नाम नीहांद (कथित) अहले हदीस उर्फ अपनी मनपसंद हदीस उर्फ वहाबी उर्फ़ मुहम्मदी उर्फ गैर मुकल्लिदीन उर्फ विक्टोरियन उर्फ सल्फी गुस्ताख ग़ुमराह जमात का मुंह भर के दावा है "दीन दलील के साथ है "लेकिन इमान के बाद दीन का अहम रुकन नमाज़ का मुकम्मल सुन्नत तरीका बिला किसी फीकह की पनाह के कुर्आन ओर हदीस की दलाइल के साथ क़यामत की सुबह तक नही बता सकते।
قاری خلیل الرحمٰن جاوید جواب دو! 1) جب حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ایک مجلس کی تین طلاقوں پر تین طلاق شمار کئے جانے کا فیصلہ دیا جس پر باقی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اتفاق کر کے اس کو اجماع کی صورت بنا دیا اور پھر بعد کے خلفاء نے اس کو برقرار بھی رکھا، تو پھر تمھارا نام نہاد اہل حدیث فرقہ کیوں اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا ہے اور روافض کی طرز پر ایک مجلس کی تین طلاقوں پر ایک طلاق کا فتویٰ دیتا ہے؟ 2) اس کے باوجود تمھارا نام نہاد اہل حدیث فرقہ سلف صالحین کی اتباع کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، کیا خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سلف صالحین میں شامل نہیں ہیں؟
Musnad Ahmed Hadees # 7157 (۷۱۵۷)۔عَنْ عِکْرِمَۃَ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ طَلَّقَ رُکَانَۃُ بْنُ عَبْدِ یَزِیدَ أَخُو الْمُطَّلِبِ امْرَأَتَہُ ثَلَاثًا فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ فَحَزِنَ عَلَیْہَا حُزْنًا شَدِیدًا، قَالَ فَسَأَلَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((کَیْفَ طَلَّقْتَہَا؟)) قَالَ: طَلَّقْتُہَا ثَلَاثًا، قَالَ فَقَالَ: ((فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ۔)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ((فَإِنَّمَا تِلْکَ وَاحِدَۃٌ فَارْجِعْہَا إِنْ شِئْتَ۔)) قَالَ: فَرَجَعَہَا فَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَرٰی أَنَّمَا الطَّلَاقُ عِنْدَ کُلِّ طُہْرٍِِِِ۔ (مسند احمد: ۲۳۸۷) ۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بنو مطلب والے سیدنا رکانہ بن یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں اور پھر بہت سخت غمگین ہوئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم نے کس طرح طلاق دی ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے اس کو تین طلاقیں دے دی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک ہی مجلس میں۔ انھوں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو پھر یہ تو ایک ہی ہے، اگر رجوع کرنا چاہتے ہوتو کر لو۔ پس انھوں نے رجوع کر لیا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماکی رائے تھی کہ طلاق ہر طہر میں دی جائے۔ Sahi Hadees آپ کی کھوپڑی میں جو گندا دماغ ہے یہ حدیث سن کر اسکا علاج ہو جائے گا۔ اسکے علاوہ مقلد اندھا ہوتا ہے۔
@@mohammadyousuf2721 آپ کی کھوپڑی میں جو رفض ہے وہ دور نہیں ہوگا کیونکہ دور کرنا ہی نہیں ہے۔ اسی لئے آپ کا نیم رافضی فرقہ اہلحدیث "ما أنا عليه و أصحابي" پر آ ہی نہیں سکتا ہے۔ آپ کی پیش کی گئی حدیث "صحیح حدیث" نا ہی حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو معلوم تھی اور نا ہی حضرت عثمان، علی، معاویہ و دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو، اور آج آپ کے انگریزی میڈ نیم رافضی فرقہ اہلحدیث کو حدیث بھی مل گئی اور وہ بھی "صحیح"، سبحان اللہ، ماشاءاللہ، یعنی سب صحابہ کرام بشمول خلفاء راشدین غلط بات پر متفق ہوگئے اور انہیں شریعت کا حکم معلوم ہی نہیں تھا اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے غلط فیصلہ کو باقی خلفاء نے بھی اپنے اپنے دور خلافت میں نافذ کیا (العیاذ باللہ)۔ بعینہ یہ وہی عقیدہ ہے صحابہ کرام اور بالخصوص خلفاء راشدین کے بارے میں جو روافض رکھتے ہیں، ہم آپ کے انگریزی میڈ فرقہ اہلحدیث کو کافر نہیں کہتے اس لئے نیم رافضی فرقہ اہلحدیث کہتے ہیں۔ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین دین اسلام کو نبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم سے براہ راست سیکھنے والے ہیں اور وہ خوب جانتے ہیں کہ شریعت مطہرہ کا کون سا حکم پہلے زمانے کا ہے اور کون سا بعد کے زمانے کا اور وہ بعد کے احکام کے مطابق فتویٰ اور فیصلہ دیتے تھے۔ لہذا حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین گمراہ نہیں ہوگئےتھے ایک مجلس کی تین طلاقوں پر تین طلاق کا حکم دیکر بلکہ یہی وہ جدید حکم تھا جو پایا تھا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے نبی پاک صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم سے۔ بھائی اپنے ایمان کی خیر مناؤ، آپ لوگ صحابہ کرام اور خلفاء راشدین کو گمراہ مانتے ہو!
