Ameen ham tamaam muslim bhai behan ko Imaan ke saath mouth nikalne ki tufik aata farmay aur gunaha karne se pahle se ye yaad rakhe ki Allah dekh rahai hai
*داستان فرار آج بھی لاجواب ہے* آج سے تقریباً چار سال قبل بریلویوں کے مناظر اعظم مفتی مطیع الرحمان رضوی کے ساتھ ناچیز کا مناظرہ طے ہوا، شروع میں تو مفتی صاحب بڑے طمطراق کے ساتھ فرمانے لگے کہ میں آپ کو چھوڑوں گا نہیں؛ لیکن جب گفتگو آگے بڑھی اور موصوف کو اونٹ پہاڑ کے نیچے آتا دکھائی دیا تو بڑی ہوشیاری کے ساتھ مختلف بہانے کرکے فرار ہوگئے۔ مفتی صاحب موصوف کے ساتھ جو کچھ خط و کتابت ہوئی تھی ناچیز نے اسے "داستانِ فرار" کے نام سے کتابی شکل میں شائع کردیا، بحمداللہ یہ خط و کتابت اتنی معلومات افزاء اور قیمتی تھی اور اس میں بریلویوں کے مناظر اعظم کا ایسا ناطقہ بند کیا گیا تھا کہ ہندوستان و پاکستان کے ایک درجن سے زیادہ محققین علماء نے نہایت شاندار الفاظ میں ناچیز کو دادِ تحسین سے نوازا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد بریلویوں کی بڑی کِرکِری ہوئی کہ ہمارے مسلک کا سب سے بڑا مناظر ایک عام دیوبندی طالب علم کے سامنے مات کھا گیا؛ اس لیے متعدد بریلوی علماء نے "داستان فرار" کا جواب دینے کی کوشش کی، اولاً ہندوستان کے ہی کسی بریلوی مولوی نے قسط وار جواب لکھنے کی کوشش کی لیکن شروع کی دو تین قسطیں (جن میں کتاب کی تقاریظ میں زبردستی کی کچھ خامیاں نکالی گئی تھی) تو ہمیں ملیں اس کے بعد کیا ہوا کچھ نہیں پتہ۔ اس کے بعد پاکستان کے کسی نام نہاد بریلوی محقق انجینئر تیمور رضا نے "داستان فرار پر ایک نظر" کے عنوان سے ڈھائی سو صفحات کی کتاب کا بیس پچیس صفحات میں جواب لکھا۔ ان دونوں حضرات نے چند صفحات سیاہ کرکے اپنے حواریین کو یہ پیغام اور دلاسہ دینے کی کوشش کی تھی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم نے "داستان فرار" کا جواب ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں سے لکھ دیا ہے۔ اس کے بعد بریلی سے نکلنے والے "ماہنامہ اعلی حضرت" میں بھی "داستان فرار" پر رد و قدح کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ تمام ہی کاوشیں بریلوی عوام تو دور علماء کو بھی مطمئن کرنے اور مناظر اعظم کی خفت مٹانے کے لیے ناکافی تھیں اس لیے اب خود مناظر اعظم مفتی مطیع الرحمان صاحب نے محاذ سنبھالا اور "تحقیق و تعاقب" کے نام سے "داستان فرار" کا نام نہاد جواب لکھا ہے، مفتی صاحب موصوف نے "داستان فرار" کے تقریباً اٹھانوے فیصد مضامین سے کوئی تعرض نہیں کیا؛ تقریباً 280 صفحات کی کتاب کے 136 صفحات میں خوامخواہ کی تمہیدیں اور اپنے مناظروں اور فتوحات کی ڈینگیں ہانکی گئی ہیں، 48 صفحات میں "داستان فرار" سے اپنی اور ناچیز کی تحریروں کے طویل ترین اقتباسات نقل کئے ہیں، 53 صفحات میں اپنے عقائد خمسہ (علم غیب، حاضر