وہ اللہ پاک کے دیدار کو ناممکنات بن دیتا یے اور کوئی آنکھ اللہ پاک کا ادراک نہیں کر سکتی تو اس کا جواب کیا ہو گا ک قیامت کے دن یا جنت میں اگر دیدار کو مانتے ہیں تو کیا اس دیدار سے مراد بھی ادراک لیا جائے گا۔ دیدار کی نفی کی تمام دلیلیں بعد از قیامت دیدار الہی کے اثبات کے ساتھ کیسے مطابقت رکھتی ہیں۔
Assalam alaikum, Aap ne woh ayaat kyun nahi sunayi jo ummul momineen ne sunayi thi. Kya aap us hadees ko sahee manoge jo Qur'an se takraye. to plesae jo Quran se ummul momineen ne daleel di hai woh bhi sunaiye. Surah 6:103 (mafhoom) - "nigahen usko nahi pa sakti aur woh nigahon ko pa leta hai aur woh baarik been bakhabar hai". is ayat se pata chala ke koi nigah usko nahi pa sakti. Aur isi liye ummul momineen Aisha R.a ne bhi yehi kaha ke ALLAH ke Rasool Muhammad s.a.w.s ne ALLAH pak ko nahi dekha
What Qur'aan says about this matter ? Listen the reality of deedaar of Allah on meraaj ,on AARAAF CHANNEL by Dr. Hafiz Baig on UA-cam, with Qur'aanic references.
Mufti Saab is subject per aapney haqq baat nahi ki. Tanazea honey per Quran aur Sunnat ki taraf palatna hai jo aap khud bhi farmarahe hain lekin aapney yahan Quran ki taraf nahi lotaya aapney. Quran clear hai ke deodar e rab nahi howa balkey Rab ki badi badi nashaniyan dekhi. Mai aapko shouq se sunta tha lekin aapki kitman e haqq ki wajah se mai bahot mayus howa.
اس مسلہ میں آپ قران سے دامن بچا کر نکل گٸے اانسانوں کا موقف قبول کرنے لینے کے بعد مسلہ کو صاف اور واضح کر سکتے تھے پر آپ نے ایسا کیا نہیں کہیں نفس کی خوشنودی تو مقصود نہیں تھی ?
اللہ تعالیٰ کی ذات عظیم کو لوگوں نے پتہ نہیں کیا سمجھ لیا ہے ۔ تصوف کا چسکہ جن لوگوں کو لگ گیا تھا ان میں سے بہت سے خود اپنی ذات کے حوالے سے بھی اس طرح کی لن ترانیاں ہانکتے رہے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کسی طرح یہ بات لوگوں کے حلق سے اتاری جائے تو پھر متصوفانہ لن ترانیوں کے لئے بہت کچھ کنجائش نکالی جا سکتی ہے ۔ ان ظالموں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اللہ تعالیٰ کی نفس ذات کی حقیقت کو کسی حد تک بھی اس ساری کائنات میں نہ کوئی جان سکا ہے نہ کبھی کوئی جان سکے گا ، نہ ملک مقرب ، نہ نبی مرسل ۔ اللہ تعالیٰ بندوں کے لئے تجلی فرماتا ہے ۔ جنت میں اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا تسلسل جاری رہے گا ، اور یہ تجلیات اس تجلی سے بلند تر ہوں گی جس کا تجربہ دنیا میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو ہو چکا ہے ۔ مخلوق ، چاہے اس کا درجہ اور شان کچھ بھی اور کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو ، بہر حال مخلوق ہے ۔ اللہ تعالیٰ وراء الورا اور مخلوق کے تمام تصورات سے بھی بلند اور پاک ہے ۔ مخلوقات کو تو بس اللہ تعالیٰ کی اسماء و صفات کے زیادہ سے زیادہ علم واستحضار پر قناعت کرنی چاہئے اور بس ۔
مسئلے کو حل نہیں کیا بیچ میں لٹکا دیا ۔ یہ وقت کا ضیاع ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی عنھا کا موقف قرآن پاک کے مطابق ہے دلیل کے طور پر بے شمار آیتیں ہیں لیس کمثلہ اس جیسا کوئ نہیں اگر دیکھتے تو کیسے مثال دیتے وہ کیسے تھے ۔ قرآن پاک سے ثابت ہے جبرائیل آمین کو اصلی صورت میں دو بار دیکھا سورہ نجم اور سورہ التکویر آیت نمبر تئیس ۔ یہ مسئلہ سو فیصد قرآن مجید میں ہی حل ہو جاتا ہے اگر غور سے پڑھا جائے ۔اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے آمین ۔
Insha'Allah you will touch the sky. You are doing very well.
Allah aap jaise olma ki taadad me izafa kare❤
MASHA ALLAH buht khob
Mashallah jzaka Allah khair ❤❤❤
Masha Allah sir.keep going
Best detailed explanation of this matter
Bahtreen.... subhan Allah
Jub saxaap ko suna hy,aap ki taleemat ka ma qail hi gaya,Allah asp ko zahai khyr da,Aameen
Masha Allah
Bohut khoob
ماشاء اللہ
keep it up 👍
You are the best person ❣️ main ne apse bohaat bohaat seekha hai hadees ko samjha hai khud se parh ke Alhamdulillah.
ماشاءاللہ 🌲
مفتی صاحب 🌹
شکریہ 🌲
Mashalah bohat khob
Great ustaz❤
Masha Allah. Salamat rahiyey
mashallah mufti sab allah ap ko salamat raka
استاد محترم آپ کو اللہ تعالیٰ دنیا آخرت کی بھلائی عطا فرمائے آمین
الشوریٰ 51
Ma'sha'Allah nice bayan starting canfusion the but and m clear hogaya Allah barkat dy
Bohht khoob qibla
MashaALLAH ,👍
MashaaAllah bht khoob
وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحۡیًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوۡ یُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَیُوۡحِیَ بِاِذۡنِہٖ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیۡمٌ ﴿۵۱﴾
Masha Allah
That's fantastic, definitely we people fight nowadays on these types of matter which breaks the Muslim Ummah apart. Ma sha Allah, Allah bless you.
Mashallah mufti sab
Beshak NABI S.A.W.W ne meiraj ki raat ALLAH ka deedaar kiyaa
Jazak Allah.
ماشاءالله تبارك الله، هذا جيد هذا كويس، جزاك الله و أحسن الجزاء في الدارين
Allah apko kub barkat day...ameen
Good answer 💯
MASHA ALLAH ALLAH ESY alim ALLAH HAMAY MAZEED DAY AMEEN
ماشاءاللہ تبارک اللہ
اللہ آپ کے علم و بصیرت میں اضافہ فرمائے۔ آمین
You are doing great job being in solution end alike those who are always in problem end
Masha Allah very very Niceee Allah ap k ilm mai bht barkat ata farmaye Aur hamay ap k ilm se hamesha mustafeed honay ki tofeeq ata farmaye Ameeen
Jazak allah
Subhanallah
Abdullah ibn Abbas RZ was child at the age of Wisal(PBUH) while Ayesha RZ was audult and asked to Rasool(PBUH).