صحیح مسلم میں ہے : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ " حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہيں کہ ''رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں اور حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دیتا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھیں ۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ لوگوں نے اس کام میں جلدی کرنا شروع کردی، جس میں اُنہیں مہلت ملی تھی۔ تو اگر اس کو ہم نافذ کردیں (تو از راہ تعزیر مناسب ہے)۔ پھر اُنہوں نے اسے جاری کردیا۔ اس روایت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں :فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ ۔تو اگر اس کو ہم ان (عجلت کرنے والوں) پر نافذ کردیں ۔۔یعنی :: فلو أمضيناه عليهم لما فعلوا ذلك الاستعجال‘‘ ان الفاظ سے واضح ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ سیاسی اور انتظامی نوعیت کا تھا ،نہ کہ شرعی حکم کا ناسخ ، تین طلاقوں کے تین شمار ہونے پر اجماع کا دعویٰ تو بالکل خلافِ حقیقت ہے ، لیکن اس کے برعکس تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے والے حضرات کا اپنے موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنا بالکل برمحل اور برحق ہے، کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی مذکور حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دو یا تین سال تک تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں ۔ مسلم شریف کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ 15ہجری تک صحابہ کرامؓ میں ایک صحابیؓ بھی ایسا نہ تھا جس نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہو، تمام صحابہ کرامؓ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق شمار کرتے تھے۔ اس لئے طلاقِ ثلاثہ کو ایک طلاق قراردینے والے اپنے اس موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں ۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ''فنحن أحق بدعوی الإجماع منکم لأنه لایعرف في عھد الصدیق أحد ردّ ذلك ولا خالفه فإن کان إجماع فھومن جانبنا أظھر ممن یدعیه من نصف خلافة عمر وھلمّ جرا فإنه لم یزل الاختلاف فیھا قائما'' '' طلاق ثلاثہ کو ایک بنانے والے حضرات تین بنانے والوں سے بڑھ کر اجماع کا دعویٰ کرنے کا حق رکھتے ہیں او ر ہمارے موقف پر اجماع کا پایا جانا زیادہ واضح ہے، جبکہ حضرت عمرؓ کے نصف دور میں تین طلاقوں کو تین قرار دینے سے لے کر اب تک اس مسئلہ مں اختلاف چلا آرہا ہے۔''(.إغاثة اللھفان:1؍289 ) رابعاً ... اجماع کا دعویٰ کرنے والوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ جب سے حضرت عمرؓ نے تین طلاقوں کو تین قرار دینے کا حکم دیاہے، تب سے اس پر اتفاق ہوگیا ہے۔ لہٰذا اس کی مخالفت جائز نہیں ہے۔جبکہ صورتِ حال یہ ہے کہ خود حضرت عمرؓ نے اپنے اس فیصلے کو ترک کردیاتھا اور ایک مجلس میں تین طلاق کے وقوع کا جو حکم انہوں نے جاری کیا تھا، اس سے رجوع فرما لیا اور اس پر ندامت کا اظہار کیاتھا، جیسا کہ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ إغاثة اللھفان میں فرماتے ہیں : ''قال الحافظ أبوبکر الإسماعیلي في مسند عمر أخبرنا أبو یعلی حدثنا صالح بن مالك حدثنا خالد بن یزید بن أبي مالك عن أبیه قال قال عمر بن الخطاب: ما ندمت علی شيء ندامتي علی ثلاث أن لا أکون حرمت الطلاق وعلی أن لا أکون أنکحت الموالي وعلی أن لا أکون قتلت النوائح''(.إغاثة اللھفان: ج1؍ ص336 ) ''حضرت عمرؓ نے فرمایا جو ندامت مجھے تین کاموں پر ہوئی ہے وہ کسی اور کام پر نہیں ہوئی: ایک یہ کہ میں تین طلاقوں کو طلاقِ تحریم نہ بناتا، دوسرا یہ کہ غلاموں کو نکاح کرنے کا حکم صادر نہ کرتا، اور تیسرا یہ کہ نوحہ کرنے والیوں کو قتل کرنے کا حکم نہ دیتا۔'' اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے جو تین طلاقوں کے تین ہونے کا حکم دیا تھا، وہ شرعی حکم نہ تھا بلکہ تعزیری اور وقتی آرڈیننس تھا، جو یکبار تین طلاقیں دینے والوں کے لئے سزا کے طور پر نافذ کیا تھا۔ جب دیکھا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ لوگوں کا یکبارگی طلاقیں دینے کا فساد اوربڑھا ہے تو آپؓ نے اس ذاتی فیصلے سے رجوع فرما لیا، اور اس پر ندامت کا اظہار بھی کیا۔ تو دیکھئے جب حضرت عمرؓ ہی اپنے اس فیصلے پر ندامت کااظہار فرماچکے ہیں تو اب اسے بنیاد بنا کر اجماع کا دعویٰ کیسے کیاجاسکتا ہے؟ بعض لوگوں نے مسند ِعمرؓ کے اس اثر پر یہ اعتراض کیاہے کہ اس کی سند میں خالد بن یزید بن ابی مالک راوی ضعیف ہے، اس لئے یہ ناقابل اعتبار ہے۔ اگرچہ بعض علما نے اس راوی پر جرح کی ہے لیکن کبارائمہ مثلاً ولیدبن مسلم، عبداللہ بن مبارک، سلیمان بن عبدالرحمن، ہشام بن عمار، ہشام بن خالد، سوید بن سعید، ابوزرعہ اور ابن صالح وغیرہ نے اس راوی کو ثقہ اور قابل اعتماد قرار دیا ہے۔ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اسے فقہاے شام میں شمار کیا ہے او ریہ بھی کہاہے کہ یہ صدوق في الروایة ہے۔ عجلی نے بھی اسے ثقہ کہا ہے۔ ( تهذیب التهذیب: ج3 ص126)
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ سورۃ البقرہ : 229 یہ طلاقیں دو مرتبہ (١) ہیں پھر یا تو اچھائی سے روکنا (٢) یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا (٣) اور تمہیں حلال نہیں تم نے انہیں جو دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو اس لئے اگر تمہیں ڈر ہو کہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے، اس پر دونوں پر گناہ نہیں (٤) یہ اللہ کی حدود ہیں خبردار ان سے آگے نہیں بڑھنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کر جائیں وہ ظالم ہیں۔ 321: زمانہ جاہلیت اور ابتدائے اسلام میں دستور تھا کہ لوگ اپنی بیویوں کو بغیر تجدید عدد طلاق دیتے رہتے تھے، ایک طلاق کی مدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلیتے تھے، اور پھر طلاق دے دیتے تھے، اور مقصود عورتوں کو نقصان پہنچانا ہوتا تھا، اس ظالمانہ فعل سے بہت سی عورتوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی تھی۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نہ تجھے الگ ہونے دوں گا اور نہ ہی تجھے پناہ دوں گا، عورت نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو اس نے کہا کہ میں تجھے طلاق دوں گا، اور ہر بار عدت گذرنے سے پہلے تمہیں رجوع کرلوں گا، وہ عورت حضرت عائشہ (رض) کے پاس گئی اور انہیں یہ بات سنائی، تو عائشہ خاموش رہیں، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو انہیں ماجرا سنایا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی کہ شوہر دو بار طلاق دینے کے بعد یا تو رجوع کرے گا، یا تیسری طلاق دے دے گا، اس کے بعد عورت جہاں چاہے گی، اور جس سے چاہے گی شادی کرلے گی، اب شوہر کو مزید طلاق ورجوع کا حق نہیں ہوگا۔ فائدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہ حکم بیان فرمایا ہے کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو اسے ایک طہر میں ایک طلاق دینی چاہئے، اس کے بعد اگر رجوع نہیں کرتا ہے تو پھر دوسرے طہر میں دوسری طلاق دینی چاہئے۔ آیت سے یہ بات ہرگز سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر کوئی شخص ایک ہی بار دو طلاق دے دے تو دونوں واقع ہوجائے گی، دوسری طلاق کے بعد اگر چاہے تو عدت گذرنے سے پہلے رجوع کرلے، ورنہ تیسری طلاق دے کر ہمیشہ کے لیے رشتہ ازدواج کو ختم کرلے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ زن و شوہر کا رشتہ ازدواج الفت و محبت کی فضا میں ہمیشہ کے لیے استوار رہے، اور اگر کوئی عارضی اختلاف پیدا ہوجائے تو اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے تین طلاقوں کی مہلت دی ہے، تاکہ انسان کو بار سوچنے کا موقع ملے، اور عارضی ناراضگی ختم ہوجائے، اور شوہر اپنی بیوی کو رجوع کرلے، اگر ایک ہی طلاق رجعت سے مانع ہوتی، تو یہ عظیم مصلحت مفقود ہوجاتی اور بہت سے خاندان تباہ ہوجاتے، اور سوسائٹی میں ایسی خرابیاں پیدا ہوجاتیں جن کا تدارک ناممکن ہوگا۔ اسی طرح اگر ایک ہی مرتبہ کی تین طلاقیں یا ایک مجلس کی تین طلاقیں نافذ کردی جائیں تو وہی خرابیاں پیدا ہوں گی جن سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تین طلاقیں الگ الگ طہر میں دینے کا حکم دیا ہے، بہت سے خاندان تباہ ہوجائیں، بہت سے بچے بربادی کی راہ پر لگ جائیں، اور بہت سی بے گناہ عورتوں کی زندگی میں آگ صرف اس لیے بھر جائے کہ اس کے شوہر نے وقتی طور پر طیش میں آ کر تین بار کلمہ طلاق اپنی زبان سے نکال دیا ہے۔ اسی لیے عہد نبوی، عہد ابوبکر، اور ابتدائے عہد عمر میں بالاتفاق ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں۔ اماممسلم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ عہد نبوی، عہد ابوبکر اور عہد عمر کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک مانی جاتی تھیں۔ حضرت عمر (رض) نے اپنے دو خلافت میں دیکھا کہ لوگوں نے کثرت سے طلاق دینی شروع کردی ہے، تو کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں عجلت سے کام لینا شروع کردیا ہے، اس لیے ہم تین طلاقوں کو تین نافذ کردیں گے، چنانچہ نافذ کردیا، اور امام احمد نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دے دی، اس کے بعد انہیں اس پر بڑا غم ہوا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا کہ تم نے کسی طرح طلاق دی ہے، تو انہوں نے کہا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ کیا ایک مجلس میں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں تو آپ نے فرمایا کہ وہ سب ایک طلاق شمار ہوں گی، اگر چاہو تو رجوع کرلو، چنانچہ انہوں نے رجوع کرلیا۔ معلوم ہوا کہ حضرت عمر (رض) نے جو کچھ کیا یہ ان کی اپنی رائے تھی، جسے انہوں نے مصلحت عامہ کے تقاضے کے مطابق نافذ کردیا تھا، ورنہ انہیں سنت کا پتہ تھا، اور ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین حقیقی طلاق اعتبار کرنے سے زیادہ ان کا یہ فیصلہ ایک تعزیراتی اور اجتہادی حکم تھا، تاکہ لوگ آئندہ طلاق دینے میں عجلت سے کام نہ لیں۔
@@mohammadyousuf2721 آپ کی تحریر کا حاصل یہ ہے کہ 1) حضرت عمر فاروق، عثمان غنی، علی اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے شریعت کو بدل دیا مصلحت کے تحت ہی سہی (عین روافض شیعہ کا عقیدہ)۔ 2) حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا نافذ کیا گیا فیصلہ اجماع نہیں ہے (تاریخ اسلام کا بد ترین جھوٹ)۔ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے فیصلے کو اجماع تو آپ کے فرقہ اہلحدیث کے علماء نے بھی تسلیم کیا ہے لیکن قبول نہیں کرنے کے لئے اجماع کے حجت ہونے کا انکار کیا ہے۔ اور اب آپ اجماع کے ثبوت کا انکار کر کے اپنے پیشواؤں سے بھی آگے نکل گئے ہو۔ یہ ہوتا ہے بے لگام اور من مانی تحقیق کا نتیجہ!
اچھا ۔۔۔آپ کے پاس کیا دلیل ھے کہ اھلحدیث گمراہ کرتے ھیں۔۔؟ آپ بتائیں اھلحدیثوں کی غلطیاں کیا ھیں جو آپ انکو اسطرح کے القابات سے پکار رھے ھوں۔اگر کچھ ابھام آپکے زھن میں ھے تو آپ بتائیں ۔۔ھم کوشش کرینگے کہ آپ کو مطمئن کرسکیں۔۔آپ سنی سنائی باتوں سے اھلحدیثوں کو بر بھلا نہیں کہہ سکتے۔۔
Maa Shaa Allah Zabardast Answer Qari Khaleel ur Rehman sb Allah Swt App ko Jazaiy khair dein
❤❤❤❤❤❤ ماشاء الله ❤❤❤❤❤
Wg
QARI KHALIL UR REHMAN, MAY ALLAH BLESS YOU..............
L0000 has the most important 000
ماشااللہ
Mashaallah . BarakAllah JazakaAllah BAYSHAK DEEN DALEEL KAY SAT HO.....WARNA ZALEEL.
Mashallah.
