Halat e Hazera Par Maulana Ali Miyan Nadvi Ka Ahm Bayan-हालात हाज़रा पर मौलाना अली मियां का अहम बयान

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 27 жов 2024

КОМЕНТАРІ • 87

  • @taiyabnadwi1638
    @taiyabnadwi1638 5 місяців тому +3

    اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے درجات کو بلند فرمائے جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطاء فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین

  • @khanimran6126
    @khanimran6126 19 днів тому

    اللہ تعالیٰ ان کی روح پر رحمتیں نازل فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین
    کمال کے بزرگ تھے
    امت کا بڑا سرمایہ تھے

  • @aaodeenjane
    @aaodeenjane 11 місяців тому +1

    سبحان الله حضرت ابولحسن ندوی عرف علی میاں رحمت الله کی باتیں آج 100فی صد صحیح معلوم ہو رہی ہیں الله حضرت کی مغفرت کر ان کی قبر کو نور سے بھر دے ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔آمین ثم آمین یا رب العالمین

  • @kingkhan-jm4kv
    @kingkhan-jm4kv 4 роки тому +35

    سبحان اللہ واقعہ میں حضرت اہل کشف بزرگ تھے اللہ حضرت کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین.

  • @noormohammad369
    @noormohammad369 4 роки тому +8

    بےشک سچ فرمایا حضرت مولانا نے، اللہ ان تمام باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین یا ربلعالمین

  • @GNB1786
    @GNB1786 Рік тому +1

    Salam hai aaise logo keliy jis ne pure duniya ko ek aaisa paigam diya jo sunne ke like hai. 🤲🤲

  • @RiyazAnsari-h5g
    @RiyazAnsari-h5g 7 місяців тому +1

    اللہ تعالی حضرت مولانا کا بدل پیدا فرمائے آمین یا رب العالمین

  • @imransayyad4802
    @imransayyad4802 2 роки тому +3

    اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

  • @abdulkarimnadwiquraishi8972
    @abdulkarimnadwiquraishi8972 4 роки тому +6

    اللہ رب العزت حضرت کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیں
    آمین یا رب العلمین بجاہ سید المرسلین

  • @mohdalim1985
    @mohdalim1985 4 роки тому +5

    ماشااللہ حضرت مولانا نے کیسی قیمتی بات فر ما ئ یہ مجدد وقت کی بات ہے اللہ تعالی حضرت مولانا کو کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے آمیںن

    • @ansarpatel5187
      @ansarpatel5187 3 роки тому

      آمیں یا رب العالمین آمین

  • @MohdShahidkaushambiOfficial
    @MohdShahidkaushambiOfficial 11 місяців тому +1

    ماشاء اللہ بہت زبردست خطاب

  • @firozshah7199
    @firozshah7199 2 роки тому +1

    اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائے آمین

  • @abdulrashidkhan8972
    @abdulrashidkhan8972 Місяць тому

    Jazakumullahu khera. Yeh bohot mufeed kaam aapnay Kiya.

  • @kamilkhan1792
    @kamilkhan1792 3 роки тому +3

    ماشاءاللہ الله حضرت کی قبر کو نور سے بھر دے آمین

  • @DrNajmuddeen
    @DrNajmuddeen 4 місяці тому

    Allah hamen dubara aisa koi.rahbar ata farma de to keya hi achha hota

  • @syedshariq5512
    @syedshariq5512 3 роки тому +7

    Hazrat ka inteqal
    31 December 1999 sadi ki akhiri rat
    23 ramzan 1420 hijri
    Din juma Mubarak
    Sorah yaseen ki tilawat karte hue hua
    Apne aabai ghar par
    Allah k wali hadrat maulana mufakkire Islam ki qabr par be shumar rahmate nazil ho,,, aur unki tarbiyat se ham sabhi malamal ho

  • @a.a.k.1765
    @a.a.k.1765 4 роки тому +5

    Allah Molana Ali miya R. ko jannat me Ala se Ala maqam ata farmaye or ham sabko sidhe raste chalne or gunaho se bachne ki taufiq ata farmaye

  • @MyindiaOne
    @MyindiaOne 2 місяці тому +1

    Alhamdulillah

  • @khalidakhan3247
    @khalidakhan3247 Місяць тому

    Àmeen Ameen

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 роки тому +2

    رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ
    عالم انسانیت کے لیے آخری کتاب ہدایت
    رمضان المبارک کو قرآن مجید سے ایک خاص نسبت ہے ۔ قرآن کریم کی اس ماہ مبارک سے نسبت کا ذکر خود قرآن میں اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے :
    إنا انزلناه في ليلة القدر o ليلة القدر خير من ألف شهر o
    ہم نے اس کو (قرآن ) نازل کیا شب قدر میں جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے "۔
    قرآن پاک کی اس ماہ مبارک سے نسبت خود قرآن میں آیا ہے ۔ اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت کا ذکر ہے اور اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت اور فضیلت کو بیان کرتے ہوئے قرآن کی عظمت کی طرف اشارے کیے گئے ہیں :
    " رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں "
    دوسری خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی آیات میں ہدایت کی واضح نشانیاں اور دلائل ہیں ۔ یہ ڈر حقیقت ایک کتاب ہدایت ہے
    ابتداء آفرینش سے اللہ جل شانہ کے پیش نظر نوع انسانی کی ہدایت رہی ہے ۔
    اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے :
    قلنا اهبطوا منها جميعا ، فإما يأتيكم منى هدى فمن تبع هداى فلا خوف عليهم ولا هم يحزنون o
    ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اترجاؤ ، پھر میری طرف سے جو ہدایت تمہارے پہنچے
    تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے تو ان کو کوئی خوف اور حزن نہ ہوگا ۔
    اگلی آیہ میں فرمایا :
    والذين كفروا و كذبوا باياتنا أولئك أصحاب النار هم فيها خالدون o
    اور جو لوگ اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائین گے ، وہ آگ میں رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ
    رمضان المبارک کو قرآن مجید سے ایک خاص نسبت ہے ۔ قرآن کریم کی اس ماہ مبارک سے نسبت کا ذکر خود قرآن میں اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے :
    إنا انزلناه في ليلة القدر o ليلة القدر خير من ألف شهر o
    ہم نے اس کو (قرآن ) نازل کیا شب قدر میں جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے "۔
    قرآن پاک کی اس ماہ مبارک سے نسبت خود قرآن میں آیا ہے ۔ اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت کا ذکر ہے اور اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت اور فضیلت کو بیان کرتے ہوئے قرآن کی عظمت کی طرف اشارے کیے گئے ہیں :
    " رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں "
    دوسری خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی آیات میں ہدایت کی واضح نشانیاں اور دلائل ہیں ۔ یہ ڈر حقیقت ایک کتاب ہدایت ہے
    ابتداء آفرینش سے اللہ جل شانہ کے پیش نظر نوع انسانی کی ہدایت رہی ہے ۔
    اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے :
    قلنا اهبطوا منها جميعا ، فإما يأتيكم منى هدى فمن تبع هداى فلا خوف عليهم ولا هم يحزنون o
    ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اترجاؤ ، پھر میری طرف سے جو ہدایت تمہارے پہنچے
    تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے تو ان کو کوئی خوف اور حزن نہ ہوگا ۔
    آدم علیہ السلام کو کرہ ارض پر بھیجتے وقت جو بات کہی گئی کہ زمین پر تم کو یونہی نہیں چھوڑ دیا جائے گا بلکہ تم تک ( سے بنی نوع انسان ) میرا پیغام ہدایت پہنچتا رہے گا
    اور تم کو ان ہدایات کے مطابق زندگی بسر کرتے رہنا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنی زندگی میں خوف و حزن سے محفوظ رہوگے ۔
    اس کے مقابلے میں انسانوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو اللہ جل شانہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے سے انکار کردے گا ۔
    وہ لوگ گمراہی کے مختلف راستوں پر چلنے والے ہوں گے ۔ ان کا انجام جہنم کی آگ ہے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔۔
    اللہ جل شانہ کی یہ ہدایت انبیاء علیہم السلام لے آتے رہے ۔ اللہ کی یہ ہدایت انسانی تاریخ کے مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے رمضان المبارک میں نزول قرآن پر مکمل کردیا گیا
    اور اب پوری عالم انسانیت کے لیے صرف قرآن ہی آخری کتاب ہدایت ہے ۔ یہ نسل انسانی کے لیے ابتدائے آفرینش سے قیامت تک کے لیے اللہ کا مستقل فرمان ہے اور اسی کو " عہد " تعبیر کیا گیا ہے ۔ انسان کا کام خود اپنے لیے کوئی راستہ اختیار کرنا نہیں ہے ، بلکہ بندہ اور خلیفہ ہونے کی دو گونہ حیثیتوں کے لحاظ سے وہ اس پر مامور ہے کہ اللہ کی بھیجی ہوئی آخری کتاب ہدایت کی مکمل پیروی کرے
    اس کے علاوہ ہر صورت غلط ہی نہیں سراسر بغاوت ہے جس کی سزا دائمی جہنم کے عذاب کے سوا اور کچھ نہیں ۔
    جاری

