I think the best thing about Sir Syed is that he considered the whole of India as one. I pray that the tradition and civilization of this University will always remain. عمدہ شعر🔥.... !!! نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا ...
मुसलमान का मतलब सिर्फ शेख, सैयद, पठान होता है इनकी आइडियोलॉजी m Pasmanda , पिछड़ी बिरादरियों के लिए इस यूनिवर्सिटी ने कुछ भी नहीं किया सिर्फ बड़ी बिरादरी के लोगों ने ही आज तक फायदा उठाया है 😢😢 मुसलमान का मतलब सिर्फ बड़ी बिरादरी h inki soch m inki दिमाग m sirf upper muslim caste rehti h
कुछ बड़ी बिरादरी ही यहां काबिज रही है ये सिर्फ ऊंची बिरादरी के लिए h यहां अशरफ बिरादरीबके बच्चों के लिए दुआ कर रहे हो प्रोफेसर sb पारसियों ki बात कर रहे है पसमांदा मुस्लिम बिरादरी के बारे m में भी रिसर्च करो 😢😢😢
بہت معذرت کے ساتھ ، پروفیسر فیضان مصطفیٰ صاحب کی گفتگو میں شامل اکثر نکات سے نہ صرف اختلاف بلکہ ان کے بیان کردہ بعض نکات سے برأت اور بیزاری کا اظہار کرنا لازم ہے ، ورنہ دینی علوم و عقائد کے صدق و حق کی باریک گہرائیوں سے ناواقف مسلمانوں کو بڑا دھوکہ ہوسکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ بہتوں کے ایمان کی بھی خیر منانی پڑے ، اللھم ارحمنا و حفظنا من کل ابتلاء الدین والدنیا یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے نزدیک فیضان مصطفیٰ صاحب بھارت کے آئین قانون کی باریک تر موشگافیوں پر گہری نظر اور گرفت رکھنے والے چند بہترین اسکالرز میں سے ایک ہیں ، بیشک ان کا نام ملک کے چند نامور ماہرین آئین و قانون میں سرفہرست آتا ھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ مؤرخ نہیں ہیں اور نہ ہی قرآن و حدیث کے علوم و قوانین کے ماہر ہیں ، قرآن و سنت کے معارف و حقائق و عقائد کے اسکالر بھی نہیں ہیں ، بایں وجہ اس میدان میں اگر وہ صحیح ڈگر سے ہٹ کر بات کرتے ہیں خواہ علیگڑھ کالج یا علیگڑھ تحریک کے پس منظر میں کریں یا سرسید کے فکر و نظر اور خدمات کے حوالے سے مسگائڈ misguide ہوجائیں ہر اعتبار سے ہم انہیں معذور ہی سمجھتے ہیں' ہمارا خیال ہے کہ موصوف شرعی علوم کی گہرائی سے ناواقف' مگر مسلمانوں کی محبت اور ہمدردی میں خرابئ حالات سے متأثر ہوکر تقریباً ویسا ہی رویہ اختیار کر رہے ہیں جیسا اپنے زمانے میں حکومت و طاقت کی حمایت و حفاظت کے سائے میں عیسائیت کے اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ پر حملوں کے جواب میں اختیار کیا تھا ، سرسید علیہ الرحمہ نے پوری نیک نیتی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کرتے ہوئے خود اسلام کے بعض بنیادی مسائل و عقائد میں معذرت خواہانہ انداز میں عیسائیت کے سامنے سرنڈر کرنے جیسا رویہ اختیار کرکے امت میں ایک ہیجان کی سی کیفیت پیدا کردی تھی ، سرسید کے زمانے میں آج کی طرح اکثریت مسلمان دولتِ دنیا کے اندھے بہرے گونگے غلام نہیں ہوئے تھے ، عام مسلمان اپنے دین کے معاملے میں کافی حساس ہوا کرتے تھے ، عجیب صورت حالات یہ تھی کہ مسلمانوں کی حکومت چھین لینے کے بعد عیسائیت حکومت کی سرپرستی میں اسلام اور مسلمانوں کے ایمان و عقائد پر علمی فکری اعتبار سے بری طرح حملہ آور تھی ( جیسے آج ہندوتوائی مشرکانہ نظام اسلام اور مسلمانوں کے دین و ایمان پر ہر طرف اور ہر طرح سے حملہ آور ہے ) سرسید اسلامی علوم و معارف میں گہرائی اور مہارت نہ ہونے کے سبب ( تمام تر خلوص و محبت کے باوجود ) بعض صریح قرآنی حقائق و معارف سے صرف نظر کرکے عقائد و اصول کے معاملے میں امت کی تیرہ سو سالہ روایت وتاریخ سے انحراف کرگئے تھے ، اگر اس وقت علماء امت سرسید علیہ الرحمہ کی شخصیت کے لحاظ و مروت اور انکی جدید سائنسی تعلیم کی فکری اور عملی جد وجہد کے پیشِ نظر ان کے دینی عقائد و نظریات پر خاموشی اختیار کر جاتے تو یقیناً اس زمانے کے علماء کا ایسا طرز عمل دین میں مداہنت کہلاتا اور برصغیر کی اسلامی و ملی تاریخ میں اس زمانے کے علماء ہمیشہ کے لئے مجرم قرار دئیے جاتے ، شکر ہے سرسید کی عظمت اور جدید تعلیمی خدمات کے اعتراف کے باوجود دینی عقائد و افکار کے معاملے میں اس زمانے کے علماء نے انصاف سے کام لیکر برصغیر کی دینی و ملی تاریخ میں احقاق حق کا ایک ذرین باب رقم کیا ھے ۔ رہی بات سر سید کے مذہبی عقائد و افکار کے متعلق فتویٰ اور ان افکار و عقائد کے ساتھ دین و ملت کی تعلیمی وتربیتی خدمات پر شکوک و شبہات کے شور شرابے کی تو اس معاملے میں تحقیق وانصاف سے کام لینے والا کوئی بھی دانشور مؤرخ آج تک یہ ثابت نہیں کرسکا کہ علماء نے کسی تعصب یا دشمنی کی وجہ سے سرسید کے خلاف فتویٰ جاری کیا تھا ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی عقائد و افکار کے معاملے میں عیسائیت سے مرعوبیت کے کارن سرسید کی بعض صریح اسلامی عقائد سے دست برداری یا خود سپردگی کے رویہ کی وجہ مسلمان برگشتہ ہوگئے تھے اور یہ عمومی خیال بن گیا تھا کہ سرسید کے زیر سرپرستی قائم کالج میں مسلمانوں کے بچے تعلیم وتربیت حاصل کریں گے تو وہ کفر و الحاد اور بد دینی کے شکار ہو کر ایمان و اسلام سے محروم ہو جائیں گے ، جہاں تک سرسید پر کفر کے فتویٰ کا معاملہ ہے ، اگر وہ از خود علماء کی طرف سے جاری ہوتا تو بھی اس میں دینی و ملی تعلیم و ترقی کے اعتبار سے ہرگز کوئی قباحت نہیں ہوتی ،۔ مگر یہ بھی عجیب وغریب حقیقت ہے کہ فتویٰ از خود علماء نے جاری نہیں کیا تھا ، بلکہ استفتاء (مفتیوں سے لکھ کر سوال کا جواب طلب کرنے ) کے اصل محرک و متحرک خود سرسید کے دو ہم پیشہ دوست ہی تھے ایک تو کانپور کے ڈپٹی مجسٹریٹ مولوی امداد العلی تھے اور دوسرے صاحب بہادر بھی سرسید کی طرح ڈپٹی مجسٹریٹ ہی تھے ، دراصل سارا دھوکہ لفظ مولوی سے دیا گیا ہے ، کیونکہ اس زمانے میں وکیل ، جج ، مجسٹریٹ ، وغیرہ سب کے ناموں کا سابقہ لفظ مولوی ہی لکھا جاتا تھا ، اسی لفظ مولوی کو غلط طریقے سے پیش کرکے بعد کے جدید تعلیم یافتہ غیر محقق یا بہت سے بد دیانت متعصب اور مذہب بیزار دانشوروں نے یا تو قصداً یا بہت سے سادہ لوح محبان سرسید نے اسلام دشمنوں کے پروپیگنڈہ کا شکار ہوکر علماء کو سرسید اور جدید سائنسی تعلیم کے مخالف قرار دیکر متہم کرنے کی مہم شروع کردی جو آج بھی کسی نہ کسی درجہ و صورت میں جاری ھے ، میری خوش گمانی یہ ہے کہ اس مسئلہ پر پروفیسر فیضان مصطفیٰ صاحب بھی حقائق کی منصفانہ تحقیق کئے بغیر اسی پروپیگنڈا کا شکار ہوکر اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں بصورت دیگر آپ خود سمجھ سکتے ہیں' کہ آج مادیت کے آزمائشی حالات میں کیسے کیسے لوگ کیا سے کیا ہوگئے اور مزید ہوئے جا رہے ہیں ۔!!!!!!!!!!!!! راقم عبدالرحمن عابد مقیم دہلی 30/10/2022
Great presentation, off course it is. But what we are doing? My dear friends time has come to do something for Education. I strongly believe in collective efforts and collective progress
Angrez sir ki title usi ko dete the Jo unko favour kerta tha...and this great sir had been hijacked by British like Our today's famous Islamic guru icon who is sleeping in the RSS lape and following their wishes
पसमांदा मुस्लिम के लिए इस यूनिवर्सिटी ने आज तक कुछ भी नहीं किया सिर्फ़ बड़ी बिरादरियों के लिए h, sirf सैयद hi। Ka kabja h is University par Har department m , college m badi बिरादरी ke log bethe h Sir Sayed ne sirf asharaf बिरादरी ke liye इस यूनिवर्सिटी को बनाया था सिर्फ़ मुस्लिम नाम रखा है ये सिर्फ बड़ी ऊंची बिरादरी के बच्चों के लिए बनी है आज भी उन्हीं के लिए h ye 😢😢😢😢
I think the best thing about Sir Syed is that he considered the whole of India as one. I pray that the tradition and civilization of this University will always remain.
