ایک جملہ انتظار حسین صاحب کی کسی کتاب میں پڑھا تھا اسکول کے زمانے میں۔۔۔ کہ جب تہذیب کی سطح گرجاتی ہے تو لوگ بے مقام ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔یعنی ہرطرف انسانوں کی بھیڑ ہے ہم تہذیبی طور پر اپنی شناخت کھو چکے ہیں۔۔۔ما شااللہ بہت اچھا موضوع ۔۔اللہ پاک آپ کی عمر اور رزق میں برکت عطا فرمائے
Colonial Lords entered in subcontinent with larger than life plan to sabotage the local culture, they made strategic and calculative inroads in to the social,religious, educational and literary fabric of the society.our literary stalwarts like Sirsyed ,Hali and Azad were promoting the themes of poetry assigned by Lord Macauley.At this point in time Akber Illahbady put up brave front with his resistant poetry in the form of satire and humour, he tried to highlight the intricate beauties and grandure of Eastern culture with all it's aesthetics,magnanimity and heritage. Some of his verses are cited here: ہم ایسی سب کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں ہے مس کا لونڈر بھی اگرچہ بہت ہی خوب بیگم کا مگر عطر حنا اور ہی کچھ ہے سائے کی بھی سن سن ہوس انگیز ہے لیکن اس شوخ کے گھنگھرو کی صدا اور ہی کچھ ہے
ہرچرن داس کون ہے؟ ہر، شری کرشن جی، شیو جی، خدا ؛ چرن، پا، قدم، پاؤں ؛ داس، بندہ، غلام مجھے خدا کے قدموں کا غلام سمجھا ہے۔ یہی اس نظم میں مزے کی بات ہے، اسی سے آپ نے صرفِ نظر کیا۔ عاشق سوائے معشوق کے وصال کے کسی چیز پر راضی نہیں ہوتا۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
ادبا گذارش!
استاد آپ سے ملاقات کی نیت ہے مرنے سے پہلے آپ سے ملنے کا دل ہے
عبدالوہاب
ایک جملہ انتظار حسین صاحب کی کسی کتاب میں پڑھا تھا اسکول کے زمانے میں۔۔۔ کہ جب تہذیب کی سطح گرجاتی ہے تو لوگ بے مقام ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔یعنی ہرطرف انسانوں کی بھیڑ ہے ہم تہذیبی طور پر اپنی شناخت کھو چکے ہیں۔۔۔ما شااللہ بہت اچھا موضوع ۔۔اللہ پاک آپ کی عمر اور رزق میں برکت عطا فرمائے
اسلام یلیکم
جاوید بھائ،
آپ بلکل مختلف نظر آئے جب میں نے بچپن میں آپ کو دیکھا تھا
ابھی صرف اسی کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں
کاشف جمیل
Colonial Lords entered in subcontinent with larger than life plan to sabotage the local culture, they made strategic and calculative inroads in to the social,religious, educational and literary fabric of the society.our literary stalwarts like Sirsyed ,Hali and Azad were promoting the themes of poetry assigned by Lord Macauley.At this point in time Akber Illahbady put up brave front with his resistant poetry in the form of satire and humour, he tried to highlight the intricate beauties and grandure of Eastern culture with all it's aesthetics,magnanimity and heritage. Some of his verses are cited here:
ہم ایسی سب کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
ہے مس کا لونڈر بھی اگرچہ بہت ہی خوب
بیگم کا مگر عطر حنا اور ہی کچھ ہے
سائے کی بھی سن سن ہوس انگیز ہے لیکن
اس شوخ کے گھنگھرو کی صدا اور ہی کچھ ہے
جزاكم الله تعالى خيرا كثيرا.
جزاک اللہ خیرا ❤
بہت اعلی
کیا موضوع منتخب کیا ہے ادتد محترم
پوری سیریز ہونی چاہئے
استاد محترم
❤
احمد جاوید صاحب سے ادبأ گذارش ہے کہ ایک ایک نشست مشتاق احمد یوسفی مرحوم اور ابن صفی پر بھی ریکارڈ ہو ۔ امید ہے آپ سب متفق ہوں گے
English taleem siref angraiz kay liye hai, yaha per unn kay bachou kay liye banaya hai.
ہرچرن داس
کون ہے؟
ہر، شری کرشن جی، شیو جی، خدا ؛ چرن، پا، قدم، پاؤں ؛ داس، بندہ، غلام
مجھے خدا کے قدموں کا غلام سمجھا ہے۔
یہی اس نظم میں مزے کی بات ہے، اسی سے آپ نے صرفِ نظر کیا۔
عاشق سوائے معشوق کے وصال کے کسی چیز پر راضی نہیں ہوتا۔
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
بصد احترام!
'شعر' کا لفظ بظاہر اچھا ہے مگر الگورتھم میں یہ 'شیر' کی بھی عکاسی کرتا ہے۔۔۔ ہو سکے تو بغور جائزہ لیں۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا