عروج 2001ء پنجاب یونیورسٹی ایم اے انگلش کی طالبہ جسے فائنل رزلٹ میں یونیورسٹی نے فیل قرار دیا کہ وہ ایک پیپر میں غیر حاضر تھی۔ یہ بات وجیہہ عروج کے لئیے باعث حیرت ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی پریشان کُن بھی تھی کیونکہ وہ تمام پیپرز میں حاضر رہی تھی اور تمام پیپرز اچھے طریقے سے حل کئیے تھے۔ اسے لگا شائد یونیورسٹی سے غلطی ہو گئی ہے وہ اپنے والد کے ساتھ شعبہ امتحان پہنچی اور اپنا کیس متعلقہ افسر کے سامنے رکھا تو بجائے تحقیق کرنے یا ریلیف دینے کے اس نے وجیہہ کے والد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کیا پتہ آپ کی بیٹی امتحان کے بہانے کہاں جاتی تھی 😥 یہ جملہ وجیہہ اور اس کے والد کے سر پر بم بن کر گرا اور وہ جیسے سُن ہو کر رہ گئے۔ یونیورسٹی نے غلطی ماننے اور ڈگری جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ بات آفس میں سب کے سامنے ہوئی تھی آناً فاناً یونیورسٹی میں پھیل گئی اور ہر آنکھ وجیہہ کو خطاکار اور یونیورسٹی کو حق بجانب سمجھنے لگی۔ وجیہہ کی زندگی جیسے کسی چور کی زندگی جیسی ہو گئی۔ کچھ نہ کرتے ہوئے وہ اپنے ہی گھر والوں اور معاشرے کی نظر میں مشکوک اور گنہگار ٹھہری۔ اس نے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا اور یونیورسٹی کے خلاف کیس کردیا۔ دو سے تین پیشیوں کا کیس تھا کہ عدالت اس پیپر میں حاضر اسٹوڈنٹس کی حاضری شیٹ اور تقسیم کئے گئے اور واپس جمع کرائے گئے پیپرز کا ریکارڈ منگوا کر فیصلہ کر دیتی۔ لیکن کیس شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا گیا۔۔پیشیوں پر پیشیاں پڑتی رہیں۔ وجہیہ کی شادی ہو گئی اور وہ کینیڈا شفٹ ہو گئی دو بچے ہو گئے کیس چلتا رہا ۔ بالآخر 17 سال بعد 2017 ء میں لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب یونیورسٹی کو قصور وار قرار دیتے ہوئے اسے وجیہہ عروج کو ڈگری جاری کرنے اور آٹھ لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ بی بی سی کو انٹرویو میں وجیہہ نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج وہ ڈگری میرے کسی کام کی نہیں۔ سترہ سال پہلے وہ ماسٹرز کے بعد پی ایچ ڈی کرنا چاھتی تھی۔ اپنی زندگی اپنے حساب سے جینا چاھتی تھی اس کے سارے پلان اور خواب چکنا چور ہو گئے۔ آٹھ لاکھ سے کئی گنا وہ ان سترہ سالوں میں اس کیس پر خرچ کر چکی کہ یونیورسٹی نے اس پر جو تہمت لگائی تھی اسےغلط ثابت کر کے سرخرو ہو سکے۔ وہ سترہ سالوں تک روز اس ایک جملے کے ہاتھوں قتل یوتی رہی ہے۔ اسے انصاف نہیں کہا جا سکتا...... ہم اپنے آنے والی نسلوں کو خود اپنے ہی ہاتھوں تباہ کر رہے ہیں ۔۔۔ اور انہیں سکھا رہے ہیں کہ جھوٹ، کرپشن، ڈاکہ، چوری، قتل، غنڈہ گردی اور ہر گناہ پاکستان کی عدالتوں میں سب معاف ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ لیکن انصاف اور سچ کبھی نہیں جیت سکتا۔۔۔۔ پھر کیوں نا ہمارے اُوپر عذاب الٰہی آئے۔۔۔۔ یہ زلزلے، خوفناک بارشیں اور خاص طور سے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بُرائیاں اور جرائم۔۔۔۔ ہم نے تو جیسے تیسے وقت گزار لیا۔۔۔۔ مگر ہمارے معصوم بچے۔۔۔۔ کبھی سوچا ہے کہ وہ کس بھیڑ کا حصّہ بن جائیں گے۔۔۔۔۔ اللّہ تعالیٰ ہمارے حال پہ رحم فرمائے۔۔ آمین ثم آمین Justice delayed, justice denied. ایسے معاملات میں دیر انصاف کا قتل تو ہے ہی ساتھ ساتھ معاشرہ میں بگاڑ کا باعث بھی بنتا۔
Buen trabajo
খুব সুন্দর
Thanks Bhai jan
❤ 0:01
0:01 ❤❤❤ 0:01
Nice 👍👍👍
Jiyarul,sk❤👍🌷💝💝
Super
Bahar ka railing ka design chahie
Nice design
ভাই মাপ কত দেখলেন না
👌👌👌👌👌👌👍👍👍👍👍👍
Nice bro
Thanks
Nice
Thanks
❤❤❤❤
Wow 😲 so nice. More please
Ok
your video is very good and i made HULK character with cement on my channel.
