Malka Tarnam Noor Jahan Ijaz ki dewani || Noor Jahan biography ملکہ ترنم نورجہاں عجاز کی دیوانی

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 13 вер 2024
  • #noor #jahan #malka #tarnam
    نورِجہاں ایک ایسا احساس ہے جو جہان کے لیے راحت کا پیغام ہے: خوشخبری ہے، خوش الہانی اور نیک نامی ہے۔ نورجہاں اپنے وابستگان کے لیے ہزاروں خوش بختیوں کا باعث بنیں تو دنیا میں ان گنت سننے والوں کی سماعتوں میں شہد گھولنے کی نیکیاں برسوں سے اپنے نام کر رہی ہیں
    نورجہاں کی پہلی شادی شوکت حسین رضوی سے سنہ 1944 میں ہوئی جب وہ ’بے بی نورجہاں‘ سے ’نورجہاں‘ ہوئیں۔ نورجہاں اور شوکت حسین رضوی کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے جن میں اکبر رضوی (اکو میاں)، ظل ہما اور اصغر رضوی (اچھو میاں) شامل ہیں۔ شوکت حسین رضوی ناصرف نور جہاں کے شوہر رہے بلکہ گرو بھی تھے
    ایک مرتبہ نورجہاں دوستوں کی محفل میں اپنے گیتوں کی غیرمعمولی کامیابی کو اپنے بچوں کی پیدائش سے جوڑ رہی تھیں۔
    نورجہاں نے تفاخرانہ انداز میں کہاکہ جب میرا گیت"’ آواز دے کہاں ہے دنیا میری جواں ہے‘ ہٹ ہوا تو میرا بیٹا اکبر پیدا ہونے والا تھا۔اسی طرح میرا گیت ’چن دئیا ٹوٹیا‘ سپر ہٹ ہوا تو ظل ہما پیدا ہونے والی تھی۔ اسی طرح جب میرا گایا گیت ’آ جا میری برباد محبت کے سہارے‘ ہٹ ہوا تو اچھو میاں (اصغر رضوی ) میرے پیٹ میں تھے۔
    اس پر پاس بیٹھے ایک شخص نے نور جہاں سے کہا کہ ’میڈم، کیا آپ نے کبھی کوئی گیت خالی پیٹ بھی گایا ہے۔‘ اس پر محفل میں قہقے گونج اٹھے اور نور جہاں بھی کھلکھلا کر قہقے لگانے لگیں
    نورجہاں نے گانا اس وقت سیکھنا شروع کیا جب وہ منھ سے ’توتلے‘ الفاظ ادا کر پاتی تھیں۔
    نورجہاں کا اصل نام اللہ وسائی تھا اور وہ ضلع قصور کے علاقے کوٹ مراد خاں میں پیدا ہوئیں تھیں۔ ان کے اُستاد غلام محمد المعروف گامے خاں بتاتے تھے کہ اللہ وسائی سے ان کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ صرف چار دن کی تھیں اور جب ان کے اہلخانہ انھیں ’جھنڈ اتروانے‘اور سلام کرنے کے لیے بابا بلھے شاہ کے مزار پر لے جا رہے تھے۔
    ( دوستو نوزائیدہ بچوں کے بال اتروانے کی رسم کو’جھنڈ اتروانا کہتے ہیں۔ )
    سات برس کی عمر میں اللہ وسائی اپنی بہن عیدن بائی اور کزن حیدر باندی کے ساتھ قصور اور آس پاس کے علاقوں میں ننھی مغینہ کے طور پر مشہور ہو چکی تھیں۔
    سنہ 1942 میں لاہور کے فلمی ادارے کے سربراہ سیٹھ دل سکھ ایم پنچولی نے نورجہاں کو بطور ہیروئن کاسٹ کیا اور اس وقت کے ’پڑھے لکھے ہدایتکار‘ شوکت حسین رضوی سے فلم ’خاندان‘ بنوائی۔ اس فلم کی کامیابی نے جہاں نور جہاں کو پورے بھارت کی سٹار کنفرم کیا وہاں فلم میکنگ میں بھی لاہور، کلکتہ اور بمبئی کے مقابلے میں سامنے آن کھڑا ہوا
    نورجہاں حاضر جواب
    نورجہاں حاضر جواب تھیں۔ وہ کسی دوسرے شخص کے منھ سے برموقع اور برمحل اچھی بات سنتی تو اسے داد بھی دیتیں تھیں۔
    دوستو نورجہاں کی دوسری شادی اعجاز درانی سے 1959 میں ہوئی جب وہ ’سُپرسٹار‘ ہونے کے ساتھ ساتھ ’ملکہ ترنم‘ کا لقب پا چکی تھیں. ان کی تین بیٹیاں پیدا ہوئیں جن میں حنا، شازیہ اور ٹینا شامل ہیں.
    نورجہاں کے نزدیک اعجاز کی حیثیت شوہر سے زیادہ ’انوکھے لاڈلے‘ کی تھی
    نور جہاں اور اعجاز درانی کی شادی کے وقت دونوں کی عمریں بالترتیب 33 اور 24 برس تھیں یعنی اعجاز نور جہاں سے نو سال چھوٹے تھے۔ نورجہاں اور اعجاز کی شادی اور دونوں کے رشتے کے بارے میں نگارخانوں میں مشہور ہوا تھا کہ نورجہاں نے اعجاز کو یوں رکھا جیسے ’ہتھیلی کا پھپولا.
    ان کی بیٹی حنا بتاتی ہیں کہ ’میں نے اپنی ماں کو اپنے باپ کے عاشق کے طور پر دیکھا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ماں ابا کے لیے کپڑے خود استری کر رہی ہیں، پینٹ کوٹ کے ساتھ میچنگ جرابیں تک خود پہنا رہی ہیں۔ ابا کے نہانے کا پانی گرم ہو رہا ہے۔ ماں ابا کے ناز اٹھا رہی ہیں۔ ہم بہنوں نے دیکھا کہ میری ماں جب بھی ابا کے سامنے آئیں سولہ سال کی لڑکی بن گئیں۔
    فردوس بیگم، اعجاز کے قریب کیسے ہوئی؟
    نورجہاں سے شادی کے بعد اعجاز اور زیادہ سنجیدہ اور میچور ہو گئے تھے۔ ویسے بھی وہ دھیمے مزاج کے انسان تھے۔ نور جہاں کے ساتھ رشتہ ازدواج میں رہتے ہوئے جہاں اعجاز ایک طرف ایک کامیاب اداکار بن چکے تھے دوسری طرف انھوں نے ایک کامیاب فلم پروڈکشن ہاؤس قائم کیا جس میں اپنے وقت کے نامور پیشہ وروں کو باہم اکٹھا کر لیا۔
    اُن کے ادارے سے ’دوستی‘، ’مولابخش‘ اور ’شعلے‘ جیسی کامیاب فلمیں پروڈیوس ہوئیں جبکہ سب سے کامیاب فلم ’ہیر رانجھا‘ رہی جس میں بذات خود انھوں نے ’رانجھا‘ کا کردار نبھایا جبکہ اپنے وقت کی سپر سٹار فردوس بیگم ’ہیر‘ بنیں۔
    اس فلم نے باکس آفس پر تو بزنس کے ریکارڈز قائم کیے لیکن نور جہاں اور اعجاز کو ایک دوسرے سے دور کر دیا۔
    نورجہاں نگار خانوں کے ماحول سے اچھی طرح واقف تھیں۔ لیکن سب احتیاطیں دھری کی دھری رہ گئیں اور فردوس، نورجہاں اور اعجاز کے درمیان آن کھڑی ہوئی تھی۔
    نورجہاں نے اعجاز سے کہا ’پینو لمبو‘ کا پیچھا چھوڑ دو
    اعجاز اور فردوس کی جوڑی سپر ہٹ ہو گئی اور فلمساز انھیں اکٹھا سائن کرنے لگے۔ دونوں نگار خانوں کے ساتھ ساتھ آؤٹ ڈور شوٹنگز میں بہت سارا وقت اکٹھے گزارتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب آ چکے تھے۔
    اس قربت کا علم نورجہاں کو بھی ہو چکا تھا۔
    نورجہاں سخت الفاط میں اعجاز سے گلہ کرتیں کہ ’پینو لمبو‘ سے دور ہو جاؤ۔ دوستو فردوس بیگم کا اصل نام پروین تھا اور لمبے قد کی وجہ سے نگار خانوں میں انھیں ’پینو لمبو‘ بھی کہا جاتا تھا۔ اعجاز اپنے طبیعت کے دھیمے پن اور معاملہ فہمی سے ٹال مٹول کرتے رہے۔
    نورجہاں نے اعجاز کے ساتھ ہرطرح سے نبھانا چاہا لیکن حالات دونوں کو ایک دوسرے سے دور لے گئے۔ نورجہاں کے بارے میں مشہور تھا کہ جب انھیں غصہ آتا ہے تو وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتیں لیکن اعجاز کا انھوں نے ہمیشہ لحاظ کیا۔
    80 کی دہائی میں اعجاز مبینہ طور پر اپنی فلموں کے ڈبوں میں منشیات بھر کر لندن لے جاتے ہوئے ہیتھرو ایئرپورٹ پر گرفتار ہوئے۔ اس مقدمے میں انھیں کئی سال کی سزا ہوئی۔ نورجہاں نے اعجاز سے جیل میں ملاقات کی اور برطانوی عدالتی قوانین کے مطابق ان کی رہائی میں بھی مدد کی اس بات

КОМЕНТАРІ •