عبد الله بن عباس بن عبد المطلب الهاشمي، (3 ق هـ / 618م - 68 هـ / 687م) صحابي جليل ومحدث وفقيه وحافظ ومُفسِّر، وهو ابن عم النبي محمد صلى الله عليه وسلم، وأحد المكثرون لرواية الحديث، حيث روى 1660 حديثًا عن الرسول، ولهُ في الصحيحين 75 حَدِيثًا متفقا عليها.
لازم عبد الله بن عباس النبي عليه الصلاة والسلام وروى عنه، ودعا له النبي قائلًا: “اللهم فقهه في الدين وعلمه التأويل”، وقال أيضًا: “اللهم علمه الكتاب، اللهم علمه الحكمة”، توفي النبي وعمره ثلاث عشرة سنة، فكان يفسّر القرآن بعد موت النبي، حتى لُقِّب بـ حّبر الأمة وترجمان القرآن، والحبر والبحر.
Age doesn't matter in this science.
ماشآءاللہ سبحان اللہ
Alhumdolillah...deedaar Kiya..
Quran may Allah Tala farmata hai.
Allaho Nurus Samawate wal Arz phir agli ayat phir agli ayat.
Mujhay Lagta hai Jo bhi Allah k Noor ki ek jhalak dekh lega usko saari Dunya mil kar bhi nahi Dra sakti aur uskay Dil say Maut ka Darr hi khatam ho jaaega.
Musa Alaih Salam nay Allah ka Partau dekha aur behosh hogaye.
Jab Hosh aaya kahnay lagay Ana awwalul muslimeen.
ALLAH ki Sunnat Musa A.S. aur Muhammad A.S. ke liye kabhi bhi alag alag nahi ho sakti ?
Masha'Allah bhot achy sy explain kr dia gya Allah pak jazaye kher atta frmaye Ameen
اللہ کو دیکھا نہیں ھے تو اللہ کے رسول کیا دیکھ نے گے تھے
Mashallah
Quraan se wajeh lafzon me takra Raha hai....
Wo noor Allah Ka parda hai jise Hozur ne Dekha....
Jis jibreel KO Allah k Rasool Ney bar bar dekha tha.Meyraaj un k dedaar k liye bulaya ghiya
Mere pyare mufti shb jub Mere nabi saw ne farmaya k mene Noor dekha h to Allah k nabi saw ne jibraeel ka kaha h kiu k wo bhi Noor hn
مالک آپ کو سلامت رکھے آپ صحیح معنوں میں عالم ہیں
G.BILLKULL dekha. Quraan Mn Travelling to Mairaj.
Yahan imam malik aur oonke shagirdon ka hee moukuf theek hai iss mamle main khamosh rehna hee sabse behtar hai
ماشاء اللہ دو نوں روایت اپنی جگہ درست ھین اس اختلاف سے اھلسنت کا عقیدہ بنتا ھے اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا خالق ھے اور مخلوق خالق کو نھی دیکھ سکتا مگرخالق مخلوق کو اپنا دیدار کرانے پر قادرھے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے صرف اپنے محبوب ءامام الانبیاء کوھی اپنا دیدار مبارک سے مشرف حاصل فرمایا سواءے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دیدار کاشرف حاصل نھیں فرمایا
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہوتی تو میں نے آپ ﷺ سے ضرور پوچھا ہوتا ، انہوں نے پوچھا :تم رسول اللہ ﷺ سے کیا بات پوچھتے ؟ میں نے کہا: میں پوچھتاکہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ بات تومیں نے آپ ﷺ سے پوچھی تھی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے (اپنی آنکھوں سے ) نور ( کے حجاب) کو دیکھا تھا۔
"عن عبداللّٰه بن شقیق قال: قلت لأبي ذر: لو رأیت رسول اللّٰه لسألته، فقال: عن أي شيءٍ کنت تسأله؟ قال: کنت أسأله هل رأیت ربك؟ قال أبو ذر: قد سألته، فقال: رأیت نوراً". (مسلم)
معلوم ہوا کہ اس طرح دیکھنا کہ نگاہیں مکمل ادراک کریں جیسے جنت میں اللہ تعالیٰ نصیب کریں گے، ایسا دنیا میں کوئی نہیں دیکھ سکتا، ہاں فی الجملہ حق تعالیٰ شانہ کو دیکھنا ممکن ہے ،اور یہی رؤیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو شبِ معراج میں میسر ہوئی، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی خصوصیت ہے جس میں آپ کا کوئی شریک نہیں، لہٰذا اس صورت میں کوئی اختلاف نہیں رہا، تمام روایات میں بھی تطبیق ہو جاتی ہے۔
مروزی سے نقل کیا گیا ہے کہ میں نے امام احمد سے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، وہ فرماتی ہیں کہ جوشخص یہ سمجھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ بولا ہے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث پر لوگ بڑے شش وپنج میں ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا کس دلیل سے جواب دیا جائے؟ (اوپر روایات کی تطبیق سے یہ جواب مفہوم ہوگیا کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کو کامل ادراک اور سارے علم کے ساتھ جان لینے کی نفی ہے) حضرت امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا جواب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں موجود ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ’’ رَئَیْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ‘‘۔
اوپر روایات اور تطبیق سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ کے رسول اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، ہاں کامل ادراک کے ساتھ نہیں دیکھا، اس لیے کہ اس طرح کا دیدار دنیا میں ممکن نہیں، یہ دیدار اللہ تعالیٰ جنت میں کروائیں گے۔ البتہ فی الجملہ دیکھنے میں کوئی اشکال نہیں، اس طرح کا دیدار اللہ کے رسول اللہ علیہ وسلم کواللہ نے کروایا، جمہور صحابہ اور تابعین کا یہی مذہب ہے، اورمحققین کا راحج قول یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکی آنکھوں سے اللہ کو دیکھا ہے۔ فقط واللہ اعلم
اللہ کا دیدار خواب میں ہوااسکے بارے تفصیلاً حدیث ہے
Khwab mai imam ahmad bin hambal ko 100 se zaid partsba huwa zameen par hamare nabi s a s m ko allah ne arsh par bula kar didar karaya
اللہ کی نشانیاں دیکھنے گئے تھےاور حُود نہیں گئے تھے -لے جائے گئے تھے
جب قران میں اگیا تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ دیکھا تو اپ کون ہوتے ہیں کہنے والے
Bhai mujhy Surah or ayat number nhi mil rhi jis ma ya reference diya gaya tha.
Ap please ayat number or Surah ka naam bta dain...