So nice !
I love your work bro
your video is very good and i made HULK character with cement on my channel.
👌👍☑️
Thanks
👌👌👌👌👌👌
Where are you mesri
Kitna inch liya hai
Kitana inchliya
Ok
তোমার এটা ধারণা গুলি দেখাও বুঝতে পারছি না
عروج 2001ء پنجاب یونیورسٹی ایم اے انگلش کی طالبہ جسے فائنل رزلٹ میں یونیورسٹی نے فیل قرار دیا کہ وہ ایک پیپر میں غیر حاضر تھی۔
یہ بات وجیہہ عروج کے لئیے باعث حیرت ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی پریشان کُن بھی تھی کیونکہ وہ تمام پیپرز میں حاضر رہی تھی اور تمام پیپرز اچھے طریقے سے حل کئیے تھے۔ اسے لگا شائد یونیورسٹی سے غلطی ہو گئی ہے وہ اپنے والد کے ساتھ شعبہ امتحان پہنچی اور اپنا کیس متعلقہ افسر کے سامنے رکھا تو بجائے تحقیق کرنے یا ریلیف دینے کے اس نے وجیہہ کے والد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کیا پتہ آپ کی بیٹی امتحان کے بہانے کہاں جاتی تھی 😥
یہ جملہ وجیہہ اور اس کے والد کے سر پر بم بن کر گرا اور وہ جیسے سُن ہو کر رہ گئے۔ یونیورسٹی نے غلطی ماننے اور ڈگری جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ بات آفس میں سب کے سامنے ہوئی تھی آناً فاناً یونیورسٹی میں پھیل گئی اور ہر آنکھ وجیہہ کو خطاکار اور یونیورسٹی کو حق بجانب سمجھنے لگی۔
وجیہہ کی زندگی جیسے کسی چور کی زندگی جیسی ہو گئی۔ کچھ نہ کرتے ہوئے وہ اپنے ہی گھر والوں اور معاشرے کی نظر میں مشکوک اور گنہگار ٹھہری۔
اس نے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا اور یونیورسٹی کے خلاف کیس کردیا۔
دو سے تین پیشیوں کا کیس تھا کہ عدالت اس پیپر میں حاضر اسٹوڈنٹس کی حاضری شیٹ اور تقسیم کئے گئے اور واپس جمع کرائے گئے پیپرز کا ریکارڈ منگوا کر فیصلہ کر دیتی۔
لیکن کیس شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا گیا۔۔پیشیوں پر پیشیاں پڑتی رہیں۔
وجہیہ کی شادی ہو گئی اور وہ کینیڈا شفٹ ہو گئی دو بچے ہو گئے کیس چلتا رہا ۔
بالآخر 17 سال بعد 2017 ء میں لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب یونیورسٹی کو قصور وار قرار دیتے ہوئے اسے وجیہہ عروج کو ڈگری جاری کرنے اور آٹھ لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم صادر کر دیا۔
بی بی سی کو انٹرویو میں وجیہہ نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
آج وہ ڈگری میرے کسی کام کی نہیں۔ سترہ سال پہلے وہ ماسٹرز کے بعد پی ایچ ڈی کرنا چاھتی تھی۔ اپنی زندگی اپنے حساب سے جینا چاھتی تھی اس کے سارے پلان اور خواب چکنا چور ہو گئے۔
آٹھ لاکھ سے کئی گنا وہ ان سترہ سالوں میں اس کیس پر خرچ کر چکی کہ یونیورسٹی نے اس پر جو تہمت لگائی تھی اسےغلط ثابت کر کے سرخرو ہو سکے۔ وہ سترہ سالوں تک روز اس ایک جملے کے ہاتھوں قتل یوتی رہی ہے۔
اسے انصاف نہیں کہا جا سکتا......
ہم اپنے آنے والی نسلوں کو خود اپنے ہی ہاتھوں تباہ کر رہے ہیں ۔۔۔
اور انہیں سکھا رہے ہیں کہ جھوٹ، کرپشن، ڈاکہ، چوری، قتل، غنڈہ گردی اور ہر گناہ پاکستان کی عدالتوں میں سب معاف ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔
لیکن انصاف اور سچ کبھی نہیں جیت سکتا۔۔۔۔
پھر کیوں نا ہمارے اُوپر عذاب الٰہی آئے۔۔۔۔
یہ زلزلے، خوفناک بارشیں اور خاص طور سے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بُرائیاں اور جرائم۔۔۔۔
ہم نے تو جیسے تیسے وقت گزار لیا۔۔۔۔ مگر ہمارے معصوم بچے۔۔۔۔ کبھی سوچا ہے کہ وہ کس بھیڑ کا حصّہ بن جائیں گے۔۔۔۔۔
اللّہ تعالیٰ ہمارے حال پہ رحم فرمائے۔۔
آمین ثم آمین
Justice delayed, justice denied.
ایسے معاملات میں دیر انصاف کا قتل تو ہے ہی ساتھ ساتھ معاشرہ میں بگاڑ کا باعث بھی بنتا۔