علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا 8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا 8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا 8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا 8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا 8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا 8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا 8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا 8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا 8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا 8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
خداوندا! ایران را از هر مجازاتی نجات دهید و از همه ایرانیان و مسلمانان در برابر بی ابرویی محافظت کنید! اوه خدا! اجازه ندهید هیچ سرباز خارجی وارد ایران شود! اوه خالق ما! اجازه ندهید که ما در دست نیروهای خارجی مانند افغانستان یا عراق یا بوسنی یا سوریه یا فلسطین رنج بکشیم! ای یار مهربان و بخشنده ما! نگذارید یک فرد حریص یا منافق بر ایران حکومت کند یا ایرانیان را نابود کند! اوه خدا! بگذارید ایران یک رهبر خداترس داشته باشد که از ایران در برابر خارجیها محافظت کند و بگذارید رهبران ما ایرانیان را با افتخار و کرامت و تقوا و عفت زندگی کنند! خدایا! اجازه ندهید هیچ نظامی اشغالگر وارد ایران شود و اجازه ندهید ملت بیگانه بر ایران حکومت کند! خدایا اجازه نده کسی از کشور ما و سربازان ما برای نابودی کشورهای همسایه ما استفاده کند! خدایا ایران را حفظ کن و در اسلام بمانیم و از شریف ترین دین پیروی کنیم! آه سازنده ما! نگذارید هیچ سربازی به زنان ایرانی بی حرمتی کند! خدایا نگذار هیچ سرباز خارجی زن ایرانی را تحقیر کند! چه اتفاقی افتاده برای مومنانی که مدام سعی در تحقیر خود دارند. اسلام زنان را گرامی میدارد. زنان مسلمان مادران بهشت هستند. بعنوان مسلمان، هرگز نباید با سایر مسلمانان با بی احترامی رفتار کنیم، حتی اگر فرد بخواهد به دلایلی آلوده وتحقیر شود. در واقع، اگر با زن یا شوهر خود را در تخیلات جنسی زیاده روی کنید، فکر می کنید پس از مرگ شماچه اتفاقی می افتد؟ چنین عادت هایی از بین نمی روند و او دیوانه می شود که به سراغ فرد دیگری برود که بتواند خواسته ها را برآورده کند. لازم به یادآوری است که ما برای مدت بسیار کوتاهی در این دنیا هستیم و هدف ما لذت بردن از لذت های دنیوی و شهوات نفسانی نیست، بلکه عبادت خداوند است. خداوند وظیفه خاصی را در زندگی به مسلمانان داده است و آن تنها عبادت خداوند است و این به معنای زیاده روی در لذت های دنیوی، از جمله گذراندن ساعات بیهوده در جمع افراد جنس مخالف، حتی اگرهمسر حلال باشد، نیست. تفریط در روابط جسمی و جنسی روح انسان را از بین می برد. حتی اگر در ازدواج قانونی این تفریط وجود داشته باشد، این یک تجمل است و افراد تجملی بیش از حد به آن افراط میکنند و به شدت از آن رنج میبرند. حتی اگر فردی قند زیادی بخورد، به دیابت مبتلا می شود. مسلمانان در سراسر جهان به دلیل این بیماری جنسی مورد توهین و رنج قرار می گیرند. من نمی توانم شنیدن اصطلاحات تخصصی از زبان افراد نادان را که در مورد فعالیت های جنسی صحبت می کنند و از سنت های نبوی برای ترویج اصول نادرست استفاده می کنند، تحمل کنم. وقتی می بینم مردم از اسلام برای برآوردن خواسته های خود استفاده می کنند عصبانی می شوم. ازدواج و رابطه جنسی هرگز هدف زندگی مسلمانان نیست. عشق به خدا مهم است. حتی اگر کسی ازدواج را ضروری بداند، نباید همه را متقاعد کند که ازدواج کنند فقط به این دلیل که ما فکر می کنیم درست است. مریم دختر عمران مجرد بود. خداوند آنها را دوست داشت. افراط در هر نوع لذتی