یہ ادراک بمعنی احاطہ کے ہیں ۔کہ اللہ کی ذات کو نور کے طور پر دیکھا ۔مگر اس کی ذات کا صفات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا ۔یعنی ہم اللہ کی ذات کو مکمل شناخت نہیں کر سکتے ۔جیسے ہم کسی شے کو دیکھ کر مکمل طور پر اس کے اپنی نظر کے احاطے میں لے اتے ہیں
دل سےدیکھا ،یعنی خوب توجہ کے ساتھ جم کر دیکھا ،یہ رسول االلہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خصوصیت ھے-
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی دلیل "لاتد رکہ الابصار"ھے،جسکے معنی کسی ذات کو ہمہ جہت ایک نظر میں دیکھنا ،اور ظاہر ھے یہ محال ھے ،لھذا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک "ادراک"کی نفی ھے "دیدار"کی نھیں ۔
اسماعیل بن ابراہیم نے داود سے ، انہوں نے شعبی سے اور انہوں نے مسروق سے روایت کی ، کہا : میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ٹیک لگائے ہوئے بیٹھا تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ابوعائشہ ! ( یہ مسروق کی کنیت ہے ) تین چیزیں ہیں جس نے ان میں سے کوئی بات کہی ، اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا ، میں نے پوچھا : وہ باتیں کون سی ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : جس نے یہ گمان کیا کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا ۔ انہوں نے کہا : میں ٹیک لگائے ہوئے تھا تو ( یہ بات سنتے ہی ) سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور کہا : ام المومنین ! مجھے ( بات کرنے کا ) موقع دیجیے اور جلدی نہ کیجیے ، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا :’’ بے شک انہوں نے اسے روشن کنارے پر دیکھا ‘‘ ( اسی طرح ) ’’ اور آپ ﷺ نے اسے ایک اور بار اترتے ہوئے دیکھا ۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میں اس امت میں سب سے پہلی ہوں جس نے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا :’’ وہ یقیناً جبریل علیہ السلام ہیں ، میں انہیں اس شکل میں ، جس میں پیدا کیے گئے ، دو دفعہ کے علاوہ کبھی نہیں دیکھا : ایک دفعہ میں نے انہیں آسمان سے اترتے دیکھا ، ان کے وجود کی بڑائی نے آسمان و زمین کے درمیان کی وسعت کو بھر دیا تھا ‘‘ پھر ام المومنین نے فرمایا : کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں سنا :’’ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ آنکھوں کا ادراک کرتا ہے اور وہ باریک بین ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے ‘‘ اور کیا تم نے یہ نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ اور کسی بشر میں طاقت نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے ذریعے سے یا پردے کی اوٹ سے یا وہ کسی پیغام لانے والے ( فرشتے ) کو بھیجے تو وہ اس کے حکم سے جو چاہے وحی کرے بلاشبہ وہ بہت بلند اور دانا ہے ۔‘‘
( ام المومنین نے ) فرمایا : جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے کچھ چھپا لیا تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ اے رسول ! پہنچا دیجیے جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا اور اگر ( بالفرض ) آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا پیغام نہ پہنچایا ( فریضہ رسالت ادا نہ کیا ۔ ) ‘‘
( اور ) انہوں نے فرمایا : اور جو شخص یہ کہے کہ آپ اس بات کی خبر دے دیتے ہیں کہ کل کیا ہو گا تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ ( اے نبی ! ) فرما دیجیے ! کوئی ایک بھی جو آسمانوں اور زمین میں ہے ، غیب نہیں جانتا ، سوائے اللہ کے ۔‘‘ muslim 439
السلام علیکم حضرت اپ سے کافی مطمئن ہم اپ کی باتوں سے
The version of Ayesha RA is correct but bcz she is the only one who raised this question before Nabi AS and he replied that he did not see Allah but saw Jibrael twice in his true shape. This conforms to Qur'anic version "La Tudrikuhul Absar". Rest of the narrations are not directly taken from Nabi AS not that of even Ibne Abbas. In fact what Ibne Abbas said is that Nabi AS experienced Mairaj physically ( with his two eyes) and not as some people who believed that it was only through dream. Therefore Surah Najam read with Surah Takeer makes it further clear.
Kindly in questions k answers par bhi roshni dalen.. JazakAllah
Anmbiya se mulaqat hoi ? kese hoskati hai bad e wafat?
Baitul maqdas se start hoi ? ya ghr se ? aur intiha kaha hoi ?
aik dafa dekha ya do dafa ?
Sidratul Muntaha par gae ya Allah k paas
Moosa Alyh salam ko qabar main namaz parhte hoe dekha ?
Kund hil rahi thi, pani jari tha ??
Kya dajjal se bhi Mulaqat hoi ?
Jannat o Dozakh ki sair ki ?
Please watch this video.
ua-cam.com/video/5AQowgPcJJs/v-deo.html
Jo ulma ye samajhty h Nabi (SW) Allaha ko dekha h wo hi kamyab h Jo khary h nahi dekha wo byustady h
ابن مسعود کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کی ذات کا اُس کی جمیع صفات کے ساتھ احاطہ نہیں کیا جاسکتا،
تو کیا فقط ایک صفت کے ساتھ احاطہ کیا جا سکتا ہے؟؟؟ جیساکہ صفت نور کے ساتھ ہی۔۔۔
اللہ تبارک و تعالی کا احاطہ کسی بھی صورت میں نہیں کیا جاسکتا یہ شرعاً اور عقلا محال ہے۔ کسی بھی عام سی چیز کو ہی دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا احاطہ کیا گیا ہوں، اللہ تعالی کی شان بلند و بالا ہے۔
صحیح بخاری شب معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوئے : دنی الجبار رب العزة فتدلی حتی کان منه قاب قوسين او ادنی ۔ اللہ رب العزت اتنا قریب ہوا کہ دو کمانوں کے درمیان جتنا یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا ۔
(صحيح البخاری، 2 : 1120، کتاب التوحيد، رقم : 7079)
دیدار کی نفی نہیں احاطہ کی نفی ہے مخلوق محدود اس کی نظر محدود جبکہ رب لا محدود ہے
حبیب خدا صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی عرش تک رسائی اور دیدار الہٰی:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "رَأَيْتُ رَبّي تَبَارَكَ وَتَعَالٰی".
حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللّٰہ (ﷺ) نے فرمایا: میں نے اپنے رب تبارك وتعالٰی کو دیکھا ہے.
(مسند احمد - رقم الحديث: 2481)
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ: " قُلْتُ لأَبِي ذَرّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، لَوْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ، هَلْ رَأَى رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ؟ قَالَ: قَدْ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: قَدْ رَأَيْتُهُ ".
عبد اللّٰہ بن شفیق رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اگر میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتا تو ضرور آپ (ﷺ) سے پوچھتا کہ کیا آپ (ﷺ) نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ تو حضرت ابوذر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے آپ (ﷺ) سے پوچھا تھا تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے اس کو دیکھا ہے.
