۔ اس ملک کو بنانے کے لئے جس قدر قربانیاں اہل العلم علماء نے دی ناقابل فراموش ہیں۔ اتحاد امت کی جسقدر ضرورت اسوقت ھے۔ شاید ہی کبھی لوگ لسانی اور صوبائی اور قومی تعصب کی وجہ سے دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں اور اور اور مفاد پرست عناصر سادہ لوح عوام سے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔
کیا صرف حفظ قرآن ہی ہمارے لئے کافی ہے ؟ حافظ قرآن اور صاحب قرآن میں فرق ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے : وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان:30) ترجمہ: اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب بےشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ۔ مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جاسکے،یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا بھی ہجران ہے۔ اس پر غور و فکر نہ کرنا اور اس کے اوامر پر عمل نہ کرنا اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے اسی طرح اس کتاب کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک اور اس کا چھوڑ دینا ہے جس کے خلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے ۔(تفسیر احسن البیان) ابوداؤد کی صاحب قرآن والی روایت کے تحت علامہ شمس الحق عظیم آبادی ؒ بعض علماء کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس نے قرآن کے مطابق عمل کیا گویا اس نے ہمیشہ قرآن پڑھا گرچہ وہ اسے نہیں پڑھتا ہو ، اور جس نے قرآن پر عمل نہ کیا گویا کہ اس نے قرآن پڑھا ہی نہیں گرچہ وہ ہمیشہ اسے پڑھتا ہو۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا: كتاب أنزلناه إليك مبارك ليدبروا آياته وليتذكر أولو الألباب(یہ کتاب یعنی قرآن مجید جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور اہل عقل نصیحت پکڑیں) پس صرف تلاوت کرنے یا صرف حفظ کرنے سے بلند درجات والی جنت میں اونچے مراتب نہیں ملیں گے ۔ (عون المعبود شرح الحدیث رقم: 1464) نہایت افسوس کا مقام ہے کہ بہت سارے حفاظ قرآن بھول گئے، بہت سارے حفاظ احکام قرآن سے کوسوں دور ہیں ، بہت سارے احکام قرآن کے مخالف عمل کرتے ہیں جبکہ وہ قرآن کے حافظ ہیں ۔ حفاظ کی اکثریت تو قرآن کے معانی ومفاہیم سے نابلد اور نری جاہل ہیں جبکہ انہیں جنت میں بلند درجات کی امید اور ان کے والدین وگھروالوں کو دس لوگوں کی بخشش کی امید ہے ۔ اوپر آپ نے جتنے نصوص کا مطالعہ کیا کہیں پر قرآن کی قرات بغیر عمل کے نہیں ہے کیونکہ قرآن نازل ہی ہوا ہے عمل کرنے کے لئے اور کہیں پر اس کی تلاوت کرنا بغیر سمجھے نہیں ہے کیونکہ قرآن سمجھ کر پڑھنے کے لئے نازل ہوا ہے تاکہ اس کے حقوق ادا کئے جائیں اور مکمل قرآنی تعلیمات کو عملی زندگی میں نافذ کیا جائے ۔اللہ کا فرمان ہے :الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ(سورةالبقرة:121) ترجمہ : وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اس کتاب کی اس طرح تلاوت کرتے جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے ، ایسے لوگ ہی اس پر صحیح معنوں میں ایمان لاتے ہیں۔ اس آیت میں تلاوت کی شرط "حق تلاوتہ " بتلائی گئی ہے اور ایسے ہی تلاوت کرنے والوں کو صحیح ایمان لانے والا قراردیاہے ۔ تلاوت کا حق یہ ہے کہ قرآن کو غوروخوض کے ساتھ سمجھ کر پڑھاجائے تاکہ اس پہ عمل کیاجائے ۔ لسان العرب میں تلاوت کا ایک معنی یہ بتلایاگیاہے "پڑھنا عمل کرنے کی نیت سے " ۔ عمل کرنے کی نیت سے قرآن پڑھنا اس وقت ممکن ہوگا جب اسے سمجھ کرغوروفکر کے ساتھ پڑھاجائے ۔ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ حافظ قرآن اور صاحب قرآن میں فرق ہے ، اس کا اصل قاری صاحب قرآن ہے۔ ہم صرف قرآن کے حفظ پر اکتفا نہ کریں بلکہ صاحب قرآن کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے قرآن کے پانچوں حقوق ادا کریں ۔ اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنانا چاہتے ہیں تو محض حفظ قرآن تک ان کی تعلیم محدود نہ کریں بلکہ اتنی تعلیم دلائیں کہ وہ قرآن کو سمجھ کر ، غوروفکر کے ساتھ پڑھ سکیں ، اس کے مطابق عمل کرسکیں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے سکیں۔ ایسا کرنا آپ کے حق میں بہترین صدقہ جاریہ ہوگا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بلاسمجھے قرآن پڑھنے سے اجر نہیں ملتا، جو حافظ قرآن اس کا معنی نہیں جانتے اس کی کوئی فضیلت نہیں ہے ۔ بلاشبہ قرآن پڑھنا اوراس کا حفظ کرنا اجر کا باعث ہے مگر آخرت میں نجات اس بات پر موقوف ہے کہ ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھیں اور اس کے مطابق عمل کریں اور دوسروں کو اس کی دعوت بھی دیں۔ اپنے سماج سے اس تصور کو ختم کریں کہ حافظ قرآن اپنے ساتھ دس لوگوں کو جنت میں لے جائے گا اور اسی طرح اس رسم کو بھی تبدیل کریں جو اپنے بچوں کی زندگی محض حفظ قرآن اور قرآن خوانی تک محدود کردیتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں قرآن کو سیکھنے، اس کے مطابق عمل کرنے اور دوسروں کو اس کی دعوت دینے کی توفیق دے اور ہمارے بچوں کو حفظ قرآن کے ساتھ اس کے معانی ومفاہیم بھی جاننے کی توفیق دے تاکہ وہ بھی عمل کریں اور دوسروں کوبھی اس کی ترغیب دیں ۔ آمین
MashAllah mufti sahb ap ilm k samandr hn
اللہ پاک حضرت مفتی ص کا سایہ تادیر سلاامت رکھے امیں
ماشاءاللہ
جزاك اللهُ
سبحان الله
Allah aap ko salaam t rhka
اللہ مفتی صاحب کو اپنی شان کے مطابق بدلہ عطا فرمائے اور نظر بد سے محفوظ فرمائے آمین یا رب العالمین
اللہ تعالیٰ ہمارے علماء کرام کی حفاظت فرمائے
ماشاءاللہ
جزاك اللهُ
سبحان الله
في أمان الله
ماشاءاللہ بہت خوبصورت
❤
ماشاءاللہ
اللہ تعالیٰ علماء کی حفاظت فرمائے
Alla salamat thaka hazrat
😊😊😊
Assalamualaikum molana Abdul wahid qureshi saab G
❤❤
Kahani
۔ اس ملک کو بنانے کے لئے جس قدر قربانیاں اہل العلم علماء نے دی ناقابل فراموش ہیں۔ اتحاد امت کی جسقدر ضرورت اسوقت ھے۔ شاید ہی کبھی لوگ لسانی اور صوبائی اور قومی تعصب کی وجہ سے دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں اور اور اور مفاد پرست عناصر سادہ لوح عوام سے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔
سر یہ آیات سورہ انعام میں نہیں ہے میں نے بہت دیکھی ہے ۔۔ پتا نہیں کونسے سورت میں ہے
Jao to fir
کیا صرف حفظ قرآن ہی ہمارے لئے کافی ہے ؟ حافظ قرآن اور صاحب قرآن میں فرق ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان:30)
ترجمہ: اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب بےشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ۔
مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جاسکے،یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا بھی ہجران ہے۔ اس پر غور و فکر نہ کرنا اور اس کے اوامر پر عمل نہ کرنا اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے اسی طرح اس کتاب کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک اور اس کا چھوڑ دینا ہے جس کے خلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے ۔(تفسیر احسن البیان)