برای انسان مضر است. مؤمنان برای خوشگذرانی به این دنیا فرستاده نشدند. ما آفریده شده ایم تا خدا و رسولش را عبادت و اطاعت کنیم. پیامبر ما حضرت محمد (صلی الله علیه و آله و سلم) بر اساس این اصل زندگی می کرد و با اینکه می توانست با تجارت زیاد ثروتمند شود، ترجیح داد تا زمان مرگ در فقر بماند. به دلیل زیاده خواهی خودمان و پیروی از رویه غیرمسلمانان و اشتیاق فراوان در فعالیت های جنسی، هزاران جوان عربستانی، جوان کویتی و پاکستانی، زن و مرد قطری، کارآفرینان مسن از عمان و بحرین و حتی دانشمندان از اندونزی و مالزی، آفریقا و هند، اکنون در برنامههای بازجویی CIA در دوره بوش که تا به امروز در بسیاری از کشورهای اروپایی مخفیانه عمل میکند، به شدت شکنجه میشوند. ای صاحب جان ما که روزی باید پیشش برگردیم، اجازه نده سربازان یا جاسوسان بیگانه ملت ما را نابود کنند یا بین ما یا همسایگانمان جنگ راه بیندازند. ای بخشنده! ما را ببخش و از دست ما عصبانی نباش! به راستی که خدایا تو ما را خیلی بیشتر از دیگران دوست داری! خدایا! ایران را از هر عذابی نجات ده و همه ایرانیان و مسلمانان را از شرارت حفظ کن! خدایا! اجازه ندهید هیچ سرباز خارجی وارد ایران شود! ای خالق ما! نگذارید در دست نیروهای خارجی مانند افغانستان یا عراق یا بوسنی یا سوریه یا فلسطین رنج ببریم! خدایا! اجازه ندهید هیچ نظامی اشغالگر وارد ایران شود و اجازه ندهید ملت بیگانه بر ایران حکومت کند! ما را ببخش ای خالق هستی و نگذار هیچ سرباز خارجی ایرانیان یا مردمش را تحقیر کند! پاسداری از ناموس هر زن ایرانی و پاسداری از نسل ایرانیان! ای خالق مهربان! اگر شما به ما کمک نکنید یاوری نداریم! اجازه ندهید که ما را در هیچ گناهی که موجب عذاب یا آبروی ما یا خانواده ما شود، گرفتار شویم!
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
د دی دنیا او هغی دنیا عالی شخص باندی په بی اندازه او بی نهایته یا هر هغه سه چی خالق خلق کری د هغی په بیلیون اندازه زیات درود د هغه عالی شخصیت او تولو مسلمین باندی وی ❤❤❤❤❤❤
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا 8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا 8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
اللهم صل علی محمدوعلی آل محمدکماصلیت علی ابراهیم وعلی آل ابراهیم انک حمیدمجید اللهم بارک علی محمدوعلی آل محمدکمابارکت علی ابراهیم وعلی آل ابراهیم انک حمیدمجید❤
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
الهم صلی علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراهیم و علی آل ابراهیم انک حمید مجید الهم بارک و علی آل محمد کما بارکت علی ابراهیم و علی آل ابراهیم انک حمید مجید ❤
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا 8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا 8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
الهم صلی علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراهیم وعلی ال ابراهیم انک حمید المجید . الهم بارک علی محمد وعلی ال محمد کما بارکت علی ال ابراهیم و علی ال ابراهیم انک حمید المجید..
سلام و احترامات تقدیم شما برادر محترم خدا کند لباس صحت بر تن داشته باشین و همیشه صحت و سلامت باشین ممنون از ویدو های زیبایی تان که شیر میکنین خداوند شما را همرای ما همه مسلمان ها در دین پیشرفت زیاد بدهه الهی آمین ثم آمین میلیون ها بار درود بر سردار دو جهان حضرت محمد (ص)
بارك الله فيكم هل سمعتم من يوم الغدير شيئا، يوما لايكمل الدين و لا يتم النعة و لا يرضي الله من اسلامنا الا بالاعتقاد علي ما وقع فيه. قال الله عز و جل اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتي و رضيت لكم الاسلام دينا.
