Mashaallah Bahut khub, Allah Hazrat Maulana Muhammad Ali Mungeri Rh.ki Khidmat ko kubol farmaye, Allah Hazrat ke Qabar ko Noor se Bhar De, Allah Hazrat Maulana Md Minnatullah Rahmani sahab Rh.Aur Hazrat Maulana wali rahmani sahab Rh.ke khidmat ko Qubul farmaye, Allah Hazrat ke Qabar ko Noor se Bhar De
دوسری قسط : علامہ ندوی رحمہ نے اس کتاب کے لکھنے کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں : " اس وقت مسلمان اہل قلم کے بحث و فکر کا عام موضوع اور مؤرخین و مصنفین کے غور و فکر اور بحث و تحقیق کا میدان یہ تھا کہ دنیا میں پیش آنے والے واقعات ، عظیم جنگوں ، سلطنتوں کے سقوط ، یوروپ کی نشاة ثانیہ ، صنعتی انقلاب اور مغربی سامراج سے مسلمانوں پر کیا اثر پڑا اور انہوں نے کیا کھویا اور کیا پایا ؟ گویا مسلمان تاریخ کا کوئی "عامل " نہیں بلکہ " معمول " ہے اور اثر انگیز واقعات اور واقعات و انقلاب زمانہ کا تختہ مشق ہیں ۔ اردو محاورہ کے مطابق وہ خربوزہ کی طرح ہیں کہ وہ چھری پر گرے یا چھری اس پر گرے نقصان بہر حال خربوزہ کا ہوگا ۔ " میرے علم میں ابھی تک کسی نے اس نظریہ کو پلٹ کر اس طرح سے سوچنے اور لکھنے کی منظم علمی اور تاریخی انداز پر کوشش نہیں کی کہ مسلمان تاریخ کا ایک ایکٹر ( Actor) نہیں ، بلکہ ایک طاقتور تاریخی بلکہ تاریخ ساز عامل کی حیثیت رکھتے ہیں . وہ نقال و مقلد نہیں ہیں ۔ اہل مغرب کی سازش اور پروپیگنڈہ سے متآثر ہوکر احساس کمتری کا شکار ہوکر دین کے مسلمات و حقائق کی تاویل کرنے لگے جو باتیں یوروپ کے پیمانہ اخلاق کے مطابق نظر نہیں آئیں ان کو اسلام کے خلاف اور منافی کہنے لگے ۔ مغرب نے یہ اپنی مستقل پالیسی بنالی کہ امہ مسلمہ ان کی دشمن ہے ۔ دنیا میں ہزارو لاکھوں مذاہب اور تہذیبیں ان میں سے کسی کے خلاف عناد و دشمنی ہی نہیں بلکہ بحث و تحقیق کا ایک بہت بڑا اور وسیع باب کھول دیا اور اس کے ذریعہ اسلام کے خلاف خوب زہر افشانی کی گئی ۔ ایسی عالمی صورت حال میں علامہ ندوی رحمہ ایک جرات ایمانی کے ساتھ عالم عرب کے سامنے اپنی یہ کتاب ' ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین ' پیش کیا ۔ علامہ ندوی رحمہ کے نزدیک عصر حاضر کی جاہلیت کی لائی ہوئی مشکلات اور مسائل کا حل صرف یہی ہے کہ عالم انسانیت کی قیادت ایک بار پھر اسلام کے ہاتھوں میں آجائے ، اس لیے وہ اپنی اس کتاب میں مسلمانوں اور مسلم ملکوں کو نصیحت کی کہ وہ اسلامی تعلیمات سے آراستہ ہوکر ایک بار پھر عالم انسانیت کی قیادت و سیادت کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لیں ۔ صحیح منزل کی طرف واپسی ، امید اور نجات کا کوئی راستہ ہے تو وہ یہی ہے کہ مسلمان پھر منصب قیادت پر فائز ہوں اور دنیا کی رہنمائی إسلام کے حصہ میں آئے ۔ علامہ ندوی رحمہ اس کتاب میں مسلمانوں کے زوال کی المناک داستان بیان کی ہے ، اس کے تدریجی ارتقا اور حقیقی اسباب پر روشنی ڈالی ہے ، پھر ترکوں کے میدان قیادت میں آنے اور عالم اسلام کے سنبھلنے کا ذکر کیا ہے ۔ اس کے بعد خود ترکوں میں انحطاط و تنزل شروع ہونے ، اس کے اسباب اور آخر میں اس کے نقطہ عروج میں پہنچ جانے ، اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس کے بعد کتاب کا وہ اہم باب شروع ہوتا ہے ، جس میں یوروپ کے منصب قیادت پر آنے اور دنیا کی زمام کار ہاتھ میں لینے کی تاریخ اور اس کے طبعی اور مادری اسباب کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کے تاریخی پس منظر کو بیان کیا ہے کہ اس نے کیوں اور کس طرح عیسائیت سے انحراف کیا اور خالص مادیت کے راستہ پر چل پڑا ، اس کے تاریخی اسباب و محرکات کا ذکر کیا ہے ۔ یوروپ میں کلیسا اور سائنس کی آویزش ، دین و دنیا کی علیحدگی ، دونوں کے درمیان رقابت اور یوروپ کے اخلاقی زوال اور نئے مادی تصورات و اقدار جو خالص مادی نظریہ ارتقا پر مبنی تھے جس نے پورے انسانی علوم و فنون کو زہر آلود اور اخلاق و روحانیت سے بالکل عاری کردیا ہے ۔ یہ انسان کی اخلاقی اور روحانی تاریخ کا بڑا المناک اور سیاہ باب ہے ۔ اس وقت جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں اس کتاب کو لکھے ہوئے 71 سال گزر چکے ہیں ۔ ہمارے سامنے عالم اسلام ، عالم عرب اور مغرب کے احوال بالکل واضح ہیں کہ عالم انسانیت اس وقت کہاں پہنچ چکی ہے اور امت مسلمہ کی حالت کتنی ناگفتہ بہ ہے ۔ عالم عرب جو علامہ ندوی رحمہ کی دعوت کی جولانگاہ اور ان کی ارزوؤں اور تمناؤں کا مرکز تھا ، آج کس حد تک اسلام سے منحرف ہوچکا ہے اور اس کی قدر و قیمت کا معتقد ہوکر مغرب کی جدید جاہلیت کے آغوش میں جا چکا ہے ۔ مسلم ملکوں کی اکثریت شکست خوردہ ، فریب خوردہ اور مایوس ہوکر بزدل اور خود غرض ہوچکی ہے ۔ ان کی اکثریت اسلامی فکر کے اعتبار سے معطل اور سیکولرزائڈ ہوچکی ہے ۔ استعماری طاقتوں کے مسلم ملکوں سے رخصت ہوجانے کے بعد ان کی فکری استعماریت نہ صرف علی حالہ برقرار رہی بلکہ اب خود نام نہاد مسلم قیادت کے ہاتھوں زیادہ ظلم و جبر کے ساتھ بڑھ رہی ہے ۔ ان حالات کا سب سے زیادہ فائدہ یہودیت کو ہوا ۔ وہ اکیسویں صدی کی دو دہائیوں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ و مامون اور معتبر ہوگئی ہے اور اس کا سب سے بڑا نقصان امہ مسلمہ کو ہوا ہے جس کی قوت ملت کی سطح پر بٹ کر اس کے خلاف ہی استعمال ہونے لگی ۔ مسلم ملکوں کی قیادت نے اپنے عوام کو ظلم و بربریت کے ساتھ کچلنا شروع کردیا اور اپنی قیادت سے نفرت کرنے اور انہیں بیخ و بن سے اکھاڑنے پھینکنے کی جد و جہد کرنے لگی ۔ یہودیت کی جارحانہ پیشقدمی جاری رہی ، اس لیے کی ان کی بالواسطہ( Proxy war) مسلم ملکوں کی قیادتیں لڑ رہی ہیں ۔ ماضی قریب کی تاریخ شاہد ہے کہ مسلم ملکوں میں یہودی اپنی لڑائی اس طرح نہ لڑپاتے جیسی ان کے لیے مسلم قیادت نے لڑی ! امہ مسلمہ نے اس صدی میں تقریبا چھ کروڑ فرزندان کو خاک و خون میں تڑپ تڑپ کر دم توڑتے ہوئے دیکھا ہے لیکن جو چیز اسے سچن سے زیادہ مضطرب کیے ہوئے ہے وہ یہ منظر ہے جو وہ آج دیکھ رہی ہے ۔ پورے عالم اسلام خود فروش اور صیہونی مغربی طاقتوں کے آلہ کار اور گماشتے حکمران کے ہاتھوں اسے دیکھنا پڑ رہا ہے ۔ مسلم ممالک کی قیادت کی یہ روش امہ مسلمہ کی قابلیت اور توانائیون کی بربادی اور ان کے خلاف رد عمل کی طرف لے جارہی ہے ۔ یہ امہ مسلمہ کے قابل اور کار آمد انسانی سرمایہ کو ختم کرنا امہ مخالف کارروائی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ ایسی مجرمانہ حرکتوں کا ارتکاب کرنے والے امہ کے خیرخواہ اور قائدین ہرگز نہیں ہوسکتے! لیکن ان تمام دل شکن اور اسلامی جذبات کو مجروح کرنے والی خون چکاں حالات کے بعد ہم سرزمین افغانستان میں ایک اسلامی ریاست کا قیام اور اسے کام کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ۔ حقیقت یہ کہ علامہ ندوی رحمہ نے اپنی اس شہرہ آفاق تصنیف میں مسلم ملکوں کے حکمرانوں سے یہ کہا تھا کہ وہ قرانی اور اسلامی زندگی اختیار کریں اور اسلامی نظام کو اپنے ملکوں میں نافذ کریں جو محرومی نصیب سے اب تک نہیں ہوسکا تھا لیکن طالبان کی اسلامی فوج نے وہ کام کر دکھایا ۔ علامہ اقبال رحمہ نے عربوں کو مخاطب کرکے کہا تھا : خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے قبا چاہیے اس کو خون عرب سے عرب تو صیہونی مغربی طاقتوں کے غلام اور آلہ کار بن گئے ۔ وہ تیل سے ہونے والی آمدنی سے عیش کوشی کر رہے ہیں :
ماشاءاللہ بہت اچھی پیشکش تھی آپ کی ۔ مگر آپ سے ایک گزارش تھی وہ یہ کہ ہمیں مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ کے اولادوں کا تذکرہ چاہیے ۔ اگر شجرہ ہو تو ارسال فرمائیں ۔☝️
Hazrat Amire shariyat Maulana Md Minnatullah Rahmani sahab Rh.Aur Hazrat Amire shariyat Maulana wali rahmani sahab Rh.ki Khidmat par bhi video banaiye, Mashaallah Bahut khub , Allah Aap ki umar me barkat ata farmaye
مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ کی مشہور زمانہ تصنیف : ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين مسلمانوں کے زوال سے دنیا کو کیا نقصان ہوا سے ہوا ۔ علامہ ندوی رحمہ کا عالم عرب میں تعارف اور مقبولیت ان کی مذکورہ بالا تصنیف سے ہوا 1944 کے زمانہ میں علامہ ندوی رحمہ کے دل میں اس کتاب کے لکھنے کا خیال آیا ، اس وقت ان کی عمر تیس سال سے زائد نہ تھی ، یہ خیال اور اس کا تقاضہ اس قدر ان پر غالب ہوا کہ انہوں اس پر لکھنے کا فیصلہ کرلیا اور عربی زبان میں لکھنے کو ترجیح دی ۔ علامہ ندوی رحمہ عربی زبان و ادب کے ماہر تھے اور عربی میں تحریر و تقریر پر ان کو پوری قدرت اور ید طولی حاصل تھا ۔ وہ عالم عرب کو اسی کی زبان میں مخاطب کرتے تھے ۔ اگر عالم اسلام کا کوئی عالم دین اس زبان میں تحریر و تقریر میں مکمل قدرت نہیں رکھتا ہے تو علماء عرب میں مقبول نہیں ہوسکتا ہے ۔ وہاں کے بڑے بڑے اہل علم و فضل اسے سند قبولیت عطا نہین کریں گے اور اس کے بغیر عالم عرب میں کسی کی شخصیت مستند اور معتبر نہیں ہوسکتی ۔ علامہ ندوی رحمہ کی یہ کتاب پہلی بار قاہرہ ، مصر کے معروف ادارہ ' لجنة التأليف والترجمة والنشر ' قاہرہ سے شائع ہوئی تو بہت مقبول ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی ۔ کیا عوام اور کیا خواص ، کیا شاہی و حکمراں طبقہ اور کیا علماء و مفکرین و مشاہیر عرب سب کو اس اہم ، تاریخی شاہکار تصنیف نے متاثر کیا ، ان کے اندر زندگی کی لہر پیدا کردی اور ان کے اندر جوش و جذبہ اور عزم و حوصلہ پیدا کردیا ۔ انہوں نے اس کتاب کو وقت کی ایک اہم ضرورت ، اور اسلام کی اہمیت وضرورت کو سمجھانے کے لیے ایک قابل قدر اور قابل تحسین کوشش قرار دیا ۔ مصر کے مشہور ادباء اور اہل قلم احمد امین ، ڈاکٹر محمد موسی اور سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے اس کتاب کا مقدمہ لکھا ۔ شیخ احمد الشرباصی نے ' ابوالحسن علی الندوی ' صورة وصفية ' کے عنوان سے علامہ ندوی رحمہ کا بہتر تعارف کرایا ۔ سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ انہوں نے اس موضوع پر جو چند کتابین پڑھی ہین ، ان میں اس کتاب کو خاص مقام حاصل ہے یہ کتاب بڑی مدلل ، مربوط اور حقیقت پسندانہ علمی اسلوب میں لکھی گئی ہے ۔ اس کتاب کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے اس موضوع کو اس کے اصول وکلیات کے وسیع دائرے اور اس کی صحیح روح کے مطابق پوری گہرائی سے سمجھا اور پیش کیا ہے ۔ اس بناء پر یہ کتاب تاریخی ، اجتماعی اور دینی تحقیق کا ایک بہتر اور شاندار نمونہ ہے بلکہ اس کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے اسلامی تاریخ اور اس کی تصویر کو کس طرح دنیا کے پیش کرنا چاہیے " ۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے یہ دکھایا ہے کہ مسلمانوں کے زوال سے عالم انسانی پر کیا منفی اثرات پڑے اور عالم انسانیت کو اس سے کیا نقصانات پہنچے ۔ یہ بہت اہم اور تاریخی نکتہ ہے جس کی اہمیت کو علامہ ندوی رحمہ سمجھا اور اسے بہت ہی مؤثر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ اسلام سے پہلے جب ایک اللہ کے تصور ، اس کی ذات پر ایمان اور صرف اس کی عبادت سے انسانیت منحرف اور نآ آشنا ہوچکی تھی اور ربانی تعلیم و تربیت کو بالکل فراموش کر چکی تھی جس کی وجہ سے دنیا کی تمام قوموں کی مذہبی اخلاقی ، سیاسی ، معاشی اور تمدنی حالات انتہائی خراب اور زبوں حالی کا شکار ہوچکے تھے ۔ اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرانی تعلیمات و تربیت کے ذریعہ جزیرة العرب کے عربوں کو جہالت اور تاریکی سے نکال کر ان کی زندگی کو بالکل بدل کر ان کے اندر قرآنی اخلاق پیدا کردیا ۔ ان کے ایمان و عقیدہ اور افکار و اعمال مین توحید کی اساس پر عظیم الشان انقلاب برپا کردیا ۔ امہ مسلمہ کا مقصد وجود : ساتوین صدی کی پہلی چوتھائی میں جو امہ مسلمہ رسول آخر الزمان کی تعلیم و تربیت سے وجود میں آئی وہ گزشتہ تمام نبوتوں ، رسالتوں اور امتوں کی وارث اور ان کا آخری نقش تھی ۔ ایمان و عقیدہ اور فکر و نظر کے اعتبار سے اللہ جل شانہ کے نزدیک انسانوں کی صحیح اور قابل قبول حالت یہی ہے ۔ یہ امہ جس مقصد اور نصب العین کے لیے نکالی گئی ہے وہ تاریخ کے تمام انبیاء اور پیغمبر آخر الزمان کی بعثت کا اصل مقصد ہے ۔ كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنهون عن المنكر و تؤمنون بالله ... ( آل عمران : ١١٠) تم بہترین امہ ہو جسے لوگوں کی ہدایت کے لیے نکالا گیا ہے ۔ تم معروف کو حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو ۔ امہ مسلمہ کی تعلیم و تربیت مکمل ہونے کی گواہی اللہ جل شانہ نے خود قرآن میں دی ہے کہ وہ اب اس کی قابل ہوگئی ہے کہ اسے عالم انسانیت کی قیادت وسیادت کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ الذين إن مكنهم فى الأرض أقاموا الصلوة و أتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الأمور o ( الحج : ٤١) یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہہں زمین پر اقتدار تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوة دیں گے ، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ یہ اہل ایمان جزیرة العرب سے نکل کر کرہ ارض کے ایک بڑے حصہ میں پھیل گئے اور اسلام کے نور سے دنیا کو منور اور اس کے عدل و مساوات پر مبنی تعلیمات سے روشناس کیا اور انسانی تاریخ میں پہلی بار دنیا کے سامنے جدید اسلامی نظام ( New Islamic Order ) پیش کیا گیا ۔ اللہ کے بندے بندوں کی عبادت اور غلامی سے نکل کر اللہ جل شانہ کی عبودیت اور غلامی میں داخل ہوکر آزاد ہوگئے ۔ ہزاروں سال کی غلامی کے بعد انہیں حقیقی آزادی ملی ۔ تیئیس سالہ نبوت و رحمت کا عہد اور تیس سالہ خلافت راشدہ کے دور نے ایک بالکل نئی دنیا سے عالم انسانیت کو متعارف کرایا ۔ ہوئے احرار ملت جادہ پیما اس تجمل سے تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے انسانی علامہ اقبال رحمہ اسلامی تعلیمات کی وجہ روئے زمین میں ایک ایسی امت پیدا ہوئی جو عالم انسانیت کے لیے نمونہ عمل بن گئی اور ایک زمانہ تک یہ امت عالم انسانیت کی قیادت و سیادت کے مقام پر فائز رہے ۔ لیکن جب یہ امت زوال پذیر ہوئی اور اس کا انحطاط شروع ہوا تو اقوام عالم کی سیادت و قیادت اس کے ہاتھوں سے نکل کر ان مغربی اقوام کے ہاتھوں میں آگئی جو اسلامی تعلیم و تربیت سے محروم و نا آشنا تھے اور جن کا نقطہ نظر مادہ پرستی ، نفس پرستی تھا ، جو فکر آخرت اور اپنے اعمال کی جوابدہی کے تصور سے نا آشنا تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی پرانی جاہلیت نئی شکل و صورت میں جلوہ گر ہوگئی ، اور انسانیت اس فیض اور خیر و برکت سے محروم ہوگئ جو اسلام لے کر آیا تھا ۔ علامہ ندوی رحمہ نے اس کتاب کے لکھنے کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں . جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی nadvilaeeque@gmail.com
دارالعلوم دیوبند افراط وتفریط کا شکار نہیں ہے، بلکہ اعتدال پر قائم ہے، اسلئے ایسے الفاظ استعمال کرنے سے احتیاط کریں، اسلام کی حفاظت کے خاطر اس وقت دارالعلوم دیوبند قائم کرنا بہت ضروری تھا، مثبت انداز میں اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند خالص اسلامی مدرسہ ہے اور علیگڑھ عصری علوم کے لئے مشہور ہے، ندوۃ اسلامی و عصری علوم کے لئے قائم کیا گیا
اللہ تعالیٰ حضرت کو اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے آمین
Good work naqi sahab
ماشاءاللہ بہت خوب
Masha allah molana nadei Bahut acha app ki Umar main barkat atafarme
ماشاءاللہ بہت زبردست واہ مولانا صاحب واہ
Mashaallah Bahut khub, Allah Hazrat Maulana Muhammad Ali Mungeri Rh.ki Khidmat ko kubol farmaye, Allah Hazrat ke Qabar ko Noor se Bhar De, Allah Hazrat Maulana Md Minnatullah Rahmani sahab Rh.Aur Hazrat Maulana wali rahmani sahab Rh.ke khidmat ko Qubul farmaye, Allah Hazrat ke Qabar ko Noor se Bhar De
ماشاءاللہ،بہت خوب
ماشاءاللہ ۔
جزاک اللہ
دوسری قسط :
علامہ ندوی رحمہ نے اس کتاب کے لکھنے کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :
" اس وقت مسلمان اہل قلم کے بحث و فکر کا عام موضوع اور مؤرخین و مصنفین کے غور و فکر اور بحث و تحقیق کا میدان یہ تھا کہ دنیا میں پیش آنے والے واقعات ، عظیم جنگوں ، سلطنتوں کے سقوط ، یوروپ کی نشاة ثانیہ ، صنعتی انقلاب اور مغربی سامراج سے مسلمانوں پر کیا اثر پڑا اور انہوں نے کیا کھویا اور کیا پایا ؟ گویا مسلمان تاریخ کا کوئی "عامل " نہیں بلکہ " معمول " ہے اور اثر انگیز واقعات اور واقعات و انقلاب زمانہ کا تختہ مشق ہیں ۔ اردو محاورہ کے مطابق وہ خربوزہ کی طرح ہیں کہ وہ چھری پر گرے یا چھری اس پر گرے نقصان بہر حال خربوزہ کا ہوگا ۔
" میرے علم میں ابھی تک کسی نے اس نظریہ کو پلٹ کر اس طرح سے سوچنے اور لکھنے کی منظم علمی اور تاریخی انداز پر کوشش نہیں کی کہ مسلمان تاریخ کا ایک ایکٹر ( Actor) نہیں ، بلکہ ایک طاقتور تاریخی بلکہ تاریخ ساز عامل کی حیثیت رکھتے ہیں . وہ نقال و مقلد نہیں ہیں ۔ اہل مغرب کی سازش اور پروپیگنڈہ سے متآثر ہوکر احساس کمتری کا شکار ہوکر دین کے مسلمات و حقائق کی تاویل کرنے لگے
جو باتیں یوروپ کے پیمانہ اخلاق کے مطابق
نظر نہیں آئیں ان کو اسلام کے خلاف اور منافی کہنے لگے ۔
مغرب نے یہ اپنی مستقل پالیسی بنالی کہ امہ مسلمہ ان کی دشمن ہے ۔ دنیا میں ہزارو لاکھوں مذاہب اور تہذیبیں ان میں سے کسی کے خلاف عناد و دشمنی ہی نہیں بلکہ بحث و تحقیق کا ایک بہت بڑا اور وسیع باب کھول دیا
اور اس کے ذریعہ اسلام کے خلاف خوب زہر افشانی کی گئی ۔
ایسی عالمی صورت حال میں علامہ ندوی رحمہ ایک جرات ایمانی کے ساتھ عالم عرب کے سامنے اپنی یہ کتاب ' ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین ' پیش کیا ۔
علامہ ندوی رحمہ کے نزدیک عصر حاضر کی جاہلیت کی لائی ہوئی مشکلات اور مسائل کا حل صرف یہی ہے کہ عالم انسانیت کی قیادت ایک بار پھر اسلام کے ہاتھوں میں آجائے ، اس لیے وہ اپنی اس کتاب میں مسلمانوں اور مسلم ملکوں کو نصیحت کی کہ وہ اسلامی تعلیمات سے آراستہ ہوکر ایک بار پھر عالم انسانیت کی قیادت و سیادت کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لیں ۔ صحیح منزل کی طرف واپسی ، امید اور نجات کا کوئی راستہ ہے تو وہ یہی ہے کہ مسلمان پھر منصب قیادت پر فائز ہوں اور دنیا کی رہنمائی إسلام کے حصہ میں آئے ۔
علامہ ندوی رحمہ اس کتاب میں مسلمانوں کے زوال کی المناک داستان بیان کی ہے ، اس کے تدریجی ارتقا اور حقیقی اسباب پر روشنی ڈالی ہے ، پھر ترکوں کے میدان قیادت میں آنے اور عالم اسلام کے سنبھلنے کا ذکر کیا ہے ۔ اس کے بعد خود ترکوں میں انحطاط و تنزل شروع ہونے ، اس کے اسباب اور آخر میں اس کے نقطہ عروج میں پہنچ جانے ، اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔
اس کے بعد کتاب کا وہ اہم باب شروع ہوتا ہے ، جس میں یوروپ کے منصب قیادت پر آنے اور دنیا کی زمام کار ہاتھ میں لینے کی تاریخ اور اس کے طبعی اور مادری اسباب کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کے تاریخی پس منظر کو بیان کیا ہے کہ اس نے کیوں اور کس طرح عیسائیت سے انحراف کیا اور خالص مادیت کے راستہ پر چل پڑا ، اس کے تاریخی اسباب و محرکات کا ذکر کیا ہے ۔
یوروپ میں کلیسا اور سائنس کی آویزش ، دین و دنیا کی علیحدگی ، دونوں کے درمیان رقابت اور یوروپ کے اخلاقی زوال اور نئے مادی تصورات و اقدار جو خالص مادی نظریہ ارتقا پر مبنی تھے جس نے پورے انسانی علوم و فنون کو زہر آلود اور اخلاق و روحانیت سے بالکل عاری کردیا ہے ۔ یہ انسان کی اخلاقی اور روحانی تاریخ کا بڑا المناک اور سیاہ باب ہے ۔
اس وقت جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں اس کتاب کو لکھے ہوئے 71 سال گزر چکے ہیں ۔ ہمارے سامنے عالم اسلام ، عالم عرب اور مغرب کے احوال بالکل واضح ہیں کہ عالم انسانیت اس وقت کہاں پہنچ چکی ہے اور امت مسلمہ کی حالت کتنی ناگفتہ بہ ہے ۔ عالم عرب جو علامہ ندوی رحمہ کی دعوت کی جولانگاہ اور ان کی ارزوؤں اور تمناؤں کا مرکز تھا ، آج کس حد تک اسلام سے منحرف ہوچکا ہے اور اس کی قدر و قیمت کا معتقد ہوکر مغرب کی جدید جاہلیت کے آغوش میں جا چکا ہے ۔