و ناظر، مختار کل، نور و بشر، نداء لغیر اللہ) کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ یہ "داستان فرار" کا موضوع ہی نہیں تھا،15 صفحات میں "داستان فرار" کی بعض عبارات پر کلام کرنے کی کوشش کی ہے، 7 صفحات میں اشاریے لکھے گئے ہیں، 25 صفحات میں علامہ فضل حق خیرآبادی کے تعلق سے ایک مضمون نقل کیا ہے جس کا "داستان فرار" کے عنوان سے کوئی تعلق نہیں اور محض کتاب کی ضخامت بڑھانے کے لیے شامل کیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ مناظر اعظم صاحب نے اپنی خفت کم کرنے کے لیے طوعاً و کرہاً قلم تو اٹھالیا لیکن دیگر بریلوی مولویوں کی طرح آپ بھی "داستان فرار" کے ٹھوس اور مضبوط دلائل کے سامنے بالکل عاجز و بے بس نظر آئے۔ مزید تماشا دیکھئے کہ ایک دیوبندی طالب علم کے ناقابل تردید وزنی دلائل کو "ہند و پاک کے 15 محققین دیوبندی علماء کی مشترکہ کاوش ابوحنظلہ کے نام سے چھپوائی گئی ہے" کہہ کر اپنے حواریین کو یہ طفل تسلی دی کہ مجھے ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی نامی ایک طالب علم نے اکیلے پٹخنی نہیں دی بلکہ ہند و پاک کے 15 دیوبندی محققین علماء نے مل کر مجھے دبایا ہے۔ بریلوی علماء کو چاہیے کہ اگر "داستان فرار" کا جواب ہی لکھنا ہے تو ہند و پاک کے کم از کم 30 بریلوی محققین کی ایک کمیٹی تشکیل دیں اور پھر مشترکہ طور پر کوشش کریں شاید کچھ کام بن سکے ورنہ اکیلے اکیلے تو اسی طرح رسوا ہوتے رہیں گے۔ ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی داستان فرار کی ڈاؤنلوڈ لنک👇 archive.org/details/DastanEFarar
*داستان فرار آج بھی لاجواب ہے* آج سے تقریباً چار سال قبل بریلویوں کے مناظر اعظم مفتی مطیع الرحمان رضوی کے ساتھ ناچیز کا مناظرہ طے ہوا، شروع میں تو مفتی صاحب بڑے طمطراق کے ساتھ فرمانے لگے کہ میں آپ کو چھوڑوں گا نہیں؛ لیکن جب گفتگو آگے بڑھی اور موصوف کو اونٹ پہاڑ کے نیچے آتا دکھائی دیا تو بڑی ہوشیاری کے ساتھ مختلف بہانے کرکے فرار ہوگئے۔ مفتی صاحب موصوف کے ساتھ جو کچھ خط و کتابت ہوئی تھی ناچیز نے اسے "داستانِ فرار" کے نام سے کتابی شکل میں شائع کردیا، بحمداللہ یہ خط و کتابت اتنی معلومات افزاء اور قیمتی تھی اور اس میں بریلویوں کے مناظر اعظم کا ایسا ناطقہ بند کیا گیا تھا کہ ہندوستان و پاکستان کے ایک درجن سے زیادہ محققین علماء نے نہایت شاندار الفاظ میں ناچیز کو دادِ تحسین سے نوازا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد بریلویوں کی بڑی کِرکِری ہوئی کہ ہمارے مسلک کا سب سے بڑا مناظر ایک عام دیوبندی طالب علم کے سامنے مات کھا گیا؛ اس لیے متعدد بریلوی علماء نے "داستان فرار" کا جواب دینے کی کوشش کی، اولاً ہندوستان کے ہی کسی بریلوی مولوی نے قسط وار جواب لکھنے کی کوشش کی لیکن شروع کی دو تین قسطیں (جن میں کتاب کی تقاریظ میں زبردستی کی کچھ خامیاں نکالی گئی تھی) تو ہمیں ملیں اس کے بعد کیا ہوا کچھ نہیں پتہ۔ اس کے بعد پاکستان کے کسی نام نہاد بریلوی محقق انجینئر تیمور رضا نے "داستان فرار پر ایک نظر" کے عنوان سے ڈھائی سو صفحات کی کتاب کا بیس پچیس صفحات میں جواب لکھا۔ ان دونوں حضرات نے چند صفحات سیاہ کرکے اپنے حواریین کو یہ پیغام اور دلاسہ دینے کی کوشش کی تھی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم نے "داستان فرار" کا جواب ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں سے لکھ دیا ہے۔ اس کے بعد بریلی سے نکلنے والے "ماہنامہ اعلی حضرت" میں بھی "داستان فرار" پر رد و قدح کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ تمام ہی کاوشیں بریلوی عوام تو دور علماء کو بھی مطمئن کرنے اور مناظر اعظم کی خفت مٹانے کے لیے ناکافی تھیں اس لیے اب خود مناظر اعظم مفتی مطیع الرحمان صاحب نے محاذ سنبھالا اور "تحقیق و تعاقب" کے نام سے "داستان فرار" کا نام نہاد جواب لکھا ہے، مفتی صاحب موصوف نے "داستان فرار" کے تقریباً اٹھانوے فیصد مضامین سے کوئی تعرض نہیں کیا؛ تقریباً 280 صفحات کی کتاب کے 136 صفحات میں خوامخواہ کی تمہیدیں اور اپنے مناظروں اور فتوحات کی ڈینگیں ہانکی گئی ہیں، 48 صفحات میں "داستان فرار" سے اپنی اور ناچیز کی تحریروں کے طویل ترین اقتباسات نقل کئے ہیں، 53 صفحات میں اپنے عقائد خمسہ (علم غیب، حاضر و ناظر، مختار کل، نور و بشر، نداء لغیر اللہ) کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ یہ "داستان فرار" کا موضوع ہی نہیں تھا،15 صفحات میں "داستان فرار" کی بعض عبارات پر کلام کرنے کی کوشش کی ہے، 7 صفحات میں اشاریے لکھے گئے ہیں، 25 صفحات میں علامہ فضل حق خیرآبادی کے تعلق سے ایک مضمون نقل کیا ہے جس کا "داستان فرار" کے عنوان سے کوئی تعلق نہیں اور محض کتاب کی ضخامت بڑھانے کے لیے شامل کیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ مناظر اعظم صاحب نے اپنی خفت کم کرنے کے لیے طوعاً و کرہاً قلم تو اٹھالیا لیکن دیگر بریلوی مولویوں کی طرح آپ بھی "داستان فرار" کے ٹھوس اور مضبوط دلائل کے سامنے بالکل عاجز و بے بس نظر آئے۔ مزید تماشا دیکھئے کہ ایک دیوبندی طالب علم کے ناقابل تردید وزنی دلائل کو "ہند و پاک کے 15 محققین دیوبندی علماء کی مشترکہ کاوش ابوحنظلہ کے نام سے چھپوائی گئی ہے" کہہ کر اپنے حواریین کو یہ طفل تسلی دی کہ مجھے ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی نامی ایک طالب علم نے اکیلے پٹخنی نہیں دی بلکہ ہند و پاک کے 15 دیوبندی محققین علماء نے مل کر مجھے دبایا ہے۔ بریلوی علماء کو چاہیے کہ اگر "داستان فرار" کا جواب ہی لکھنا ہے تو ہند و پاک کے کم از کم 30 بریلوی محققین کی ایک کمیٹی تشکیل دیں اور پھر مشترکہ طور پر کوشش کریں شاید کچھ کام بن سکے ورنہ اکیلے اکیلے تو اسی طرح رسوا ہوتے رہیں گے۔ ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی داستان فرار کی ڈاؤنلوڈ لنک👇 archive.org/details/DastanEFarar