سلام وحترام خدمت برادرگرامی! از برنامه های پرمحتوای شما بی نهایت ممنون ۰ یک خواهش شما دارم که ازحاشیه روی و از تکرار جملات وکلمات یک کمی جلو گیری کنید ۰ چونکه برنامه را خسته کن میسازد۰با عرض معذرت
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا 8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا 8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔ حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469 3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩. 4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25 5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12 6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491 7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا 8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد
درود بر خاتم الانبیا ناجی بشریت سرور تمام کائنات محمد مصطفی ص
اللهم صل علی محمد و علی آل محمد ❤❤❤❤❤❤❤❤
سلامت باشید
الهم صلی علامحمدوعلی آل محمد
میلیارد ها درود بر روح سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ( ص) ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
سلام شب بخیر الله الله الله الله الله ❤❤❤❤❤❤❤
سلام علیکم درود به روان پاک حضرت محمد مصطفی(ص)
اللهم صل وسلم علی نبینا محمد علی آل محمد و علی آل محمد ❤❤❤❤❤❤❤❤
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
میلیون ها درود بر محبوب بشریت حضرت محمد مصطفی ص
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
ماشاالله الله متعال برکت دنیا وآخرت نصیب فرماید
هزاران درود صلوات بر روح پاک حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه وآله وسلم ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
درود ومیلونها درود و سلام به رسولالله ص.
امین ❤❤😊😊
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
فدای چنین شخصیت شویم که برای امت خود تمام چیزهای را به میراث مانده است که همیشه به ما و تمام امت اسلامی فایده رسانده است صلوات وهزاران صلوات بر محمد ❤
استاد سلام خداقوت ببخشید چہ چیزی رو باید دم بکنیم وبخوایم لطف می کنید یکبار بگین ممنون می شوم
اللهم صلي علي محمد وال محمد ❤❤❤
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
درود بر حضرت بهترین عالم محمد صلی الله علیه و آله وسلم
سامحعجثجلحقحطحهحث
اللهم صل وسلم سیدنا مولانا محمد و علی آل محمد ❤❤❤❤❤❤
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
ص علیه وصلم هزار درود بر رسول مقبول
اللهم صل علی سیدنا محمد وعلی آله وصحبه اجمعین
☝️🕋🤲🤲🤲♥️♥️♥️🌹🌹🌹اسلام علیکم هزاران درود بر پیامبر حضرت محمد مصطفی صلي الله عليه و آله وسلم ❤
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
اِنَّ الله و ملائکته یصلون علی النبی يا ايها الذین آمنوا صلوا علیه و سلموا تسلیمًا.
درود بر حضرت محمد،مصطفی ❤❤❤❤
سپاسگزارم از شما، اللهم صلی علی محمد وال محمد
خداوندا! ایران را از هر مجازاتی نجات دهید و از همه ایرانیان و مسلمانان در برابر بی ابرویی محافظت کنید! اوه خدا! اجازه ندهید هیچ سرباز خارجی وارد ایران شود! اوه خالق ما! اجازه ندهید که ما در دست نیروهای خارجی مانند افغانستان یا عراق یا بوسنی یا سوریه یا فلسطین رنج بکشیم! ای یار مهربان و بخشنده ما! نگذارید یک فرد حریص یا منافق بر ایران حکومت کند یا ایرانیان را نابود کند! اوه خدا! بگذارید ایران یک رهبر خداترس داشته باشد که از ایران در برابر خارجیها محافظت کند و بگذارید رهبران ما ایرانیان را با افتخار و کرامت و تقوا و عفت زندگی کنند! خدایا! اجازه ندهید هیچ نظامی اشغالگر وارد ایران شود و اجازه ندهید ملت بیگانه بر ایران حکومت کند! خدایا اجازه نده کسی از کشور ما و سربازان ما برای نابودی کشورهای همسایه ما استفاده کند! خدایا ایران را حفظ کن و در اسلام