عمدہ شعر🔥.... !!!
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا ...
Prof saheb आपने बहुत ही खास मुद्दों पर बात की, आप की Guidence बहुत लोगों को रास्ता दिखाएगी, शुक्रिया
मुसलमान का मतलब सिर्फ शेख, सैयद, पठान होता है इनकी आइडियोलॉजी m
Pasmanda , पिछड़ी बिरादरियों के लिए इस यूनिवर्सिटी ने कुछ भी नहीं किया सिर्फ बड़ी बिरादरी के लोगों ने ही आज तक फायदा उठाया है 😢😢 मुसलमान का मतलब सिर्फ बड़ी बिरादरी h inki soch m inki दिमाग m sirf upper muslim caste rehti h
Progressive and Enlightened person. Thankyou Faizan sir .
Color correction and lightings are perfect, good editing and camera work, Keep it up and go ahead.
Always a pleasure listening to his talk
Prof Faizan Mustafa Saheb is a genius and a true representative of Aligarh Movement !
Sir Syed Ki Wirasat Ke Ameen!
One of the best speech on sir syed thank you sir
سلام مسنون دعائیں اے ایم یو پرانے اور نئے طلبہ کو اللہ پاک سے دعا ہے کہ اس ادارے کو اور ترقی نصیب ہو طاھر سھرسا
कुछ बड़ी बिरादरी ही यहां काबिज रही है ये सिर्फ ऊंची बिरादरी के लिए h यहां अशरफ बिरादरीबके बच्चों के लिए दुआ कर रहे हो
प्रोफेसर sb पारसियों ki बात कर रहे है पसमांदा मुस्लिम बिरादरी के बारे m में भी रिसर्च करो 😢😢😢
वेरी नाइस
MASHAALLAH,
THANKS FOR AWARENESS
Sukriya!
One of the gem among gems of the Aligarh ✨❤️
Yes. Undoubtedly, he is.
Background music is distracting the listener and not going well with the serious topic of the speech. Speaker and audience visuals are out of sync.
Very nice production.. go ahead 👍
Awakening speech sir. You are a 💎
Speaker and audience screens are not synchronized at some points.
Excellent speech.
Many thanks!