(کتاب السنة - رقم الحديث: 474)
أن ابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا حَبَّةَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَا يَقُولَانِ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ثُمَّ عُرِجَ بِي حَتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوًى أَسْمَعُ فِيهِ صَرِيفَ الْأَقْلَامِ.
حضرت عبد اللّٰہ بن عباس اور حضرت ابوحبۃ الانصاری رضی اللّٰہ عنہما کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر مجھے اوپر لے جایا گیا یہاں تک کہ میں اس بلند مقام پر پہنچ گیا جہاں میں نے قلموں کی آواز سنی.
(صحيح البخاري - رقم الحديث:349)
قَالَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي ابْنُ حَزْمٍ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا حَبَّةَ الأَنْصَارِيَّ كَانَا يَقُولانِ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثُمَّ عُرِجَ بِي حَتَّى ظَهَرْتُ بِمُسْتَوَى الْعَرْشِ ".
(كتاب الشريعة للآجري - رقم الحديث:1043)
حضرت انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:
حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى وَدَنَا الْجَبَّارُ رَبُّ الْعِزَّةِ فَتَدَلّٰی حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوۡ اَدۡنٰی
یہاں تک کہ آپ (ﷺ) سدرۃ المنتہیٰ پر آئے اور جبار رب العزۃ قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا یہاں تک کہ آپ (ﷺ) سے دو کمانوں کی مقدار بلکہ اس سے زیادہ قریب ہوگیا.
(صحيح البخاري - رقم الحديث: 7517)
محدث ابن قيم اور محدث احمد قسطلانی اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:
ودنو الرب تبارك وتعالٰی وتدليه على ما فى حديث شريك، كان فوق العرش لا إلى الأرض.
رب تبارك وتعالٰی کا قریب ہونا اور اس کا زیادہ قریب ہونا جیسا کہ حدیث میں ہے، عرش کے اوپر تھا زمین پر نہیں تھا.
(تفسير القرآن الكريم لابن القيم - 497/1)
(المواہب اللدنیۃ - 2 /487)
شہاب الدین خفاجی فرماتے ہیں :
علیہ یدل صحیح الاحادیث الاحاد الدالۃ علی دخولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الجنۃ ووصولہ الی العرش اوطرف العالم کما سیأتی کل ذٰلک بجسدہ یقظہ.
صحیح احادیثیں دلالت کرتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم (شب اسراء) جنت میں تشریف لے گئے اور عرش تک پہنچے یا عالم کے کنارے تک اور یہ سب بیداری میں مع جسم مبارک تھا.
(نسیم الریاض - 2 /269,270)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " أَتَعْجَبُونَ أَنْ تَكُونَ الْخُلَّةُ لإِبْرَاهِيمَ ، وَالْكَلامُ لِمُوسَى ، وَالرُّؤْيَةُ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے دوستی اور حضرت موسٰی علیہ السلام کے لئے کلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے دیدار ہونے میں کیا تمہیں کچھ تعجب ہے.
(السنن الكبرى للنسائي - حديث:11021)
(كتاب التوحيد لابن خزيمة -حديث:581)
(المستدرك على الصحيحين -حديث:201)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ : " رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ "
حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ہے.
(كِتَابُ التوحيد لابن خزيمة - حديث:266
(جزء القاسم بن موسى الأشيب - حديث:8)
حَدَّثَنِي أَبُو مُوسَى الْأَنْصَارِي، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ، فَحَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، قَالَ: سَأَلَ مَرْوَانُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ: " هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ عَزَّوَجَلَّ؟ فَقَالَ: «نَعَمْ قَدْ رَآهُ»
داود بن حصين کہتے ہیں کہ مروان نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے پوچھا: کیا حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا؟ تو فرمایا: ہاں اس کو دیکھا ہے.
(كتاب السنة - حديث:218)
عنْ كَعْبٍ، قَالَ: " إِنَّ اللّٰهَ قَسَمَ رُؤْيَتَهُ وَكَلامَهُ بَيْنَ مُوسَى وَمُحَمَّدٍ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَيْهِمَا فَرَآهُ مُحَمَّدٌ مَرَّتَيْنٍ، وَكَلَّمَ مُوسَى مَرَّتَيْنِ ".
حضرت کعب نے فرمایا: اللّٰہ تعالی نے اپنے دیدار اور اپنے کلام کو حضرت محمد مصطفی (ﷺ) اور حضرت موسی علیہ السلام کے درمیان تقسیم کر دیا، اور حضرت محمد مصطفی (ﷺ) نے اس کو دو بار دیکھا اور حضرت موسی علیہ السلام نے دو بار کلام کیا.
(كتاب التوحيد لابن خزيمة - حديث:276)
وضاحت: حضور اقدس (ﷺ) کو اللّٰہ تعالیٰ کا ایسا قرب ملا جو کسی اور کو نہیں ملا, اللّٰہ تعالیٰ کے قریب ہونے یا آپ (ﷺ) کو اپنی طرف قریب کرنے کا معنی اس طرح نہیں ہے جو جگہ اور مسافت کا قرب ہو بلکہ اس سے وہ قرب مراد ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کے قرب کی کوئی حد نہیں ہے.
جناب یاسر لطیف صاحب ۔ سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر ایک کے مطابق لنوریہ من آیتنا ترجمہ اسلئیے تا کہ ہم اسکو اپنی نشانیوں میں سے دکھائیں ۔ یہاں معراج شریف کا مقصد بیان کیا گیا ہے ۔ سورہ النجم آیت نمبر اٹھارہ میں لکھا ہے کہ اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں ۔ جبرائیل آمین کو اصلی صورت دو مرتبہ دیکھنا اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہے۔ قرآن پاک میں جبکہ معراج شریف کا واضح لفظوں مقصد بیان کیا گیا ہے تو پھر آپ کیوں بضد ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو دیکھا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا موقف قرآن پاک جو کہ اللہ تعالی کا کلام اور اسکے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے عین مطابق ہے پھر آپ اسکو قبول کیوں نہیں کرتے؟ لیس کمثلہ اس جیسا کوئ نہیں اگر دیکھتے تو کفار پوچھتے وہ کیسے ہیں تو کیا جواب دیتے؟ وہ سب کو دیکھتا ہے اور اسکو کوئ نہیں دیکھ سکتا ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین ۔
جناب: دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے نکل کر ساتوں آسمانوں کے اوپر جا کر اللّٰہ پاک کا دیدار کرنا نبی پاک صلى اللّٰہ عليہ وآلہ وسلم کے خصائص میں سے ہے آپ کو اس بات کے ماننے سے کیا مسئلہ ہے جبکہ واضح مرفوع اور موقوف احادیث سے ثابت ہے اس میں ضد کی کوئی بات نہیں اور آپ خود سے مفہوم اخذ کر رہے ہیں حالانکہ آیات الْكُبْرَى کو دیکھنا تو خود دیدار الہی کرنے کی دلیل ہے نہ کہ نفی کی. احادیث شریفہ تو فقیر نے پیش کر دی ہیں اب ذرا محدثین کے اقوال بھی دیکھ لیں. آقا کریم صلى اللّٰہ عليہ وآلہ وسلم کے خصائص و فضائل کو ماننے کے لیے دل کو کشادہ کریں. قرآن اور احادیث میں جیسے آقا کریم صلى اللّٰہ عليہ وآلہ وسلم کی شان بیان ہوئی ہے ویسے ہی اللّٰہ پاک ماننے کی توفیق عطا فرمائے. آمین.
محدث أبو عوانہ الإسفراييني فرماتے ہیں:
باب بيان أن الجنة مخلوقة، وأن النبي - صلى اللّٰه عليه وسلم - دخلها، وأنها فوق السماوات، وأن السدرة المنتهى فوقها، وأن النبي - صلى اللّٰه عليه وسلم - انتهى إليها، [وأنه دنا من رب العزة، ورب العزة دنا منه قاب قوسين أو أدنى، وأن ما غشىي السدرة من الألوان كان من نوره تبارك وتعالى،] ۔
(مستخرج أبي عوانة - 2/47)
محدث أبو حاتم بُستي فرماتے ہیں:
وَاسْمُ الدُّنْيَا قَدْ يَقَعُ عَلَى الْأَرَضِينَ وَالسَّمَاوَاتِ وَمَا بَيْنَهُمَا لِأَنَّ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ بِدَايَاتٌ خَلَقَهَا اللَّهُ جَلَّ وَعَلَا لِتُكْتَسَبَ فِيهَا الطَّاعَاتُ لِلْآخِرَةِ الَّتِي بَعْدَ هَذِهِ الْبِدَايَةِ فَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي لَا يُطْلَقُ عَلَيْهِ اسْمُ الدُّنْيَا لِأَنَّهُ كَانَ مِنْهُ أَدْنَى مِنْ قَابِ قَوْسَيْنِ حَتَّى يَكُونَ خَبَرُ عَائِشَةَ أَنَّهُ لَمْ يَرَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الدُّنْيَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الْخَبَرَيْنِ تَضَادٌّ أو تهاتر.
(صحيح ابن حبان - 1/260)
شمس الدين ذهبي فرماتے ہیں:
وأكثر الصحابة على أنه صلى الله عليه وسلم رأى ربه.
(كتاب العرش للذهبي - 2/64)
شمس الدين ذهبي فرماتے ہیں:
قلت: "لأنه رآه في عالم البقاء، حين خرج من عالم الفناء، وارتقى فوق السموات السبع".
(كتاب العرش للذهبي - 2/67)
"ودنو الجبار منه، وتدليه سبحانه وتعالى بلا كيف، حتى كان من النبي صلى اللّٰه عليه وسلم قاب قوسين أو أدنى، وأنه رآه تلك الليلة".
(كتاب العرش للذهبي - 2/67)
ابن أبي العز حنفي فرماتے ہیں:
وأما الدنو والتدلي الذي في حديث الإسراء فذلك صريح في أنه دنو الرب تعالى وتدليه.
(تفسير ابن أبي العز - 121/47)
امام أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) فرماتے ہیں:
فَالْحَاصِلُ أَنَّ الرَّاجِحَ عِنْدَ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ إن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم رَأَى رَبَّهُ بِعَيْنَيْ رَأْسِهِ لَيْلَةَ الْإِسْرَاءِ لِحَدِيثِ بن عَبَّاسٍ وَغَيْرِهِ مِمَّا تَقَدَّمَ وَإِثْبَاتُ هَذَا لَا يَأْخُذُونَهُ إِلَّا بِالسَّمَاعِ مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
(كتاب شرح النووي على مسلم - 3/5)
أبو محمد، تقي الدين عبد الغني بن عبد الواحد المقدسي الحنبلي، (المتوفى: 600هـ) فرماتے ہیں:
[رؤية الرسول ربه ليلة الإسراء]
وأنه صلى اللّٰه عليه وسلم رأى ربه عزوجل كما قال عزوجل: {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى} سورة النجم.
قال الإمام أحمد في ما روينا عنه: وأن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم رأى عزوجل، فإنه مأثور عن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم، صحيح..........والحديث على ظاهره كما جاء عن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم، والكلام فيه بدعة، ولكن نؤمن به كما جاء على ظاهره، ولا نناظر فيه أحداً.
(الاقتصاد في الاعتقاد للمقدسي - 158,159)
@@yasirlatif5749 اسلام علیکم ۔ جناب بھائی یاسر لطیف صاحب ۔ جواب دینے کا بہت شکریہ ۔ آپ مجھے یہ سمجھا دیں اللہ تعالی کی آیات کبری بڑی نشانیوں کو دیکھنا خود اللہ تعالی کو دیکھنا کیسے ہوا ؟
اس مسئلے کا سو فیصد حل قرآن پاک میں ہی موجود ہے جو کہ فرقان بھی ہے حق اور باطل میں فرق کرنے والا۔ جب مسئلہ سو فیصد حل ہو جاتا ہے تو آپکو محدیثین کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ آپ صرف یہ بتا دیں کیا قرآن مجید مکمل اور جامع کتاب نہیں ہے ؟ جو اپنی تفسیر خود بیان کرتی ہے ۔ چھ سو سال تک کسی کو ہمت نہیں ہوئ کہ وہ قرآن پاک کی تفسیر لکھے۔ بعد میں جو تفسیریں لکھی گئ ہیں سو فیصد درست نہیں ہیں بے شمار اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ آپ صرف سورہ العنام آیت نمبر ایک سو تین کا ترجمہ کر دیں ۔ کیا یہ سورج کی طرح روشن دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالی کو کوئی نہیں سکتا ۔ لیس کمثلہ اس جیسی کوئ مثل نہیں ۔ خود جو اللہ تعالی اپنے بارے میں جانتے ہیں ہم نہیں جان سکتے ۔ جس طرح اور جیسا اپنے بارے میں تعارف کرایا ہے اسی طرح منہ ہمیں ایمان لانا پڑے گا ۔ اور جس طرح اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور خصائص قرآن پاک میں بیان کیے ہیں ان پر ایمان لانا لازمی ہے۔ خالق اور مخلوق کا فرق جس طرح قرآن مجید میں لکھا ہوا ہے اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کو خواب میں بہترین صورت میں دیکھا احسن تقویم ۔ اور قرآن کریم میں درج ہے اللہ تعالی نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ۔ ترجیح کس بات کو دیں گے ۔ اگر دونوں کو صحیح کہا تو خالق اور مخلوق کا فرق کہاں ہے ؟ اگر حدیث مبارکہ کو صحیح مانتے ہیں تو قرآن پاک میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ اللہ تعالی کوئ صورت رکھتا ہے ؟ہمیں تو صرف یہی بتایا گیا ہے قل ھو اللہ احد فرما دیجئے صلی اللہ علیہ وسلم وہ اللہ ایک ہے ۔ سورہ نور میں نور کی مثال دی گئی ہے نور کی کیا صورت ہوتی ہے ؟ کیا آپ کاغذ پر نور کی تصویر بنا سکتے ہیں؟ سبحان اللذی عما یصفون ترجمہ پاک ہے وہ ذات اس چیز سے وہ باندھتے ہیں ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین ۔
وعلیکم جناب: آپ کی 600 سال والی تفسیر کی بات بالکل خلاف تحقیق ہے. لگتا ہے کہ آپ کو احادیث صفات کا نہیں پتا میرا آپ کو مشورہ ہے کہ بغیر علم کے اس میں گفتگو نہ کریں شکریہ.
محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب الشهير بالإمام أبو جعفر الطبري، (224 هـ - 310 هـ) هو من أشهر الكتب الإسلامية المختصة بعلم تفسير القرآن الكريم عند أهل السنة والجماعة.
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْأُمَوِيّ قَالَ: ثَنَا أَبِي قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى} [النجم: 8] قَالَ: «دَنَا رَبُّهُ فَتَدَلّٰى».
(جامع البيان في تفسير القرآن - 22/14)
وَقَدْ أَخْرَجَ الْأُمَوِيُّ فِي مَغَازِيهِ وَمِنْ طَرِيقِهِ الْبَيْهَقِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ بن عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: وَلَقَدۡ رَاٰهُ نَزۡلَةً اُخۡرٰى. قَالَ دَنَا مِنْهُ رَبُّهُ. وَهَذَا سَنَدٌ حَسَنٌ وَهُوَ شَاهِدٌ قَوِيٌّ لِرِوَايَةِ شَرِيكٍ.
(فتح الباري لابن حجر - 13/484)
حضرت انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:
"حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى وَدَنَا الْجَبَّارُ رَبُّ الْعِزَّةِ فَتَدَلّٰی حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوۡ اَدۡنٰی". الحديث.
(صحيح البخاري - رقم الحديث: 7517)
حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ قَالَ: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيُّ، عَنْ كَثِيرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمَّا عُرِجَ بِي، مَضَى جِبْرِيلُ حَتَّى جَاءَ الْجَنَّةَ» قَالَ: «فَدَخَلْتُ فَأُعْطِيتُ الْكَوْثَرَ، ثُمَّ مَضَى حَتَّى جَاءَ السّدْرَةَ الْمُنْتَهَى، فَدَنَا رَبُّكَ فَتَدَلّٰى، فَكَانَ قَابَ قَوۡسَيۡنِ اَوۡ اَدۡنٰى، فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى».
(جامع البيان في تفسير القرآن - 22/19)
محدث ابن خزيمة فرماتے ہیں:
فَقَدْ ثَبَتَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِثْبَاتُهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَأَى رَبَّهُ، وَبِيَقِينٍ يَعْلَمُ كُلُّ عَالِمٍ أَنَّ هَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي لَا يُدْرَكُ بِالْعُقُولِ، وَالْآرَاءِ وَالْجِنَانِ وَالظُّنُونِ، وَلَا يُدْرَكُ مِثْلُ هَذَا الْعِلْمِ إِلَّا مِنْ طَرِيقِ النُّبُوَّةِ، إِمَّا بِكِتَابٍ أَوْ بِقَوْلِ نَبِيٍّ مُصْطَفًى، وَلَا أَظُنُّ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَتَوَهَّمُ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ: «رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ» بِرَأْيٍ وَظَنٍّ، لَا وَلَا أَبُو ذَرٍّ، لَا وَلَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ.
(كتاب التوحيد لابن خزيمة - 2/555)
إسماعيل حقي فرماتے ہیں:
واما اشتمال إراءة الآيات على إراءة الله تعالى فلما كانت تلك الآيات الملكوتية فوق الآيات الملكية أشهده تعالى في تلك المشاهد ليكمل له الرؤية في جميع المراتب والمشاهد ومن المحال أن يدعو كريم كريما الى داره ويضيف حبيب حبيبا في قصره ثم يتستر عنه ولا يريه وجهه.
رہا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو دکھانا، اللہ تعالیٰ کو دکھانے پر مشتمل ہے، سو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ آیات ملکوتیہ آیات ملکیہ پر فائق ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ تمام مشاہد دکھائے تاکہ تمام مراتب اور مشاہد میں مکمل ہوجائے اور یہ محال ہے کہ ایک کریم دوسرے کریم کو اپنے گھر دعوت دے اور ایک حبیب دوسرے حبیب کو اپنے محل میں مہمان بلائے اور خود اس سے چھپ جائے اور اس کو اپنا چہرہ نہ دکھائے.
(كتاب روح البيان - 9/231)
خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے ‘ کیونکہ اس کو حضرت ابن عباس حضرت ابوذر حضرت ابوہریرہ حضرت انس رضی اللہ عنہم نے بیان کیا ہے اور یہ انہوں نے صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر ہی بیان کیا ہے کیونکہ یہ مسئلہ محض عقل سے نہیں جانا جاسکتا اور مثبت روایت نافی پر مقدم ہوتی ہے ۔ آپ نے جو خود قرآن مجید کی دو آیتوں سے اس مسئلہ کا استنباط کیا ہے ‘ تو سورة الانعام کی آیت ١٠٣ لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ ۚ وَہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ﴿۱۰۳﴾
آنکھیں اسے احاطہ نہیں کرتیں اور سب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں اور وہ نہایت باریک بین بہت باخبر ہے. سے آپ کے استنباط کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں ادراک بہ طور احاطہ کی نفی ہے‘ مطلقاً رؤیت کی نفی نہیں‘ ہم بھی رؤیت کے قائل ہیں احاطہ کے نہیں اور سورة شوری کی آیت ٥١ سے جو استدلال ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی بلاحجاب رؤیت کی نفی نہیں ہے ‘ بلکہ بلاحجاب کلام کی نفی ہے اور رؤیت کلام کو مستلزم نہیں ہے. ویسے بھی ان دو آیتوں میں نفی کا تعلق دنیا کے حوالے سے ہے. جبکہ جمہور علماء اسلام کا موقف یہ ہے کہ دنیا سے نکل کر ساتوں آسمانوں کے اوپر جا کر یہ رؤیت صرف سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے معراج کی شب واقع ہوئی اور اس جگہ پر دنیا کا اطلاق نہیں ہوتا اور آخرت میں تمام انبیاء (علیہم السلام) اور مومنین کے لیے رؤیت واقع ہوگی ‘ میدان حشر میں بھی اور جنت میں بھی. (آیت) ” وجوہ یومئذ ناضرۃ ‘ الی ربھا ناظرۃ “۔ (القیامہ : ٢٣۔ ٢٢)
ترجمہ : کتنے ہی چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اپنے رب کو دیکھتے ہوئے ۔
اس آیت میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کی تصریح ہے ؛
(آیت) ” کلا انھم عن ربھم یومئذ لمحجوبون “۔ (المطففين : ١٥)
ترجمہ : بیشک وہ لوگ اس دن اپنے رب کے دیدار سے ضرور محروم ہوں گے ۔
اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ قیامت کے دن کفار اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوں گے اور یہ چیز ان کے لیے اسی وقت باعث حرمان ویاس ہوگی جب مسلمان اس دن اپنے رب کا دیدار کر رہے ہوں ‘ کیونکہ اگر مسلمانوں کو بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل نہ ہو اور نہ کافروں کو ‘ تو پھر یہ چیز ان کفار کے لیے باعث افسوس نہیں ہوسکتی.