Omer R Z A ny kaha tha agr kissi ny kaha ky Mohammad S A W Wafaat pa chock at hn
Ye bayan konsi masjid ka he ? Location ?
Qari sahib ka Next bayan kub he and konsi masjid me?
नाम नीहांद (कथित) अहले हदीस उर्फ अपनी मनपसंद हदीस उर्फ वहाबी उर्फ़ मुहम्मदी उर्फ गैर मुकल्लिदीन उर्फ विक्टोरियन उर्फ सल्फी गुस्ताख ग़ुमराह जमात का मुंह भर के दावा है "दीन दलील के साथ है "लेकिन इमान के बाद दीन का अहम रुकन नमाज़ का मुकम्मल सुन्नत तरीका बिला किसी फीकह की पनाह के कुर्आन ओर हदीस की दलाइल के साथ क़यामत की सुबह तक नही बता सकते।
Kroon nikqlnqy we Wuxi toot Jaya hy
قاری خلیل الرحمٰن جاوید جواب دو!
1) جب حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ایک مجلس کی تین طلاقوں پر تین طلاق شمار کئے جانے کا فیصلہ دیا جس پر باقی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اتفاق کر کے اس کو اجماع کی صورت بنا دیا اور پھر بعد کے خلفاء نے اس کو برقرار بھی رکھا، تو پھر تمھارا نام نہاد اہل حدیث فرقہ کیوں اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا ہے اور روافض کی طرز پر ایک مجلس کی تین طلاقوں پر ایک طلاق کا فتویٰ دیتا ہے؟
2) اس کے باوجود تمھارا نام نہاد اہل حدیث فرقہ سلف صالحین کی اتباع کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، کیا خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سلف صالحین میں شامل نہیں ہیں؟
Musnad Ahmed Hadees # 7157
(۷۱۵۷)۔عَنْ عِکْرِمَۃَ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ طَلَّقَ رُکَانَۃُ بْنُ عَبْدِ یَزِیدَ أَخُو الْمُطَّلِبِ امْرَأَتَہُ ثَلَاثًا فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ فَحَزِنَ عَلَیْہَا حُزْنًا شَدِیدًا، قَالَ فَسَأَلَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((کَیْفَ طَلَّقْتَہَا؟)) قَالَ: طَلَّقْتُہَا ثَلَاثًا، قَالَ فَقَالَ: ((فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ۔)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ((فَإِنَّمَا تِلْکَ وَاحِدَۃٌ فَارْجِعْہَا إِنْ شِئْتَ۔)) قَالَ: فَرَجَعَہَا فَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَرٰی أَنَّمَا الطَّلَاقُ عِنْدَ کُلِّ طُہْرٍِِِِ۔ (مسند احمد: ۲۳۸۷)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بنو مطلب والے سیدنا رکانہ بن یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں اور پھر بہت سخت غمگین ہوئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم نے کس طرح طلاق دی ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے اس کو تین طلاقیں دے دی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک ہی مجلس میں۔ انھوں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو پھر یہ تو ایک ہی ہے، اگر رجوع کرنا چاہتے ہوتو کر لو۔ پس انھوں نے رجوع کر لیا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماکی رائے تھی کہ طلاق ہر طہر میں دی جائے۔
Sahi Hadees
آپ کی کھوپڑی میں جو گندا دماغ ہے یہ حدیث سن کر اسکا علاج ہو جائے گا۔ اسکے علاوہ مقلد اندھا ہوتا ہے۔
@@mohammadyousuf2721
آپ کی کھوپڑی میں جو رفض ہے وہ دور نہیں ہوگا کیونکہ دور کرنا ہی نہیں ہے۔ اسی لئے آپ کا نیم رافضی فرقہ اہلحدیث "ما أنا عليه و أصحابي" پر آ ہی نہیں سکتا ہے۔
آپ کی پیش کی گئی حدیث "صحیح حدیث" نا ہی حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو معلوم تھی اور نا ہی حضرت عثمان، علی، معاویہ و دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو، اور آج آپ کے انگریزی میڈ نیم رافضی فرقہ اہلحدیث کو حدیث بھی مل گئی اور وہ بھی "صحیح"، سبحان اللہ، ماشاءاللہ، یعنی سب صحابہ کرام بشمول خلفاء راشدین غلط بات پر متفق ہوگئے اور انہیں شریعت کا حکم معلوم ہی نہیں تھا اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے غلط فیصلہ کو باقی خلفاء نے بھی اپنے اپنے دور خلافت میں نافذ کیا (العیاذ باللہ)۔
بعینہ یہ وہی عقیدہ ہے صحابہ کرام اور بالخصوص خلفاء راشدین کے بارے میں جو روافض رکھتے ہیں، ہم آپ کے انگریزی میڈ فرقہ اہلحدیث کو کافر نہیں کہتے اس لئے نیم رافضی فرقہ اہلحدیث کہتے ہیں۔
خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین دین اسلام کو نبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم سے براہ راست سیکھنے والے ہیں اور وہ خوب جانتے ہیں کہ شریعت مطہرہ کا کون سا حکم پہلے زمانے کا ہے اور کون سا بعد کے زمانے کا اور وہ بعد کے احکام کے مطابق فتویٰ اور فیصلہ دیتے تھے۔ لہذا حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین گمراہ نہیں ہوگئےتھے ایک مجلس کی تین طلاقوں پر تین طلاق کا حکم دیکر بلکہ یہی وہ جدید حکم تھا جو پایا تھا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے نبی پاک صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم سے۔
بھائی اپنے ایمان کی خیر مناؤ، آپ لوگ صحابہ کرام اور خلفاء راشدین کو گمراہ مانتے ہو!
