Maal ki Jadeed Soratein, lekin Fatawa wohi Purane kiyun..?? | 24th January 2025

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 26 січ 2025

КОМЕНТАРІ •

  • @Growing_Pakistan313
    @Growing_Pakistan313 День тому

    ماشاءاللہ خوب ❤❤❤

  • @ARIFHUSSAIN-nz6dw
    @ARIFHUSSAIN-nz6dw День тому

    ماشاءاللہ

  • @imranhussain4348
    @imranhussain4348 День тому

    Mashallah❤❤❤❤

  • @JarrarHussain-h5f
    @JarrarHussain-h5f День тому +1

    جزاک اللہ آگاہی حاصل ہوئی ❤❤❤❤❤❤❤❤❤

  • @aliwazeer7459
    @aliwazeer7459 День тому +1

    ماشاءاللہ جزاک اللہ
    اللہ تعالیٰ مزید توفیق عطا فرمائے

  • @ShaziaShabbir-z7r
    @ShaziaShabbir-z7r День тому +2

    عالم حقیقی

  • @MushtaqAhmad-ei8dh
    @MushtaqAhmad-ei8dh 13 годин тому

    ❤❤❤❤❤❤❤❤

  • @chronicles14
    @chronicles14 День тому +1

    Very Logical!

  • @mushahidbashovi7051
    @mushahidbashovi7051 День тому +1

    محقق فقیہ دین

  • @ShaziaShabbir-z7r
    @ShaziaShabbir-z7r День тому +3

    وارث انبیاء

  • @musavi1087
    @musavi1087 8 годин тому

    فقہاء عظام پہلے ہی سمجھ چکے ہیں۔ اصل میں خود جواد نقوی صاحب کو غلط فہمی ہے۔ وہ یہ ہے کہ مال کی تعریف میں فرماتے ہیں( عقلاء کو جس میں رغبت ہو یا عقلاء کے پاس جس کی مالیت ہو۔ یا جس کی قیمت ہو ) اس کو مال کہتے ہیں۔ لہذا اس میں جتنی بھی چیزوں کو جواد نقوی صاحب نے گنا ہے۔ ان سب کو شامل ہے۔ لہذا فقہاء عظام اس سے غافل نہیں تھے۔ بلکہ جواد نقوی صاحب کی اپنی غلط فہمی ہے۔
    باقی زکات کی جو مثال پیش کی ہے وہ بھی غلط ہے کیونکہ زکات ان اموال پر ہے، جن کو شریعت نے مقرر کیا ہے۔ شریعت نے جن موارد میں زکات معین کیا ہے انہی پر زکات ہے اس کے علاوہ نہیں ہے۔ شریعت میں ہر مال پر زکوۃ نہیں ہے بلکہ کچھ خاص چیزوں پر خاص مقدار میں زکات واجب ہے لہذا ان کی یہ مثال بھی غلط ہے۔