Josh Malihabadi recites “Moojid-o-Mufakkir “ آگ دنیا میں لگی ہے آگ، پانی یا حُسینٔ

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 28 сер 2024
  • جوش ملیح آبادی
    مرثیہ : موجد و مفکر کے چند بند
    شکریہ : پاکستان ٹیلیویژن
    دیکھ پھر قعرِ جہنمّ بن چکا ہے روزگار
    آنچ میں غلطیدہ ہے پھر خیمہِٰ لیل و نہار
    پھر زمیں پر حکمراں ہیں باہزاراں اقتدار
    آ تش و دود و دُخان و شعلہ و برق و شرار
    زندگی ہے برسرِ آ تش فشانی یاحسینٔ
    آگ دنیا میں لگی ہے آگ، پانی یا حسین
    موجد و مفکر
    گوہرِ خوش آب نے شعلے کو پانی کر دیا
    ضعف نے طاقت کو صیدِ ناتوانی کر دیا
    فقر نے دولت کو محوِ نوحہ خوانی کر دیا
    دین نے دنیا کو وقفِ سرگرانی کر دیا
    صرف ایک تنویر نے ظلمت کی خندق پاٹ دی
    پنکھڑی کی دھار نے لوہے کی گردن کاٹ دی
    اے حسینٔ ابنِ علیٔ اے خسروِ روحانیاں
    اے دِماغِ پختہ کی آواز، اے دِل کی زباں
    اے شہِ مُلکِ اَبد، اے راکبِ عصرِ دواں
    موت سے تیری، اُبلتی ہے حیاتِ جاوداں
    تُو ا زل سے تا ابد پھیلا ہُوا منشور ہے
    اے کہ تیرا وقت کے دونوں سِروں پر نُور ہے
    کر دیا تُو نے یہ ثابت اے دِلاور آدمی
    زندگی کیا، موت سے لیتا ہے ٹکّر آدمی
    کاٹ سکتا ہے رگِ گردن سے خنجر آدمی
    لشکروں کو روند سکتے ہیں بہتّر آدمی
    ضعف ڈھا سکتا ہے قصرِ اَفسر و اَورنگ کو
    آبگینے توڑ سکتے ہیں حصارِ سنگ کو
    اے حُسینٔ اب تک ترا نقشِ قدم تابندہ ہے
    زندہ ہے، پائندہ ہے، تابندہ ہے، رخشندہ ہے
    روشن و پائندہ و بالِندہ و بخشندہ ہے
    گام زن تُو جس پہ تھا وہ جادہ اب تک زندہ ہے
    ضوفگن ہے ذہن کے ہر بند پر، ہر جو ڑ پر
    شمع جو تابندہ ہے تیری گلی کے موڑ پر
    اے حُسینٔ ابنِ علیٔ اے سیدِ یزداں صفات
    نُور سے تیرے جھمکتی ہے جبینِ کائنات
    محو ہو جائیں اگر دُنیا سے تیرے واقعات
    گنبدِ تاریخ پر چھا جائے ہیبت ناک رات
    بھول سکتا ہی نہیں اِنسان قربانی تیری
    حافظے کے فرق کا جھومر ہے پیشانی تیری
    پھر بشر کے ذہن پر عکسِ جُنوں ہے یا حسینٔ
    پھرحقیقت رہنِ اوہام و فسوں ہے یا حسینٔ
    پھر دلِ اقدارِ نازک غرقِ خوں ہے یا حسینٔ
    پھر بشر باطل کے آگے سر نگوں ہے یا حسینٔ
    آ، دِلِ انجام کو پھر گرمیِ آغاز دے
    ائے بہادر، وقت کی آواز پر آواز دے
    پھر حیاتِ نوعِ اِنسانی ہے کجلائی ہوئی
    گلُ پڑے ہیں ولولے جراؑت ہے مرجھائی ہوئی
    پھر زمین و آسماں پر مَوت ہے چھائی ہوئی
    موت بھی کیسی خود اپنے ہات کی لائی ہوئی
    چہرۂ اُمّید کو رخشندگی دے یا حسینٔ
    زندگی دے، زندگی دے، زندگی دے یا حسینٔ
    اے مجاحد روح! پھر سینوں کو دے سوزِ شرر
    اے مقدّس تشنگی، موّاج ہو سَر سے گذر
    اے پیمبر موت، انوکھی زندگی بن کر اُبھر
    اے مُقرِّر خامشی منبر پہ آ، تقریر کر
    اے لہو پھر قشقہٰ پیشانیِ کردار بَن
    اے جراحت میان سے باہر نکل، تلوار بَن
    دیکھ پھر قعرِ جہنمّ بن چکا ہے روزگار
    آنچ میں غلطیدہ ہے پھر خیمہِٰ لیل و نہار
    پھر زمیں پر حکمراں ہیں باہزاراں اقتدار
    آ تش و دود و دُخان و شعلہ و برق و شرار
    زندگی ہے برسرِ آ تش فشانی یاحسینٔ
    آگ دنیا میں لگی ہے آگ، پانی یا حُسینٔ
    جوش ملیح آبادی