بہت معذرت کے ساتھ ، پروفیسر فیضان مصطفیٰ صاحب کی گفتگو میں شامل اکثر نکات سے نہ صرف اختلاف بلکہ ان کے بیان کردہ بعض نکات سے برأت اور بیزاری کا اظہار کرنا لازم ہے ، ورنہ دینی علوم و عقائد کے صدق و حق کی باریک گہرائیوں سے ناواقف مسلمانوں کو بڑا دھوکہ ہوسکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ بہتوں کے ایمان کی بھی خیر منانی پڑے ، اللھم ارحمنا و حفظنا من کل ابتلاء الدین والدنیا
یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے نزدیک فیضان مصطفیٰ صاحب بھارت کے آئین قانون کی باریک تر موشگافیوں پر گہری نظر اور گرفت رکھنے والے چند بہترین اسکالرز میں سے ایک ہیں ، بیشک ان کا نام ملک کے چند نامور ماہرین آئین و قانون میں سرفہرست آتا ھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ مؤرخ نہیں ہیں اور نہ ہی قرآن و حدیث کے علوم و قوانین کے ماہر ہیں ، قرآن و سنت کے معارف و حقائق و عقائد کے اسکالر بھی نہیں ہیں ، بایں وجہ اس میدان میں اگر وہ صحیح ڈگر سے ہٹ کر بات کرتے ہیں خواہ علیگڑھ کالج یا علیگڑھ تحریک کے پس منظر میں کریں یا سرسید کے فکر و نظر اور خدمات کے حوالے سے مسگائڈ misguide ہوجائیں ہر اعتبار سے ہم انہیں معذور ہی سمجھتے ہیں' ہمارا خیال ہے کہ موصوف شرعی علوم کی گہرائی سے ناواقف' مگر مسلمانوں کی محبت اور ہمدردی میں خرابئ حالات سے متأثر ہوکر تقریباً ویسا ہی رویہ اختیار کر رہے ہیں جیسا اپنے زمانے میں حکومت و طاقت کی حمایت و حفاظت کے سائے میں عیسائیت کے اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ پر حملوں کے جواب میں اختیار کیا تھا ، سرسید علیہ الرحمہ نے پوری نیک نیتی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کرتے ہوئے خود اسلام کے بعض بنیادی مسائل و عقائد میں معذرت خواہانہ انداز میں عیسائیت کے سامنے سرنڈر کرنے جیسا رویہ اختیار کرکے امت میں ایک ہیجان کی سی کیفیت پیدا کردی تھی ، سرسید کے زمانے میں آج کی طرح اکثریت مسلمان دولتِ دنیا کے اندھے بہرے گونگے غلام نہیں ہوئے تھے ، عام مسلمان اپنے دین کے معاملے میں کافی حساس ہوا کرتے تھے ، عجیب صورت حالات یہ تھی کہ مسلمانوں کی حکومت چھین لینے کے بعد عیسائیت حکومت کی سرپرستی میں اسلام اور مسلمانوں کے ایمان و عقائد پر علمی فکری اعتبار سے بری طرح حملہ آور تھی ( جیسے آج ہندوتوائی مشرکانہ نظام اسلام اور مسلمانوں کے دین و ایمان پر ہر طرف اور ہر طرح سے حملہ آور ہے ) سرسید اسلامی علوم و معارف میں گہرائی اور مہارت نہ ہونے کے سبب ( تمام تر خلوص و محبت کے باوجود ) بعض صریح قرآنی حقائق و معارف سے صرف نظر کرکے عقائد و اصول کے معاملے میں امت کی تیرہ سو سالہ روایت وتاریخ سے انحراف کرگئے تھے ، اگر اس وقت علماء امت سرسید علیہ الرحمہ کی شخصیت کے لحاظ و مروت اور انکی جدید سائنسی تعلیم کی فکری اور عملی جد وجہد کے پیشِ نظر ان کے دینی عقائد و نظریات پر خاموشی اختیار کر جاتے تو یقیناً اس زمانے کے علماء کا ایسا طرز عمل دین میں مداہنت کہلاتا اور برصغیر کی اسلامی و ملی تاریخ میں اس زمانے کے علماء ہمیشہ کے لئے مجرم قرار دئیے جاتے ، شکر ہے سرسید کی عظمت اور جدید تعلیمی خدمات کے اعتراف کے باوجود دینی عقائد و افکار کے معاملے میں اس زمانے کے علماء نے انصاف سے کام لیکر برصغیر کی دینی و ملی تاریخ میں احقاق حق کا ایک ذرین باب رقم کیا ھے ۔
رہی بات سر سید کے مذہبی عقائد و افکار کے متعلق فتویٰ اور ان افکار و عقائد کے ساتھ دین و ملت کی تعلیمی وتربیتی خدمات پر شکوک و شبہات کے شور شرابے کی تو اس معاملے میں تحقیق وانصاف سے کام لینے والا کوئی بھی دانشور مؤرخ آج تک یہ ثابت نہیں کرسکا کہ علماء نے کسی تعصب یا دشمنی کی وجہ سے سرسید کے خلاف فتویٰ جاری کیا تھا ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی عقائد و افکار کے معاملے میں عیسائیت سے مرعوبیت کے کارن سرسید کی بعض صریح اسلامی عقائد سے دست برداری یا خود سپردگی کے رویہ کی وجہ مسلمان برگشتہ ہوگئے تھے اور یہ عمومی خیال بن گیا تھا کہ سرسید کے زیر سرپرستی قائم کالج میں مسلمانوں کے بچے تعلیم وتربیت حاصل کریں گے تو وہ کفر و الحاد اور بد دینی کے شکار ہو کر ایمان و اسلام سے محروم ہو جائیں گے ،
جہاں تک سرسید پر کفر کے فتویٰ کا معاملہ ہے ، اگر وہ از خود علماء کی طرف سے جاری ہوتا تو بھی اس میں دینی و ملی تعلیم و ترقی کے اعتبار سے ہرگز کوئی قباحت نہیں ہوتی ،۔ مگر یہ بھی عجیب وغریب حقیقت ہے کہ فتویٰ از خود علماء نے جاری نہیں کیا تھا ، بلکہ استفتاء (مفتیوں سے لکھ کر سوال کا جواب طلب کرنے ) کے اصل محرک و متحرک خود سرسید کے دو ہم پیشہ دوست ہی تھے ایک تو کانپور کے ڈپٹی مجسٹریٹ مولوی امداد العلی تھے اور دوسرے صاحب بہادر بھی سرسید کی طرح ڈپٹی مجسٹریٹ ہی تھے ، دراصل سارا دھوکہ لفظ مولوی سے دیا گیا ہے ، کیونکہ اس زمانے میں وکیل ، جج ، مجسٹریٹ ، وغیرہ سب کے ناموں کا سابقہ لفظ مولوی ہی لکھا جاتا تھا ، اسی لفظ مولوی کو غلط طریقے سے پیش کرکے بعد کے جدید تعلیم یافتہ غیر محقق یا بہت سے بد دیانت متعصب اور مذہب بیزار دانشوروں نے یا تو قصداً یا بہت سے سادہ لوح محبان سرسید نے اسلام دشمنوں کے پروپیگنڈہ کا شکار ہوکر علماء کو سرسید اور جدید سائنسی تعلیم کے مخالف قرار دیکر متہم کرنے کی مہم شروع کردی جو آج بھی کسی نہ کسی درجہ و صورت میں جاری ھے ، میری خوش گمانی یہ ہے کہ اس مسئلہ پر پروفیسر فیضان مصطفیٰ صاحب بھی حقائق کی منصفانہ تحقیق کئے بغیر اسی پروپیگنڈا کا شکار ہوکر اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں بصورت دیگر آپ خود سمجھ سکتے ہیں' کہ آج مادیت کے آزمائشی حالات میں کیسے کیسے لوگ کیا سے کیا ہوگئے اور مزید ہوئے جا رہے ہیں ۔!!!!!!!!!!!!!
راقم عبدالرحمن عابد مقیم دہلی
30/10/2022
Serious talk but annoying background music. Would be much effective without background music.
Great video
Glad you enjoyed it
Kya hi kahna, maza a gya!!!
Great presentation, off course it is.
But what we are doing? My dear friends time has come to do something for Education.
I strongly believe in collective efforts and collective progress
So nice Faizan sahib
Yeh Lucknow me hua tha?
Yes, it was organized on 18 October at Indira Gandhi Pratisthan, Lucknow.
Yes
पसमांदा मुस्लिम के बारे m रिसर्च करो
उनको भी मौके दो पढ़ने का ,
Masallah
Amu culture I v good 🤩😍🥰🥰😛😋
Aligarh Muslim University na sirf ek azeem daanish-gaah hai, balki ek muqaddas rivayat bhi!
@@TheAligarhNostalgia G bilkul
Super
Strongly disagree with his views
Even I don't agree with all the views of Sir Syed Ahmed Khan
Kisi na kisi topic pe ikhtilaaf hota , Ye toh lazmi hai
He openly supporting uniform civil code that's why I don't like him
Angrez sir ki title usi ko dete the Jo unko favour kerta tha...and this great sir had been hijacked by British like Our today's famous Islamic guru icon who is sleeping in the RSS lape and following their wishes
पसमांदा मुस्लिम के लिए इस यूनिवर्सिटी ने आज तक कुछ भी नहीं किया सिर्फ़ बड़ी बिरादरियों के लिए h, sirf सैयद hi। Ka kabja h is University par
Har department m , college m badi बिरादरी ke log bethe h
Sir Sayed ne sirf asharaf बिरादरी ke liye इस यूनिवर्सिटी को बनाया था सिर्फ़ मुस्लिम नाम रखा है ये सिर्फ बड़ी ऊंची बिरादरी के बच्चों के लिए बनी है आज भी उन्हीं के लिए h ye 😢😢😢😢
Ye यूनिवर्सिट सिर्फ ओर सिर्फ़ अशरफ बिरादरियों के लिए बनी है सैयद, पठान शेख सिद्दीकी मुस्लिम राजपूत, etc mstlab। ऊंची मुस्लिम बिरादरी
सर सैयद अहमद खान पसमांदा मुसलमानों के नेता नहीं है