  • @junedhaider1686
    @junedhaider1686 Рік тому +2

    19:00

  • @thevoiceofulama4726
    @thevoiceofulama4726 4 роки тому +10

    Mashallah

  • @elliminatefalsehoodadhereo1804

    Mashaa Allaah

  • @thecuriousscroll
    @thecuriousscroll 4 роки тому +2

    ماشا اللہ بہت اچھی کہی ہیں

  • @ALFURQANOfficialTV
    @ALFURQANOfficialTV 4 роки тому +3

    ماشاءاللہ بہت خوب

  • @mohdinaamkhan3986
    @mohdinaamkhan3986 2 роки тому

    अल्लाह हज़रत को जन्नतुल फ़िरदौस में आला मुकाम अता फरमाएं। आमीन

  • @davidmalik8228
    @davidmalik8228 Рік тому

    Fantastic speech ❤

  • @skajfarAl
    @skajfarAl Рік тому

    Mashallah mashallah

  • @Awais_Arts
    @Awais_Arts Рік тому +1

    ❤❤❤❤❤❤❤❤

  • @bilalqasmi8300
    @bilalqasmi8300 4 роки тому +1

    Allah taala hazrat ki magfirat farmay aameem

  • @niyajahmad6254
    @niyajahmad6254 4 роки тому +1

    Beshaq Allah sabr karne walo K sath hai aur whi log qamyab bhi hoge jo sabr ka daman thame rhege insha Allah yhi sabr ki aaj zrorat hai

  • @mdjawedakhtar6189
    @mdjawedakhtar6189 4 роки тому +5

    Rehmatullah alaih

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 роки тому +1

    حج ٢٠٢٢ کے موسم کی مناسبت سے
    حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مشن
    اور امہ مسلمہ
    آدم علیہ السلام کی رحلت کے بعد ان کی اولاد شرک میں مبتلا ہوتی چلی گئی ۔ ان کی اصلاح کے لیے اللہ تعالی وقفہ وقفہ سے انبیاء علیہم السلام کو بھیجتا رہا ۔ یہ انبیاء ایک خاص قوم
    ملک اور ایک خاص مدت کے لیے بھیجے گئے تھے سوائے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سوائے خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ خصوصی شرف اور امتیاز حاصل ہے کہ اللہ
    تعالی نے آپ کو دنیا سارے انسانوں کا پیشوا بناکر توحید کے عالمگیر مشن کا آغاز کروایا
    جس کی تکمیل سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ۔
    حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت آج سے تقریبا چار ہزار سال قبل حضرت نوح علیہ السلام کی نویں پشت میں عراق کے شہر
    ' ار ' میں ہوئی تھی ۔ آپ علیہ السلام نے مشرکانہ ماحول کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں آنکھیں کھولیں ۔ آپ کے والد ایک صنم تراش اور بت ساز تھے اور نمرود بادشاہ کے دربار میں اعلی منصب پر فائز تھے ۔
    حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم تین قسم کے شرک میں مبتلا تھی ۔ ١ - ستارہ پرستی
    ٢- أصنام پرستی ٣ - سياسى شرك . ملک عراق میں تقریبا پانچ ہزار خداؤں کی پرستش کی جاتی تھی ۔ ہرگاؤں اور ہر شہر کا ایک ایک الگ محافظ خدا تھا ۔ شہر ' ار ' کا خدا ' ننار ' یعنی چاند دیوتا تھا ۔ اس کے ماتحت مختلف ضرورتوں اور حاجتوں کے لیے مختلف دیوی دیوتا بنالیے گئے تھے جو زیادہ تر آسمانی سیاروں سے منسوب تھے ۔ ان کی مورتیاں بنائی جاتیں اور ان کے آگے مراسم بندگی ادا کیے جاتے تھے ۔ملک کا اصل بادشاہ چاند دیوتا ' ننار ' تھا ۔ اس کی طرف سے ملک کا بادشاہ حکومت کرتا تھا جس کی نسبت چاند دیوتا کی طرف کی جاتی اور بادشاہ خود بھی معبودوں میں شامل ہوجاتا ۔ اس کی بھی مورتی بناکر پوجا کی جاتی تھی ۔
    ایسے مشرکانہ ù میں اللہ سبحانہ تعالی نے ان کی رہنمائی کی اور حق کی سمجھ عطا کی :
    و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل و كنا به عالمين o ( الانبیاء : ٥١ )
    اس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیم کو اس کی سمجھ عطا کی تھی اور ہم اس سے خوب واقف تھے ۔
    حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان خود ساختہ جھوٹے معبودوں کا انکار کرتے ہوئے اس بات کھل کر اعلان کردیا کہ :
    و إذ قال إبراهيم لأبيه أزر ا تتخذ اصناما آلهة
    إنى اراك و قومك فى ضلال مبين o
    اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا " کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے ؟ میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ میں ان سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا شریک ٹھیراتے ہو ، میں نے یکسو ہوکر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں " ۔
    ابراہیم علیہ السلام اس طرح اپنی دعوت کا آغاز کیا ، حقائق کو کھول کر بیان کیا ، بتوں کی بے بسی اور لاچاری کو کھول کر ان کو سمجھایا اور پروردگار عالم کی عظمت اور اس شان و شوکت کو کو بیان کیا ۔
    آپ علیہ السلام کی دعوت کی ضرب نہ صرف بتوں کی پرستش بلکہ شاہی خاندان کی حاکمیت ، پجاریوں اور اعلی طبقوں کے مذہبی ، معاشی اور سیاسی حیثیت اور ملک کے عوام کی اجتماعی زندگی پر براہ راست پرتی تھی ۔ اس لیے بادشاہ ، پجاری اور تاجر
    سبکے سب آپ علیہ السلام کے مخالف اور
    جان کے دشمن ہوگئے ۔
    جاری
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @m.a.khanvlogs7425
    @m.a.khanvlogs7425 4 роки тому +4

    Masha allah Masha allah

  • @shakhtalhaparbhanitalha8740
    @shakhtalhaparbhanitalha8740 4 роки тому +2

    اللہ حضرت کو کروٹ کروٹ چین وسکون نصیب فرماۓ

  • @Mohdanas__07622
    @Mohdanas__07622 6 місяців тому +1

    ❤❤

  • @iyighazi3288
    @iyighazi3288 4 роки тому

    Subhan Allah Masha Allah,bhut hi unda AUR asan Andaz me maulana Sahab ne samjhaya hi.Allah unhe jannatul firdauSe me Alaa muqam de.amin

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 роки тому

    کائنات کا خاتمہ
    انسانی تاریخ اپنے اختتام کے بالکل
    قریب آگئی ہے
    يوم نطوى السماء كطى السجل للكتب . كما بدانا اول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين
    ( الانبیاء : ١٠٤ )
    وہ دن جب ہم آسمان کو یوں لپیٹ دیں گے جیسے طومارمیں اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں
    جس طرح ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اسی طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گے ۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے اور ہم اسے پورا کرکے رہیں گے ۔
    The day We shall roll up the heaven as a recorder rolleth up for books.As We began the first creation, We shall repeat It.It is a promise binding upon Us. Lo! truly We shall do it.
    (Qur'an,21:104)
    اس کا مطلب یہ کہ یہ کائنات ہمیشہ کے لیے نہیں ہے ۔ ایک دن اللہ جل شانہ اس کائنات کو ختم کر دیں گے ۔ جس وقت یہ بات کہی گئی تھی اس وقت انسان اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتا تھا ۔
    لیکن آج انسان فلکیاتی تحقیقات( Space Researches) میں اتنی ترقی کرچکا ہے کہ
    کائنات کا ختم ہونا اس کی سمجھ میں آسکتا ہے ۔ آج سائنسداں اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ کائنات ہمیشہ کے لیے نہیں ہے ۔ ایک دن اسے ختم ہوجانا ہے ۔ اجرام سماوی ستارے ، سیارے اور کہکشائیں ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوسکتی ہیں ۔ اس کائنات کے دائمی ہونے کا کوئی پتہ نہیں چلتا ۔
    اللہ تعالی جو اس کائنات کا مبدع اور موجد ہے اس نے صاف صاف قرآن میں تاکید کے ساتھ کہہ دیا ہے کہ وہ اس کائنات کو ایک دن ختم کردے گا ۔ قرآنی بیانات کے مطابق اس کائنات اور زمین پر انسانی زندگی کا خاتمہ یقینی ہے
    اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں :
    يسئلونك عن الساعة أيان مرسها ، قل إنما علمها عند ربى لا يجليها لوقتها إلا هو ، ثقلت فى االسموات والأرض ؛ لا تأتيكم إلا بغتة o
    They ask thee of the الساعة (destined Hour) when will be its appointed time.
    Say: the knowledge thereof is with my Lord only.He alone will manifest it at its proper time. It is heavy .Now its burden is heavy in the heavens and the earth.Only all of a sudden will it come to you.They question thee as if thou couldst be well informed thereof.
    Say: the knowledge thereof is with Allah only,but most of men know not. (Qur'an,7:187)
    اگر آپ حالیہ فلکیاتی تحقیقات کا مطالعہ کریں تو آپ کو ایک ایس حقیقت کا علم ہوگا جسے سائنسدانوں نے Great Attractor کا نام دیا ہے ۔ یہ عظیم اپنی طرف کھینچنے والی چیز کیا ہے ؟ سائنسداں اب تک اسے نہیں معلوم کرسکیں ہیں ۔ جتنی کہکشائیں ہین سب
    ایک نکتہ کی طرف کھنچی چلی جارہی ہیں بلکہ ایسا معلوم دیتا ہے کہ ان سارے کہکشاؤں کو کوئی دھکا دے کر اس سمت لے جارہا ہے ۔
    کیا یہ بظاہر " يوم نطوى السماء " جس دن ہم آسمان ( کائنات)کو اس طرح لپیٹ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں "
    کی طرف اشارہ نہیں ہے کائنات کی بساط لپیٹی جارہی ہے !
    اس خلائی تحقیق میں یہ اشارہ ہے کہ کائنات کو لپیٹنے( ختم کرنے) کا عمل جاری ہے ۔ اس لیے قرب قیامت کی وہ بڑی پیشینگوئیاں جو احادیث میں بیان کی گئی ہیں ان کے ظاہر ہونے کا وقت بالکل نزدیک آگیا ہے ۔
    سارے آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ تاریخ انسانی اپنے آخری مرحلہ میں پوری طرح داخل ہوچکی ہے ۔ انسانی تاریخ اپنے آخری مرحلہ سے گزر رہی ہے ۔ یہ ایک امر واقعہ ہے ۔ مجھے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے ۔ قرب قیامت کی وہ آخری علامتیں جن کا احادیث میں بیان کیا گیا ہے وہ جلد ظاہر ہونے والی ہیں ۔
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    Post-- Doctoral Researcher
    ڈائرکٹر
    آمنہ ا انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
    A Global and Universal Research Institute
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @sirsyedacademyjokihat6708
    @sirsyedacademyjokihat6708 4 роки тому

    Allah Hazrat ko Ala aaliyyin mai jagah ata farmaye Aamin

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 роки тому

    شیخ احمد الشرباصی نے ' ابوالحسن علی الندوی ،صورة وصفية' کے عنوان سے علامہ ندوی رحمہ کا بہتر تعارف کرایا ۔
    سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ انہوں نے اس موضوع پر جو چند کتابین پڑھی ہین ، ان میں اس کتاب کو خاص مقام حاصل ہے یہ کتاب بڑی مدلل ، مربوط اور حقیقت پسندانہ علمی اسلوب میں لکھی گئی ہے ۔ اس کتاب کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے اسلام کے اصول وکلیات کے وسیع دائرے اور اس کی صحیح روح کے مطابق اس موضوع کو پوری گہرائی سے سمجھ کر پیش کیا ہے ۔ اس بناء پر یہ کتاب تاریخی ، اجتماعی اور دینی تحقیق کا ایک بہتر اور شاندار نمونہ ہے بلکہ اس کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے تاریخ کو کس طرح پیش کرنا چاہیے " ۔
    اس کتاب میں فاضل مصنف نے یہ دکھایا ہے کہ مسلمانوں کے زوال سے عالم انسانی پر کیا منفی اثرات پڑے اور ان کو کیا نقصانات پہنچے ۔ ان کے عالمی پردہ پر آنے اور دنیا میں پھیلنے سے انسانی تہذیب و تمدن اور دنیا کی قوموں کو کیا ملا ۔
    اسلام سے پہلے جب ایک اللہ کے تصور اور اس کی عبادت سے انسانیت منحرف اور ربانی تعلیم و تربیت کو بالکل فراموش کر چکی تھی جس کی وجہ سے دنیا کی تمام قوموں کی مذہبی اخلاقی ، سیاسی ، معاشی اور تمدنی حالات انتہائی خراب ہوچکی تھی ، اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں
    وکر ہمیشہ کے لیے آزاد ہوگئے ۔ ہزاروں سال کی غلامی کے بعد انہیں حقیقی آزادی ملی ۔ عالم انسانیت نئے اسلامی عالمی نظام سے واقف ہوئی ۔ تیئیس سالہ نبوت و رحمت کا زمانہ اور تیس سالہ خلافت راشدہ کا عہد جو انسانوں پر " حکم اللہ " سے عبارت تھی پوری عالم انسانیت کے لیے نئے عہد مژدہ جانفزا لے کر آیا ۔ عالم انسانیت نئے اسلامی عالمی طرز حکومت اور New Islamic World Order سے عالم انسانیت کو متعارف کرایا ۔ افغير دين الله يبغون و له أسلم من فى السموات والأرض طوعا و كرها و إليه يرجعون o (آل عمران:٨٣) کیا اللہ کے حکم کے علاوہ وہ کوئی اور"حکم" وہ (دنیا میں چلانا ) چاہتے ہیں ۔
    اب کیا یہ لوگ اللہ کے دین کو چھوڑکر کوئی اور طریقہ حکم(نافذ) کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں اللہ کے حکم کی ہی پابند ہیں اور اسی کی طرف سب کو پلٹ کر جانا ہے ۔ا امہ مسلمہ کی تعلیم و تربیت کے مکمل ہونے اور خلافت کے لائق ہونے کی شہادت اللہ جل شانہ نے دی ہے کہ وہ اب اس کی اہل ہوگئی ہے کہ اسے عالم انسانیت کی قیادت وسیادت کی ذمہ داری سونپی جائے ۔
    الذين إن مكنهم فى الأرض أقاموا الصلوة و أتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الأمور o ( الحج : ٤١)
    یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہہں زمین پر اقتدار تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوة دیں گے ، معروف کا حکم دیں گے ، منکر سے روکیں گے اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے

  • @MdSaddam-jg4yf
    @MdSaddam-jg4yf 4 роки тому +1

    Masaallah

  • @mawbeg
    @mawbeg 4 роки тому +1

    رحمہ اللہ

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 роки тому +1

    قرآن و سنت کے سائنسی اعجاز پر پہلی
    عالمی کانفرنس
    دوسری قسط
    جو لوگ قرآن کی سائنسی تفسیر کے قائل نہیں ہین ان کی طرف سے درج ذیل وجوہات بھی پیان کی جاتی ہیں :
    وہ اسے قرآن کے اصل مقصد سے انحراف سمجھتے ہیں ۔ وہ کہتے ہین کہ ہم اس طرح اپنی صلاحیت اور کوششوں کا صحیح استعمال نہیں کرتے ہیں اس طرح جس چیز کو اولیت حاصل ہونی چاہیے وہ ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہے ۔
    سائنسی مفروضات اور نظریات جدید معلومات اور تحقیقات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں اگر ہم ان کے مطابق قرآنی آیات کے معانی بیان کرنے لگے تو خدا ناخواستہ اللہ جل شانہ کی کتاب کھیل بن کر رہ جائے گی اور ہر کس و ناکس اپنی طبع آزمائی کے لیے اسے تختہ مشق بنالے گا اور اس طرح دشمنان اسلام کو استہزاء کا نیا موقع مل جائے گا ۔
    بغیر کسی اصول و ضوابط کے ، قرآن و سنت کے سائنسی اعجاز کے موضوع پر بحث و مباحثہ کا دروازہ کھولنا خطرے سے خالی نہیں ہے ، کیونکہ مخلتف علوم و فنون کے ماہرین اپنے اپنے نقطہ نظر سے سائنسی معلومات اور نظریات کے مطابق قرآنی آیات کی تشریح و تفسیر کرنے لگیں گے اور یہ فتنے کا باعث ہوسکتا ہے !!
    سائنسی معلومات کے مطابق قرانی آیات کی تاویلات اور تفسیر در اصل ہماری نا اہلیت کو ثابت کرتی ہے کہ ہم خود سائنسی تحقیقات نہیں کرسکتے ہیں اور عصر حاضر میں جو ہماری ذمہ داریاں ہیں ان سے فرار کا راستہ اختیار کرلیا ہے ۔ محض یہ کہنا کہ ان سائنسی اکتشافات اور تحقیقات کو قرآن آج سے چودہ صدیاں پہلے بیان کرچکا ہے ، اپنی عصری ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کافی نہیں ہے ۔
    ان کا کہنا ہے کہ وہ قرآن و سنت کے سائنسی اعجاز کا انکار نہیں کرتے ہیں لیکن اسے بھی درست نہیں سمجھتے کہ قرآن کو سائنسی نقطہ نظر سے بحث و مباحثہ کا موضوع بنالیا جائے ۔ ہم آج علوم و فنون کے تمام شعبوں میں پسماندہ ہیں اور امہ مسلمہ انتہائی سخت اور نازک صورتحال سے گزر رہی ہے ایسی حالت میں ایسے حساس موضوع پر مستقل بحث و مباحثہ کا دروازہ کھولنا صحیح نہیں ہے ۔
    ہاں ، اگر کچھ اہل اختصاص اور علم و فکر
    ان آیات پر غور و فکر کریں جن کی تشریح اور باریکیوں پر سائنسی تحقیقات سے روشنی پڑتی ہے اور اس طرح قرآن کا علمی اعجاز ثابت ہو تو یہ مفید ہے ۔ مثال کے طور پر جدید طبی ، خلائی اور علوم کے دیگر شعبوں میں جو حالیہ تحقیقات ہوئی ہیں ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ وہ اپنی تحقیقات اہل مغرب کے متعلقہ شعبوں کو بھیجیں تاکہ انہیں اسلام کے بارے میں سائنسی نقطہ نظر سے صحیح رائے قائم کرنے کا موقع ملے ۔ اس سے مسلم نوجوانوں میں قرآن و سنت پر سائنسی نقطہ نظر سے اعتماد پیدا ہوگا ، ان کے دینی جذبہ اور تاریخی شعور کو تقویت ملے گی ، ان کے اندر علمی خود اعتمادی ، بلند ہمتی اور علمی ترقی کا جذبہ پیدا ہوگا ۔
    اسلام آباد کی کانفرنس منعقدہ 1987 میں ان اندیشوں اور خدشات کا اظہار کیا گیا تھا ۔ اس کے بجائے ہمیں علوم و فنون کی میدانوں مین ترقی کے اسباب اختیار کرنے چاہئیں اور اپنے اندر خود ترقی کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے تاکہ ہم علمی پسماندگی اور مغرب کی کورانہ تقلید سے آزاد ہوسکیں ۔ صرف قرآن و سنت کے علمی اعجاز کو ثابت کردینا برتری اور تفوق کی بات نہیں ہے بلکہ سائنس کے میدانوں ترقی کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ یہ اس بحث کا سب سے اہم پہلو ہے جس کی طرف مسلم حکومتوں اور اہل علم و فکر کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
    لیکن اس موضوع پر سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کرنا اور قرآنی آیات کی بے جا تاویلات کرکے جدید سائنس سے مطابقت پیدا کرنے کی پر تکلف کوششیں کرنا ، اس مقصد کے لیے کمیٹی اور بورڈ کی تشکیل اور بڑی بڑی رقم وقف کرنا ، ایسا طرز عمل ہے جو جادہ اعتدال سے ہٹا ہوا ہے ۔
    اس موضوع کے سلسلے میں قیود و ضوابط کی پابندی کے موضوع پر کام کرنے کے لیے ایک کمیٹی ' قرآن کے سائنسی اعجاز کا اثبات اور اس کے اصول و ضوابط ' کے عنوان سے تشکیل دی گئی تھی اس موضوع پر وقیع مقالہ ازہر یونیورسیٹی کے ڈاکٹر سید طویل کا تھا ۔ دوسرا مقالہ ام درمان اسلامی یونیورسٹی کے محمد خیر حب الرسول نے پیش کیا تھا ۔
    ان دونوں مقالون میں قرآن کے سائنسی اعجاز کے موضوع پر آزادانہ بحث و مباحثہ پر اعتراض اور ضروری تحفظات کے مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی تھی ۔ فقہاء اور دیگر علوم کے ماہرین کے درمیان اس پر خوب گرم بحث ہوئی اور ہر فریق اپنے موقف پر قائم رہا ۔
    فقہاء کے موقف کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ کانفرنس میں قرآنی آیات کی سائنسی تاویلات کا دروازہ توقع سے زیادہ کھلا پایا گیا ۔ پانچ سو مقالون میں سے صرف 78 مقالات کا انتخاب اور ان کا خلاصہ پیش کیا گیا ۔ اتنی بڑی تعداد میں مقالات کا رد کردیا جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آزادانہ تاویلات کا خطرہ خیالی نہیں بلکہ حقیقی ہے اور یہ بڑے شد ومد اور غلو کے ساتھ پائے گئے ۔
    تقریبا گیارہ سائنسی موضوعات پر مقابلے پڑھے گئے ۔ علم افلاک ( خلائی تحقیقات) فضا و ارض ، سمندر حیوانات ، نباتات ، علم الجنین (Embryology) علم تشريح (Anotomy) اور علم طب کے مختلف شعبوں کے علاوہ علم نفسیات اور اقتصادیات پر بھی مقالات پڑھے گئے تھے ۔
    جاری
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    ڈائرکٹر
    آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
    A Global and Universal Research Institute
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @shoaibahmedkhan9676
    @shoaibahmedkhan9676 2 роки тому

