Haveli Mian Sultan I Hidden Gem of Lahore I Destroyer of Mosques & Monuments I A Terrible Story

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 2 жов 2024
  • #lahore #britishindia #walledcitylahore
    Haveli Mian Sultan I Hidden Gem of Lahore I Destroyer of Mosques & Monuments I A Terrible Story
    Videography: Muhammad Tariq
    Special Thanks: Muhammad Noman, Owner, Haveli Mian sultan
    Music: Binu Kumar, Kerala, India [Sound SFX]
    لاہورکے دہلی دروازے سے شاہی گزرگاہ پر آئیں تو لکڑی کی لمبی بالکنی سے سجی ایک چار منزلہ عمارت اپنے شاندار ماضی کا پتا دیتی ہے، یہ ’حویلی میاں سلطان‘ کہلاتی ہے جس کی تیسری منزل یا چھت پر مغلیہ طرز پر بنا ایک شاندار شیش محل ہے جہاں سلطان اپنے مہمانوں کے لیے شراب و کباب کی محفلیں برپا کرتا تھا۔ حویلی کو یہ نام میاں محمد سلطان سے ملا جو 19ویں صدی میں سکھ اور برطانوی دور کے ٹھیکے دار تھے۔
    دس سال کی عمر میں یتیم ہونے والے محمد سلطان اپنی بیوہ ماں کے ساتھ شاہ آباد (ویری ناگ) کشمیر سے لاہور آئے تو اُن کی عمر لگ بھگ 12، 13 سال تھی۔ یہاں انھوں نے ایسا عروج پایا کہ ’لاہور کا سلطان‘ کہلائے۔ جب محمد سلطان لڑکپن میں لاہور پہنچے تو ابتدا میں یہاں محنت مزدوری کی، جوان ہوئے تو لاہور میں پہلے صابن بنا کر فروخت کیا اور پھر چونے کی بھٹی قائم کی۔ انھیں کُشتی کا شوق تھا اور اس سے پیسے بھی کماتے تھے۔ مہاراجا شیر سنگھ (1841-1843) کے دور میں انھوں نے ایک بڑے پہلوان کو شکست دی اور ایک گھوڑا انعام میں پایا۔ جب سلطان نے کشتی جیت لی تو انھوں نے سکھ بادشاہ سے شکایت کی کہ سرکاری عمارتوں کی تعمیر کے نگران افسر غریب ہونے کی وجہ سے اُن کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ انھوں نے درخواست کی کہ انھیں عمارتوں کی تعمیر کے لیے چونے کا ٹھیکا دیا جائے۔ سکھ بادشاہ نے انھیں قلعے کے لیے چونا فراہم کرنے کا ٹھیکا دے دیا اور یوں اُن کے لیے خوش قسمتی کے دروازے کُھل گئے۔ انھوں نے نہ صرف چونا سپلائی کیا بلکہ فصیل والے شہر لاہورمیں کئی عمارتیں بھی بنائیں۔
    جب انگریز آئے تو اُن کی پذیرائی کرنے والوں میں محمد سلطان آگے آگے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب نئے حکمرانوں نے لاہور چھاونی بنانا شروع کی تو بیرکیں تعمیر کرنے کا ٹھیکا محمد سلطان کو مل گیا۔ یہ بات 1850 کی ہے۔ سلطان نے لاہور کی پرانی تاریخی عمارتیں گِرا کر اُن کی اینٹوں کو استعمال کرتے ہوئے فوجی بیرکیں بنا دیں۔ سلطان کو مغلیہ دور کی چھوٹی اینٹ کی ہوس تھی۔ اس اینٹ کو حاصل کرنے کے لیے کئی اہم، نادر عمارتیں خرید کر گِرا دی گئیں۔ لاہور کے دروازے گرائے گئے۔ عہدِ شاہان سلف کی یادگاریں زمیں بوس کر دیں، مغلیہ دور کی مساجد کا تو کوئی حساب نہیں تھا۔ کتنی شہید کیں اور کتنی چھوڑیں۔ صرف ایک اینٹ کی طمع میں، جو انگریزوں کو خوش کرنے کے لیے مختلف عمارتوں میں استعمال کی گئیں۔