صحیح مسلم میں ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ "
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہيں کہ ''رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں اور حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دیتا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھیں ۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ لوگوں نے اس کام میں جلدی کرنا شروع کردی، جس میں اُنہیں مہلت ملی تھی۔
تو اگر اس کو ہم نافذ کردیں (تو از راہ تعزیر مناسب ہے)۔ پھر اُنہوں نے اسے جاری کردیا۔
اس روایت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں :فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ ۔تو اگر اس کو ہم ان (عجلت کرنے والوں) پر نافذ کردیں ۔۔یعنی :: فلو أمضيناه عليهم لما فعلوا ذلك الاستعجال‘‘
ان الفاظ سے واضح ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ سیاسی اور انتظامی نوعیت کا تھا ،نہ کہ شرعی حکم کا ناسخ ،
تین طلاقوں کے تین شمار ہونے پر اجماع کا دعویٰ تو بالکل خلافِ حقیقت ہے ،
لیکن اس کے برعکس تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے والے حضرات کا اپنے موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنا بالکل برمحل اور برحق ہے، کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی مذکور حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دو یا تین سال تک تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں ۔ مسلم شریف کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ 15ہجری تک صحابہ کرامؓ میں ایک صحابیؓ بھی ایسا نہ تھا جس نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہو، تمام صحابہ کرامؓ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق شمار کرتے تھے۔ اس لئے طلاقِ ثلاثہ کو ایک طلاق قراردینے والے اپنے اس موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں ۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''فنحن أحق بدعوی الإجماع منکم لأنه لایعرف في عھد الصدیق أحد ردّ ذلك ولا خالفه فإن کان إجماع فھومن جانبنا أظھر ممن یدعیه من نصف خلافة عمر وھلمّ جرا فإنه لم یزل الاختلاف فیھا قائما''
'' طلاق ثلاثہ کو ایک بنانے والے حضرات تین بنانے والوں سے بڑھ کر اجماع کا دعویٰ کرنے کا حق رکھتے ہیں او ر ہمارے موقف پر اجماع کا پایا جانا زیادہ واضح ہے، جبکہ حضرت عمرؓ کے نصف دور میں تین طلاقوں کو تین قرار دینے سے لے کر اب تک اس مسئلہ مں اختلاف چلا آرہا ہے۔''(.إغاثة اللھفان:1؍289 )
رابعاً ... اجماع کا دعویٰ کرنے والوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ جب سے حضرت عمرؓ نے تین طلاقوں کو تین قرار دینے کا حکم دیاہے، تب سے اس پر اتفاق ہوگیا ہے۔ لہٰذا اس کی مخالفت جائز نہیں ہے۔جبکہ صورتِ حال یہ ہے کہ خود حضرت عمرؓ نے اپنے اس فیصلے کو ترک کردیاتھا اور ایک مجلس میں تین طلاق کے وقوع کا جو حکم انہوں نے جاری کیا تھا، اس سے رجوع فرما لیا اور اس پر ندامت کا اظہار کیاتھا، جیسا کہ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ إغاثة اللھفان میں فرماتے ہیں :
''قال الحافظ أبوبکر الإسماعیلي في مسند عمر أخبرنا أبو یعلی حدثنا صالح بن مالك حدثنا خالد بن یزید بن أبي مالك عن أبیه قال قال عمر بن الخطاب: ما ندمت علی شيء ندامتي علی ثلاث أن لا أکون حرمت الطلاق وعلی أن لا أکون أنکحت الموالي وعلی أن لا أکون قتلت النوائح''(.إغاثة اللھفان: ج1؍ ص336 )
''حضرت عمرؓ نے فرمایا جو ندامت مجھے تین کاموں پر ہوئی ہے وہ کسی اور کام پر نہیں ہوئی: ایک یہ کہ میں تین طلاقوں کو طلاقِ تحریم نہ بناتا، دوسرا یہ کہ غلاموں کو نکاح کرنے کا حکم صادر نہ کرتا، اور تیسرا یہ کہ نوحہ کرنے والیوں کو قتل کرنے کا حکم نہ دیتا۔''
