حافظ کفایت حسین شکارپوری قسط 31دانشنامہ اسلام انٹرنیشنل نور مائکرو فلم سینٹر دہلی
Вставка
- Опубліковано 4 гру 2024
- رئیس الحفاظ حافظ کفایت حسین شکارپوری
حافظ کفایت حسین سنہ 1316 ھ بمطابق 1898 ءمیں سرزمین شکارپور ضلع بلند شہر پر پیدا ہوۓ،آپ کے والد " عبداللہ "نے منّت مانی تھی کہ اگر اللہ ان کو فرزند نرینہ عطا فرمائے گا تواسکو امام حسین ؑ کیلئے وقف کر دیں گے،جب موصوف کے یہاں فرزند کی ولادت ہوئی تو اس بچّہ کا نام "کفایت حسین" رکھا اور آپ کو علم دین کئےبل وقف کر دیا ۔
حافظ کفایت حسین نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن شکار پورکےمدرسہ "احسن المدارس" میں حاصل کی۔آپ نے قرآن مجید کے دس پارے حافظ مہدی حسن کی شاگردی میں حفظ کۓ اور سنہ 1909 عیسوی میں پورا قران مجید حافظ غلام حسین کے ذریعہ حفظ کیا ۔
سنہ 1910عیسوی میں درس تجوید اور قرائت قرآن مجید کے لئےمدرسہ منصبیہ عربی کالج میرٹھ کارخ کیا، وہاں پر تین مہینہ کی سکونت کے دوران حافظ فیاض حسین سے قرائت اور تجوید سیکھی اور اپنے وطن واپس آگئے۔
اسی سال اعلیٰ تعلیم کیلئے لکھنؤ کا رخ کیااور مدرسہ ناظمیہ میں رہ کر جید اساتذہ سے کسب فیض کیا ، سنہ 1918عیسوی میں مدرسہ ناظمیہ سےممتازالافاضل کی سندحاصل کاخور اسی سال"¬ ہائی اسکول لکھنؤ" میں استاد کی حیثیت سے منتخب کر لیے گئے۔
موصوف نے 1919 عیسوی میں مدرسۃ الواعظین میں داخلہ لیا، وہاں سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے تبلیغ دین کیلے۔ پشاہور کا رخ کیا اور وہاں 2 سال تبلیغ دین کے فرائض انجام دیئے۔نجم الملت آیت اللہ نجم الحسن،حافظ کفایت حسین کی خدمات سے بہت متاثر ہوۓاور آپ کو خاص سند سے نوازا-
کفایت حسین صاحب حافظ قرآن ہونےکے ساتھ ساتھ ایک بڑے خطیب بھی تھے آپ کا بیان فلسفہ اور آیات قرآنی پر مشتمل ہوتا تھا ، یہاں تک کہ علم دوست اہل سنت بھی آپ کی مجلس میں شریک ہوتے تھے۔
سنہ 1925 عیسوی میں مولانا حافط محمد ابراہیم میرسیالکوٹی اوردوسرے علماء اہل سنت نے بھی دعویٰ کیا کہ اہل تشیع میں حافظ نہیں پاۓ جاتے ، لہذاحافظ کفایت حسین نے ایک محفل میں اس طرح تلاوت کی کہ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی خطیب جامع مسجد اہل حدیث اور مولانا محمد شاہ حنفی یہ تحریرکرنے پر مجبور ہو گے کہ ہمارا نظریہ باطل ہو گیا ۔
سنہ 1968 عیسوی میں آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی، نواب مظفّر علی نے علاج کی بہت کوشش کی لیکن صحت¬یاب نہ ہو سکے، آخر کار یہ علم وعمل کا ماہتاب 1388ھ بمطابق 15 اپریل 1968ء بروز پنجشنبہ غروب ہو گیا اور اگلے روز مجمع کی ہزار آہ وبکا کے ہمراہ لاہور کےقدیمی امامبارگاہ " گامے شاہ "میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج1، ص195، دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2019ء ۔