    Molana un chund logo mein sy hy jinhy dekhay begair un sy muhabbat o aqeedat hojati hy intihai darjay ki

  • @IN-ij8wq
    @IN-ij8wq 4 роки тому +5

    Maujooda halaat pr bayan 20:00

  • @razaahmad8873
    @razaahmad8873 4 роки тому

    Inshallah hazrat

  • @AftabAhmedLakhani
    @AftabAhmedLakhani 3 роки тому

    Amin

  • @nafisanwar4149
    @nafisanwar4149 4 роки тому

    Ameen

  • @hussain_imh
    @hussain_imh 4 роки тому

    Masha allah

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 3 роки тому +6

    عالم اسلام کی متفق علیہ شخصیت
    مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ
    علامہ یوسف قرضاوی جو مصری ہیں اور فی الحال قطر کے شہری ہین ، دوحہ مین اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ :
    " اگر عالم اسلام کسی شخصیت پر متفق ہوسکتا ہے تو وہ شیخ ابوالحسن علی ندوی شخصیت ہے "۔ اگر اس قول کی روشنی مین علامہ ندوی رحمہ عالم اسلام کے لیے ایک خاص نعمت اور رحمت تھی ۔ ہندستان میں بھی جب مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاتا تو وہی اس کو ختم کرنے کے لیے انہی کی طرف رجوع کیاجاتا تھا ۔ ان کا فیض تھا کہ کسی بحران کے وقت انہی کی ذات کام اتی
    اج ہند کی امہ مسلمہ اپنی تاریخ کے سخت دور سے گزر رہی ہے ۔ ایسی حالت میں ہمین ان کی یاد آتی ہے ۔
    عالم اسلام مین ایک غیر متنازعہ سخصیت قرار دیا جانا بہت بڑی بات ہے ۔ عالم اسلام
    گونا گوں رنگون کا خوبصورت نقشہ ہے ۔ ان رنگون میں عرب و عجم دو اہم رنگ ہین ۔ ان مین ہر ایک کی اپنی خصوصیت اور منفرد شان ہے ۔ عالم عرب مین مصر کو اس کی قدیم تاریخ اور اسلامی علوم و ثقافت میں مرکزی مقام اور منصب قیادت حاصل ہے ۔ عجم کے مختلف رنگون میں ترکی ، ملائشیا اور پاکستان وغیرہ کی اپنی خصوصیت اور انفرادیت ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام کی مختلف قومون کا کسی ایک شخصیت پر متفق ہونا بہت نازک مسئلہ یے ۔
    ان گونا گوں رنگوں کے عالم اسلام میں علامہ یوسف قرضاوی یہ کہنا کہ شیخ ابوالحسن علی ندوی رحمہ کی ذات ہی ایک ایسی شخصیت ہے جو کہ عالم اسلام کے سیاستداں
    علماء اور مفکرین تمام اختلافات کے باوجود ان کی ذات پر متفق ہوسکتے ہین ۔
    یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
    ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہان
    علامہ یوسف قرضاوی مصری ہیں ، اس پر عالم اسلام کی سب سے بڑی اور قدیم یونیورسٹی الازہر ما رنگ بھی چڑھا ہوا ہے ۔ انہوں نے اس سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی ہے ۔ وہ عربی زبان و ادب کے ماہر اور شاعر بھی ہین ۔ انہوں نے متعدد موضوعات پر عربی مین کتابین تصنیف کی ہین ۔ ان کی مشہور کتاب ' فقہ الزکوة ' پر انہیں شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا ۔
    اپنی جوشیلی خطابت مین مشہور اور امہ مسلمہ کے لیے درد مند دل رکھتے ہیں ۔ عالمی سطح کے مشہور عالم دین اور مفکر اسلام
    اتنی عظیم شخصیت کا یہ کہنا کہ :
    " شیخ ابوالحسن علی ندوی رحمہ کی شخصیت ایسی ہے کہ عالم اسلام ان پر متفق ہوسکتا ہے " یہ ایک ایسا مقام و مرتبہ ہے جسے اللہ جل شانہ کا خاص فضل ہی کہا جاسکتا ہے ۔
    عالم اسلام مین غیر متنازعہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص جامع صفات ہو ، وہ مختلف علوم پر حاوی ہو اور اس کے اندر علمی تبحر ہو ، عصر حاضر کے تقاضون سے باخبر اور ، اس کی فکر عالی اور عالمی ہو
    وہ مقناطیسی شخصیت کا حامل ہو ۔
    عالم اسلام مین وہ ہر اعتبار سے معتبر اور مستند ہو ۔
    کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجا ست
    علامہ ندوی رحمہ ہندستان کے معروف و مشہور دینی اور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ اس خاندان میں سید احمد شہید رحمہ جیسے ولی اللہ اور مجاہد پیدا ہوئے ۔ ڈاکٹر سید محمود مرحوم کو حضرت سید احمد شہید رحمہ سے بہت محبت و عقیدت
    تھی ۔ وہ ان کو ہندستان کی جدو جہد آزادی
    کا اولین داعی اور قائد سمجھتے تھے ۔ علامہ ندوی رحمہ کی سب سے پہلی اردو تصنیف سیرت سید احمد شہید رحمہ تھی ۔ اس خاندان کے ایک بڑے بزرگ اور ولی اللہ شاہ علم اللہ ہیں ۔ رائے بریلی اس خاندان کا اصل وطن ہے ۔ دائرہ شاہ علم اللہ کے نام سے موسوم ہے ۔ علامہ ندوی رحمہ اپنی بہت سی تصانیف یہیں مکمل کیں ۔
    آپ کے والد حکیم عبد الحی حسنی مرحوم ایک جلیل القدیر عالم دین ، عربی اور اردو زبان و ادب کے ادیب تھے ۔ عربی زبان میں ان کی تالیف ' نزھہ الخواطر ' آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ یہ علماء ہند اور مشاہیر کے حالات زندگی اور ان کے علمی کارناموں پر مشتمل ہے ۔ یہ ان کا عظیم علمی کارنامہ ہے ۔
    جلیل القدر عالم دین مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ تحریر کرتے ہیں کہ :
    " نزھہ الخواطر' کی قدر و قیمت مجھے اس کتاب ( مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت) لکھنے کے وقت جتنی ظاہر ہوئی اس سے پہلی نہیں ہوئی تھی ۔ اللہ کے اس مخلص بندے نے کمال کردیاہے ۔ سمندروں کو کھنگال گئے ہیں لیکن پتہ بھی نہ چلنے دیا ۔ خدا کرے ان کی اس محنت سے دنیا کو استفادہ کا موقع مل جائے ۔ایک انقلابی کام کرکے وہ چلے گئے ہیں "۔
    آج ان کی یہ شاہکار تصنیف جو ڈر حقیقت ایک انسائیکلوپیڈیا ہے عالم عرب سے شائع ہوگئی ہے ۔ عرب علماء ، محققین اور مورخین نے اس کتاب دلپذیر کو بہت پسند کیا اور اس کی تحسین کی ۔ آپ دارالعلوم ندوة العلماء کے ناظم تھے ۔ ان کے بعد علامہ ندوی رحمہ کے
    بڑے بھائی ڈاکٹر عبد العلی مرحوم ندوی کے ناظم ہوئے ۔ اس خاندان کی تاریخ سے بر صغیر
    کے اہل علم و فضل اچھی طرح واقف ہیں ۔ اس لیے علامہ ندوی رحمہ بر صغیر خصوصا ہند بڑی عزت اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ یہ ہے ان کی تعمیر شخصیت کا خشت اول ۔
    دارالعلوم کے سب سے نمایاں تعلیم یافتہ اور فاضل بلکہ اس کے لیے سرمایہ افتخار و نازش
    سید سلیمان ندوی رحمہ تھے ۔ سید صاحب کی علمی زندگی کا سب سے نمایاں اور ممتاز پہلو طبقہ علماء میں ان کی جامعیت اور علوم و مضامین کا تنوع تھا ۔
    علامہ ندوی رحمہ ان کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ :
    " ان کی ذات اور ان کی علمی زندگی میں قدیم و جدید سے واقفیت ، علمی تبحر اور ادبی ذوق ، نقاد و مورخ کی حقیقت پسندی اور سنجیدگی ، ادباء اور انشاء پروازوں کی شگفتگی اور حلاوت ، فکر و نظر کا لوچ اور مطالعہ کی وسعت اس طرح جمع ہوگئی تھی جو شاذ و نادر جمع ہوتی ہے "۔
    " سید صاحب نے نصف صدی سے زیادہ علماء کی اس قدیم جامعیت کو زندہ و نمایاں رکھا اور دینی و علمی و ادبی حقلوں میں بیک وقت نہ صرف باریاب بلکہ اکثر صدر نشین رہے ۔ ان کی زندگی اور مختلف ذمہ داریاں جو انہوں نے مختلف وقتوں میں سنبھالیں خود ان کی جامعیت کا ثبوت ہیں " ۔
    مجلس خلافت سلطان ابن مسعود کی دعوت پر مؤتمر اسلامی میں شرکت اور مسلمانان ہند کی ترجمانی کے لیے ایک وفد تشکیل کرتی ہے تو اس کی قیادت کے لیے ان سے زیادہ موزوں شخص نظر نہیں آیا جو عالم اسلام کے اس نمائندہ اور منتخب مجمع میں عربی میں اظہار خیال کی قدرت رکھتا ہو اور مسلمانان ہند کی دینی و علمی عظمت کا نقش قائم کرسکے "۔
    جارى
    ڈاکٹرمحمد لئیق ندوی