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے جو تین طلاقوں کے تین ہونے کا حکم دیا تھا، وہ شرعی حکم نہ تھا بلکہ تعزیری اور وقتی آرڈیننس تھا، جو یکبار تین طلاقیں دینے والوں کے لئے سزا کے طور پر نافذ کیا تھا۔ جب دیکھا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ لوگوں کا یکبارگی طلاقیں دینے کا فساد اوربڑھا ہے تو آپؓ نے اس ذاتی فیصلے سے رجوع فرما لیا، اور اس پر ندامت کا اظہار بھی کیا۔ تو دیکھئے جب حضرت عمرؓ ہی اپنے اس فیصلے پر ندامت کااظہار فرماچکے ہیں تو اب اسے بنیاد بنا کر اجماع کا دعویٰ کیسے کیاجاسکتا ہے؟ بعض لوگوں نے مسند ِعمرؓ کے اس اثر پر یہ اعتراض کیاہے کہ اس کی سند میں خالد بن یزید بن ابی مالک راوی ضعیف ہے، اس لئے یہ ناقابل اعتبار ہے۔
اگرچہ بعض علما نے اس راوی پر جرح کی ہے لیکن کبارائمہ مثلاً ولیدبن مسلم، عبداللہ بن مبارک، سلیمان بن عبدالرحمن، ہشام بن عمار، ہشام بن خالد، سوید بن سعید، ابوزرعہ اور ابن صالح وغیرہ نے اس راوی کو ثقہ اور قابل اعتماد قرار دیا ہے۔ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اسے فقہاے شام میں شمار کیا ہے او ریہ بھی کہاہے کہ یہ صدوق في الروایة ہے۔ عجلی نے بھی اسے ثقہ کہا ہے۔ ( تهذیب التهذیب: ج3 ص126)
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
سورۃ البقرہ : 229
یہ طلاقیں دو مرتبہ (١) ہیں پھر یا تو اچھائی سے روکنا (٢) یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا (٣) اور تمہیں حلال نہیں تم نے انہیں جو دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو اس لئے اگر تمہیں ڈر ہو کہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے، اس پر دونوں پر گناہ نہیں (٤) یہ اللہ کی حدود ہیں خبردار ان سے آگے نہیں بڑھنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کر جائیں وہ ظالم ہیں۔
321: زمانہ جاہلیت اور ابتدائے اسلام میں دستور تھا کہ لوگ اپنی بیویوں کو بغیر تجدید عدد طلاق دیتے رہتے تھے، ایک طلاق کی مدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلیتے تھے، اور پھر طلاق دے دیتے تھے، اور مقصود عورتوں کو نقصان پہنچانا ہوتا تھا، اس ظالمانہ فعل سے بہت سی عورتوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی تھی۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نہ تجھے الگ ہونے دوں گا اور نہ ہی تجھے پناہ دوں گا، عورت نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو اس نے کہا کہ میں تجھے طلاق دوں گا، اور ہر بار عدت گذرنے سے پہلے تمہیں رجوع کرلوں گا، وہ عورت حضرت عائشہ (رض) کے پاس گئی اور انہیں یہ بات سنائی، تو عائشہ خاموش رہیں، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو انہیں ماجرا سنایا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی کہ شوہر دو بار طلاق دینے کے بعد یا تو رجوع کرے گا، یا تیسری طلاق دے دے گا، اس کے بعد عورت جہاں چاہے گی، اور جس سے چاہے گی شادی کرلے گی، اب شوہر کو مزید طلاق ورجوع کا حق نہیں ہوگا۔
فائدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہ حکم بیان فرمایا ہے کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو اسے ایک طہر میں ایک طلاق دینی چاہئے، اس کے بعد اگر رجوع نہیں کرتا ہے تو پھر دوسرے طہر میں دوسری طلاق دینی چاہئے۔ آیت سے یہ بات ہرگز سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر کوئی شخص ایک ہی بار دو طلاق دے دے تو دونوں واقع ہوجائے گی، دوسری طلاق کے بعد اگر چاہے تو عدت گذرنے سے پہلے رجوع کرلے، ورنہ تیسری طلاق دے کر ہمیشہ کے لیے رشتہ ازدواج کو ختم کرلے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ زن و شوہر کا رشتہ ازدواج الفت و محبت کی فضا میں ہمیشہ کے لیے استوار رہے، اور اگر کوئی عارضی اختلاف پیدا ہوجائے تو اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے تین طلاقوں کی مہلت دی ہے، تاکہ انسان کو بار سوچنے کا موقع ملے، اور عارضی ناراضگی ختم ہوجائے، اور شوہر اپنی بیوی کو رجوع کرلے، اگر ایک ہی طلاق رجعت سے مانع ہوتی، تو یہ عظیم مصلحت مفقود ہوجاتی اور بہت سے خاندان تباہ ہوجاتے، اور سوسائٹی میں ایسی خرابیاں پیدا ہوجاتیں جن کا تدارک ناممکن ہوگا۔
