Ali Mohammad Gilkar | Chuye Kunie Kath Peer Bawaan Kamilo | Gulzar Mir

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 5 лют 2025
  • ہمارے وادی کشمیر میں مایا ناز معتبر اکابر صوفی و فقرا گزرے ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں . ان کے بارے میں جو بھی بولا یا لکھا جائے کم ہی ہے .
    اسی وادی کشمیر میں ایک ایسے دیدهور شخصیت گزرے ہے جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ان کا تعارف دینا سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہوگا تو غلط نہیں .
    اُن کا نام علی محمد گلکار رحمت اللہ علیہ صاحب المعروف وستہ علی ہیں ـ آپ میرہ محلہ ملارٹہ سرینگر میں رہتے تھے .آپ گلکاری کے کام سے وابستہ تھے .آپ ہمیشہ محنت و مشقت کی طرف متوجہ ہوکر سادہ زندگی بسر کرنا پسند کرتے .وادی کشمیر کے اکابر صوفیاء میں آپ کا نام لیا جاتا ہے اور وادی کشمیر کے صوفیوں و فقیروں میں آپ کا الگ ایک مقام ہیں . .
    علی محمد گلکار صاحب کی تعلیم کو سمجھنے کے لئے پہلے اس زمانے کو سمجھنا ضروری ہے جس زمانے وقت میں وہ روحانیت کی تعلیم دیا کرتے تھے .اس زمانے میں اکثر و بیشتر صرف شخص پرستی ، قبر پرستی ظاہر پرستی اور ظاہری مجاہدے کا بول بالا تھا . لوگ مجاور بننا اور اسی کی تعلیم دینا پسند کرتے تھے .لوگ اسی کو صوفیت و احسان کا نام دیا کرتے تھے . عام صوفی ، وحدت الوجود کو اس طرح بیان کرتے جو افلاطونیت ، ویدانت بوده‍ مت يا یوگ سے تعلق ہوتا تھا . لوگ عشق مجازی اور صورت پرستی کے آگے کچھ دیکھتے ہی نہیں تھے ۔ اسی لیے علی محمد گلکار صاحب نے ساری عمر امام ربانی مجدد الف ثانی سرہندی رح کی طرح تصوف سے غلط اور غيراسلامی افکار مٹانے کی کوشش کی . یہی وجہ ہے کہ علی محمد گلکار صاحب نے اپنے روحانی مرشد کا نام ظاہر نہیں کیا ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے روحانی مرشد کون تھے تو وہ کہتے تھے اس بات سے آپ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کہ میرا مرشد کون تھا ،سب نے کہا کہ میرا باپ سلطان ہیں، روحانی تعلیم کے ساتھ محبت کرو ، عمل کرو یہی تعلیم آپ کو راہ نجات دکھائے گی یہی تعلیم آپ کو واصل بحق بنائی گئی . جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کس سلاسل سے وابستہ ہے تو وہ بولتے تھے کہ عشق کا کوئی سلاسل نہیں ہے . حضرت امام جعفر صادق رح کا قول ہے کہ نجات کا تعلق نسب سے نہیں بلکہ اعمال صالحہ پر موقوف ہے .
    علی محمد گلکار صاحب نے مجدد بن کر ان سب ظاہری رسومات کا توڑ کیا .انہوں نے روحانیت کو اپنے اصلی رنگ میں پیش کیا جو قرآن و حدیث اور ہمارے اسلافوں کی تعلیم کے مطابق ہے . بلکہ وہ بولا کرتے تھے کہ ایسا کوئی عمل یا کوئی بات نہ مانو جو قرآن و حدیث کے مطابق نہ ہوں . انہوں نے توحید رسالت کی تعلیم کو پھر سے زندہ کیا ، انہوں نے عشق حقیقی اور سیرت کی اہمیت کو جاننے کی تعلیم دی .ان کی تعلیم تھی کہ لوگ فانی اعمال کی زنجیروں سے آزاد ہو کر بقائی عالم کے انوار کی روشنی پائے .
    جناب علی محمد گلکار صاحب فرماتے تھے کہ اعمال اور عبادت کے چار درجے ہیں . (1) زہد جو وظائف اور وردات کا سلسلہ ہے . (2)تفکر و تصور ، یہ عقل و فکر کا کام ہے (3)سلوک ، اس میں اپنے وجودی لطائف کو ذکر و اذکار اور مجاہدے سے صاف کرنا مقصود ہے .سالک ان اذکاروں اور مجاہدوں کی مدد سے کچھ آوازیں اور کچھ انوار بھی پیدا کرسکتا ہے ۔ (4) چوتھے درجے کی اعمال مشاہدے سے وابستہ ہے۔اس میں روح اور سِرّ سے کام لیا جاتا ہے جو بقائی لطائف ہیں .اس کی ابتدا سلطان الاذکار سے ہوتی ہے .
    ذكر اللسان لقلقة و ذکر القلب وسوسة و ذكر الروح مشاه‍دة و ذكر الخفى دَائِمًا (یعنی زبانی ذکر گویا لقلقہ ہے اور دلی ذکر ایک قسم کا وسوسہ ہے اور روحانی ذکر مشاہدہ الہی کا موجب ہے اور ذکر خفی ہمیشہ ہوا کرتا ہے)
    گلکار صاحب کہا کرتے تھے کہ روحانی تعلیم کے پانچ درجے ہیں (1) احدیت (2) احمدیت (3)محمدیت (4) صمدیت اور (5) مریم .ان درجوں کی تعلیم کے لیے سمیع ، بصیر اور متکلم ہونا مقصود ہے . گلکار صاحب طالب صادق کو پہلے ہی بقائی لطائف کی تعلیم دیا کرتے تھے .
    علی محمد گلکار صاحب سماع کے بڑے شوقین تھے وہ اکثر سماع سنا کرتے تھے اور خصوصاً کچھ کشمیری شعراء کا کلام سننا ہی پسند کرتے تھے ، اس کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ جو تعلیم میں دیتا ہوں ان شعراء کے کلاموں میں اس کی نشاندہی باآسانی سے ہوتی ہے .اس بات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسرے شعراء کے کلاموں میں رموز و اسرار موجود نہیں .
    وہ اکثر یہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ اپنا وقت ضائع مت کرو ، آپ کا محبوب آپ کو پکار رہا ہے آپ ہی سوئے ہوئے ہو ،آپ ہی غفلت میں ہو ، یہ وقت غنیمت سمجھو ۔
    29 جون 1976ء بروز منگل رات (00 :11) گیارہ بجے وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے ۔ ان للہ وانا الیہ راجعون .

КОМЕНТАРІ • 7