اے شعاعِ سحرِ تازہ نئے سال کی لَو میرے سینے میں بھڑکتی ہے ابھی درد کی لَو میری آنکھوں میں شکستہ ہیں ابھی رات کے خواب میرے دل پر ہے ابھی شعلۂ غم کا پرتَو جا بجا زخم تمنا کے مری خاک میں ہیں کیا ابھی اور بھی ناوک کفِ افلاک میں ہیں
ہر نئے سال کی آمد پہ یہ خوش فہم ترے پھر سے آراستہ کرتے ہیں در و بام اپنے پھر سے واماندہ ارادوں کو تسّلی دینے ہم بھُلا دیتے ہیں کچھ دیر کو آلام اپنے گُل شدہ شمعوں کو ہم پھر سے جلا دیتے ہیں پھر سے ویرانئی قسمت کو دعا دیتے ہیں یوں ہی ہر سال مرے دیس کی بے بس خلقت پھر سے ادوار کے انبار میں دب جاتی ہے خود فریبی کے تبسّم کو سجا لینے سے شدّتِ کرب بھلا چہروں سے کب جاتی ہے منزلِ شوق کا اب کوئی بھی دلدادہ نہیں وہ تھکن ہے کہ مسافر سفر آمادہ نہیں اک نظر دیکھ یہ انبوہ دَر انبوہ غلام جو فقط شومئی تقدیر سے وابستہ ہیں اِن کو کچھ بھی تو بجز وعدۂ فردا نہ ملا یہ جو خود ساختہ زنجیر سے پابستہ ہیں اِن کا ایک ایک نفس رہن ہے اغیار کے پاس اب تو غمخوار بھی آتے نہیں بیمار کے پاس اے نئے سال کروں میں بھی سواگت تیرا تو اگر دل سے مرے چاک قبائی لے لے میں تو اُس صبحِ درخشاں کو تونگر جانوں جو مرے ہاتھ سے کشکولِ گدائی لے لے جو مری خاک کو مستِ مئے پندار کرے جو مرے دشتِ وفا کو گل و گلزار کرے احمد فراز
ھائےےےےے میرے مرشد
واہ کیا بات ہے حضرت فراز کی۔۔۔۔❤❤❤🌷🌷🌷
Subhanallah Khursheed bhai kiya khoobsorat kalam share kiya hey naye saal ji munasibat sey.... or woh bhi Faraz ka khoobsoratkalam. Shukriya
یہ محب وطن لوگ تھے
اے شعاعِ سحرِ تازہ نئے سال کی لَو
میرے سینے میں بھڑکتی ہے ابھی درد کی لَو
میری آنکھوں میں شکستہ ہیں ابھی رات کے خواب
میرے دل پر ہے ابھی شعلۂ غم کا پرتَو
جا بجا زخم تمنا کے مری خاک میں ہیں
کیا ابھی اور بھی ناوک کفِ افلاک میں ہیں
ہر نئے سال کی آمد پہ یہ خوش فہم ترے
پھر سے آراستہ کرتے ہیں در و بام اپنے
پھر سے واماندہ ارادوں کو تسّلی دینے
ہم بھُلا دیتے ہیں کچھ دیر کو آلام اپنے
گُل شدہ شمعوں کو ہم پھر سے جلا دیتے ہیں
پھر سے ویرانئی قسمت کو دعا دیتے ہیں
یوں ہی ہر سال مرے دیس کی بے بس خلقت
پھر سے ادوار کے انبار میں دب جاتی ہے
خود فریبی کے تبسّم کو سجا لینے سے
شدّتِ کرب بھلا چہروں سے کب جاتی ہے
منزلِ شوق کا اب کوئی بھی دلدادہ نہیں
وہ تھکن ہے کہ مسافر سفر آمادہ نہیں
اک نظر دیکھ یہ انبوہ دَر انبوہ غلام
جو فقط شومئی تقدیر سے وابستہ ہیں
اِن کو کچھ بھی تو بجز وعدۂ فردا نہ ملا
یہ جو خود ساختہ زنجیر سے پابستہ ہیں
اِن کا ایک ایک نفس رہن ہے اغیار کے پاس
اب تو غمخوار بھی آتے نہیں بیمار کے پاس
اے نئے سال کروں میں بھی سواگت تیرا
تو اگر دل سے مرے چاک قبائی لے لے
میں تو اُس صبحِ درخشاں کو تونگر جانوں
جو مرے ہاتھ سے کشکولِ گدائی لے لے
جو مری خاک کو مستِ مئے پندار کرے
جو مرے دشتِ وفا کو گل و گلزار کرے
احمد فراز
نئے سال کی آمد پر فراز صاحب کی ایک بہترین نظم آپ دوستوں کی خدمت میں
بہت خوب
❤❤❤🙏🙏🙏
آج کے ملکی حالات پہ سوفیصد فٹ آتی ہے ۔۔۔
Listening to it while entering 2024
احمد فراز کے اور مشاعرے پوسٹ کریں...!!!