بمانیم و از شریف ترین دین پیروی کنیم! آه سازنده ما! نگذارید هیچ سربازی به زنان ایرانی بی حرمتی کند! خدایا نگذار هیچ سرباز خارجی زن ایرانی را تحقیر کند! چه اتفاقی افتاده برای مومنانی که مدام سعی در تحقیر خود دارند. اسلام زنان را گرامی میدارد. زنان مسلمان مادران بهشت هستند. بعنوان مسلمان، هرگز نباید با سایر مسلمانان با بی احترامی رفتار کنیم، حتی اگر فرد بخواهد به دلایلی آلوده وتحقیر شود. در واقع، اگر با زن یا شوهر خود را در تخیلات جنسی زیاده روی کنید، فکر می کنید پس از مرگ شماچه اتفاقی می افتد؟ چنین عادت هایی از بین نمی روند و او دیوانه می شود که به سراغ فرد دیگری برود که بتواند خواسته ها را برآورده کند. لازم به یادآوری است که ما برای مدت بسیار کوتاهی در این دنیا هستیم و هدف ما لذت بردن از لذت های دنیوی و شهوات نفسانی نیست، بلکه عبادت خداوند است. خداوند وظیفه خاصی را در زندگی به مسلمانان داده است و آن تنها عبادت خداوند است و این به معنای زیاده روی در لذت های دنیوی، از جمله گذراندن ساعات بیهوده در جمع افراد جنس مخالف، حتی اگرهمسر حلال باشد، نیست. تفریط در روابط جسمی و جنسی روح انسان را از بین می برد. حتی اگر در ازدواج قانونی این تفریط وجود داشته باشد، این یک تجمل است و افراد تجملی بیش از حد به آن افراط میکنند و به شدت از آن رنج میبرند. حتی اگر فردی قند زیادی بخورد، به دیابت مبتلا می شود. مسلمانان در سراسر جهان به دلیل این بیماری جنسی مورد توهین و رنج قرار می گیرند. من نمی توانم شنیدن اصطلاحات تخصصی از زبان افراد نادان را که در مورد فعالیت های جنسی صحبت می کنند و از سنت های نبوی برای ترویج اصول نادرست استفاده می کنند، تحمل کنم. وقتی می بینم مردم از اسلام برای برآوردن خواسته های خود استفاده می کنند عصبانی می شوم. ازدواج و رابطه جنسی هرگز هدف زندگی مسلمانان نیست. عشق به خدا مهم است. حتی اگر کسی ازدواج را ضروری بداند، نباید همه را متقاعد کند که ازدواج کنند فقط به این دلیل که ما فکر می کنیم درست است. مریم دختر عمران مجرد بود. خداوند آنها را دوست داشت. افراط در هر نوع لذتی برای انسان مضر است. مؤمنان برای خوشگذرانی به این دنیا فرستاده نشدند. ما آفریده شده ایم تا خدا و رسولش را عبادت و اطاعت کنیم. پیامبر ما حضرت محمد (صلی الله علیه و آله و سلم) بر اساس این اصل زندگی می کرد و با اینکه می توانست با تجارت زیاد ثروتمند شود، ترجیح داد تا زمان مرگ در فقر بماند. به دلیل زیاده خواهی خودمان و پیروی از رویه غیرمسلمانان و اشتیاق فراوان در فعالیت های جنسی، هزاران جوان عربستانی، جوان کویتی و پاکستانی، زن و مرد قطری، کارآفرینان مسن از عمان و بحرین و حتی دانشمندان از اندونزی و مالزی، آفریقا و هند، اکنون در برنامههای بازجویی CIA در دوره بوش که تا به امروز در بسیاری از کشورهای اروپایی مخفیانه عمل میکند، به شدت شکنجه میشوند. ای صاحب جان ما که روزی باید پیشش برگردیم، اجازه نده سربازان یا جاسوسان بیگانه ملت ما را نابود کنند یا بین ما یا همسایگانمان جنگ راه بیندازند. ای بخشنده! ما را ببخش و از دست ما عصبانی نباش! به راستی که خدایا تو ما را خیلی بیشتر از دیگران دوست داری! خدایا! ایران را از هر عذابی نجات ده و همه ایرانیان و مسلمانان را از شرارت حفظ کن! خدایا! اجازه ندهید هیچ سرباز خارجی وارد ایران شود! ای خالق ما! نگذارید در دست نیروهای خارجی مانند افغانستان یا عراق یا بوسنی یا سوریه یا فلسطین رنج ببریم! خدایا! اجازه ندهید هیچ نظامی اشغالگر وارد ایران شود و اجازه ندهید ملت بیگانه بر ایران حکومت کند! ما را ببخش ای خالق هستی و نگذار هیچ سرباز خارجی ایرانیان یا مردمش را تحقیر کند! پاسداری از ناموس هر زن ایرانی و پاسداری از نسل ایرانیان! ای خالق مهربان! اگر شما به ما کمک نکنید یاوری نداریم! اجازه ندهید که ما را در هیچ گناهی که موجب عذاب یا آبروی ما یا خانواده ما شود، گرفتار شویم!
خفخصحح۱ سلام خوب هستی و گدا سلام خوب هستی و گدا سلام خوب تا تا سال سال ۳۳ سال گذشته در این
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
سید عبدالرحیم ❤❤❤❤
د دی دنیا او هغی دنیا عالی شخص باندی په بی اندازه او بی نهایته یا هر هغه سه چی خالق خلق کری د هغی په بیلیون اندازه زیات درود د هغه عالی شخصیت او تولو مسلمین باندی وی ❤❤❤❤❤❤
خیلی عالی من خیلی دوست دارم سخنرانی دکتر ذاکر ناید را خدا همه مسلمانان را حدایت کنه الهی آمین
امین
هزاران درود سلام بروی بهترین عالم حضرت محمد صل الله علیه وآله وسلم
السلام علیکم و رحمت الله درود بر حضرت محمّد ص
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
درود هزاران درود بر سرور کأنات حضرت محمد ص
درود فراوان به رسول مقبول ما حضرت محمد صلی الله محمد و ال محمد ❤❤
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
با عرض سلام و احترامات سبحان الله
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
ماشاالله خداوند خیر دنیا و آخرت را برای شما نصیب بگرداند.
اللهم صل علی محمدوعلی آل محمدکماصلیت علی ابراهیم وعلی آل ابراهیم انک حمیدمجید
اللهم بارک علی محمدوعلی آل محمدکمابارکت علی ابراهیم وعلی آل ابراهیم انک حمیدمجید❤
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
چطور وارد کانالتون شويم
هزاران درود به حضرت محمد ص
دورد به روان پاک محمد صلی الله علیه وسلم ❤❤❤❤❤
دورد به حضرت محمد صلی الله علیه وآله وسلم ❤❤
الهم صلی وسلم وبارک علیه❤❤
تشکر از لطف شما محترم استاد
سلام ودرود باراول آشنا شدم ..سپاس،
ازتون امروز روزیه که باید شفا با قرآن
ثابت شود..خدا مغز قرآن برامون بازگنه
الهی آمین ❤❤❤
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
هزاران درود و صلوات بر روح و روان حضرت مقبول عالم حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه وسلم
درود بر حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه وآله وسلم
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
الهم صل علی محمد وآل محمد صلی الله علیه وسلم
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
از زمانی که پای سخنان شما میشینم وسخنانتان را گوش میکنم خیر و برکت به زندگیم جاری شده بسیار از شما سپاسگزارم
الهم صلی علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراهیم و علی آل ابراهیم انک حمید مجید الهم بارک و علی آل محمد کما بارکت علی ابراهیم و علی آل ابراهیم انک حمید مجید ❤
حضرت محمد ص چادر مہربان است 😢😢
هزار درود سلام بر محبوب ما ص
هزاران صلوات و هزاران دورود برای سرور کاینات جناب حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه وآله وسلم ❤❤❤❤❤❤
هزار دورود بر حضرت محمد ❤❤❤
عالی عالی عالی ❤❤❤
هزاران درود هزاران سلام به جناب حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه و آله و سلم
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
هزارانسلاواتبهحضرتمحمدص
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
درود بر حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه وسلم قربان نام مبارک شان شوم
الهم صلی علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراهیم وعلی ال ابراهیم انک حمید المجید .
الهم بارک علی محمد وعلی ال محمد کما بارکت علی ال ابراهیم و علی ال ابراهیم انک حمید المجید..