مسلم ملکوں کی اکثریت شکست خوردہ ، فریب خوردہ اور مایوس ہوکر بزدل اور خود غرض ہوچکی ہے ۔ ان کی اکثریت اسلامی فکر کے اعتبار سے معطل اور سیکولرزائڈ ہوچکی ہے ۔ استعماری طاقتوں کے مسلم ملکوں سے رخصت ہوجانے کے بعد ان کی فکری استعماریت نہ صرف علی حالہ برقرار رہی بلکہ اب خود نام نہاد مسلم قیادت کے ہاتھوں زیادہ ظلم و جبر کے ساتھ بڑھ رہی ہے ۔
ان حالات کا سب سے زیادہ فائدہ یہودیت کو ہوا ۔ وہ اکیسویں صدی کی دو دہائیوں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ و مامون اور معتبر ہوگئی ہے اور اس کا سب سے بڑا نقصان امہ مسلمہ کو ہوا ہے جس کی قوت ملت کی سطح پر بٹ کر اس کے خلاف ہی استعمال ہونے لگی ۔ مسلم ملکوں کی قیادت نے اپنے عوام کو ظلم و بربریت کے ساتھ کچلنا شروع کردیا اور اپنی قیادت سے نفرت کرنے اور انہیں بیخ و بن سے اکھاڑنے پھینکنے کی جد و جہد کرنے لگی ۔
یہودیت کی جارحانہ پیشقدمی جاری رہی ، اس لیے کی ان کی بالواسطہ( Proxy war) مسلم ملکوں کی قیادتیں لڑ رہی ہیں ۔ ماضی قریب کی تاریخ شاہد ہے کہ مسلم ملکوں میں یہودی اپنی لڑائی اس طرح نہ لڑپاتے جیسی ان کے لیے مسلم قیادت نے لڑی !
امہ مسلمہ نے اس صدی میں تقریبا چھ کروڑ فرزندان کو خاک و خون میں تڑپ تڑپ کر دم توڑتے ہوئے دیکھا ہے لیکن جو چیز اسے سچن سے زیادہ مضطرب کیے ہوئے ہے وہ یہ منظر ہے جو وہ آج دیکھ رہی ہے ۔ پورے عالم اسلام خود فروش اور صیہونی مغربی طاقتوں کے آلہ کار اور گماشتے حکمران کے ہاتھوں اسے دیکھنا پڑ رہا ہے ۔
مسلم ممالک کی قیادت کی یہ روش امہ مسلمہ کی قابلیت اور توانائیون کی بربادی اور ان کے خلاف رد عمل کی طرف لے جارہی ہے ۔ یہ امہ مسلمہ کے قابل اور کار آمد انسانی سرمایہ کو ختم کرنا امہ مخالف کارروائی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ ایسی مجرمانہ حرکتوں
کا ارتکاب کرنے والے امہ کے خیرخواہ اور قائدین ہرگز نہیں ہوسکتے!
لیکن ان تمام دل شکن اور اسلامی جذبات کو مجروح کرنے والی خون چکاں حالات کے بعد
ہم سرزمین افغانستان میں ایک اسلامی ریاست کا قیام اور اسے کام کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ۔ حقیقت یہ کہ علامہ ندوی رحمہ نے اپنی اس شہرہ آفاق تصنیف میں مسلم ملکوں کے حکمرانوں سے یہ کہا تھا کہ وہ قرانی اور اسلامی زندگی اختیار کریں اور اسلامی نظام کو اپنے ملکوں میں نافذ کریں جو محرومی نصیب سے اب تک نہیں ہوسکا تھا لیکن طالبان کی اسلامی فوج نے وہ کام کر دکھایا ۔
علامہ اقبال رحمہ نے عربوں کو مخاطب کرکے کہا تھا :
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خون عرب سے
عرب تو صیہونی مغربی طاقتوں کے غلام اور آلہ کار بن گئے ۔ وہ تیل سے ہونے والی آمدنی سے عیش کوشی کر رہے ہیں :
Mashallah
حضرت مولانا سید منت اللہ شاہ رحمانی رحمۃ اللّٰہ علیہ پر بھی وڈیو بناے
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء فی الدارین
Masha Allah
قاضی مجاہد الاسلام رح کی حیات و خدمات پر بھی ایک ویڈیو بنایئے
ماشاءاللہ بہت اچھی پیشکش تھی آپ کی ۔
مگر آپ سے ایک گزارش تھی وہ یہ کہ ہمیں مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ کے اولادوں کا تذکرہ چاہیے ۔ اگر شجرہ ہو تو ارسال فرمائیں ۔☝️
Hazrat Amire shariyat Maulana Md Minnatullah Rahmani sahab Rh.Aur Hazrat Amire shariyat Maulana wali rahmani sahab Rh.ki Khidmat par bhi video banaiye, Mashaallah Bahut khub , Allah Aap ki umar me barkat ata farmaye
Maasah allah bahtreen
مولانا منت اللہ رحمانی صاحب رح پر بھی کویٔ ویڈیو بنا دیجیئے اللہ آپ کو بہتر بدلہ عطاء فرمائے آمین ثم آمین
Aamin summa Aamin
Hazrat Moulana wali Rahmani par BHI
Ji Beshak Aap ne bilkul sahi farmaya
❤❤❤❤❤
❤
👍👍👍
MashaALLAH Mungeri hone par faqar hua
✔️✔️✔️✔️✔️
مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ کی مشہور زمانہ تصنیف :
ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين
مسلمانوں کے زوال سے دنیا کو کیا نقصان ہوا
سے ہوا ۔
علامہ ندوی رحمہ کا عالم عرب میں تعارف اور مقبولیت ان کی مذکورہ بالا تصنیف سے ہوا