    • @ansarpatel5187
      @ansarpatel5187 3 роки тому

      سبحان اللہ
      کیا روشنی ڈالی آپ نے
      واہ واہ واہ واہ
      سبحان اللہ سبحان اللہ
      اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین یا رب العالمین آمین

    • @anwaransari902
      @anwaransari902 2 роки тому

      Anwar

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 роки тому

    کائنات کی بالکل ابتدائی حالت
    ثم استوى إلى السماء و هى دخان فقال لها و للأرض ائتيا طوعا أو كرها ، قالتا أتينا طائعين o ( حم السجدة : ١١)
    پھر آسمان( کے بنانے) کی طرف توجہ فرمائی
    جو اس وقت ( محض دھواں ہی) دھواں تھا ۔ سو اس سے اور زمین سے کہا کہ تم دونوں خوشى سے آؤ يا بادل نخواستہ ۔ دونوں نے کہا کہ ہم بخوشی حاضر ہیں ۔
    Then turned He to the heaven when it was smoke, and said unto it and unto the earth: Come both of you, willingly or loth (unwillingly). They said :We come obedient.
    جدید سائنس کہتی ہے کہ کائنات بالکل اپنی ابتدائی حالت میں صرف ہائیڈروجن گیس کے گھنے بادل سے بھری ہوئی تھی ۔ اس کے علاوہ کجھ نہیں تھا ۔
    قرآنی میں اس کے لیے " دخان" (دھواں) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور یہی صحیح لفظ اور تعبیر ہے ۔
    اس کے بعد کی ایام تخلیق کا ذکر کیا گیا ہے ۔
    ان ایام میں موجودات کی تخلیق کی تعیین
    مدت صرف انسانوں کی تفہیم کے لیے ہے ورنہ اللہ جل شانہ کا کلمہ کن وقت اور زمانہ کی قید سے بالکل آزاد ہے ۔ اس کا ایک کلمہ کن سے تمام موجودات کائنات کو عدم سے وجود میں لانا آج کی جدید سائنسی اور خلائی تحقیقات کی روشنی مین قابل فہم ہے ۔
    آج سائنسداں کہتے ہیں کہ بگ بینگ کے فورا بعد کیا ہوا اس کو سمجھنے کے لیے ٹائم کا ایک نیا پیمانہ چاہیے ۔ وہ ایک سیکنڈ کا کروڑوں حصے کرتے ہیں Three trillions حصے کرتے ہیں ۔ انہوں نے ایک نئی پیمائش پلنک ٹائم (Planck time) بنائی یعنی بگ بینگ کے بعد پہلے میکرو سیکنڈ کے بعد کائنات کی حالت کو سمجھنے کے لیے ۔
    وہ کہتے ہیں کہ بگ بینگ سے پہلے اسپیس ، وقت اور فیزکس کے قوانین کا وجود ہی نہیں تھا ۔ یہ سب بگ بینگ کے بعد شروع ہوئے ۔ بگ بینگ سے ہر چیز کا آغاز ہوا ہے ۔
    جب سائنسداں جن کا علم اور معلومات محدود اور ناقص ہین وقت کو اتنی باریکی سے دیکھتے ہیں تو اللہ علیم و خبیر اور قادر مطلق کی شان تو انسانی سمجھ سے بالا تر ہے وہ اگر زیرو ٹائم میں سارے موجودات عالم کو پیدا کردیتا ہے تو اس مین استبعاد کی کیا بات ہے ؟
    کچھ جدید تعلیم یافتہ لوگ قرآن کریم کی اس آیہ کا استہزاء کرتے ہیں کہ ایک کلمہ " کن" سے کائنات کیسے وجود میں آگئی ! مجھے ایسے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی حالت پر بہت افسوس ہوتا ہے ۔
    ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ جب تک ہم یہ نہ جان لیں کہ پہلے Micro - Second کے بعد
    کیا ہوا تھا تب تک کائنات کے آغاز کا معمہ حل نہین ہوسکتا اور mysteries باقی رہیں گی ۔ ہم ابھی تک اس سیکنڈ میں کیا ہوا اسے اچھی طرح نہیں سمجھ سکے ہیں ! اگر ہم اسے اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں تو کائنات کے بارے میں ہماری سوچ بالکل بدل جائے گی ۔
    اس کائنات کو 8۔13 ارب سال پہلے کی بالکل ابتدائی حالت میں دیکھنا بہت بڑا چیلنجنگ کام ہے ۔ بگ بینگ کے پہلے مائکرو سیکنڈ میں کائنات کو ارتقا کرتے ہوئے دیکھنا تفہیم کائنات کی شاہ کلید ہے ۔ سائنسداں اس کی بالکل صحیح جانکاری حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔
    ناسا نے کائنات کی اس ابتدائی حالت کا مشاہدہ کرنے ، پہلی دھندلی چمک اور پہلی گلکسی کو ارتقا کرتے ہوئے دیکھنے کے لیے
    انتہائی جدید ترین اور طاقتور ٹیلسکوپ
    جیمس ویب کو 25 دسمبر 2021 کو لانچ کیا ہے ۔
    یہ زمین سے 5۔1 ملیون میل دور اپنے محور میں کامیابی کے ساتھ پہنچ گیا ہے ۔ چھ مہینے بعد اس کے تمام حصے مکمل طور پر کھل کر
    کا کرنا شروع کردیں گے تو وہ نئی تصاویر بھیجنا شروع کرے گا ۔ ان سے آغاز کائنات کو سمجھنے کے نئے دور کا آغاز ہوگا اور اس میں بڑی مدد ملے گی ۔
    اس ٹیلسکوپ کو تیار کرنے میں پندرہ سولہ سال لگ گئے اور بار بار اسے مخلتف قسم کے سخت جانچ Tests کے مراحل سے گزرنا پڑا
    اور اس میں 8۔19 ارب ڈالر خرچ ہوئے ۔ اسے NASA , ESA اور کنیڈین اسپیس ایجنسی نے
    مل کر بنایا ہے ۔
    میرا یہ سمجھنا ہے کہ نئی تحقیقات سے ان اشارات کو جو قرآن مجید نے فلکیات کے تعلق سے یان کیا ہے سمجھنے میں مدد ملے گی ۔
    آئندہ موسم سرما رک یہ پوری طرح کام کرنے لگے گا ۔
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    Post-Doctoral Researcher
    ڈائرکٹر
    آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
    A Global And Universal Research Institut
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @mdabdulakbar8746
    @mdabdulakbar8746 2 роки тому