سلام خدا قوت خدا حافظ و ناصرتان باشد آمین ❤❤❤❤
یاالله ویا العلیم ❤
سلام .شیما مریم
SUBHANALLAH
Beshak ❤❤❤❤❤
اسلام علیکم اسم من محمود❤❤❤
صلی الله علیه وآله وسلم❤❤❤
درود وسلام بر پیامبر خدا محمد مصطفی ❤❤❤❤❤
هزاران دورودوهزاران سلام زما برجناب محمدعلیهم السلام ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
سلام و احترامات تقدیم شما برادر محترم خدا کند لباس صحت بر تن داشته باشین و همیشه صحت و سلامت باشین ممنون از ویدو های زیبایی تان که شیر میکنین خداوند شما را همرای ما همه مسلمان ها در دین پیشرفت زیاد بدهه الهی آمین ثم آمین میلیون ها بار درود بر سردار دو جهان حضرت محمد (ص)
جزاکم الله خیرآ فی الدنیا و الآخره
تشکر فراوان استاد گرامی واقعا ویدیوی فوق العاده اموزنده وکارامد بود خداوند متعال اجر نصیب تان کنه
اللهم صل علی محمد وآل محمد وعجل فرجهم
سپـاس درود فـراوان بـر شما برادر محترم
یاالله یاالله یاالله ❤❤❤ یامحمد یامحمد یامحمد ❤❤❤
خدای خير بته
❤❤❤ماشاالله ماشاالله ماشاالله موفق باشین همیشه شاد باشید انشالله موفق باشین زنده باشین ❤❤❤
آقای داکتر نایک صاحب ازمعلومات شما سپاسگذارم بسیاردلچسپ است )
بارك الله فيكم هل سمعتم من يوم الغدير شيئا، يوما لايكمل الدين و لا يتم النعة و لا يرضي الله من اسلامنا الا بالاعتقاد علي ما وقع فيه. قال الله عز و جل اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتي و رضيت لكم الاسلام دينا.
هزار ها صد هزار درود بر محمد ص
اللهم صلی علی محمد و آل محمد کماصلیته علی ابراهیم وعلی آل ابراهیم انکه حمیدم مجید*
صلی الله علیه وسلم
❤ خداوند متعال خیر دینا وآخرت نصیب شما شوه بسیار عالی بود ❤
اسلام علیک هزاران درود بر پامبر حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه واله محمد❤
محمد اقبال یعقوبی
الهم صل علی محمد وآله محمد❤❤❤❤❤
ببخشید.گفتن قبل هرکاری یاالله ویاعلی بگیم ودیگه چی؟
اللهم صل علی محمد وعلی ال محمد عدد ما خلق ❤❤❤
اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد ... أز تاجيكستان
اللهم الف مليون صلاه والسلام على رسول الله صلى الله عليه وسلم
ھزار دورود بر حضرت محمد ❤❤❤❤
سبحان الله جزاک الله خیر الحمدلله کثیرا.
وسلام .محمد امان از اطریش هستم
هزاران صلوات بر حضرت محمد ص
وبه شما که چقدر یک پیام خوب به ما گفتین و
ما ره امیدوار به زندگی خوب ساختین
خیرررر ببنینن
الله متعال، شما ره خیر نصیب کنه برادر❤❤
دورد بر حضرت محمد مصطفی ❤❤
سلام وحترام خدمت برادرگرامی! از برنامه های پرمحتوای شما بی نهایت ممنون ۰ یک خواهش شما دارم که ازحاشیه روی و از تکرار جملات وکلمات یک کمی جلو گیری کنید ۰ چونکه برنامه را خسته کن میسازد۰با عرض معذرت
حعثحاحححثهث سلام خوب ببینی سلام ۳۱ صحح۵۸ثح۵حسححهث
محتواجنسی
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
علی بن الحسین المرتضی ( رسالہ المحکم و المتشابہ میں تفسیر نعمانی سے اس کی سند سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ اسماعیل بن جابر سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباء علیہم السلام سے اور وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے حدیث طویل میں روالیت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک ہم اجتہاد کےذریعے حکم دینے کی نفی کرتے ہیں اس لئے کہ بلاشبہ حق ہمارے ساتھ ہے جس میں ہم نے پہلے سے ان تمام امور کا ذکر کر دیا ہے جنہیں اللہ نے نصب کیا، اور وہ دلائل جنہیں ہمارے لئے قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن ، سنت اور امام حجت ص، اور مخلوق ان وجوہ (کتاب و سنت و حجت ص) سے خالی نہیں ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا، اور جو ان وجوہ مذکورہ کے مخالف ہے، وہ باطل ہے، اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اجتہاد کے قائل لوگوں کی مخالفت میں طویل کلام ارشاد فرمایا۔
