Sarmad Sehbai recites his ghazal مُہلتِ عمرِ رواں کو مختصر رکھا گیا
Вставка
- Опубліковано 1 січ 2025
- سرمد صہبائی
ہر سفر کے بعد ویسا ہی سفر رکھا گیا
اور پھر مقسوم میرا دربدر رکھا گیا
ویڈیو کے لیے شکریہ : محترمہ ناعمہ حبیبی
ہر سفر کے بعد ویسا ہی سفر رکھا گیا
اور پھر مقسوم میرا دربدر رکھا گیا
عرصۂ دشتِ طلب کو انتہا بخشی گئی
مُہلتِ عمرِ رواں کو مختصر رکھا گیا
ہم کہاں سینے کی تہ میں یہ سمندر تھامتے
ایک اِس خاطر تجھے اے چشمِ تر رکھا گیا
حاصلِ جاں پر خس و خاشاکِ حسرت کھینچ کر
درمیاں اس دل کے خواہش کا شرر رکھا گیا
ہانپتی ہے دل کی مٹھی میں سمندر کی دھمک
اس صدف کی کوکھ میں کیسا گہر رکھا گیا
بوسۂ خورشید سے کھولا سحر کا پیرہن
زانوئے شب پر مہِ کامل کا سَر رکھا گیا
دن کے رستوں پر بچھائی نارسائی کی تھکن
نیند کی دہلیز پر خوابوں کا پَر رکھا گیا
مضطرب رہتی ہے کوہ و دشت میں جیسے ہَوا
اس طرح سینے میں سانسوں کا گزر رکھا گیا
آتے جاتے ہر نفس میں موت کا تھا ذائقہ
رایگاں جینے میں مرنے کا ہنر رکھا گیا
خواہشیں جاگیں جمالِ یار کے دیدار سے
پانیوں پر ماہِ عریاں کا اثر رکھا گیا
عمر بھر سرمد تھی جس کو یاد رکھنے کی سزا
سامنا اس شوخ سے سے اک لمحہ بھر رکھا گیا
سرمد صہبائی
ہر سفر کے بعد ویسا ہی سفر رکھا گیا
اور پھر مقسوم میرا دربدر رکھا گیا
عرصۂ دشتِ طلب کو انتہا بخشی گئی
مُہلتِ عمرِ رواں کو مختصر رکھا گیا
ہم کہاں سینے کی تہ میں یہ سمندر تھامتے
ایک اِس خاطر تجھے اے چشمِ تر رکھا گیا
حاصلِ جاں پر خس و خاشاکِ حسرت کھینچ کر
درمیاں اس دل کے خواہش کا شرر رکھا گیا
ہانپتی ہے دل کی مٹھی میں سمندر کی دھمک
اس صدف کی کوکھ میں کیسا گہر رکھا گیا
بوسۂ خورشید سے کھولا سحر کا پیرہن
زانوئے شب پر مہِ کامل کا سَر رکھا گیا
دن کے رستوں پر بچھائی نارسائی کی تھکن
نیند کی دہلیز پر خوابوں کا پَر رکھا گیا
مضطرب رہتی ہے کوہ و دشت میں جیسے ہَوا
اس طرح سینے میں سانسوں کا گزر رکھا گیا
آتے جاتے ہر نفس میں موت کا تھا ذائقہ
رایگاں جینے میں مرنے کا ہنر رکھا گیا
خواہشیں جاگیں جمالِ یار کے دیدار سے
پانیوں پر ماہِ عریاں کا اثر رکھا گیا
عمر بھر سرمد تھی جس کو یاد رکھنے کی سزا
سامنا اس شوخ سے سے اک لمحہ بھر رکھا گیا
سرمد صہبائی
لا جواب ۔
Wahh
کمال ہے بھئی کمال۔۔۔