Akhtar Usman : Ghazal یادآوری کا سلسلہ کچھ کچھ چلا تو ہے

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 5 жов 2024
  • اختر عثمان
    یادآوری کا سلسلہ کچھ کچھ چلا تو ہے
    اس نے گُلال گال شفق سے مَلا تو ہے
    زحمت کشانِ عشق سے دل کی نہ پوچھیے
    یہ سلسلہ گراں سہی اپنا گلا تو ہے
    تعبیر نا پذیر ہیں خوابوں کی صورتیں
    یہ زندگی ہے، کوئی نہ کوئی خلا تو ہے
    وہ منہ سے کچھ کہے نہ کہے بولتے ہیں طور
    آنکھیں بتا رہی ہیں، کہیں مبتلا تو ہے
    جب تک وجود میں تھے گِھرے تھے نمود میں
    اب نیست ہے تو جان گئے ہیں کہ لا تو ہے
    شہروں تک آ گیا ہے اثر گِردباد کا
    صحراؤں سے نکل کے یہ پھولا پَھلا تو ہے
    کچھ بھی نہ ہو کلام ہے میرے لیے دوام
    مجھ کو یہ نشۂ سخنِ برملا تو ہے
    زندہ رہے گا تا بہ ابد اپنا سلسلہ
    سچائیوں میں معرکۂ کربلا تو ہے
    روغن دیا چراغ کو سینے کے زور سے
    پی پی کے اپنا خون کم از کم پَلا تو ہے
    تنہائی ہے کوئی بھی نہیں ہم سے ہمکنار
    کچھ بھی کہیں اِسے شبِ ہجراں بَلا تو ہے
    اختر دیا جلے نہ جلے کوئی غم نہیں
    تیرہ شبی کے دور میں شعلہ جلا تو ہے
    اختر کا پوچھتے ہو تو بس اتنا جان لو
    کم ہے سفید خوں مگر اچھا بھلا تو ہے
    اخترؔ عثمان

КОМЕНТАРІ • 3