    5:00, 18:00

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 роки тому

    دینی مدارس کا نظام تعلیم و تربیت
    مدارس کا نظام تعلیم و تربیت ایک اہم موضوع ہے ۔ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لوگ آج بھی اظہار خیال کرتے رہتے ہیں ۔
    جہاں تک اسلامی جامعات اور بڑے دینی مدارس کے نصاب تعلیم کا تعلق ہے تو صرف دینی نظام تعلیم و تربیت کے ماہرین ہی کو یہ حق یے کہ اس موضوع پر اظہار خیال کریں ۔
    وہ ضرورت سمجھیں گے تو اس میں کچھ حذف و اضافہ کرسکتے ہیں ۔
    جن لوگوں کا اس نظام تعلیم و تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، نہ انہیں اس کا کوئی تجربہ ہے اور نہ اس کے اصل مقصد سے انہیں کوئی دلچسپی اور اتفاق ہے ان کا اس میں دخل اندازی کرنا اور آئے دن مشورے دینا بہت غلط بات ہے ۔
    جن لوگوں کا تعلق معاصر نظام تعلیم و تربیت سے ہے وہ وزارت تعلیم کو مشورہ دین کہ وہ نصاب تعلیم میں دینی مضامین کو بھی شامل کریں تاکہ کالج اور یونیورسیٹیوں کے طلباء دین و دنیا دونوں کی تعلیم سے بہرہ ور ہوسکیں ۔
    مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت میں ثنویت کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ یہ انتہائی جامع ، وسیع اور ہمہ جہت تھا ۔ ثنویت اہل یوروپ کی وجہ سے پیدا ہوئی ۔ انہوں نے اسلامی نظام تعلیم و تربیت سے اسلامی علوم کو خارج کر کے صرف سائنسی علوم کو پڑھنا اور پڑھانا شروع کیا جو ان کے یہاں آہستہ آہستہ ترقی کرتا رہا ۔ یہ علوم نہ " مغربی علوم " ہیں اور نہ ہی"جدید علوم "۔ یہ وہ علوم ہیں جنہیں انہوں نے اندلس کے کالجوں اور دارالعلوم (جامعات) میں پڑھ اور سیکھ کر جہالت کی تاریکی سے نکلنا شروع کیا تھا ۔
    مسلمانوں میں جب علمی زوال آیا تو وہ ان سائنسی علوم سے دور ہوتے گئے اور ان کے نصاب تعلیم سے سائنسی علوم کم ہوتے گئے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ مسلمانوں کی علمی حس مردہ ہوتی چلی گئی اور وہ علمی زوال کا شکار ہوکر علمی پسماندگی میں مبتلا ہوگئے ۔ ایسا کیوں ہوا اس کی تحقیق کی ضرورت ہے ۔
    انیسویں صدی میں جب یوروپی ممالک نے عالم اسلام پر یلغار کرکے اور ان پر غاصبانہ قبضہ کرکے انہیں اپنا محکوم بنالیا تو انہوں نے مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت کو بالکل نظرانداز کرکے اس نظام تعلیم کو نافذ کیا جو مسلمانوں سے ماخوذ تھا اور اب وہ " مغربی نظام تعلیم " اور " جدید علوم " ہوچکے ہیں ۔
    جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
    ایک ایسا نظام تعلیم جس میں ثنویت نہ ہو جس طرح مسلمانوں کے قدیم نظام تعلیم تھا اور جس میں دین و دنیا کا جداگانہ تصور نہیں تھا اور جہاں کے مدارس ، کلیات اور جامعات سے اہل یوروپ تعلیم اور حریت فکر ونظر ، حقوق انسانی اور اظہار رائے کے تصورات سے آشنا ہوکر نکلے اور یوروپی ممالک واپس جاکر علمی اور حقوق انسانی کی تحریک چلائی ، جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ تاریک یوروپ روشنی کی طرف آنے لگا ۔
    پندرھویں صدی عیسوی سے یوروپ میں " نشاہ ثانیہ " کی تحریک شروع ہوئی جس کے پیچھے یہود کا مفسدانہ اور مجرمانہ دماغ کام کر رہا تھا اور یہاں سے " عصر حاضر " شروع ہوا جس کے بارے میں علامہ اقبال رحمہ نے کہا ہے :
    عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
    قبض کی روح تیری دے کے تجھے فکر معاش
    ان کے مقابلہ میں خلافت عثمانیہ مرور زمانہ کے ساتھ کمزور ہونے لگی اور یہود کی مسلسل سازش اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے بالآخر 1924 میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کردیا گیا ۔
    اس کے ختم کرنے سے پہلے ہی جب یوروپی ممالک نے دیکھا کہ خلافت بالکل ناتواں ہوچکی ہے تو انہوں نے اس کے تحت جو مسلم ممالک تھے ان پر حملے شروع کردیے ۔ فرانس نے لیبیا پر 1897 ہی میں حملہ کردیا تھا ۔ اس طرح مختلف یوروپی ممالک نے مسلم ممالک کو تقسیم کرکے اپنے مستعمرات ( Colonies)
    میں شامل کرلیا ۔ اس طرح امہ مسلمہ پوری دنیا میں مغلوب ، محکوم ہوگئی ۔ انہوں اپنے دور حکومت میں مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے " جدید یوروپی نظام تعلیم و تربیت "
    کو نافذ کیا یعنی نصاب تعلیم سے دینی مضامین کو حقارت سے نکال دیا اور اسی کے
    مطابق مسلمانوں کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نئی نسل اسلام سے دور ، بیزار اور لادین ہوگئی ۔ مشہور مسلم مفکر محمد قطب رحمہ نے اپنی تصنیف
    ' واقعنا المعاصر ' میں اس صورت حال پر تفصیل سے بحث کی ہے جو قابل مطالعہ ہے ۔
    جب مسلم ممالک ان کی غلامی سے آزاد ہوئے
    تو انہوں نے ملک کی باگ ڈور اپنے تربیت کردہ اسلام بیزار نئی نسل کے حوالے کرگئے اس طرح
    مسلم ممالک اسی منہج پر کام کرتے رہے جو وہ قائم کر گئے تھے ۔
    مسلم حکمران خواہ وہ عرب ہوں یا عجم ان کو کرسی اقتدار پر انہوں نے ہی بٹھایا ہے اس لیے وہ ان کے اشارے اور مرضی کے مطابق ہی کام کرتے رہتے ہین ۔
    پورے مسلم ممالک میں اس صورت حال نے اسلام سے دور مسلم حکمرانوں اور مسلم عوام کے درمیان جدائی پیدا کردی جس نے ان کے درمیان باہمی ہم آہنگی کو بالکل ختم کردیا جو کسی ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہوتی ہے ۔
    ایسے انتہائی پریشان کن حالات میں یہی ایک راستہ نظر آیا کہ دینی اور خالص اسلامی تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کیے جائین جس کی طرف رہنمائی شاہ ولی اللہ رحمہ کرگئے تھے ۔ امام قاسم نانوتوی رحمہ نے اسی سمت میں قدم آگے قدم بڑھایا اور دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی جس کا مقصد دینی نظام تعلیم و تربیت کو باقی رکھنا اور اس کی حفاظت تھی ۔ یہ صرف ایک دینی علمی درسگاہ نہیں تھی بلکہ یہ ایک دینی ، فکری اور اجتماعی تحریک کا بھی آغاز تھا ۔
    اس کے بعد ہند میں دارالعلوم ندوة العلماء اور دیگر دینی ادارے بنیادی طور ہر اسی خاص مقصد کے لیے قائم کیے گئے ۔ جن کا واحد مقصد قرآن و احادیث پر مبنی نظام تعلیم و تربیت قائم رکھنا اور چلانا تھا ۔ ا ن دینی مدارس میں مسلمانوں کے صرف %4 فیصد وہ بچے جاتے ہیں جن میں انگریزی اسکولوں کے مصارف برداشت کرنے کی سکت نہیں ہوتی ہے ۔
    اب مسلم حکمرانوں کے آقاؤں کو مسلم ممالک کے ان دینی مدارس سے خطرہ نظر آنے لگا ہے
    اس لیے انہوں نے منصوبہ بنایا کہ دینی درسگاہوں کو دہشت گردی کے اڈے قرار دے کر
    ان پر قید و بند عائد کیے جائیں اور ان کے نصاب تعلیم کو مسخ کردیا جائے ۔ دینی مدارس میں سائنسی علوم کو داخل کرنے کی سازش کو میں نے اپنے مضمون " دینی مدارس میں سائنسی علوم کو داخل کرنے کی تجویز ،
    ایک سازش ہے فقط " میں لکھا ہے ۔ ہمارے علماء کرام اور بزرگان دین بڑی قربانیاں دے کر
    اس نظام تعلیم و تربیت کی حفاظت کی ہے ۔
    ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
    اس کی حفاظت کرنا اوراس کو قائم رکھنا
    ہمارا دینی و ملی فریضہ ہے ۔ ہم اسلام دشمن طاقتوں کو ان کی خفیہ سازشوں اور چالوں میں ہرگز کامیاب ہونے نہیں دیں گے ۔
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    ڈائرکٹر
    آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
    A Global And Universal Research Institute
    nadvilaeeque@gmail.com
    ۔

