Sarmad Sehbai recites his ghazal خمارِ خواب مجھے فرصتِ گماں تک ہے

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 28 сер 2024
  • سرمد صہبائی
    خمارِ خواب مجھے فرصتِ گماں تک ہے
    گُلِ سیاہ کی خوشبو شبِ رواں تک ہے
    میں روز پردۂ شام و سحر کو دیکھتا ہُوں
    یہ انتظارِ نظر جلوۂ نہاں تک ہے
    کہاں وہ خواب سی خواہش جو دل میں رہتی تھی
    کہاں یہ سیلِ بلا جو کنارِ جاں تک ہے
    لرز رہے ہیں ستارے کہ دل دھڑکتا ہے
    جو بوجھ ہم پہ ہے وہ دوشِ آسماں تک ہے
    لہو میں ذائقہ پھرتا ہے تیرے بوسوں کا
    مرے بدن پہ ترے لمس کا نشاں تک ہے
    سخن سے بڑھ کے کہوں اور کچھ بھی کہ نہ سکوں
    یہ میرا عجزِ بیاں حاصلِ بیاں تک ہے
    کئی زمانے تڑپتے ہیں میرے لہجے میں
    یہ میرا گریۂ جاں خاکِ رفتگاں تک ہے
    کچھ اور دیر تماشائے آب و گل ہے یہاں
    ثباتِ شیشۂ جاں سنگِ ناگہاں تک ہے
    بنا رہا ہُوں میں سطحِ عدم پہ تصویریں
    یہ میرا عیبِ ہنر شوقِ رایگاں تک ہے
    وہ اور لوگ ہیں جو مجھ سے ملنے آتے ہیں
    مرے مکان کا در شہرِ لامکاں تک ہے
    ہوئی ہے نقش نگارِ لہو میں گویائی
    کہ زخمِ حرف مرا بندشِ زباں تک ہے
    ازل سے مَیں تو ترا بندۂ فنا ہُوں مگر
    یہ زعمِ خلق ترا یا خدا کہاں تک ہے
    ہمارے رنج تری دلبری کی رسمیں ہیں
    خوشی ہماری تری زیبِ داستاں تک ہے
    کچھ اس سے آگے فقیرِ سخن کا تکیہ ہے
    یہ شورِ داد و طلب شعر کی دکاں تک ہے
    کسے فراغتِ ناز و ادا یہاں سرمد
    غرورِ شاہدِ گل صحنِ گلستاں تک ہے
    سرمد صہبائی

КОМЕНТАРІ • 6

  • @adeel2764
    @adeel2764 3 місяці тому

    سرمد صہںائی صاحب سا غزل گو اس دور میں کوئی نہیں۔ سبحان اللہ

  • @khursheedabdullah2261
    @khursheedabdullah2261  3 місяці тому +3

    خمارِ خواب مجھے فرصتِ گماں تک ہے
    گُلِ سیاہ کی خوشبو شبِ رواں تک ہے
    میں روز پردۂ شام و سحر کو دیکھتا ہُوں
    یہ انتظارِ نظر جلوۂ نہاں تک ہے
    کہاں وہ خواب سی خواہش جو دل میں رہتی تھی
    کہاں یہ سیلِ بلا جو کنارِ جاں تک ہے
    لرز رہے ہیں ستارے کہ دل دھڑکتا ہے
    جو بوجھ ہم پہ ہے وہ دوشِ آسماں تک ہے
    لہو میں ذائقہ پھرتا ہے تیرے بوسوں کا
    مرے بدن پہ ترے لمس کا نشاں تک ہے
    سخن سے بڑھ کے کہوں اور کچھ بھی کہ نہ سکوں
    یہ میرا عجزِ بیاں حاصلِ بیاں تک ہے
    کئی زمانے تڑپتے ہیں میرے لہجے میں
    یہ میرا گریۂ جاں خاکِ رفتگاں تک ہے
    کچھ اور دیر تماشائے آب و گل ہے یہاں
    ثباتِ شیشۂ جاں سنگِ ناگہاں تک ہے
    بنا رہا ہُوں میں سطحِ عدم پہ تصویریں
    یہ میرا عیبِ ہنر شوقِ رایگاں تک ہے
    وہ اور لوگ ہیں جو مجھ سے ملنے آتے ہیں
    مرے مکان کا در شہرِ لامکاں تک ہے
    ہوئی ہے نقش نگارِ لہو میں گویائی
    کہ زخمِ حرف مرا بندشِ زباں تک ہے
    ازل سے مَیں تو ترا بندۂ فنا ہُوں مگر
    یہ زعمِ خلق ترا یا خدا کہاں تک ہے
    ہمارے رنج تری دلبری کی رسمیں ہیں
    خوشی ہماری تری زیبِ داستاں تک ہے
    کچھ اس سے آگے فقیرِ سخن کا تکیہ ہے
    یہ شورِ داد و طلب شعر کی دکاں تک ہے
    کسے فراغتِ ناز و ادا یہاں سرمد
    غرورِ شاہدِ گل صحنِ گلستاں تک ہے
    سرمد صہبائی

  • @nawabnaqvi5337
    @nawabnaqvi5337 3 місяці тому

    لہو. ہندی زبان کا لفظ ہے اور اس سے فارسی کے ساتھ ترکیب نہیں بنائی جا سکتی. تفصیلی جواب دے چکا ہوں
    ہر الٹی سیدھی بات پر واہ واہ کہنے والے نوٹ فرما لیں
    پروفیسر نواب نقوی

  • @nawabnaqvi5337
    @nawabnaqvi5337 3 місяці тому

    سرمد صہبائی صاحب کا شمار دورِ حاضر کے اچھے شعرا میں ہوتا ہے
    اس غزل میں بھی دو چار شعر بہت عمدہ ہیں. لیکن زبان کے حوالے سے وہ کہیں کہیں ٹھوکر کھا جاتے ہیں
    لہو....... ہندی زبان کا لفظ ہے اور. نگار. کے ساتھ اس کی ترکیب نہیں بن سکتی لہذا. . نگارِ لہو کا مرکّب
    صحیح نہیں ہے
    ایسی فاش غلطی سے اجتناب کرنا چاہیے
    🙏🙏🙏
    پروفیسر نواب نقوی

    • @maibkhan6021
      @maibkhan6021 3 місяці тому

      لہو عربی کا لفظ ہے
      ترکیب ٹھیک ہے

    • @nawabnaqvi5337
      @nawabnaqvi5337 3 місяці тому

      @@maibkhan6021 میرے عزیز لہو کا لفظ سنسکرت سے ہندی میں آیا آپ تمام ڈکشنریاں چیک کر لیں کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ نے. کسی جگہ. لہو و لعب. پڑھا ہو اور اس لہو. کے دھوکے میں آ گئے ہوں
      سلامت رہیں
      پروفیسر نواب نقوی