    تحقیقات چشتی کے مطابق سلطان ٹھیکے دار نے سجادہ نشین، میاں میر دربار، محبوب شاہ سے 250 روپے کے عوض اس مقبرے کی بربادی کا سودا کیا۔ چشتی نے مقبرے کے گرد دیگر کئی عمارتوں کا بھی ذکر کیا ہے جو سلطان اور سجادہ نشین کے حرص و طمع کی نذر ہو گئیں۔ شاہ جہاں کے بیٹے داراشکوہ نے اپنے قیام لاہور کے دوران بیرون دہلی دروازہ میں بے شمارعمارات تعمیر کیں۔ اس عہد میں اس جگہ کا نام چوک دارا پڑ گیا۔ آصف خاں، وزیر شاہ جہاں کی حویلی بھی یہیں تھی۔ زوال سلطنت مغلیہ کے بعد یہاں کی فلک پیما عمارات تباہ و برباد ہو گئیں اور رہے سہے کھنڈروں کو میاں سلطان ٹھیکے دار نے صاف کروا کے ان کی جگہ سرائے اور لنڈا بازار تعمیر کروایا۔ یہ صابن ساز پہلوان دیکھتے دیکھتے شہر کا رئیس ہو گیا۔ گورے حکام نے اپنی رپورٹس میں لکھا کہ بڑا ہی باکمال شخص ہے۔
    شاید اسی بنا پر محمد سلطان کو لاہور سے ملتان تک ریلوے لائن بچھانے کے لیے راستہ ہموار اور تیار کرنے کا ٹھیکہ دے دیا گیا۔ (ملتان اور لاہور کے درمیان 208 میل لمبی یہ ریلوے لائن 1864 میں تعمیر کی گئی)۔ اس کے لیے لکڑی کے شہتیر اور سلیپر درکار تھے۔ سلطان نے مہاراجہ کشمیر کو اپنے کاروبار میں شامل کر لیا اور لکڑی کشمیرسے آنے لگی۔ ریل کی پٹریوں کے ساتھ ساتھ ڈالنے کے لیے پتھر درکار تھے۔ وہ اس علاقے میں دستیاب نہیں تھے۔ سلطان کی نگاہ ہڑپہ کے تاریخی کھنڈروں پر پڑی۔ سلطان نے قدیم تاریخ کے وہ آثار اجاڑ ڈالے اور ہڑپہ کی اینٹیں اور پتھر ریلوے لائن پر بچھا دیے۔ جب بہت مضبوط اینٹوں کی ضرورت پڑی تو محمد سلطان نے شہر لاہور میں مغل شہزادوں کی عمارتیں منہدم کر دیں اور داراشکوہ کے محل کھود کر ان کی بنیادوں سے بے حد پختہ اینٹیں نکال لیں۔
    کچھ لوگ ایسے مؤرخین کی تنقید کے جواب میں سلطان کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے جو ڈھانچے گرائے، پرانے ہونے اور سکھ حکومت کی بے حسی کی وجہ سے محض کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے تھے۔ ان عمارتوں میں مغلیہ دور کی تباہ شدہ عمارتیں شامل تھیں، جن کی اینٹوں کو نئی عمارتوں اور دکانوں کی تعمیر نو میں استعمال کیا گیا۔
    محمد سلطان نے آخری کارنامہ یہ سر انجام دیا کہ اینٹیں حاصل کرنے کی خاطر انھوں نے ستارہ بیگم کی مغل دور کی شان دار مسجد گرا دی۔ اس عمارت کا گرنا غضب ہوا۔ محمد سلطان کے بنے بنائے کام بگڑنے لگے۔ یہاں تک کہ 1870 تک سلطان دیوالیہ ہو گئے۔ پھر وہ اس حال میں مرے کہ کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ بس یہ کہنے والے موجود تھے کہ سلطان نے ایک مسجد کیا گرائی، قدرت نے اسے اس گڑھے میں گرا دیا جسے عرف عام میں قبر کہتے ہیں۔
    Follow us on:
    Facebook:
    / ​. .
    Twitter:
    / gilanilogs
    Instagram:
    / zulfiqargil. .

КОМЕНТАРІ • 672