ابوداؤد کی صاحب قرآن والی روایت کے تحت علامہ شمس الحق عظیم آبادی ؒ بعض علماء کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس نے قرآن کے مطابق عمل کیا گویا اس نے ہمیشہ قرآن پڑھا گرچہ وہ اسے نہیں پڑھتا ہو ، اور جس نے قرآن پر عمل نہ کیا گویا کہ اس نے قرآن پڑھا ہی نہیں گرچہ وہ ہمیشہ اسے پڑھتا ہو۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا: كتاب أنزلناه إليك مبارك ليدبروا آياته وليتذكر أولو الألباب(یہ کتاب یعنی قرآن مجید جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور اہل عقل نصیحت پکڑیں) پس صرف تلاوت کرنے یا صرف حفظ کرنے سے بلند درجات والی جنت میں اونچے مراتب نہیں ملیں گے ۔ (عون المعبود شرح الحدیث رقم: 1464)
نہایت افسوس کا مقام ہے کہ بہت سارے حفاظ قرآن بھول گئے، بہت سارے حفاظ احکام قرآن سے کوسوں دور ہیں ، بہت سارے احکام قرآن کے مخالف عمل کرتے ہیں جبکہ وہ قرآن کے حافظ ہیں ۔ حفاظ کی اکثریت تو قرآن کے معانی ومفاہیم سے نابلد اور نری جاہل ہیں جبکہ انہیں جنت میں بلند درجات کی امید اور ان کے والدین وگھروالوں کو دس لوگوں کی بخشش کی امید ہے ۔
اوپر آپ نے جتنے نصوص کا مطالعہ کیا کہیں پر قرآن کی قرات بغیر عمل کے نہیں ہے کیونکہ قرآن نازل ہی ہوا ہے عمل کرنے کے لئے اور کہیں پر اس کی تلاوت کرنا بغیر سمجھے نہیں ہے کیونکہ قرآن سمجھ کر پڑھنے کے لئے نازل ہوا ہے تاکہ اس کے حقوق ادا کئے جائیں اور مکمل قرآنی تعلیمات کو عملی زندگی میں نافذ کیا جائے ۔اللہ کا فرمان ہے :الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ(سورةالبقرة:121)
ترجمہ : وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اس کتاب کی اس طرح تلاوت کرتے جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے ، ایسے لوگ ہی اس پر صحیح معنوں میں ایمان لاتے ہیں۔
اس آیت میں تلاوت کی شرط "حق تلاوتہ " بتلائی گئی ہے اور ایسے ہی تلاوت کرنے والوں کو صحیح ایمان لانے والا قراردیاہے ۔ تلاوت کا حق یہ ہے کہ قرآن کو غوروخوض کے ساتھ سمجھ کر پڑھاجائے تاکہ اس پہ عمل کیاجائے ۔ لسان العرب میں تلاوت کا ایک معنی یہ بتلایاگیاہے "پڑھنا عمل کرنے کی نیت سے " ۔ عمل کرنے کی نیت سے قرآن پڑھنا اس وقت ممکن ہوگا جب اسے سمجھ کرغوروفکر کے ساتھ پڑھاجائے ۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ حافظ قرآن اور صاحب قرآن میں فرق ہے ، اس کا اصل قاری صاحب قرآن ہے۔ ہم صرف قرآن کے حفظ پر اکتفا نہ کریں بلکہ صاحب قرآن کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے قرآن کے پانچوں حقوق ادا کریں ۔ اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنانا چاہتے ہیں تو محض حفظ قرآن تک ان کی تعلیم محدود نہ کریں بلکہ اتنی تعلیم دلائیں کہ وہ قرآن کو سمجھ کر ، غوروفکر کے ساتھ پڑھ سکیں ، اس کے مطابق عمل کرسکیں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے سکیں۔ ایسا کرنا آپ کے حق میں بہترین صدقہ جاریہ ہوگا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بلاسمجھے قرآن پڑھنے سے اجر نہیں ملتا، جو حافظ قرآن اس کا معنی نہیں جانتے اس کی کوئی فضیلت نہیں ہے ۔ بلاشبہ قرآن پڑھنا اوراس کا حفظ کرنا اجر کا باعث ہے مگر آخرت میں نجات اس بات پر موقوف ہے کہ ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھیں اور اس کے مطابق عمل کریں اور دوسروں کو اس کی دعوت بھی دیں۔ اپنے سماج سے اس تصور کو ختم کریں کہ حافظ قرآن اپنے ساتھ دس لوگوں کو جنت میں لے جائے گا اور اسی طرح اس رسم کو بھی تبدیل کریں جو اپنے بچوں کی زندگی محض حفظ قرآن اور قرآن خوانی تک محدود کردیتے ہیں۔
اللہ تعالی ہمیں قرآن کو سیکھنے، اس کے مطابق عمل کرنے اور دوسروں کو اس کی دعوت دینے کی توفیق دے اور ہمارے بچوں کو حفظ قرآن کے ساتھ اس کے معانی ومفاہیم بھی جاننے کی توفیق دے تاکہ وہ بھی عمل کریں اور دوسروں کوبھی اس کی ترغیب دیں ۔ آمین
Kya Boongiyan sunata hai bhai
❤❤❤