The Tearful Story of Sutlej River(دریائے ستلج کی آنسوؤں بھری کہانی)

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 12 вер 2024
  • The Tearful Story of Sutlej River(دریائے ستلج کی آنسوؤں بھری کہانی)
    💞 سیرِ ستلج 💞
    ۔
    تحریر : ڈاکٹر مشتاق بلوچ
    شالا دریا واہندے راہوِن
    شالا لوک گاہندے راہون
    کُھلی تازہ آب و ہوا میں گہرے گہرے سانس لے کر تازہ دم ہونے کے لئے چند کلومیٹر دور واقع دریائے ستلج کے ایمن والا (جھانگڑہ) پل پر جانے کا پروگرام بنایا ۔۔ واقعتآ دریا نے دوا کا کام کیا ۔ وہاں جا کر ستلج کی بے موسمی روانی ، معمولی سی طغیانی ، جولانی اور ابتدائی جوانی دیکھی تو روح تک سرشاری و سیرابی حاصل ہو گئی ۔ میں کافی دیر ستلج کنارے تہذیب و تمدن کے ارتقاء ، دریا کی ملکیت کے تغیر و تبدل کی تاریخ، ماضی کے تخیل اور مستقبل کے تفکر میں ڈوبا رہا، جہاں غروبِ آفتاب کے حسین مناظر نے مجھے مسحور کئے رکھا تو اپنے وسیب کو ستلج کے پانی سے محرومی کے تصور نے محصور اور محسور کئے رکھا ۔ بس مسرت اور حسرت کے جذبات کا تلاطم برپا رہا ۔
    پانی زندگی ہے تو دریا پانی کے منبعے ، ماخذ اور مخزن ہوتے ہیں ۔ آبِ زمزم اور گنگا کے پاک پوِتر پانی جیسی باتیں مذہبی تقدس رکھتی ہیں اور جنت کا ذکر بھی ٹھنڈے میٹھے پانی کے ذکر کے بغیر نامکمل ہوتا ہے ۔
    دریا صرف معیشت کے لئے کلیدی اہمیت نہیں رکھتے بلکہ دنیا کی تمام قدیم تہذیبیں دریاؤں کے اکناف و اطراف میں پروان چڑھی ہیں۔ دریائے نیل ، دجلہ و فرات ، گنگا اور جمنا ، سندھ کی وادیوں کے کناروں کی زرخیز زمینوں پر نشوونما پانے والی تہذیبیں آج تاریخِ تمدن کا بیش قیمت سرمایہ اور اثاثہ ہیں ۔
    سرزمینِ بہاول پور دریاؤں کا مقامِ اتصال ہے ۔ اس کے وسیع تر علاقے ستلج اور بیاس کی گذرگاہ رہے ہیں ، بعد میں پنجند کے مقام پر جہلم ، راوی اور چناب کا پانی اس میں شامل ہوتا ہے ۔ پھر کوٹ مٹھن / چاچڑاں شریف میں یہ سب شیر دریا سندھ کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ افسوس کہ اس سب کے باوجود بہاول پور اور ہمارا وسیب بھوک پیاس کی دھرتی بنا ہوا ہے ۔
    ہزاروں سال پہلے ہاکڑہ دریا جب اس علاقے میں زندگی ، تازگی ، رنگینیاں ، رونقیں اور رعنائیاں بانٹتا پھرتا تھا ۔ جب اس دریا نے رُخ پھیرا تو سرسبز وادیاں پھر بنجر ، خشک اور ویران چولستان میں بدل گئیں ۔ آج بھی گنویری والا اور درجنوں ٹھیڑ روہی میں قدیم انسانی تہذیب کے آثار کا واضح اور روشن ثبوت ہیں ۔۔
    ہکڑہ کیا سُکا 😭
    پُورا وسیب مُک سُتا
    جب دریائے ہاکڑہ رُوٹھا تو اس علاقے سے خوش قسمتی ، خوشحالی اور خوشی رُوٹھ گئی ۔۔ ہنستے مسکراتے رنگوں سے مزین اور منور تہذیب کے رنگ دھندلا گئے ۔۔ طربیہ نغموں کی جگہ المیہ ، دکھ بھرے ڈوہڑوں نے لے لی اور بھوک پیاس نے یہاں ڈیرے ڈال دیئے ۔۔ لیکن آفرین ہے کہ دھرتی کے بیٹوں اور باسیوں نے اس وقت اپنی مادرِ گیتی کو نہیں چھوڑا تھا اور اس دھرتی سے ان کی مثالی محبت ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے ۔
    تقریباً ایک صدی پہلے ستلج ویلی پروجیکٹ کا منصوبہ بنایا گیا جس کے تحت برطانوی پنجاب، ریاست بیکانیر اور ریاست بہاول پور نے دریائے ستلج کے پانی سے بھرپور استفادہ کرنا تھا۔ ریاست بہاول پور نے دیوالیہ ہونے کے خدشات کے باوجود سب سے زیادہ مالی اخراجات ادا کئے تاکہ آنے والی نسلیں محفوظ و مامون ، مالی مستحکم زندگی گزار سکیں ۔ یہاں کے لوگوں کے پیٹ کاٹ کاٹ کر ، ان کے آباء و اجداد اور آنے والی نسلوں کے رقبے بیچ ہیچ کر پروجیکٹ کے قرض کی ادائیگی کی جانے لگی، بہاول پور کے قدیم ریاستی باشندوں اور نو آباد کاروں کی محنتیں رنگ لانے لگیں، زرعی پیداوار اور خوشگوار و خوش حال مستقبل کی امیدوں میں اضافے سے نئی تجارتی منڈیاں، انسانی آبادیاں اور شہر تیزی سے قائم ہونے لگے ۔ بنجر صحرا سرسبز و شاداب میدانوں میں بدلنے لگے ۔ یہاں کے لوگوں کے چہروں پر چھائی اداسی اور غربت کی جگہ مسکراہٹ اور بشاشت لینے لگی لیکن پھر اچانک بساط پلٹ گئی ۔۔
    تفصیل کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام تصفیہ طلب معاملات کے لئے انگریز افسران کی زیرِ نگرانی کمیٹیوں نے 31 مارچ 1948 ء تک مالی اثاثوں ، فوجی ساز و سامان ، انتظامی ریکارڈ، سرحدوں کا تعین وغیرہ سمیت تمام ایشوز حل کرنے تھے ۔ مدتِ متعینہ تک دونوں ممالک کے مقرر کردہ نمائندگان نے تمام معاملات سلجھا لئے لیکن دریائی پانی کی تقسیم کی کمیٹی کے پاکستانی نمایندوں نے بہت بڑی کوتاہی کی ۔۔ کسی واضح معاہدے اور سمجھوتے کی بجائے ہندوستانی نمایندوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر اسے حل نہ کیا کہ یہ کوئی متنازعہ معاملہ ہی نہیں ، دریاؤں کے پانیوں کو ہم دونوں ممالک مل جل کر استعمال کرتے رہیں گے ۔۔ یہ ایک فاش تاریخی غلطی تھی جس کی قیمت آج تک پاکستان کے کروڑوں لوگ ادا کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔۔ کیونکہ زبانی اقرار اور وعدے ملکوں اور نمایندوں کے مابین کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔۔۔ میرے بس میں ہو تو ان لوگوں کی قبروں پر جا کر احتجاج ریکارڈ کراؤں اور عدالت میں کیس دائر کر کے ان قومی مجرموں کی نشاندہی کرواؤں تاکہ ہمارے زمہ داروں کو احساس ہو کہ ان کی سہل انگاری اور مجرمانہ غفلت کے پاکستانی قوم پر کتنے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔۔ انسانی زندگی کا دارومدار پانی پر ہے
    دریا او دریا ۔ پانڑی تیڈے ڈُونگے
    تُو ساڈا پِیو ما۔ اساں تیڈے پُونگے
    ( اشو لال )
    ن۔
    مستند و معتبر مؤرخین اور محققین کی جانب سے اس نامکمل اور اصلاح طلب زاویۂ نگاہ کی تصحیح ، ترمیم ، تنقید اور تعمیری تبصروں کو خوش آمدید کہا جائے
    #river #satluj #lake #flood #waterpoint #waterpollution #bahawalpur #pakistanriver #satlujvalleyproject

