ساغر صدیقی کی زندگی کے آخری 20 اشعار | saghar siddiqui heartbreaking poetry

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 6 лют 2025
  • ساغر صدیقی کی زندگی کے آخری 20 اشعار | saghar siddiqui heartbreaking poetry
    #sagharsiddiqui
    #hindisadpoetry
    #urdusadpoetry
    #top10sagharsiddiquishayari
    #top10shayari
    #top10
    #sagharsiddiquitop10shayari
    #sagharsiddiquipoetry
    #sagarsiddiquishayari
    #sagarsiddiquipoetry
    #brokenheartshayari
    #sadhindipoetry
    #sadhindishayari
    #sadurdupoetry
    #sadurdushayari
    #ساغر_صدیقی
    #ساگر_صدیقی
    Best urdu poetry
    Best hindi poetry
    Sad urdu poetry
    Sad hindi poetry
    Best urdu poetry 2020
    Best urdu poetry 2021
    Best hindi poetry 2020
    Best hindi poetry 2021
    Trending urdu poetry
    Trending hindi poetry
    Ghamgeen urdu Shayari
    Heartbreaking urdu poetry
    Heartbreaking hindi poetry
    Baywafa Shayari
    Baywafai Shayari
    Dard bhari Shayari
    Saghar poetry
    Saghar ko khuda yad nahin
    Lazawal Shayari
    Baymisal Shayari
    Baymisal poetry
    Love poetry
    Love urdu poetry
    Love hindi poetry
    Poverty poetry
    وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی
    اک ترے وصل کی گھڑی ہو گی
    دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر
    کوئی برسات کی جھڑی ہو گی
    کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی
    پھول کی ایک پنکھڑی ہو گی
    زلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر
    چاندنی سے صبا لڑی ہو گی
    اے عدم کے مسافرو ہشیار
    راہ میں زندگی کھڑی ہو گی
    کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
    جاں کسی پھول کی اڑی ہو گی
    التجا کا ملال کیا کیجے
    ان کے در پر کہیں پڑی ہو گی
    موت کہتے ہیں جس کو اے ساغر
    زندگی کی کوئی کڑی ہو گی
    ساغر صدیقی
    ﺍﯾﮏ ﻭﻋﺪﮦ ﮨﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺟﻮ ﻭﻓﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ
    ﻭﺭﻧﮧ ﺍﻥ ﺗﺎﺭﻭﮞ ﺑﮭﺮﯼ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ
    ﺟﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻟﭧ ﺩﯾﮟ ﺍﻧﮑﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﻘﺎﺏ
    ﺣﻮﺻﻠﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ
    ﺷﻤﻊ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺁﺑﺮﻭ ﭘﺮ ﺟﺎﻥ ﺩﮮ ﺩﮮ ﺟﮭﻮﻡ ﮐﺮ
    ﻭﮦ ﭘﺘﻨﮕﺎ ﺟﻞ ﺗﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻓﻨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ
    ﺍﺏ ﺗﻮ ﻣﺪﺕ ﺳﮯ ﺭﮦ ﻭ ﺭﺳﻢِ ﻧﻈﺎﺭﮦ ﺑﻨﺪ ﮨﮯ
    ﺍﺏ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻃُﻮﺭ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ
    ﮨﺮ ﺷﻨﺎﻭﺭ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ ﺗﻼﻃﻢ ﺳﮯ ﺧﺮﺍﺝ
    ﮨﺮ ﺳﻔﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﺤﺎﻓﻆ ﻧﺎﺧﺪﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ
    ﮨﺮ ﺑﮭﮑﺎﺭﯼ ﭘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ ﻣﻘﺎﻡِ ﺧﻮﺍﺟﮕﯽ
    ﮨﺮ ﮐﺲ ﻭ ﻧﺎﮐﺲ ﮐﻮ ﺗﯿﺮﺍ ﻏﻢ ﻋﻄﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ
    ﮨﺎﺋﮯ ﯾﮧ ﺑﯿﮕﺎﻧﮕﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺧﺒﺮ
    ﮨﺎﺋﮯ ﯾﮧ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﮧ ﺗُﻮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺟُﺪﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ
    ﺑﺎﺭﮨﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺳﺎﻏﺮؔ ﺭﮨﮕﺬﺍﺭِ ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ
    ﮐﺎﺭﻭﺍﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﮐﺜﺮ ﺭﮨﻨﻤﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ
    یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں۔۔
    ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں۔۔
    تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں،
    ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں۔۔
    دور تک کوئی ستارہ ہے نہ جگنو،
    مرگِ امید کے آثار نظر آتے ہیں۔۔
    میرے دامن میں شراروں کے سِوا کچھ بھی نہیں،
    آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں۔۔
    کل جنہیں چھُو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر،
    آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں۔۔
    حشر میں کون میری دے گا گواہی ساغر،
    سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں۔۔
    ساغر صدیقی
    میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا
    غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
    اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
    یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا
    چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلف یار
    کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
    میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور
    میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا
    دنیائے حادثات ہے اک دردناک گیت
    دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
    کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
    پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
    ساغرؔ وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجیے حضور
    ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا
    محفلیں لٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
    ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا
    ہر مسرت غم دیروز کا عنوان بنی
    وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا
    ان گنت محفلیں محروم چراغاں ہیں ابھی
    کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑ دیا
    آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
    آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا
    جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی
    ان محبت کی روایات نے دم توڑ دیا
    جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی
    جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا
    ہائے آداب محبت کے تقاضے ساغرؔ
    لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا
    یہ کناروں سے کھیلنے والے
    ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو
    بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے
    ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو
    آج ہم بھی تری وفاؤں پر
    مسکرائیں تو کیا تماشا ہو
    تیری صورت جو اتفاق سے ہم
    بھول جائیں تو کیا تماشا ہو
    وقت کی چند ساعتیں ساغرؔ
    لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو
    تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا
    افسردگی کا روپ ترانوں نے لے لیا
    جس کو بھری بہار میں غنچے نہ کہہ سکے
    وہ واقعہ بھی میرے فسانوں نے لے لیا
    شاید ملے گا قریۂ مہتاب میں سکوں
    اہل خرد کو ایسے گمانوں نے لے لیا
    یزداں سے بچ رہا تھا جلالت کا ایک لفظ
    اس کو حرم کے شوخ بیانوں نے لے لیا
    تیری ادا سے ہو نہ سکا جس کا فیصلہ
    وہ زندگی کا راز نشانوں نے لے لیا
    افسانۂ حیات کی تکمیل ہو گئی
    اپنوں نے لے لیا کہ بیگانوں نے لے گیا
    بھولی نہیں وہ قوس قزح کی سی صورتیں
    ساغرؔ تمہیں تو مست دھیانوں نے لے لیا
    اے حسن لالہ فام! ذرا آنکھ تو ملا
    خالی پڑے ہیں جام! ذرا آنکھ تو ملا
    کہتے ہیں آنکھ آنکھ سے ملنا ہے بندگی
    دنیا کے چھوڑ کام! ذرا آنکھ تو ملا
    کیا وہ نہ آج آئیں گے تاروں کے ساتھ ساتھ
    تنہائیوں کی شام! ذرا آنکھ تو ملا
    یہ جام یہ سبو یہ تصور کی چاندنی
    ساقی کہاں مدام! ذرا آنکھ تو ملا
    ساقی مجھے بھی چاہئے اک جام آرزو
    کتنے لگیں گے دام! ذرا آنکھ تو ملا
    پامال ہو نہ جائے ستاروں کی آبرو
    اے میرے خوش خرام! ذرا آنکھ تو ملا
    ہیں راہ کہکشاں میں ازل سے کھڑے ہوئے
    ساغرؔ ترے غلام! ذرا آنکھ تو ملا

КОМЕНТАРІ • 215