سماجی تعمیرِ نو کے لیے رسول اللہ ﷺ کا اُسوۂ حسنہ اور نوجوان نسل کی ذمہ داری

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 11 гру 2024

КОМЕНТАРІ • 9

  • @MuhammadZaheer-y7d
    @MuhammadZaheer-y7d 11 днів тому +2

    اللّٰہ تعالٰی ہمارے ان سینئیرز کو صحت و سلامتی والی لمبی زندگی عطاء فرمائے اور انکے علم و عمل سے قوم کو بھرپور استفادہ کرکے قومی زندگی میں کردار ادا کرنیکی استطاعت و ہمت عطاء فرمائے آمین ثم آمین

  • @englishteachingclass9367
    @englishteachingclass9367 11 днів тому

    Mashallah
    Bahut khoob

  • @ahsanulhaq4993
    @ahsanulhaq4993 8 днів тому

    ❤❤❤ ماشاءاللہ

  • @nadiaismaeel7693
    @nadiaismaeel7693 11 днів тому

    Masha Allah

  • @Riseusama
    @Riseusama 11 днів тому

    رب زدنی علما ❤

  • @roadbeats
    @roadbeats 5 днів тому

  • @sabirsalahuddin2301
    @sabirsalahuddin2301 11 днів тому

    ماشاءاللہ بہت ہی پر مغز گفتگو کی ہے
    ادارے کی طرف سے مختلف کالجز اور یونیورسٹیز میں اس طرح کے پروگرامات منعقد کرنا بہت ہی اعلیٰ کاوش اور وقت کی ضرورت ہے ۔

  • @jahanzeb8067
    @jahanzeb8067 11 днів тому

    دینِ اسلام کا تقاضا شعوری ایمان
    ہے اور شعوری ایمان کا تقاضا کیا ہے؟ اس تقاضے کو سمجھنے کے لیے اِس بیان کو غور سے سنیں، یہی وقت کا تقاضا ہے ۔

  • @jahanzeb8067
    @jahanzeb8067 11 днів тому

    ایک ایسا شخص جو اچھا اور خیر خواہ ہمسایہ ہو، حلال کمانے والا تاجر ہو، معاشرتی معاملات کا کھرا ہو اور تمام انسانی حقوق کا علمبردار ہو، لیکن نماز، روزے، حج، زکوٰۃ اور جہاد کے معاملے میں لا پروا ہو بلکہ انسانی حقوق کے مقابلے میں دیگر عبادات کی بعض اوقات نفی کرنے والا ہو ۔ کیا ایسا شخص انصاف کی نظر میں نیک سمجھا جائے گا؟ اور اس کی گواہی قابلِ قبول ہو گی؟