سڑک پر نماز جمعہ کی ادائیگی کو با اثر بنانے کے لیے اک قیادت پر اکٹھے ہوکر یہ عمل انجام دیا جائے تو پھر مطالبات منوائے جاسکتے ہیں ۔ وگرنہ اسطرح مشکلات کم نہیں ہوں گی بلکہ اور بڑھیں گی
اکثر لوگ استاد محترم کے پاراچنار کی خاطر روڈ پہ نکلنے سے متعلق سوال اٹھا رہے ہیں اور کچھ اس کو فلسطین کی خاطر نکلنے کے ساتھ موازنہ بھی کر رہے ہیں۔ ان کی خدمت میں میری طرف سے ایک جواب: خود ہم پاراچنار کے لوگ صرف کچھ دن محاصرے کے بعد چیختے رہے کہ علماء کیوں خاموش ہیں، اس دفعہ پاکستان کے شیعہ نہیں اٹھ رہے وغیرہ وغیرہ، لیکن اسی پاراچنار میں خواص اور عام دونوں کو 7 اکتوبر 2023 سے مجھ سمیت ہمارے دوست کہتے رہے کہ غزہ کی خاطر آواز اٹھانی چاہئے لیکن مجھے آپ ہی بتا دو کہ سوائے یوم القدس کے جو کہ پہلے سے ہی امام خمینی رہ کے فرمان پہ ہوتا رہا ہے، کس کس نے فلسطینی مظلومین کے حق میں اسی لیول کی آواز بلند کی جس لیول کا حق تھا؟ اب آتے ہیں پاراچنار کی خاطر نکلنے کے موضوع پر۔ نظریاتی انسان میں اور غیر نظریاتی انسان میں بنیادی فرق یہی ہوتا ہے کہ نظریاتی انسان ایک خاص نظریے کی بناء پر اپنی پوری زندگی ایک خاص سمت میں گزارتا ہے جبکہ غیر نظریاتی انسان حالات کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ استاد محترم آقای سید جواد نقوی نے ہمیشہ پاراچنار کیلئے مستقل حل تلاش کیا ہے نہ کہ حالات خراب ہونے کے بعد ایک وقتی سٹریٹجی۔ استاد محترم کا سب سے بڑا ویژن پاراچنار کیلئے یہ ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، پاراچنار کی عوام اپنے مرکز سے جڑی رہے اور اپنے پیش امام کی اطاعت کریں۔ خود ہمیں آقا صاحب کی من و عن یہی ہدایات ہیں۔ آپ اس بات کا اندازہ اسی سے لگائیں کہ ابھی جب آقای مظاہری استاد محترم سے ملاقات کیلئے گئے تو آقا صاحب ان کو رخصت کرتے وقت ان کی گاڑی کا دروازہ کھولنے اور بند کرنے تک گئے۔ یہ سب ہم سے کیا کہہ رہا ہے؟ یہی کہ آقای مظاہری کی اطاعت اس وقت کس قدر ضروری ہے؟ خود آقای مظاہری سے ہی یہ طے پایا تھا کہ جرگہ آگے بڑھے گا اور اگر جرگہ میں ناکامی ہوئی یا کوئی مسئلہ پیش آیا تو آقای مظاہری کی کال کے مطابق آگے سب ہوگا۔ استاد محترم اپنے عہد کے پابند ہیں۔ آقای مظاہری کے حکم پر پہلے قدم میں انہوں نے دھرنوں کی تائید کی اور اپنے جامعہ کے طالبعلموں کو اور تحریک بیداری کے مرکزی مسئولین کو بھی دھرنوں میں بھیجا۔ لیکن ابھی آقای مظاہری کی وہ کال نہیں آئی قائدین کو کہ وہ آخری اقدامات کی طرف جائیں۔ استاد محترم جب 2013 میں دھرنوں میں گئے تھے تب بھی پوری پاکستانی قوم نے آقا صاحب کا لب و لہجہ اور عمل دیکھا تھا کہ آقا صاحب کسی سے ساز باز کو قبول نہیں کرتے اور جب ایک فیصلہ کر لیتے ہیں تو اس پہ ڈٹ جاتے ہیں۔ لہذا ایسے میں کسی کی شخصیت پہ کیچڑ اچھالنے کی بجائے اس کے احسانات کو یاد رکھنا چاہئے جو اس نے ہم پہ کئے ہوں۔ ہم خود استاد محترم کی ہدایات ہی کے مطابق حتی المقدور مرکزیت کی مضبوطی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم سب پاراچنار میں تحریک بیداری کے دوست صرف حالات خراب ہونے کے دنوں میں نہیں بلکہ عام دنوں میں بھی مرکز کے، انجمن کے، اور بالخصوص آقای پیش امام کے شانہ بشانہ کھڑے رہتے ہیں۔
اکثر لوگ استاد محترم کے پاراچنار کی خاطر روڈ پہ نکلنے سے متعلق سوال اٹھا رہے ہیں اور کچھ اس کو فلسطین کی خاطر نکلنے کے ساتھ موازنہ بھی کر رہے ہیں۔ ان کی خدمت میں میری طرف سے ایک جواب: خود ہم پاراچنار کے لوگ صرف کچھ دن محاصرے کے بعد چیختے رہے کہ علماء کیوں خاموش ہیں، اس دفعہ پاکستان کے شیعہ نہیں اٹھ رہے وغیرہ وغیرہ، لیکن اسی پاراچنار میں خواص اور عام دونوں کو 7 اکتوبر 2023 سے مجھ سمیت ہمارے دوست کہتے رہے کہ غزہ کی خاطر آواز اٹھانی چاہئے لیکن مجھے آپ ہی بتا دو کہ سوائے یوم القدس کے جو کہ پہلے سے ہی امام خمینی رہ کے فرمان پہ ہوتا رہا ہے، کس کس نے فلسطینی مظلومین کے حق میں اسی لیول کی آواز بلند کی جس لیول کا حق تھا؟ اب آتے ہیں پاراچنار کی خاطر نکلنے کے موضوع پر۔ نظریاتی انسان میں اور غیر نظریاتی انسان میں بنیادی فرق یہی ہوتا ہے کہ نظریاتی انسان ایک خاص نظریے کی بناء پر اپنی پوری زندگی ایک خاص سمت میں گزارتا ہے جبکہ غیر نظریاتی انسان حالات کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ استاد محترم آقای سید جواد نقوی نے ہمیشہ پاراچنار کیلئے مستقل حل تلاش کیا ہے نہ کہ حالات خراب ہونے کے بعد ایک وقتی سٹریٹجی۔ استاد محترم کا سب سے بڑا ویژن پاراچنار کیلئے یہ ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، پاراچنار کی عوام اپنے مرکز سے جڑی رہے اور اپنے پیش امام کی اطاعت کریں۔ خود ہمیں آقا صاحب کی من و عن یہی ہدایات ہیں۔ آپ اس بات کا اندازہ اسی سے لگائیں کہ ابھی جب آقای مظاہری استاد محترم سے ملاقات کیلئے گئے تو آقا صاحب ان کو رخصت کرتے وقت ان کی گاڑی کا دروازہ کھولنے اور بند کرنے تک گئے۔ یہ سب ہم سے کیا کہہ رہا ہے؟ یہی کہ آقای مظاہری کی اطاعت اس وقت کس قدر ضروری ہے؟ خود آقای مظاہری سے ہی یہ طے پایا تھا کہ جرگہ آگے بڑھے گا اور اگر جرگہ میں ناکامی ہوئی یا کوئی مسئلہ پیش آیا تو آقای مظاہری کی کال کے مطابق آگے سب ہوگا۔ استاد محترم اپنے عہد کے پابند ہیں۔ آقای مظاہری کے حکم پر پہلے قدم میں انہوں نے دھرنوں کی تائید کی اور اپنے جامعہ کے طالبعلموں کو اور تحریک بیداری کے مرکزی مسئولین کو بھی دھرنوں میں بھیجا۔ لیکن ابھی آقای مظاہری کی وہ کال نہیں آئی قائدین کو کہ وہ آخری اقدامات کی طرف جائیں۔ استاد محترم جب 2013 میں دھرنوں میں گئے تھے تب بھی پوری پاکستانی قوم نے آقا صاحب کا لب و لہجہ اور عمل دیکھا تھا کہ آقا صاحب کسی سے ساز باز کو قبول نہیں کرتے اور جب ایک فیصلہ کر لیتے ہیں تو اس پہ ڈٹ جاتے ہیں۔ لہذا ایسے میں کسی کی شخصیت پہ کیچڑ اچھالنے کی بجائے اس کے احسانات کو یاد رکھنا چاہئے جو اس نے ہم پہ کئے ہوں۔ ہم خود استاد محترم کی ہدایات ہی کے مطابق حتی المقدور مرکزیت کی مضبوطی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم سب پاراچنار میں تحریک بیداری کے دوست صرف حالات خراب ہونے کے دنوں میں نہیں بلکہ عام دنوں میں بھی مرکز کے، انجمن کے، اور بالخصوص آقای پیش امام کے شانہ بشانہ کھڑے رہتے ہیں۔ شکریہ۔
Khuda apko salamat rakhe
Hamesha
Inshallah 💓❤
Allah tala salamat rakhe aapko aur hum sabko samjh de 🤲🤲🤲🤲🤲🤲
مانشااللہ۔ آغا جان صاحب ❤❤❤ دلوں کی دھڑکن ہیں آپ۔ سلامت رہیں ۔۔ڈھیر ساری دعاوں کے ساتھ خوش رہیں۔۔❤
جزاک اللہ
jazakallah allah salamat rakkhey
ALLAH TAALA SALAMAT RAKHEY AAPKO AUR HUM SABKO SAMJH DE🤲
ماشااللہ❤
Ustad e muhtaram ❤😊
ماشاءاللہ ۔۔۔بہت خوبصورت خطبہ
Love you Aga Jaan❤❤❤
Allah pak apko lambi zindagi ata kry ameen❤
Mashallah ❤❤❤❤❤
Masha Allah
MashaAllah
Salamat agha jaan ❤❤❤
Blessings ❤
❤❤❤
Jumma Khutba Uploaded very late
پاراچنار اج مشکل میں ہیں خدا کیلئے پاراچنار کیلئے نکلو بلکہ اپنے اپ کیلئے نکلو کیونکہ اج ہم تکلیف میں ہیں کل اپ لوگ ہوگے کاش اج یہ حطبہ روڈ پر ہوتا
سڑک پر نماز جمعہ کی ادائیگی کو با اثر بنانے کے لیے اک قیادت پر اکٹھے ہوکر یہ عمل انجام دیا جائے تو پھر مطالبات منوائے جاسکتے ہیں ۔ وگرنہ اسطرح مشکلات کم نہیں ہوں گی بلکہ اور بڑھیں گی
خطبہ سڑک پر نہیں بلکہ دنیا بھر میں سنا گیا ھے میں ہالینڈ سے سن رہی ہوں
آپ نکلو بس یہی کافی ہے ۔۔استاد محترم نے کتنے قربانی دی ہے کچھ پتہ بھی ہے یا پیٹ سے بول رہے ہو
اکثر لوگ استاد محترم کے پاراچنار کی خاطر روڈ پہ نکلنے سے متعلق سوال اٹھا رہے ہیں اور کچھ اس کو فلسطین کی خاطر نکلنے کے ساتھ موازنہ بھی کر رہے ہیں۔ ان کی خدمت میں میری طرف سے ایک جواب:
خود ہم پاراچنار کے لوگ صرف کچھ دن محاصرے کے بعد چیختے رہے کہ علماء کیوں خاموش ہیں، اس دفعہ پاکستان کے شیعہ نہیں اٹھ رہے وغیرہ وغیرہ، لیکن اسی پاراچنار میں خواص اور عام دونوں کو 7 اکتوبر 2023 سے مجھ سمیت ہمارے دوست کہتے رہے کہ غزہ کی خاطر آواز اٹھانی چاہئے لیکن مجھے آپ ہی بتا دو کہ سوائے یوم القدس کے جو کہ پہلے سے ہی امام خمینی رہ کے فرمان پہ ہوتا رہا ہے، کس کس نے فلسطینی مظلومین کے حق میں اسی لیول کی آواز بلند کی جس لیول کا حق تھا؟
اب آتے ہیں پاراچنار کی خاطر نکلنے کے موضوع پر۔
نظریاتی انسان میں اور غیر نظریاتی انسان میں بنیادی فرق یہی ہوتا ہے کہ نظریاتی انسان ایک خاص نظریے کی بناء پر اپنی پوری زندگی ایک خاص سمت میں گزارتا ہے جبکہ غیر نظریاتی انسان حالات کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔
استاد محترم آقای سید جواد نقوی نے ہمیشہ پاراچنار کیلئے مستقل حل تلاش کیا ہے نہ کہ حالات خراب ہونے کے بعد ایک وقتی سٹریٹجی۔ استاد محترم کا سب سے بڑا ویژن پاراچنار کیلئے یہ ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، پاراچنار کی عوام اپنے مرکز سے جڑی رہے اور اپنے پیش امام کی اطاعت کریں۔ خود ہمیں آقا صاحب کی من و عن یہی ہدایات ہیں۔
آپ اس بات کا اندازہ اسی سے لگائیں کہ ابھی جب آقای مظاہری استاد محترم سے ملاقات کیلئے گئے تو آقا صاحب ان کو رخصت کرتے وقت ان کی گاڑی کا دروازہ کھولنے اور بند کرنے تک گئے۔ یہ سب ہم سے کیا کہہ رہا ہے؟ یہی کہ آقای مظاہری کی اطاعت اس وقت کس قدر ضروری ہے؟ خود آقای مظاہری سے ہی یہ طے پایا تھا کہ جرگہ آگے بڑھے گا اور اگر جرگہ میں ناکامی ہوئی یا کوئی مسئلہ پیش آیا تو آقای مظاہری کی کال کے مطابق آگے سب ہوگا۔ استاد محترم اپنے عہد کے پابند ہیں۔
آقای مظاہری کے حکم پر پہلے قدم میں انہوں نے دھرنوں کی تائید کی اور اپنے جامعہ کے طالبعلموں کو اور تحریک بیداری کے مرکزی مسئولین کو بھی دھرنوں میں بھیجا۔ لیکن ابھی آقای مظاہری کی وہ کال نہیں آئی قائدین کو کہ وہ آخری اقدامات کی طرف جائیں۔ استاد محترم جب 2013 میں دھرنوں میں گئے تھے تب بھی پوری پاکستانی قوم نے آقا صاحب کا لب و لہجہ اور عمل دیکھا تھا کہ آقا صاحب کسی سے ساز باز کو قبول نہیں کرتے اور جب ایک فیصلہ کر لیتے ہیں تو اس پہ ڈٹ جاتے ہیں۔
لہذا ایسے میں کسی کی شخصیت پہ کیچڑ اچھالنے کی بجائے اس کے احسانات کو یاد رکھنا چاہئے جو اس نے ہم پہ کئے ہوں۔ ہم خود استاد محترم کی ہدایات ہی کے مطابق حتی المقدور مرکزیت کی مضبوطی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم سب پاراچنار میں تحریک بیداری کے دوست صرف حالات خراب ہونے کے دنوں میں نہیں بلکہ عام دنوں میں بھی مرکز کے، انجمن کے، اور بالخصوص آقای پیش امام کے شانہ بشانہ کھڑے رہتے ہیں۔
اکثر لوگ استاد محترم کے پاراچنار کی خاطر روڈ پہ نکلنے سے متعلق سوال اٹھا رہے ہیں اور کچھ اس کو فلسطین کی خاطر نکلنے کے ساتھ موازنہ بھی کر رہے ہیں۔ ان کی خدمت میں میری طرف سے ایک جواب:
خود ہم پاراچنار کے لوگ صرف کچھ دن محاصرے کے بعد چیختے رہے کہ علماء کیوں خاموش ہیں، اس دفعہ پاکستان کے شیعہ نہیں اٹھ رہے وغیرہ وغیرہ، لیکن اسی پاراچنار میں خواص اور عام دونوں کو 7 اکتوبر 2023 سے مجھ سمیت ہمارے دوست کہتے رہے کہ غزہ کی خاطر آواز اٹھانی چاہئے لیکن مجھے آپ ہی بتا دو کہ سوائے یوم القدس کے جو کہ پہلے سے ہی امام خمینی رہ کے فرمان پہ ہوتا رہا ہے، کس کس نے فلسطینی مظلومین کے حق میں اسی لیول کی آواز بلند کی جس لیول کا حق تھا؟