اسی طرح اگر ایک ہی مرتبہ کی تین طلاقیں یا ایک مجلس کی تین طلاقیں نافذ کردی جائیں تو وہی خرابیاں پیدا ہوں گی جن سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تین طلاقیں الگ الگ طہر میں دینے کا حکم دیا ہے، بہت سے خاندان تباہ ہوجائیں، بہت سے بچے بربادی کی راہ پر لگ جائیں، اور بہت سی بے گناہ عورتوں کی زندگی میں آگ صرف اس لیے بھر جائے کہ اس کے شوہر نے وقتی طور پر طیش میں آ کر تین بار کلمہ طلاق اپنی زبان سے نکال دیا ہے۔
اسی لیے عہد نبوی، عہد ابوبکر، اور ابتدائے عہد عمر میں بالاتفاق ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں۔
اماممسلم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ عہد نبوی، عہد ابوبکر اور عہد عمر کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک مانی جاتی تھیں۔ حضرت عمر (رض) نے اپنے دو خلافت میں دیکھا کہ لوگوں نے کثرت سے طلاق دینی شروع کردی ہے، تو کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں عجلت سے کام لینا شروع کردیا ہے، اس لیے ہم تین طلاقوں کو تین نافذ کردیں گے، چنانچہ نافذ کردیا، اور امام احمد نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دے دی، اس کے بعد انہیں اس پر بڑا غم ہوا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا کہ تم نے کسی طرح طلاق دی ہے، تو انہوں نے کہا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ کیا ایک مجلس میں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں تو آپ نے فرمایا کہ وہ سب ایک طلاق شمار ہوں گی، اگر چاہو تو رجوع کرلو، چنانچہ انہوں نے رجوع کرلیا۔
معلوم ہوا کہ حضرت عمر (رض) نے جو کچھ کیا یہ ان کی اپنی رائے تھی، جسے انہوں نے مصلحت عامہ کے تقاضے کے مطابق نافذ کردیا تھا، ورنہ انہیں سنت کا پتہ تھا، اور ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین حقیقی طلاق اعتبار کرنے سے زیادہ ان کا یہ فیصلہ ایک تعزیراتی اور اجتہادی حکم تھا، تاکہ لوگ آئندہ طلاق دینے میں عجلت سے کام نہ لیں۔
@@mohammadyousuf2721
آپ کی تحریر کا حاصل یہ ہے کہ
1) حضرت عمر فاروق، عثمان غنی، علی اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے شریعت کو بدل دیا مصلحت کے تحت ہی سہی (عین روافض شیعہ کا عقیدہ)۔
2) حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا نافذ کیا گیا فیصلہ اجماع نہیں ہے (تاریخ اسلام کا بد ترین جھوٹ)۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے فیصلے کو اجماع تو آپ کے فرقہ اہلحدیث کے علماء نے بھی تسلیم کیا ہے لیکن قبول نہیں کرنے کے لئے اجماع کے حجت ہونے کا انکار کیا ہے۔ اور اب آپ اجماع کے ثبوت کا انکار کر کے اپنے پیشواؤں سے بھی آگے نکل گئے ہو۔
یہ ہوتا ہے بے لگام اور من مانی تحقیق کا نتیجہ!
اہل حدیث نہیں اہل خبیث ھیں انکا کام صرف لوگوں کو گمراہ کرنا اللہ حفاظت فرمائے ان لوگوں سے غیر مقلدین سے
اچھا ۔۔۔آپ کے پاس کیا دلیل ھے کہ اھلحدیث گمراہ کرتے ھیں۔۔؟
آپ بتائیں اھلحدیثوں کی غلطیاں کیا ھیں جو آپ انکو اسطرح کے القابات سے پکار رھے ھوں۔اگر کچھ ابھام آپکے زھن میں ھے تو آپ بتائیں ۔۔ھم کوشش کرینگے کہ آپ کو مطمئن کرسکیں۔۔آپ سنی سنائی باتوں سے اھلحدیثوں کو بر بھلا نہیں کہہ سکتے۔۔
Aap ko aqtilaf hai .kaon galat hai bataiay. DEEN MAY DALEEL NA HO TO ZALEEL.