КОМЕНТАРІ • 5

  • @shahidrafi134
    @shahidrafi134 Місяць тому

    Joshile Josh..kya kehne

  • @khursheedabdullah2261
    @khursheedabdullah2261  Місяць тому +6

    گوہرِ خوش آب نے شعلے کو پانی کر دیا
    ضعف نے طاقت کو صیدِ ناتوانی کر دیا
    فقر نے دولت کو محوِ نوحہ خوانی کر دیا
    دین نے دنیا کو وقفِ سرگرانی کر دیا
    صرف ایک تنویر نے ظلمت کی خندق پاٹ دی
    پنکھڑی کی دھار نے لوہے کی گردن کاٹ دی
    اے حسینٔ ابنِ علیٔ اے خسروِ روحانیاں
    اے دِماغِ پختہ کی آواز، اے دِل کی زباں
    اے شہِ مُلکِ اَبد، اے راکبِ عصرِ دواں
    موت سے تیری، اُبلتی ہے حیاتِ جاوداں
    تُو ا زل سے تا ابد پھیلا ہُوا منشور ہے
    اے کہ تیرا وقت کے دونوں سِروں پر نُور ہے
    کر دیا تُو نے یہ ثابت اے دِلاور آدمی
    زندگی کیا، موت سے لیتا ہے ٹکّر آدمی
    کاٹ سکتا ہے رگِ گردن سے خنجر آدمی
    لشکروں کو روند سکتے ہیں بہتّر آدمی
    ضعف ڈھا سکتا ہے قصرِ اَفسر و اَورنگ کو
    آبگینے توڑ سکتے ہیں حصارِ سنگ کو
    اے حُسینٔ اب تک ترا نقشِ قدم تابندہ ہے
    زندہ ہے، پائندہ ہے، تابندہ ہے، رخشندہ ہے
    روشن و پائندہ و بالِندہ و بخشندہ ہے
    گام زن تُو جس پہ تھا وہ جادہ اب تک زندہ ہے
    ضوفگن ہے ذہن کے ہر بند پر، ہر جو ڑ پر
    شمع جو تابندہ ہے تیری گلی کے موڑ پر
    اے حُسینٔ ابنِ علیٔ اے سیدِ یزداں صفات
    نُور سے تیرے جھمکتی ہے جبینِ کائنات
    محو ہو جائیں اگر دُنیا سے تیرے واقعات
    گنبدِ تاریخ پر چھا جائے ہیبت ناک رات
    بھول سکتا ہی نہیں اِنسان قربانی تیری
    حافظے کے فرق کا جھومر ہے پیشانی تیری
    پھر بشر کے ذہن پر عکسِ جُنوں ہے یا حسینٔ⁠
    پھرحقیقت رہنِ اوہام و فسوں ہے یا حسینٔ⁠
    پھر دلِ اقدارِ نازک غرقِ خوں ہے یا حسینٔ⁠
    پھر بشر باطل کے آگے سر نگوں ہے یا حسینٔ⁠
    آ، دِلِ انجام کو پھر گرمیِ آغاز دے
    ائے بہادر، وقت کی آواز پر آواز دے
    پھر حیاتِ نوعِ اِنسانی ہے کجلائی ہوئی
    گلُ پڑے ہیں ولولے جراؑت ہے مرجھائی ہوئی
    پھر زمین و آسماں پر مَوت ہے چھائی ہوئی
    موت بھی کیسی خود اپنے ہات کی لائی ہوئی
    چہرۂ اُمّید کو رخشندگی دے یا حسینٔ⁠
    زندگی دے، زندگی دے، زندگی دے یا حسینٔ⁠
    اے مجاحد روح! پھر سینوں کو دے سوزِ شرر
    اے مقدّس تشنگی، موّاج ہو سَر سے گذر
    اے پیمبر موت، انوکھی زندگی بن کر اُبھر
    اے مُقرِّر خامشی منبر پہ آ، تقریر کر
    اے لہو پھر قشقہٰ پیشانیِ کردار بَن
    اے جراحت میان سے باہر نکل، تلوار بَن
    دیکھ پھر قعرِ جہنمّ بن چکا ہے روزگار
    آنچ میں غلطیدہ ہے پھر خیمہِٰ لیل و نہار
    پھر زمیں پر حکمراں ہیں باہزاراں اقتدار
    آ تش و دود و دُخان و شعلہ و برق و شرار
    زندگی ہے برسرِ آ تش فشانی یاحسینٔ⁠
    آگ دنیا میں لگی ہے آگ، پانی یا حُسینٔ⁠
    جوش ملیح آبادی

    • @statusvideos8662
      @statusvideos8662 Місяць тому

      جناب مکمل مل سکتی ہے ریکارڈنگ

    • @SajidKhan-jg8bk
      @SajidKhan-jg8bk Місяць тому

      Labbaik Ya Hussain ❤❤❤🤲🤲🤲

  • @masoodakhtar2
    @masoodakhtar2 Місяць тому +1

    Lajawab