*یک شبہ اور غلط فہمی کا ازالہ* ایک صاحب کا سوال :- دارالعلوم دیوبند کو حق و باطل واضح ہونے کے باوجود، دعوت وتبلیغ کو ہمارے قائم کردہ محنت ماننے کے پھر بھی کہتا ہے کہ ہمیں امارت اور شوری سے کوئی تعلق نہیں ہے اگر دیوبند فیصلہ کن بات واضح کردیں تو سارا جھگڑا ہی ختم ہو جائے گا، آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس بارے میں وضاحت فرمایئے جزاک اللہ جواب:- *(دیکھۓ بات بہت آسان ہے لیکن تھوڑی سمجھنے کی ضرورت ہے*) *دارالعلوم دیوبند کا یہ کہنا کہ...* *دعوت وتبلیغ اکابرِ دارالعلوم دیوبند کی قائم کردہ جماعت ہے* *اس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت وتبلیغ اور دارالعلوم دیوبند دونوں کا مسلک و مشرب اور فکر و سوچ ایک ہی ہے۔* *اور دارالعلوم دیوبند کا یہ کہنا کہ ہمارا شوریٰ اور امارت والوں کے ساتھ کیا تعلق؟* *دارالعلوم دیوبند ان دونوں سے برابر کا فاصلہ بنائے رکھا ہے* *یہ ان کے داخلی اختلاف یعنی طریقہ کار کے متعلق ہے* *دعوت وتبلیغ دارالعلوم دیوبند کے مسلک و مشرب کے پابند ہے* *اگر دعوت وتبلیغ والے خواہ وہ شوریٰ والے ہو یا امارت والے* *دارالعلوم دیوبند کے مسلک سے ہٹنے لگیں تو دارالعلوم دیوبند ان کا تعاقب کرے گا جیسا کہ مولانا سعد صاحب کا کیا۔* *دارالعلوم دیوبند نے منصفانہ و معتدلانہ موقف واضح کردیا* *اور اپنا دینی فریضہ ادا کرچکا ہے کہ* *ایک شخص کے غلط افکار و نظریات کی وجہ سے پوری جماعت کو غلط یا گمراہ کہنا صحیح نہیں ہے،ان کی اصلاح کی بھر پور کوشش کریں اگر ان پر فوراً قدغن نہ لگائی گئی تو خطرہ ہے کہ آگے چل کر جماعت تبلیغ سے وابستہ امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو کر فرقہ ضالہ کی شکل اختیار کر لے، اور ان کے اجتہادات سے ایسا لگتا ہے کہ خدا نہ خواستہ کسی ایسی جدید جماعت کی تشکیل کے در پے ہیں جو اہل سنت والجماعت کے مسلک سے مختلف ہوگی۔* کچھ مزید وضاحت👇🏻 *در اصل اختلاف کی ایک ہی قسم ہے مولانا سعد صاحب کی ضد نے اختلاف کو دو قسموں میں منقسم کر دیا* *١) نہج،مسلک و مشرب،فکرو سوچ کا اختلاف* *٢) داخلی اختلاف (یعنی کام شوریٰ کی شکل میں کریں یا امارت)* *(شوریٰ والوں کا کہنا ہے کہ امارت کی شکل میں کام کرنے کی وجہ سے نہج،مسلک ، فکر و سوچ بدل رہی ہے اسی خطرہ کو محسوس کرکے انعام الحسن صاحب کے دور میں شوریٰ بنائی گئی گی اور اسی شکل میں کام پھلتا پھولتا رہا لیکن مولانا سعد صاحب نے دوبارہ امارت پے کام لایا* *جس کی وجہ سے ائمہ ثلاثہ کا نہج تو بدل گیا نیز مسلک بھی بدلنے لگا* *روز اول سے اس کام کی تین خصوصیات تھیں* *١) اجتماعیت قلوب* *٢) اتحاد فکر* *٣) وحدت کلمہ* *اب یہ تینوں ٹوٹ رہی ہے اس لیے شوری سے کام کرو نہج بھی محفوظ اؤر مسلک بھی محفوظ.)* *گویا شوریٰ والوں کے یہاں اختلاف کی ایک ہی قسم ہے* احقر شرف الدین عفی عنہ
Jazakallah
We need much scholars to deliver such type of bayan.