КОМЕНТАРІ • 18

  • @mehboob1211
    @mehboob1211 Місяць тому

    Aameen Sumaameen

  • @virbone7141
    @virbone7141 Місяць тому +1

    خوبصورت تعارف
    الفاظ کا خوبصورت انتخاب

  • @MImran-wq3qu
    @MImran-wq3qu Місяць тому +1

    Mashalla Sir Allah salahmt rakhy

  • @rashidahmad6768
    @rashidahmad6768 19 днів тому

    بھت خوبصورت تجربہ

  • @ejazkhan7589
    @ejazkhan7589 Місяць тому

    Masha Allah
    Zaberdast tajzia hy

  • @MTalha19
    @MTalha19 Місяць тому

    Soba bahwalpur zinda bad

  • @ajeeeb2583
    @ajeeeb2583 Місяць тому

    Jub apnay haqooq ki hifazat na ki jaya to asay hi state ka naqabil e talafi nuqsan hota ha.....actions speak louder than words.......informative documentary documentary

  • @nadishkhan99
    @nadishkhan99 Місяць тому

    Good
    Information very interesting 😊😊

  • @saeedbodla
    @saeedbodla Місяць тому

    Great sir

  • @saadscl
    @saadscl Місяць тому

    ❤❤❤❤❤❤❤❤

  • @AbidAbid-gd9ve
    @AbidAbid-gd9ve Місяць тому

    Good

  • @MArslan840
    @MArslan840 Місяць тому

    Main sadqe wanja sir G Jafir Arain

  • @KurulushOsmanSeriesUrduLIVE442
    @KurulushOsmanSeriesUrduLIVE442 Місяць тому +1

    جب تین دریا بیچے جا رھے تھے اسی وقت پنجاب کے لوگ کس خوشفھمی میں تھے ؟؟؟