اب آتے ہیں پاراچنار کی خاطر نکلنے کے موضوع پر۔
نظریاتی انسان میں اور غیر نظریاتی انسان میں بنیادی فرق یہی ہوتا ہے کہ نظریاتی انسان ایک خاص نظریے کی بناء پر اپنی پوری زندگی ایک خاص سمت میں گزارتا ہے جبکہ غیر نظریاتی انسان حالات کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔
استاد محترم آقای سید جواد نقوی نے ہمیشہ پاراچنار کیلئے مستقل حل تلاش کیا ہے نہ کہ حالات خراب ہونے کے بعد ایک وقتی سٹریٹجی۔ استاد محترم کا سب سے بڑا ویژن پاراچنار کیلئے یہ ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، پاراچنار کی عوام اپنے مرکز سے جڑی رہے اور اپنے پیش امام کی اطاعت کریں۔ خود ہمیں آقا صاحب کی من و عن یہی ہدایات ہیں۔
آپ اس بات کا اندازہ اسی سے لگائیں کہ ابھی جب آقای مظاہری استاد محترم سے ملاقات کیلئے گئے تو آقا صاحب ان کو رخصت کرتے وقت ان کی گاڑی کا دروازہ کھولنے اور بند کرنے تک گئے۔ یہ سب ہم سے کیا کہہ رہا ہے؟ یہی کہ آقای مظاہری کی اطاعت اس وقت کس قدر ضروری ہے؟ خود آقای مظاہری سے ہی یہ طے پایا تھا کہ جرگہ آگے بڑھے گا اور اگر جرگہ میں ناکامی ہوئی یا کوئی مسئلہ پیش آیا تو آقای مظاہری کی کال کے مطابق آگے سب ہوگا۔ استاد محترم اپنے عہد کے پابند ہیں۔
آقای مظاہری کے حکم پر پہلے قدم میں انہوں نے دھرنوں کی تائید کی اور اپنے جامعہ کے طالبعلموں کو اور تحریک بیداری کے مرکزی مسئولین کو بھی دھرنوں میں بھیجا۔ لیکن ابھی آقای مظاہری کی وہ کال نہیں آئی قائدین کو کہ وہ آخری اقدامات کی طرف جائیں۔ استاد محترم جب 2013 میں دھرنوں میں گئے تھے تب بھی پوری پاکستانی قوم نے آقا صاحب کا لب و لہجہ اور عمل دیکھا تھا کہ آقا صاحب کسی سے ساز باز کو قبول نہیں کرتے اور جب ایک فیصلہ کر لیتے ہیں تو اس پہ ڈٹ جاتے ہیں۔
لہذا ایسے میں کسی کی شخصیت پہ کیچڑ اچھالنے کی بجائے اس کے احسانات کو یاد رکھنا چاہئے جو اس نے ہم پہ کئے ہوں۔ ہم خود استاد محترم کی ہدایات ہی کے مطابق حتی المقدور مرکزیت کی مضبوطی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم سب پاراچنار میں تحریک بیداری کے دوست صرف حالات خراب ہونے کے دنوں میں نہیں بلکہ عام دنوں میں بھی مرکز کے، انجمن کے، اور بالخصوص آقای پیش امام کے شانہ بشانہ کھڑے رہتے ہیں۔
شکریہ۔
Dharna main shirkat kro allama sb
Asalamualiakum agha saab . mai akbar photo copywala baat karong. agha wapis jamia ana chatta hn.
2X speed
Parachinar ka momineen klye niklo agr shia han taw aj momineen per. Bura waqt ha
Mashallah ❣️🥰🥰🥰
Mashallah
❤❤