@@yasirlatif5749 وعلیکم السلام رحمت اللہ و برکاتہ ۔ جواب دینے کا بہت شکریہ ۔ جناب بھائی صاحب میرا اشارہ ابن کثیر رحمت اللہ علیہ کی طرف تھا جو سات سو ہجری میں پیدا ہوئے ۔ ابن جریر کے متعلق پتہ ٹھا وہ پہلے کے ہیں لیکن ان کا دور یاد نہیں رہا۔ آپکی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ جب کوئ جواب نہیں بن پاتا تو جذبات میں آکر نئے نئے استعدال نکالتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ انکی اطاعت اور اتبع کی جائے اور جو انکی فضیلت اللہ تبارک و تعالی نے بیان کی ہے اسی پر سر تسلیم خم کر دیں ۔ رحمت للعلمین خاتم النبین اور پوری انسانیت کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بیجھے گے کیا اس سے بھر کر اور کوئی فضیلت ہو سکتی ہے؟ سورہ یونس آیت نمبر تین میں لکھا ہے کہ ترجمہ بے شک تمہارا رب وہ ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش کے اوپر مستوی ہونے ( اپنی شان کے لائق )۔ اپنے گھر بلایا اور اپنے محل میں اپنے چہرے کو نہیں دکھانا یہ باتیں کہاں سے آ گئیں ؟ جو باتیں قرآن پاک کے مطابق ہیں چاہے وہ احادیث مبارکہ میں ہوں یا تفسیر میں انکو ماننا چاہیے ۔ جو باتیں قرآن پاک کے مطابق نہیں وہ احادیث نہیں ہو سکتیں وہ روایتیں ہیں جن میں اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا موقف قرآن پاک کے عین مطابق ہے اسکو ماننے میں آپکو مشکل کیوں پیش آرہی ہے؟ حق بات کو قبول کرنا چاہیے یہی ایک مخلص محقق کی نشانی ہے۔ سورہ البقرہ آیت نمبر دو سو ترپن اللہ تعالی نے انبیاء کرام صلوۃ وسلام کے دراجات بلند کیے سلم تسلیما کا رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔ ایک عام مسلمان ہوں کسی گروہ سے تعلق نہیں ہے محقق کی حیثیت سے اصل اور خالص دین اسلام جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو سال پہلے لے کر آئے تھے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اسکی پہچان نصیب ہو ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین ۔
Hadeeson ki behes me padne se achha hai quran ka fesla
Quran is par khamosh hai ।।।। baki agar quraan ki wo ayat ko li jaye jisme latudrekul Absar Wali to fir qayamat ke din Wali ki bhi nafi hogi aur mu'tazli ise se masail akhaz karte hain
Anna arah ka tarjuma mai idrak kaise kar sakta hu sahih nahi lagta
مفتی کامران صاحب،!
الللہ تعالی نے قرآن پاک میں ہی تو فرما دیا ہے کہ تم ان کے دیکھنے پر جھگڑتے ہو انہوں نے تو اسے ( نور السموات العرض یعنی الللہ کریم کو) دو بار دیکھا۔
جبرائیل کو تو آپ کئی بار دیکھ چکے تھے پھر صرف دو بار دیکھنے کا ذکر اسی لئیے کیا گیا کہ وہ الللہ کریم کا ہی نور تھا جس کا ذکر زور دے کر کیا گیا ہے۔
محترم دوباردیکھنا حضرت جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں ہےا
Allah ka shukr he jis ne ese alim die
Kya is deedar ki kaifiyat Ahadees sy sabit nhi hai? Hmary han yeh byan hota hai k jagti halat mn sar ki ankhon sy deedar hua. Kya yeh durust hai?
اس کی کیفیت میں نہیں پڑنا چاہیے کہ احادیث سے ثابت نہیں، اتنا ضرور ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کی آنکھوں سے دو مرتبہ اللہ کا دیدار۔
53:8
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ
Then he approached and descended
53:9
فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ
And was at a distance of two bow lengths or nearer.
Quran ki in ayat ke baare me kya khayal hai apka? Apki research ek tarfa hai?
لیکن جب حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ سے درخواست کی جس کا مفہوم کہ میں آپ کی دیدار کرنا چاہتا ہوں تو جواب میں اللہ عزوجل نے فرمایا کہ مجھے دیکھ نہیں سکتے البتہ اس پہاڑ کی جانب دیکھو جب انہوں نے پہاڑ کی جانب دیکھا تو پہاڑ جل گیا اور حضرت موسی بے ھوش ھو گئے۔اس سے ثابت ھوتا ھے کہ اللہ کو کوئ دیکھ نہیں سکتا
Ekhtelaf hai / dono approach ki daleel hai
Dono mein se koi ek hi sahi ho sakta hai!!!
Mufti shb agr Allah pak ka deedaar kia tha mere pyare nabi saw ne to sahaba ko to btaya mgr apni pyari or mehboob treen bivi Amma Ayesha ko kiu na btaya
Mafati Sb ny Hazrat Ayesha R.A wali pori hadeez bayan nai ki
Main ne Ahadees se istedelal kiya hai bohat or main Hanafi se Hanbali hua hun.
قرآن کریم نے مقصد معراج کو واضح کر دیا ھے ۔2) حضرت عائشہ صدیقہ نے عد م رو یت کا استد لال قرآن کریم سے کیا ھے
Death is pre- requesite for meeting your beloved creater who cant be seen with your living eyes before death , who keeps no shape, no size and no image . Invisible things like Malayika , Heavens, Hell and Hoors cant be seen before death except in dreams or after death.🎉
Apko Kya lagta h k Amma Ayesha ne nhi pocha hoga pyare nabi saw se?