حوالہ نمبر 1:وسائل الشیعہ آل البیت ،جز ء27، ص58،حوالہ نمبر2: وسائل الشیعہ آل البیت ، جزء 18، ص 23,، حوالہ نمبر 3:بحار الانوار، العلامہ المجلسي جلد نمبر 90 صفحہ نمبر/96،حوالہ نمبر4: جامع احادیث الشیعہ ،الشیخ بروجردی،جزء 1، ص283
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی ص کے حواری ہیں اور حواریوں ختم ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ آتے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر وہ قول کہتے ہیں جو وہ نہیں جانتے (اجتہاد) اور اس شے کی تعلیم دیتے ہیں جس سے اُنہیں روکا گیا تھا پس تم ان مجتہدوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دلوں سے جہاد واجب ہے، اور سب سے بڑا درجہ اس کا ہے جو ان لوگوں سے ہاتھوں، زبانوں اور دل سے جہاد کرے اور درمیانہ درجہ اسکا ہے جو صرف زبان اور دل سے جہاد کرنے والا ہو اور کمترین درجہ اس کا ہے جو صرف دل سے ان سے جہاد کرے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دل کیلئے جہاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی کہ تم ان کے اعمال کا اپنے دل میں انکار کرو۔ حوالہ:النظام السیاسی فی الاسلام باقر شریف قرشی ص 272 -- بیان الآئمہ ج2 ص469
3- جعفر بن محمد صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے والد امام باقر علیہ السلام نے اپنے آباء سے اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرمایا ہے کہ جس نے دین میں کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کی بنیاد پر قیاس کیا اللہ اسے جہنم میں ابلیس کے ہمراہ ڈالے گا اس لئے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا کہ جب اس نے کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے تو اس نے رائے اور قیاس کی طرف بلایا اور ایسا ہی وہ قوم کرتی ہے جس کے پاس اللہ کے دین کی کوئی برھان نہیں پس بےشک اللہ کا دین رائے اورمقائیس پر وضع نہیں کیا کیا گیا۔ حوالہ:علل الشرائع جلد نمبر١، صفحہ نمبر٨٩.
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ غیر خدا اور طلب دنیا کیلئے فقہ سیکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کو اپنی خواہشوں کیلئے توڑا مروڑا اور اپنی رائے کو دین قرار دیا۔ حوالہ:بحار الانوار جلد نمبر 52 ، صفحہ25
5- مولا علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنی وصیت میں فرمایا اے کمیل اگر زمین پر اللہ کا کوئی نبی نہ ہوتا اور اس زمین اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا تو خدا کو ضرور پکارتا غلط یا ٹھیک طریقے سےیہاں تک کہ اللہ اس کو نصب فرماتا اور اس کو اس تنصیب کا اہل بناتا۔امام ع فرماتے ہیں کہ تنصیب خدا کی طرف سے لازمی ہے کسی کااپنی کسی حاجت کے نام پر ذاتی اجتہاد جائز نہیں یا جاہل کو عالم کی حاجت یا پھر عقلی جواز وغیرہ کی بنیاد پر بھی جائز نہیں۔ حوالہ:تحف العقول عن آل الرسول ، مؤلف:للحرانی، صفحہ نمبر12
6- امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اے نعمان! قیاس سے بچو اس لئے کہ میرے والد نے میرے اجداد سے اور انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دین میں کسی کے بارےمیں اپنی رائے کو بنیاد بنا کر قیاس کیا، وہ جہنم میں ابلیس کیساتھ ہوگا اس لئے کہ ابلیس ہی وہ پہلا تھا قیاس کیا جبکہ اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے، پس رائے اور قیاس کو ترک کر دو اور جو قوم کہتی ہے اس کی دین خدا میں کوئی برہان نہیں اس لئے کہ اللہ کا دین آرا اور مقاییس (معیارات) کی بنیاد پر وضع نہیں کیا جاتا۔ حوالہ: عوالم العلوم والمعارف والاحوال،جلد نمبر 20، صفحہ 491