1944 کے زمانہ میں علامہ ندوی رحمہ کے دل میں اس کتاب کے لکھنے کا خیال آیا ، اس وقت ان کی عمر تیس سال سے زائد نہ تھی ، یہ خیال اور اس کا تقاضہ اس قدر ان پر غالب ہوا کہ انہوں اس پر لکھنے کا فیصلہ کرلیا اور عربی زبان میں لکھنے کو ترجیح دی ۔
علامہ ندوی رحمہ عربی زبان و ادب کے ماہر تھے اور عربی میں تحریر و تقریر پر ان کو پوری قدرت اور ید طولی حاصل تھا ۔ وہ عالم عرب کو اسی کی زبان میں مخاطب کرتے تھے ۔ اگر عالم اسلام کا کوئی عالم دین اس زبان میں تحریر و تقریر میں مکمل قدرت نہیں رکھتا ہے تو علماء عرب میں مقبول نہیں ہوسکتا ہے ۔ وہاں کے بڑے بڑے اہل علم و فضل اسے سند قبولیت عطا نہین کریں گے اور اس کے بغیر عالم عرب میں کسی کی شخصیت مستند اور معتبر نہیں ہوسکتی ۔
علامہ ندوی رحمہ کی یہ کتاب پہلی بار قاہرہ ، مصر کے معروف ادارہ ' لجنة التأليف والترجمة والنشر ' قاہرہ سے شائع ہوئی تو بہت مقبول ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی ۔ کیا عوام اور کیا خواص ، کیا شاہی و حکمراں طبقہ اور کیا علماء و مفکرین و مشاہیر عرب سب کو اس اہم ، تاریخی شاہکار تصنیف نے متاثر کیا ، ان کے اندر زندگی کی لہر پیدا کردی اور ان کے اندر جوش و جذبہ اور عزم و حوصلہ پیدا کردیا ۔ انہوں نے اس کتاب کو وقت کی ایک اہم ضرورت ، اور اسلام کی اہمیت وضرورت کو سمجھانے کے لیے ایک قابل قدر اور قابل تحسین کوشش قرار دیا ۔
مصر کے مشہور ادباء اور اہل قلم احمد امین ، ڈاکٹر محمد موسی اور سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے اس کتاب کا مقدمہ لکھا ۔ شیخ احمد الشرباصی نے ' ابوالحسن علی الندوی
' صورة وصفية ' کے عنوان سے علامہ ندوی رحمہ کا بہتر تعارف کرایا ۔
سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ انہوں نے اس موضوع پر جو چند کتابین پڑھی ہین ، ان میں اس کتاب کو خاص مقام حاصل ہے یہ کتاب بڑی مدلل ، مربوط اور حقیقت پسندانہ علمی اسلوب میں لکھی گئی ہے ۔ اس کتاب کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے اس موضوع کو اس کے اصول وکلیات کے وسیع دائرے اور اس کی صحیح روح کے مطابق پوری گہرائی سے سمجھا اور پیش کیا ہے ۔ اس بناء پر یہ کتاب تاریخی ، اجتماعی اور دینی تحقیق کا ایک بہتر اور شاندار نمونہ ہے بلکہ اس کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے اسلامی تاریخ اور اس کی تصویر کو کس طرح دنیا کے پیش کرنا چاہیے " ۔
اس کتاب میں فاضل مصنف نے یہ دکھایا ہے کہ مسلمانوں کے زوال سے عالم انسانی پر کیا منفی اثرات پڑے اور عالم انسانیت کو اس سے کیا نقصانات پہنچے ۔ یہ بہت اہم اور تاریخی نکتہ ہے جس کی اہمیت کو علامہ ندوی رحمہ سمجھا اور اسے بہت ہی مؤثر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا ۔
اسلام سے پہلے جب ایک اللہ کے تصور ، اس کی ذات پر ایمان اور صرف اس کی عبادت سے انسانیت منحرف اور نآ آشنا ہوچکی تھی اور ربانی تعلیم و تربیت کو بالکل فراموش کر چکی تھی جس کی وجہ سے دنیا کی تمام قوموں کی مذہبی اخلاقی ، سیاسی ، معاشی اور تمدنی حالات انتہائی خراب اور زبوں حالی کا شکار ہوچکے تھے ۔ اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرانی تعلیمات و تربیت کے ذریعہ جزیرة العرب کے عربوں کو جہالت اور تاریکی سے نکال کر ان کی زندگی کو بالکل بدل کر ان کے اندر قرآنی اخلاق پیدا کردیا ۔ ان کے ایمان و عقیدہ اور افکار و اعمال مین توحید کی اساس پر عظیم الشان انقلاب برپا کردیا ۔
امہ مسلمہ کا مقصد وجود :
ساتوین صدی کی پہلی چوتھائی میں جو امہ مسلمہ رسول آخر الزمان کی تعلیم و تربیت سے وجود میں آئی وہ گزشتہ تمام نبوتوں ، رسالتوں اور امتوں کی وارث اور ان کا آخری نقش تھی ۔ ایمان و عقیدہ اور فکر و نظر کے اعتبار سے اللہ جل شانہ کے نزدیک انسانوں کی صحیح اور قابل قبول حالت یہی ہے ۔ یہ امہ جس مقصد اور نصب العین کے لیے نکالی گئی ہے وہ تاریخ کے تمام انبیاء اور پیغمبر آخر الزمان کی بعثت کا اصل مقصد ہے ۔
كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنهون عن المنكر و تؤمنون بالله ...