JazakAllah
MashaAllah
Masha Allah Good 👍👍👍👍 sir
*یک شبہ اور غلط فہمی کا ازالہ*
ایک صاحب کا سوال :-
دارالعلوم دیوبند کو حق و باطل واضح ہونے کے باوجود، دعوت وتبلیغ کو ہمارے قائم کردہ محنت ماننے کے پھر بھی کہتا ہے کہ ہمیں امارت اور شوری سے کوئی تعلق نہیں ہے اگر دیوبند فیصلہ کن بات واضح کردیں تو سارا جھگڑا ہی ختم ہو جائے گا، آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس بارے میں وضاحت فرمایئے جزاک اللہ
جواب:-
*(دیکھۓ بات بہت آسان ہے لیکن تھوڑی سمجھنے کی ضرورت ہے*)
*دارالعلوم دیوبند کا یہ کہنا کہ...*
*دعوت وتبلیغ اکابرِ دارالعلوم دیوبند کی قائم کردہ جماعت ہے*
*اس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت وتبلیغ اور دارالعلوم دیوبند دونوں کا مسلک و مشرب اور فکر و سوچ ایک ہی ہے۔*
*اور دارالعلوم دیوبند کا یہ کہنا کہ ہمارا شوریٰ اور امارت والوں کے ساتھ کیا تعلق؟*
*دارالعلوم دیوبند ان دونوں سے برابر کا فاصلہ بنائے رکھا ہے*
*یہ ان کے داخلی اختلاف یعنی طریقہ کار کے متعلق ہے*
*دعوت وتبلیغ دارالعلوم دیوبند کے مسلک و مشرب کے پابند ہے*
*اگر دعوت وتبلیغ والے خواہ وہ شوریٰ والے ہو یا امارت والے*
*دارالعلوم دیوبند کے مسلک سے ہٹنے لگیں تو دارالعلوم دیوبند ان کا تعاقب کرے گا جیسا کہ مولانا سعد صاحب کا کیا۔*
*دارالعلوم دیوبند نے منصفانہ و معتدلانہ موقف واضح کردیا*
*اور اپنا دینی فریضہ ادا کرچکا ہے کہ*
*ایک شخص کے غلط افکار و نظریات کی وجہ سے پوری جماعت کو غلط یا گمراہ کہنا صحیح نہیں ہے،ان کی اصلاح کی بھر پور کوشش کریں اگر ان پر فوراً قدغن نہ لگائی گئی تو خطرہ ہے کہ آگے چل کر جماعت تبلیغ سے وابستہ امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو کر فرقہ ضالہ کی شکل اختیار کر لے، اور ان کے اجتہادات سے ایسا لگتا ہے کہ خدا نہ خواستہ کسی ایسی جدید جماعت کی تشکیل کے در پے ہیں جو اہل سنت والجماعت کے مسلک سے مختلف ہوگی۔*
کچھ مزید وضاحت👇🏻
*در اصل اختلاف کی ایک ہی قسم ہے مولانا سعد صاحب کی ضد نے اختلاف کو دو قسموں میں منقسم کر دیا*
*١) نہج،مسلک و مشرب،فکرو سوچ کا اختلاف*
*٢) داخلی اختلاف (یعنی کام شوریٰ کی شکل میں کریں یا امارت)*
*(شوریٰ والوں کا کہنا ہے کہ امارت کی شکل میں کام کرنے کی وجہ سے نہج،مسلک ، فکر و سوچ بدل رہی ہے اسی خطرہ کو محسوس کرکے انعام الحسن صاحب کے دور میں شوریٰ بنائی گئی گی اور اسی شکل میں کام پھلتا پھولتا رہا لیکن مولانا سعد صاحب نے دوبارہ امارت پے کام لایا*
*جس کی وجہ سے ائمہ ثلاثہ کا نہج تو بدل گیا نیز مسلک بھی بدلنے لگا*
*روز اول سے اس کام کی تین خصوصیات تھیں*
*١) اجتماعیت قلوب*
*٢) اتحاد فکر*
*٣) وحدت کلمہ*
*اب یہ تینوں ٹوٹ رہی ہے اس لیے شوری سے کام کرو نہج بھی محفوظ اؤر مسلک بھی محفوظ.)*
*گویا شوریٰ والوں کے یہاں اختلاف کی ایک ہی قسم ہے*
احقر شرف الدین عفی عنہ
Ye toh solapur ka hy nah
Nahi malegao ka hai
Abhi haji saab solapur me hy 3 din ki jamaat me
FITNAH-E-KHABEESAH AALAMI SHURAA PAKISTAN
سعدیانی پلید فکر کا حامل ہوتا ہے ۔