  • @AbdulRehman-fg1ug
    @AbdulRehman-fg1ug 3 роки тому

    Masala Siobhan Allah

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 роки тому +2

    علامہ ندوی رحمہ کے عالم عرب سے تعلقات
    عربی زبان و ادب سے علامہ ندوی رحمہ کا تعلق مادری زبان کی طرح تھا ۔ خوش قسمتی سے آپ کو عربی زبان و ادب کی تعلیم کے لیے
    عرب نژاد اساتذہ ملے ۔ انہوں نے عربی کی ابتدائی کتابیں اور نظم و نثر کا معتد بہ حصہ شیخ خلیل عرب سے پڑھا ۔ یہ اہل زبان بھی تھے اور صاحب ذوق بھی ، انہوں نے چند ابتدائی کتابیں پڑھانے کے بعد عربی میں گفتگو کا پابند کردیا تھا اور اردو بولنے پر جرمانہ کیا کرتے تھے ۔ ادبیات کی اعلی تعلیم علامہ تقی الدین ہلالی سے حاصل کی جو عربی زبان و ادب کے صف اول کے ماہرین میں شمار کیے جاتے تھے ۔ یہ اساتذہ عربی نژاد اور پ ماہر فن تھے ۔
    عالم عرب خصوصا مصر و شام کے ادباء و اہل قلم ، صف اول کے عرب علماء اسلام اور اہل فکر و نظر سے علامہ ندوی رحمہ کی واقفیت اور تعلق ایسا رہا جیسے کوئی اہل زبان اپنی
    زبان کے مشہور اہل قلم اور نثر نگاروں سے واقف ہوتا ہے ۔
    عالم عرب کی علمی تحریکوں ، سیاسی رجحانات اور وہاں کی بڑی بڑی شخصیتوں سے اچھی طرح واقف ہی نہیں بلکہ ان کے امتیازی اوصاف اور خصوصیات سے بھی آگاہ تھے ۔
    علامہ ندوی رحمہ یہ شعر گنگنایا کرتے تھے اور یقینا وہ اس کے مصداق تھے :
    میرا ساز اگرچہ ستم رسیدہ ہائے عجم رہا
    وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی .
    إن اصل عرب ماہرین اساتذہ کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے آپ کے اندر عربی زبان و
    ادب کی وجہ سے اصل تربیت آپ کی طبیعت میں کم عمری ہی میں مزاج کا جزء بن گئیں ۔
    عرب ممالک کے سفر سے پہلے ہی عالم عرب سے اچھی طرح واقف ہوچکے تھے ۔ وہاں کے علماء و ادباء ، اصحاب قلم اور وہاں کے ارباب فکر و نظر اور ان کے نقطہ نگاہ سے اچھی طرح واقف ہوچکے تھے ۔ سولہ سال کی عمر میں انہوں نے حضرت سید احمد شہید رحمہ کی حیات و دعوت پر ایک مضمون جو رسالہ ' توحید ' امرتسر میں شائع ہوا تھا ، اس کا ترجمہ کیا ۔ انہوں نے اسے شیخ ہلال الدین مراکشی کو دکھایا ، انہوں نے برائے نام تصحیح کی ۔ انہوں نے اس مضمون کو علامہ رشید رضا کو ' المنار'
    میں إشاعت کے لیے بھیج دیا ۔ انہوں نے نہ صرف اسے شائع کیا بلکہ اسے ایک رسالہ کی شکل میں طبع کردیا ۔ علامہ ندوی رحمہ لکھتے ہیں کہ :
    " اس سے بڑھ کر ایک ہندی نو عمر طالب علم کا کیا اعزاز ہوسکتا ہے کہ اس کا رسالہ علامہ رشید رضا مصر سے شائع کریں ۔ یہ رسالہ ' ترجمة الإمام السيد احمد بن عرفان الشهيد ' کے عنوان سے چھپ کر آگیا ، اور میری خوشی کی کوئی حد نہ رہی ، میری عمر اس وقت ١٦ سال کی رہی ہوگی ، یہ میری پہلی تصنیف ہے جو مصر سے شائع ہوئی " ۔
    ندوة العلماء سے پہلا عربی ماہنامہ ' الضیاء ' نکلا تو آپ اس کے مقالہ نگار تھے اور معاون مدیر بھی مقرر کیے گیے ، جس کی وجہ سے عرب علماء اور ادباء سے خط و کتابت کرتے ،
    ان کے مضامین کے ذریعہ ان کی شخصیات اور فکر افکار و نظریات کو عنفوان شباب ہی سے سمجھنے کا موقع ملا ۔
    مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ پر علیگڑہ مسلم یونیورسیٹی کے قومی سیمینار منعقدہ فروری ٢٠٠٠ میں پڑھا گیا مقالہ ۔
    جاری
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    ڈائرکٹر
    آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
    A Global and Universal Research Institute
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 роки тому

    معراج الرسول صلی اللہ علیہ وسلم
    جدید سائنس کی روشنی میں
    کھلا ہے مجھ پہ یہ معراج مصطفی سے
    کہ عالم بشریت کے زد میں کے گردوں
    ( 4 )
    اللہ جل شانہ نے اپنے بارے میں ارشاد فرمایا ہے :
    بديع السموات والأرض إذا قضى أمرا فإنما يقول له كن فيكون o ( البقرة : ١١٧ )
    ( وہ اللہ کی ذات ) سب آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ۔ جب وہ ایک امر کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لیے صرف اتنا کہنا کافی ہوتا ہے کہ
    " ہوجا " تو وہ ہوجاتی ہے ۔" ۔
    واقعہ معراج اللہ کی غیر محدود قوت اور قدرت کا مظاہرہ تھا ۔ آج کا دور خلائی تحقیقات کا دور ہے ۔ اس لیے ساتویں صدی کے ابتدائی زمانہ کے مقابلہ میں اکیسویں میں اس محیر العقول واقعہ کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے ۔
    اس سلسلے میں البرٹ آئنسٹائن کا نظریہ
    Special Theory of Relativitty
    قابل ذکر ہے . اس کے مطابق وقت ایک اضافی شئ ہے جو Frame of reference
    کے ساتھ الگ الگ ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص زمین پر ہے تو اس کا وقت الگ ہوگا اور جو شخص خلا میں سفر کر رہا ہے
    اس کا وقت الگ ہوگا ۔ اس نے وقت ( زمان ) اور خلا ( مکان ) کو ایک دوسرے سے مربوط کرکے زمان و مکان ( Space and Time) کو مخلوط شکل میں پیش کیا ہے ۔
    روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر ہے اور یہ مستقل ( Constant) ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر کوئی چیز روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرے تو وقت اس کے لیے رک جائے گا ۔ اس کا سفر خواہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو صفر وقت میں ہوگا ۔
    سفر معراج جبرئیل ، میکائیل علیہما السلام اور دیگر ملائکہ کی معیت میں براق پر ہوا تھا ۔
    یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔ براق جنت سے لائی ہوئی ایک نوری سواری تھی جو اللہ جل شانہ کی طرف سے بھیجی گئی تھی ۔
    آئنسٹائن نے جس روشنی کی رفتار کا ذکر کیا ہے وہ ہماری معلوم دنیا کی روشنی ہے ۔ براق کی نوری سواری اپنی کیفیت میں اس کائنات کی روشنی سے بالکل مختلف ہے ۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہین کہ اس نور کی سواری کی سرعت کا تصور آج کی سائنس کرنے سے قاصر ہے !
    جب واقعہ معراج روشنی کی رفتار سے زیادہ
    سرعت سے ہوا تو وقت کی رفتار رک گئی ۔
    اس میں وقت نہیں لگا ۔ یہ سفر Timeless تھا ۔
    اس کائنات میں کئی جگہ پر سائنسداں روشنی کی رفتار سے تیز رفتار کا ذکر کرتے ہین ۔ وہ کہتے ہین کہ ساری کہکشائیں
    روشنی سے زیادہ تیز رفتار سے پھیل رہیں ۔ یہاں آئنسٹائن کی بات غلط ثابت ہورہی ہے کہ روشنی کی رفتار سے تیز کوئی چیز سفر نہیں کرسکتی ۔ اس طرح Tachyon particle کے بارے تجربہ کیا جارہا ہے کہ وہ بھی روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرسکتا ہے ۔ یہ نظریہ ابھی زیر تجربہ ہے ۔ جس ذرہ کی کمیت نہ ہو ( Massless) ہو اس کی رفتار روشنی سے تیز ہوتی ہے ۔
    روشنی سے تیز رفتار سفر کرنے کو سائنسداں تسلیم کر چکے ہیں ، سفر معراج روشنی کی رفتار سے زیادہ سرعت سے ہوا تھا ۔ اس لیے اس میں کوئی وقت نہیں لگا ۔ یہ آج کی جدید سائنس عین مطابق ہے ۔ اس لیے اس کا انکار غیر سائنسی ہے ۔
    اس سلسلے میں دوسری اہم بحث وقت کے بارے میں ہے ۔ وقت کیا ہے ؟ کیا یہ اس کائنات کا بنیادی حصہ ہے ؟ سائنسداں کہتے ہیں کہ کائنات کو اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ کائنات کے تناظر میں وقت بے معنی ہے ۔
    کوانٹم ورلڈ( Quantum world ) میں جو
    جو بہت ہی چھوٹے ذرات ( Particles ) کے برتاؤ سے بحث کرتی ہے وقت کی کوئی ضرورت نہیں ۔
    نیورو لوجسٹس( Neurologists ) اس کی تشریح کرتے ہیں کہ وقت ایک دماغی عمل ہے جو واقعات کے بدلنے کے تناظر میں سمجھا جاتا ہے ۔ وہ وقت کا مستقل وجود تسلیم نہیں کرتے ۔ وقت کائنات میں آنے والی تبدیلی کو کہتے ہیں ۔ یہ ایک اضافی (relative ) چیز ہے ۔ سچائی کی گہرائی میں اس کا وجود ہی نہیں ہے ۔
    ہماری عقل و فہم کی نارسائی اس عالم محسوسات میں صاف نظر آتی ہے تو ماورائے محسوسات میں ہماری عقل و فہم اور ادراک کی نارسائی کا کیا حال ہوگا ؟ اگر ہم جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں دیکھیں تو
    یہ بات ہماری سمجھ میں آسکتی ہے کہ سفر معراج ممکن ہے اور کائنات میں جاری و ساری طبعی قوانین کے عین مطابق ہے ۔
    جدید سائنسی نظریات اور مباحث کی روشنی
    میں سفر معراج کا امکان اور اس کا وقوع قابل فہم ہے ۔ اس کا انکار کرنا غیر سائنسی ہے ۔
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    ڈائرکٹر
    آمنہ انسٹیٹوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
    A Global and Universal Research Institute
    nadvilaeeque@gmail.comخ