( آل عمران : ١١٠)
تم بہترین امہ ہو جسے لوگوں کی ہدایت کے لیے نکالا گیا ہے ۔ تم معروف کو حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو ۔
امہ مسلمہ کی تعلیم و تربیت مکمل ہونے کی گواہی اللہ جل شانہ نے خود قرآن میں دی ہے کہ وہ اب اس کی قابل ہوگئی ہے کہ اسے عالم انسانیت کی قیادت وسیادت کی ذمہ داری سونپی گئی ۔
الذين إن مكنهم فى الأرض أقاموا الصلوة و أتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الأمور o ( الحج : ٤١)
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہہں زمین پر اقتدار تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوة دیں گے ، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔
اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ یہ اہل ایمان جزیرة العرب سے نکل کر کرہ ارض کے ایک بڑے حصہ میں پھیل گئے اور اسلام کے نور سے دنیا کو منور اور اس کے عدل و مساوات پر مبنی تعلیمات سے روشناس کیا اور انسانی تاریخ میں پہلی بار دنیا کے سامنے جدید اسلامی نظام ( New Islamic Order )
پیش کیا گیا ۔
اللہ کے بندے بندوں کی عبادت اور غلامی سے نکل کر اللہ جل شانہ کی عبودیت اور غلامی میں داخل ہوکر آزاد ہوگئے ۔ ہزاروں سال کی غلامی کے بعد انہیں حقیقی آزادی ملی ۔ تیئیس سالہ نبوت و رحمت کا عہد اور تیس سالہ خلافت راشدہ کے دور نے ایک بالکل نئی دنیا سے عالم انسانیت کو متعارف کرایا ۔
ہوئے احرار ملت جادہ پیما اس تجمل سے
تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے انسانی
علامہ اقبال رحمہ
اسلامی تعلیمات کی وجہ روئے زمین میں ایک ایسی امت پیدا ہوئی جو عالم انسانیت کے لیے نمونہ عمل بن گئی اور ایک زمانہ تک یہ امت عالم انسانیت کی قیادت و سیادت کے مقام پر فائز رہے ۔
لیکن جب یہ امت زوال پذیر ہوئی اور اس کا انحطاط شروع ہوا تو اقوام عالم کی سیادت و قیادت اس کے ہاتھوں سے نکل کر ان مغربی اقوام کے ہاتھوں میں آگئی جو اسلامی تعلیم و تربیت سے محروم و نا آشنا تھے اور جن کا نقطہ نظر مادہ پرستی ، نفس پرستی تھا ، جو فکر آخرت اور اپنے اعمال کی جوابدہی کے تصور سے نا آشنا تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی پرانی جاہلیت نئی شکل و صورت میں جلوہ گر ہوگئی ، اور انسانیت اس فیض اور خیر و برکت سے محروم ہوگئ جو اسلام لے کر آیا تھا ۔
علامہ ندوی رحمہ نے اس کتاب کے لکھنے کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں .
جاری
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
nadvilaeeque@gmail.com
کسی پر بائیو گرافی کس طرح بناتے ہیں اس کی ایڈیٹنگ کس طرح کرتے ہیں اس سلسلے میں کچھ رہنمائی فرمائیں
مولانا ہوش میں بولا کیجیے۔۔۔۔دیوبند افراط۔۔۔۔
💔💔💔💔💔💔
AAPL dadhi kyon nahi rakhte
دارالعلوم دیوبند افراط وتفریط کا شکار نہیں ہے، بلکہ اعتدال پر قائم ہے، اسلئے ایسے الفاظ استعمال کرنے سے احتیاط کریں، اسلام کی حفاظت کے خاطر اس وقت دارالعلوم دیوبند قائم کرنا بہت ضروری تھا، مثبت انداز میں اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند خالص اسلامی مدرسہ ہے اور علیگڑھ عصری علوم کے لئے مشہور ہے، ندوۃ اسلامی و عصری علوم کے لئے قائم کیا گیا
ڈاڑھی تو رکھو
ماشاءاللہ بہت خوب
Masha Allah