7- امام صادق علیہ السلام نے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: امام زمانہ علیہ السلام کے دشمن فقہاء اور اہل اجتہاد کے مقلدین ہوں گے جب وہ دیکھیں گے امام زمانہ علیہ السلام ان کے اماموں کے حکم کے بر خلاف حکم جاری کر رہے ہیں، اس کے بعد کلام اس سے متصل ہوتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام قائم علیہ السلام خروج فرمائیں گے تو خاص فقہاء کے علاوہ کوئی ان کا کھلا دشمن نہ ہوگا، اور ان کے اور فقہا کے درمیان تلوار ہے یعنے جنگ حوالہ: ينابيع المودۃ جلد 3 -صفحہ 62 وإلزام الناصب صفحہ 173 اور دیگر مصادر جن کا ذکرنہیں کیا جا رہا
8- خمینی اپنی کتاب میں اس روایت کی حجیت کے اثبات و نفی میں طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں : جہاں تک احتجاج کی اس روایت کا تعلق ہے کہ فقہاء میں سے جو۔۔۔۔الخ، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت سند کے ضعف اور متن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے حجت کیلئے ٹھیک نہیں حوالہ:کتاب الاجتہاد و التقلید مصنف: خمینی ،صفحہ نمبر97
اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد
عالي معلوماتو خبره ښه راست دئ ډاکټر مننه ،🥰🅰️🇦🇫👍🏻
اللهم صل علی محمد و علی آل محمد
اللهم صل علی محمد و علی آل محمد
اللهم صل علی محمد و علی آل محمد
صلَّی الله علیه وآله وسلم
❤❤❤❤اسلام علیکم هزاران درودبر پیامبر حضرت محمد مصطفی صلي الله عليه وآله وسلم ❤❤
دوردت به حضرت محمدص❤❤❤❤ وسلم
❤❤❤درود بر جناب حضرت محمد ص ❤❤❤
تشکر استادگرامی تشکرازشما همیشهموفقباشینخداوندمتعالعمریطولانینصیبکند کامیابیدنیاآخرتمیخایومبریشما خوبحق میگین ❤❤
اللهم صلی علی محمد و علی ال محمد کما صلیت علی ابراهیم و علی ال ابراهیم انک حمید مجید مادر مصطفی
درود به سلطان قلب ها
محمد امین ❤❤❤❤❤❤❤❤❤
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّیْتَ عَلَى إِبْرَاهِیمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّكَ حَمِیدٌ مَجِید
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِیمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّكَ حَمِیدٌ مَجِید
سلام علیکم استاد چند بار یاالله یاحلیم بخوانیم
یاعلیم نه یا حلیم
اَلّلهُمَّ صَلِّ عَلی سَیِّدنا مُحَمَّدٌ مَا اخْتَلَفَ الْمَلَوان وَ تَعاقَبَ الْعَصْرانِ وَ کَرَّ الْجَدیدانِ وَ سْتَقْبَلَ الْفَرْقدانِ وَ بَلَّغْ رُوحَهُ وَ اَرْواحَ اَهْلِ بَیْتِهِ مِنّا التَّحِیَّهَ وَ السَّلامُ"، ثواب آن هر دفعهاش ده هزار بار است.
درود بر محمد صلی الله علیه وآله وسلم
اللهم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجهم ولعن أعدائهم اجمعین
درود فراوان بر سرور کاینات حضرت رسول اکرم صلی الله علیه وسلم❤️❤️❤️
هزاران صد هزاران از ما بر محمد صلی الله علیه و صلم ❤🎉🎉❤
التماس دعا❤دعاکنیدکه حج برم
اللهم ارزقنا زیارت بیت الله.
الهم صل الله محمد و الله اله محمد
ببخشین محترم سوره حشر مکمل بخانیم ؟
با سلام بسیار عالی بود.اما اینکه گفتید درود شریف کاشکی یک دفعه هم خودتان در این برنامه میخواندید.
سلام تشکر از شما مهربان
ډیر ښه الله مو درته خیر درکړی مننه تشکر برادر عزیز عمر تولانی نصیب تان باد
اللهم صلی علی محمد و علی آل محمد 🫶🏻❤️
یا الله یاالعلیم
Аллохумма сали аьло Мухаммад ва аьло Оли Мухаммад
درودبرمحمدوال محمد
برادر عزیز محترم! آنقدر درود بی پایان از عقل انسان و فرشته ها به دور بر پیغمبر بزرگوار اسلام حضرت محمد مصطفی( ص )) باشد .❤❤❤❤❤❤❤