  • @abdurrahimrahim8248
    @abdurrahimrahim8248 4 роки тому

    Hazrat molana ka ye Bayan kaha Ka Hai

  • @nabeelahmed8070
    @nabeelahmed8070 Рік тому

    Allah hame aiai kom banne se bachaye jo apne bade or buzurguo ki Qadar tab karte hai jab wo is duniya se chale jate hai
    Allah Hame sirate Mustaqim par chalaye

  • @anwar24vohra10
    @anwar24vohra10 2 роки тому

    Pahle hind k tamam olma e din ek hojavo ummat ek hone ko taiyaar hai

  • @sajidax8924
    @sajidax8924 8 місяців тому

    ऑल इण्डिया मुस्लिम पर्सनल लॉ बोर्ड में बिकाऊ मौलवी बैठे हैं ❤❤❤

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 роки тому

    ہندستان میں انسانی حقوق کی پامالی میں اضافہ تشویشناک : امریکی وزیر خارجہ
    بلنکن کے بیان کے وقت ہندوستانی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع چپ سادھے رہے
    امریکی وزیر خارجہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی سے متعلق جب بیان دیا تو ہندوستانی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع ان کے پہلو میں کھڑے تھے لیکن انہوں نے اس پر اپنے رد عمل تک کا اظہار تک نہیں کیا ۔
    امریکہ نے پیر کے روز کہا کہ واشنگٹن حکومت ہندستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ، کی مسلسل نگرانی کر رہی ہے ۔
    بعض سرکردہ امریکی شخصیات ہندستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز نہ اٹھانے نہ اٹھانے کے لیے امریکی حکومت پر نکتہ چینی کرتی رہی ہیں ۔ امریکہ نے انسانی حقوق کے حوالےسے دو ہندوستانی وزراء کی موجودگی میں ، جس طرح کا بیان دیا ، وہ ایک طرح سے غیر معمولی بات ہے اور اسے واشنٹگن کی جانب سے نئی دہلی کے لیے براہ راست سرزنش کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔
    امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے واشنگٹن میں ہندوستانی وزراء کے ساتھ ہونے والی ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہ امریکہ ہندستان میں کچھ عہدے داروں کے ذریعے کی جانے والی " انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں "
    پر اپنی نظر رکھے ہوئے ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ
    " ہم جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی جیسے مشترکہ اقدار پر اپنے ہندوستانی شراکت داروں کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت کرتے رہتے ہیں اور اسی مقصد کے لیے ہم ہندستان میں ہونے والی ایسی بعض حالیہ پیش رفتون کی نگرانی کر رہے ہیں ، جن میں بعض حکومتی ، پولیس اور جیل حکام کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ بھی شامل ہے "۔ تاہم انہوں نے انہوں نے کہا کہ ان اہم مسائل کے علاوہ بھی
    بہت سے ایسے کلیدی پہلو ہیں ، جن پر ہندستان کے ساتھ بات چیت ہوئی ہے اور ان پر تعاون کے توجہ مرکوز کی گئی ہے ۔ امریکی ایوان نمائندگان کی رکن الہامی عمر نے چند روز قبل ہی انسانی حقوق کے حوالےسے نریندر مودی کی حکومت پر تنقید کرنے میں امریکی حکومت کی مبینہ ہچکچاہٹ پر سوال اٹھایا تھا ، جس کے بعد امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان سامنے آیا ہے ۔
    عمر الہام کا تعلق حکمران ڈیموکریٹک سے ہے ۔ انہوں نے ہندستانی کے حوالے سے مودی کی حکومت پر تشویش کا اظہار کیا تھا :
    " اس سے پہلے ہم انہیں امن میں اپنا شراکت دار سمجھنا چھوڑ دیں ، آخر مودی کو ہندستان کی مسلم آبادی کے ساتھ کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
    واشنگٹن کی مشترکہ پریس کانفرنس امریکہ وزیر دفاع لائیڈ آسٹن ، ان کے ہندستانی ہم منصب راج ناتھ اور ہندستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر بھی موجود تھے ۔ ہندستانی وفد نے انٹونی بلنکن کے بیان کے بعد انسانی حقوق کے حوالے سے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔
    ( واشنگٹن/ نئی دہلی 12 اپریل 2022
    بحوالہ اخبار مشرق ، کلکتہ )

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 роки тому

    " قوموں کے عروج و زوال کا قانون "
    ( یو ٹیوب میں اس موضوع پر جاوید غامدی
    کے جواب کے حوالے سے )
    امہ مسلمہ کا عروج و زوال دین سے وابستہ رہنے میں ہے ۔
    کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
    یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
    علامہ اقبال رحمہ
    دین سے وابستگی کا مطلب ہے قرآن و سنت سے ذہنی ، فکری اور علمی وابستگی ۔ قرآن سے وابستگی کا تقاضا ہے کہ امہ مسلمہ علوم و فنون یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف پوری توجہ کرے اور دوسری قوموں پر اسے تفوق و برتری حاصل ہو ۔
    وہ زمانے معزز تھے مسلماں ہوکر
    اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
    علامہ اقبال رحمہ
    قرآن کی تعلیمات عالمی اور آفاقی ہیں ۔ ان میں دین و دنیا کی جدائی کا سرے سے کوئی تصور نہیں ہے ۔ اسلام میں یہ بحث بالکل لغو اور عبث ہے ۔ یہ تصور خارجی اور اعداء کی سازش کا نتیجہ ہے ۔
    اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امہ میں دوئی کی یہ بحث کیسے شروع ہوئی ؟ جدید تعلیم یافتہ لوگ اس کا الزام علماء پر لگاتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
    اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ دوئی ( ثنویت) یہود و نصاری کی سازش کی وجہ سے امہ مسلمہ میں در آئی ہے ۔ اس کا مقصد امہ مسلمہ کو زوال سے دوچار کرنا تھا ۔ امہ کے
    خلاف یہود و نصاری کی مسلسل منصوبہ بند خفیہ سازشوں نے اس کے اندر دین و دنیا کی جدائی کا تصور پیدا کردیا ، جس کے نتیجے میں امہ زوال پذیر ہونا شروع ہوگئی ۔
    اہل یوروپ نے جب اٹھارویں اور انیسویں صدی میں عالم اسلام پر حملہ کرنا شروع کیا اس وقت تک ہمارے نصاب تعلیم میں ثنویت نہیں تھی ۔ نصاب تعلیم میں دونوں علوم شامل تھے ۔
    اہل یوروپ نے علوم و فنون اندلس کے علمی اداروں میں سیکھے لیکن انہوں نے اپنے نصاب
    سے دینی علوم کو خارج کردیا اور صرف سماجی اور سائنسی علوم کو رکھا ۔ نصاب تعلیم میں عملی طور پر یہاں سے دوئی اور جدائی پیدا ہوئی ۔
    مصر پر جب انہوں نے غاصبانہ قبضہ کیا تو وہاں رائج نصاب تعلیم کو خارج کرکے وہ نصاب تعلیم کو رائج کیا جس میں دینی علوم نہیں تھے اور جو جدید اور سائنسی علوم کہلائے حالانکہ یہ علوم انہوں نے اندلس میں مسلمانوں ہی سے سیکھے تھے ۔
    جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
    اگر مصر کی تاریخ نصاب تعلیم کا مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت سے پردہ اٹھتا ہے کہ کس
    طرح نصاب تعلیم میں یہ ثنویت پیدا کی گئی تھی ۔ محمد قطب رحمہ اس کا الزام خاص طور پر محمد علی پاشا پر لگایا ہے ۔
    ہمارے بزرگان دین نے جب دیکھا کہ اب وہ نصاب تعلیم رائج کردیا گیا ہے جو اسلامی تعلیمات تعلیم و تربیت سے بالکل عاری ہے تو وہ مجبور ہوئے کہ علیحدہ دینی تعلیم و تربیت کے ادارے اور مراکز قائم کریں تاکہ دینی علوم و اسلامی ثقافت کی حفاظت کی جاسکے اور اسے قائم و دائم رکھا جاسکے ۔
    اگر اس مختصر تحریر کو پوری گہرائی کے ساتھ سمجھ لیں تو مسلمانوں کو دین و دنیا کی دوئی یا نصاب تعلیم میں ثنویت کی اصل حقیقت سمجھ میں آجائے گی ۔ یہ امہ ایک امہ وسط ہے ۔ اس میں افراط اور تفریط نہیں ہے
    اعتدال اس امہ کی بہت بڑی خصوصیت اور امتیاز ہے ۔
    اب حکومتی ملازمتیں اسی نام نہاد " جدید اور عصری " تعلیم یافتہ کو ملنے لگیں اور
    دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ان سے محروم ہوگئے ۔ یہ جدید تعلیم و تربیت سے آراستہ طبقہ علماء کی مخالفت میں کمربستہ ہوگیا
    اور آج تک ہے ۔ اللہ ان سے عام مسلمانوں اور دینی مدارس کی حفاظت فرمائے ۔ یہ مختصر تحریر ہے ۔ اللہ اس کو مفید بنائے اورمسلمانوں کو صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @shaikhmoin6160
    @shaikhmoin6160 4 роки тому +1

    कुरान मजीद पढ़ने साथ क़ुरान मजीद के साथ उसका तर्जुमा के साथ बता ने के लिए बोली ये और उसके साथ दूनियावी तालीम ले तब आल्हा की पहचान हो गी और सही इबादत होगी तकरिर से पहले तय करो क्या बोलना है बोल ते व कत सोच कर बोले ताके उसी को अमल न करें ओर गुमराह नहो सयतान कामीयाब हो

    • @s.ramzikhan2294
      @s.ramzikhan2294 4 роки тому

      Tum aur tumhara molvi sab jhute makkar log jab Iske samne Allah kaghar dhaya gya ye kahan mar gaya tha chutiyon ki bate band Karo hausle aur himmat dikhao