Ghr walon ko raz ki baton ka zyada pata hota h
Sir !
Normally you give reference from Quran in every small matter ;
And today in such a big matter have you forgotten to give reference from Quran;
Or any other matter ???
( Don't take any negative things about it )
This matter must. be discussed by the reference of Quran quran doesn't prove this matter in positive
جو لوگ ریپلائی کر رہے ہیں کہ قرآن سے دیدار ثابت نہیں یا جبرائیل ع کے بارے دیدار کا مؤقف اپناتے ہیں ان سے ۔یرا سوال ہے کہ۔ اگر جبرائیل ع ک دیدار کیا ہے تو کیا وہ اللہ پاک کے دیدار کو ناممکنات بن دیتا یے
اور کوئی آنکھ اللہ پاک کا ادراک نہیں کر سکتی تو اس کا جواب کیا ہو گا ک قیامت کے دن یا جنت میں اگر دیدار کو مانتے ہیں تو کیا اس دیدار سے مراد بھی ادراک لیا جائے گا۔ دیدار کی نفی کی تمام دلیلیں بعد از قیامت دیدار الہی کے اثبات کے ساتھ کیسے مطابقت رکھتی ہیں۔
Haan kiya
Meraj ka inkaar karnewale musalmano me se nahi
Quran se karna chahiye tha explains
What is your opinion ? What Qur'aan says ?
Don't confused .
اپنی ڈاڑھی کی لمبائی اور چوڑائی پر بھی گفتگو کرتے رہا کیجئے، آج کل یہ بھی بہت اہم ٹاپک ہے
hadees number ghalat h
Assalam alaikum,
Aap ne woh ayaat kyun nahi sunayi jo ummul momineen ne sunayi thi.
Kya aap us hadees ko sahee manoge jo Qur'an se takraye.
to plesae jo Quran se ummul momineen ne daleel di hai woh bhi sunaiye.
Surah 6:103 (mafhoom) - "nigahen usko nahi pa sakti aur woh nigahon ko pa leta hai aur woh baarik been bakhabar hai".
is ayat se pata chala ke koi nigah usko nahi pa sakti.
Aur isi liye ummul momineen Aisha R.a ne bhi yehi kaha ke ALLAH ke Rasool Muhammad s.a.w.s ne ALLAH pak ko nahi dekha
Mufti sahabka breliyat ki taraf rujhan jyada lagta hai is matter me aap ne (mufti)quran ko chhod kar hadith par jyada tawajje diya
Allama sahab kya meraj 26 rajab ko hui thii
Please watch this clip
ua-cam.com/video/aGryWxuG_Ks/v-deo.html
سفرالمعراج کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کئ دھائیوں تک صحابہ کے درمیان رہے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم نے خود اسکی تصریح نبی سے کیوں نہ کی۔
Jaesa.jis.ka.imaan.hae.waesa.hi.aqeeda.rakhta.hae.jis.ko.nabi.ze.boghz.hae.wo.waesa.hi.bolega
Yahan py ap Quran py pesh nhe kr rhy?
What Qur'aan says about this matter ? Listen the reality of deedaar of Allah on meraaj ,on AARAAF CHANNEL by Dr. Hafiz Baig on UA-cam, with Qur'aanic references.
مردوں کے عدم سماع پر قرآن کے دلائل موجود ہیں آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے
کیا نبی پاک نے اللہ کے دیدار کے بعد نبی پاک کے مابین کچھ گفتگو بھی ھوئی، اور وہ کیا ھوئی۔ مفتی صاحب کچھ ذکر فر مادیں۔
Mufti Saab is subject per aapney haqq baat nahi ki. Tanazea honey per Quran aur Sunnat ki taraf palatna hai jo aap khud bhi farmarahe hain lekin aapney yahan Quran ki taraf nahi lotaya aapney.
Quran clear hai ke deodar e rab nahi howa balkey Rab ki badi badi nashaniyan dekhi.
Mai aapko shouq se sunta tha lekin aapki kitman e haqq ki wajah se mai bahot mayus howa.
Why did not you go to Quran
مردوں کے عدم سماع پر قرآن کے دلائل موجود ہیں آپ قبروں میں پڑے ہوئے لوگوں کو نہیں سنا سکتے
اس مسلہ میں آپ قران سے دامن بچا کر نکل گٸے اانسانوں کا موقف قبول کرنے لینے کے بعد مسلہ کو صاف اور واضح کر سکتے تھے پر آپ نے ایسا کیا نہیں کہیں نفس کی خوشنودی تو مقصود نہیں تھی ?
اللہ تعالیٰ کی ذات عظیم کو لوگوں نے پتہ نہیں کیا سمجھ لیا ہے ۔ تصوف کا چسکہ جن لوگوں کو لگ گیا تھا ان میں سے بہت سے خود اپنی ذات کے حوالے سے بھی اس طرح کی لن ترانیاں ہانکتے رہے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کسی طرح یہ بات لوگوں کے حلق سے اتاری جائے تو پھر متصوفانہ لن ترانیوں کے لئے بہت کچھ کنجائش نکالی جا سکتی ہے ۔ ان ظالموں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اللہ تعالیٰ کی نفس ذات کی حقیقت کو کسی حد تک بھی اس ساری کائنات میں نہ کوئی جان سکا ہے نہ کبھی کوئی جان سکے گا ، نہ ملک مقرب ، نہ نبی مرسل ۔ اللہ تعالیٰ بندوں کے لئے تجلی فرماتا ہے ۔ جنت میں اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا تسلسل جاری رہے گا ، اور یہ تجلیات اس تجلی سے بلند تر ہوں گی جس کا تجربہ دنیا میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو ہو چکا ہے ۔ مخلوق ، چاہے اس کا درجہ اور شان کچھ بھی اور کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو ، بہر حال مخلوق ہے ۔ اللہ تعالیٰ وراء الورا اور مخلوق کے تمام تصورات سے بھی بلند اور پاک ہے ۔ مخلوقات کو تو بس اللہ تعالیٰ کی اسماء و صفات کے زیادہ سے زیادہ علم واستحضار پر قناعت کرنی چاہئے اور بس ۔
مسئلے کو حل نہیں کیا بیچ میں لٹکا دیا ۔ یہ وقت کا ضیاع ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی عنھا کا موقف قرآن پاک کے مطابق ہے دلیل کے طور پر بے شمار آیتیں ہیں لیس کمثلہ اس جیسا کوئ نہیں اگر دیکھتے تو کیسے مثال دیتے وہ کیسے تھے ۔ قرآن پاک سے ثابت ہے جبرائیل آمین کو اصلی صورت میں دو بار دیکھا سورہ نجم اور سورہ التکویر آیت نمبر تئیس ۔ یہ مسئلہ سو فیصد قرآن مجید میں ہی حل ہو جاتا ہے اگر غور سے پڑھا جائے ۔اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے آمین ۔