فقہاء عظام پہلے ہی سمجھ چکے ہیں۔ اصل میں خود جواد نقوی صاحب کو غلط فہمی ہے۔ وہ یہ ہے کہ مال کی تعریف میں فرماتے ہیں( عقلاء کو جس میں رغبت ہو یا عقلاء کے پاس جس کی مالیت ہو۔ یا جس کی قیمت ہو ) اس کو مال کہتے ہیں۔ لہذا اس میں جتنی بھی چیزوں کو جواد نقوی صاحب نے گنا ہے۔ ان سب کو شامل ہے۔ لہذا فقہاء عظام اس سے غافل نہیں تھے۔ بلکہ جواد نقوی صاحب کی اپنی غلط فہمی ہے۔ باقی زکات کی جو مثال پیش کی ہے وہ بھی غلط ہے کیونکہ زکات ان اموال پر ہے، جن کو شریعت نے مقرر کیا ہے۔ شریعت نے جن موارد میں زکات معین کیا ہے انہی پر زکات ہے اس کے علاوہ نہیں ہے۔ شریعت میں ہر مال پر زکوۃ نہیں ہے بلکہ کچھ خاص چیزوں پر خاص مقدار میں زکات واجب ہے لہذا ان کی یہ مثال بھی غلط ہے۔
ماشاءاللہ خوب ❤❤❤
ماشاءاللہ
Mashallah❤❤❤❤
جزاک اللہ آگاہی حاصل ہوئی ❤❤❤❤❤❤❤❤❤
ماشاءاللہ جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ مزید توفیق عطا فرمائے
عالم حقیقی
❤❤❤❤❤❤❤❤
Very Logical!
محقق فقیہ دین
وارث انبیاء
فقہاء عظام پہلے ہی سمجھ چکے ہیں۔ اصل میں خود جواد نقوی صاحب کو غلط فہمی ہے۔ وہ یہ ہے کہ مال کی تعریف میں فرماتے ہیں( عقلاء کو جس میں رغبت ہو یا عقلاء کے پاس جس کی مالیت ہو۔ یا جس کی قیمت ہو ) اس کو مال کہتے ہیں۔ لہذا اس میں جتنی بھی چیزوں کو جواد نقوی صاحب نے گنا ہے۔ ان سب کو شامل ہے۔ لہذا فقہاء عظام اس سے غافل نہیں تھے۔ بلکہ جواد نقوی صاحب کی اپنی غلط فہمی ہے۔
باقی زکات کی جو مثال پیش کی ہے وہ بھی غلط ہے کیونکہ زکات ان اموال پر ہے، جن کو شریعت نے مقرر کیا ہے۔ شریعت نے جن موارد میں زکات معین کیا ہے انہی پر زکات ہے اس کے علاوہ نہیں ہے۔ شریعت میں ہر مال پر زکوۃ نہیں ہے بلکہ کچھ خاص چیزوں پر خاص مقدار میں زکات واجب ہے لہذا ان کی یہ مثال بھی غلط ہے۔