غامدی صاحب کی کتاب میزان میں سنت کے بارے میں فقرہ سنت سے ہماری مراد دین ابراہیم کی روایت ھے غامدی صاحب اور مذہبی حلقوں کے مابین ایک حجاب بن گیا اس لئے مناسب یہ ہے غامدی صاحب اپنے تصور سنت کو قائم رکھتے ہوئے اس کے بیان کے الفاظ بدلیں میرے خیال میں یہ الفاظ کچھ اس طرح ہونے چاہیے (روزمرہ کا دینی اعمال جو مستقل بالذات احکام پر مبنی ہے جن کا بڑا حصہ بشمول عبادات دین ابراہیم پر مبنی ہے رسول اللہ نے تجدید واصلاح کے بعد تحدید اور تعین کے ساتھ امت کے اجتماعی عمل میں بحیثیت دین جاری کیا اس کے بعد اصحاب رسول کے اجماع اور عملی تواتر سے امت میں نسل در نسل منتقل ہوئے یہ اعمال اپنی نوعیت میں شخصی ھیں رسول اللہ نے اللہ رب العزت کے حکم (ہم نے تمہاری طرف وحی کی ، ملت ابراہیم کی اتباع کرو) کے تحت ان احکام کو عملی شکل میں امت میں جاری کیا عرب پہلے سے اس دینی روایت سے واقف تھے اس کے علاوہ قران کے احکام مثلا حدود کا نفاذ،جہاد و قتال،قانون وراثت معیشت و سیاست کے ا حکام عربوں کے لیے بالکل نئےتھے ان احکام کی عملی صورت کے لیے میں (اسوہ حسنہ) کی اصطلاح مناسب سمجھتا ھوں(احادیث) کی کتابوں میں جو باتیں شرح وضاحت کی قسم کی ہے ان کے لئے میں سنت کی بجائے (تفہیم و تبیین) کی اصطلاح مناسب سمجھتا ہوں علماء ان تینوں باتوں کے لئے ایک ہی لفظ حدیث یا سنت استعمال کرتے ہیں میں انہیں مناسب نہیں سمجھتا میرے نزدیک اصل اور فرع کے مابین فرق واضح ہونا چاہیے
غامدی صاحب نے سنت کی تعین کے لئے سات اصول متعین کے ان کے مطابق سنت اپنی نوعیت میں دین ہونی چاہیے یا رسول اللہ نے دین قرار دیا اس کی ابتدا رسول اللہ نے کی ہو اور سنت مستقل با لذات نوعیت کی ہوتی ھے یعنی کسی حکم کی شرح یا فرع نہیں ہوتی اس ضمن میں غامدی صاحب نے رسوم و اداب کے قبیل میں سترہ امور کا تعین کیا جو سنت پر مبنی ہے اس کے علاوہ عبادات خور و نوش اور نکاح و طلاق کے امور پر مبنی اعمال اصلا دین ابراہیم کی تجدید و اصلاح پر مبنی ھیں یہ اللہ کے حکم دین ابراہیمی کی پیروی پر عمل بالوحی کی شکل ھیں
It makes sense ❤
Mashaallah
It's a great blessing for us ,indeed
intellectual scholar javed ghamidi saab
This type of basic should be more recorded.
غامدی صاحب کی کتاب میزان میں سنت کے بارے میں فقرہ سنت سے ہماری مراد دین ابراہیم کی روایت ھے غامدی صاحب اور مذہبی حلقوں کے مابین ایک حجاب بن گیا اس لئے مناسب یہ ہے غامدی صاحب اپنے تصور سنت کو قائم رکھتے ہوئے اس کے بیان کے الفاظ بدلیں میرے خیال میں یہ الفاظ کچھ اس طرح ہونے چاہیے (روزمرہ کا دینی اعمال جو مستقل بالذات احکام پر مبنی ہے جن کا بڑا حصہ بشمول عبادات دین ابراہیم پر مبنی ہے رسول اللہ نے تجدید واصلاح کے بعد تحدید اور تعین کے ساتھ امت کے اجتماعی عمل میں بحیثیت دین جاری کیا اس کے بعد اصحاب رسول کے اجماع اور عملی تواتر سے امت میں نسل در نسل منتقل ہوئے یہ اعمال اپنی نوعیت میں شخصی ھیں رسول اللہ نے اللہ رب العزت کے حکم (ہم نے تمہاری طرف وحی کی ، ملت ابراہیم کی اتباع کرو) کے تحت ان احکام کو عملی شکل میں امت میں جاری کیا عرب پہلے سے اس دینی روایت سے واقف تھے اس کے علاوہ قران کے احکام مثلا حدود کا نفاذ،جہاد و قتال،قانون وراثت معیشت و سیاست کے ا حکام عربوں کے لیے بالکل نئےتھے ان احکام کی عملی صورت کے لیے میں (اسوہ حسنہ) کی اصطلاح مناسب سمجھتا ھوں(احادیث) کی کتابوں میں جو باتیں شرح وضاحت کی قسم کی ہے ان کے لئے میں سنت کی بجائے (تفہیم و تبیین) کی اصطلاح مناسب سمجھتا ہوں علماء ان تینوں باتوں کے لئے ایک ہی لفظ حدیث یا سنت استعمال کرتے ہیں میں انہیں مناسب نہیں سمجھتا میرے نزدیک اصل اور فرع کے مابین فرق واضح ہونا چاہیے
غامدی صاحب نے سنت کی تعین کے لئے سات اصول متعین کے ان کے مطابق سنت اپنی نوعیت میں دین ہونی چاہیے یا رسول اللہ نے دین قرار دیا اس کی ابتدا رسول اللہ نے کی ہو اور سنت مستقل با لذات نوعیت کی ہوتی ھے یعنی کسی حکم کی شرح یا فرع نہیں ہوتی اس ضمن میں غامدی صاحب نے رسوم و اداب کے قبیل میں سترہ امور کا تعین کیا جو سنت پر مبنی ہے اس کے علاوہ عبادات خور و نوش اور نکاح و طلاق کے امور پر مبنی اعمال اصلا دین ابراہیم کی تجدید و اصلاح پر مبنی ھیں یہ اللہ کے حکم دین ابراہیمی کی پیروی پر عمل بالوحی کی شکل ھیں
This type of basic should be more recorded.