*داستان فرار آج بھی لاجواب ہے* آج سے تقریباً چار سال قبل بریلویوں کے مناظر اعظم مفتی مطیع الرحمان رضوی کے ساتھ ناچیز کا مناظرہ طے ہوا، شروع میں تو مفتی صاحب بڑے طمطراق کے ساتھ فرمانے لگے کہ میں آپ کو چھوڑوں گا نہیں؛ لیکن جب گفتگو آگے بڑھی اور موصوف کو اونٹ پہاڑ کے نیچے آتا دکھائی دیا تو بڑی ہوشیاری کے ساتھ مختلف بہانے کرکے فرار ہوگئے۔ مفتی صاحب موصوف کے ساتھ جو کچھ خط و کتابت ہوئی تھی ناچیز نے اسے "داستانِ فرار" کے نام سے کتابی شکل میں شائع کردیا، بحمداللہ یہ خط و کتابت اتنی معلومات افزاء اور قیمتی تھی اور اس میں بریلویوں کے مناظر اعظم کا ایسا ناطقہ بند کیا گیا تھا کہ ہندوستان و پاکستان کے ایک درجن سے زیادہ محققین علماء نے نہایت شاندار الفاظ میں ناچیز کو دادِ تحسین سے نوازا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد بریلویوں کی بڑی کِرکِری ہوئی کہ ہمارے مسلک کا سب سے بڑا مناظر ایک عام دیوبندی طالب علم کے سامنے مات کھا گیا؛ اس لیے متعدد بریلوی علماء نے "داستان فرار" کا جواب دینے کی کوشش کی، اولاً ہندوستان کے ہی کسی بریلوی مولوی نے قسط وار جواب لکھنے کی کوشش کی لیکن شروع کی دو تین قسطیں (جن میں کتاب کی تقاریظ میں زبردستی کی کچھ خامیاں نکالی گئی تھی) تو ہمیں ملیں اس کے بعد کیا ہوا کچھ نہیں پتہ۔ اس کے بعد پاکستان کے کسی نام نہاد بریلوی محقق انجینئر تیمور رضا نے "داستان فرار پر ایک نظر" کے عنوان سے ڈھائی سو صفحات کی کتاب کا بیس پچیس صفحات میں جواب لکھا۔ ان دونوں حضرات نے چند صفحات سیاہ کرکے اپنے حواریین کو یہ پیغام اور دلاسہ دینے کی کوشش کی تھی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم نے "داستان فرار" کا جواب ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں سے لکھ دیا ہے۔ اس کے بعد بریلی سے نکلنے والے "ماہنامہ اعلی حضرت" میں بھی "داستان فرار" پر رد و قدح کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ تمام ہی کاوشیں بریلوی عوام تو دور علماء کو بھی مطمئن کرنے اور مناظر اعظم کی خفت مٹانے کے لیے ناکافی تھیں اس لیے اب خود مناظر اعظم مفتی مطیع الرحمان صاحب نے محاذ سنبھالا اور "تحقیق و تعاقب" کے نام سے "داستان فرار" کا نام نہاد جواب لکھا ہے، مفتی صاحب موصوف نے "داستان فرار" کے تقریباً اٹھانوے فیصد مضامین سے کوئی تعرض نہیں کیا؛ تقریباً 280 صفحات کی کتاب کے 136 صفحات میں خوامخواہ کی تمہیدیں اور اپنے مناظروں اور فتوحات کی ڈینگیں ہانکی گئی ہیں، 48 صفحات میں "داستان فرار" سے اپنی اور ناچیز کی تحریروں کے طویل ترین اقتباسات نقل کئے ہیں، 53 صفحات میں اپنے عقائد خمسہ (علم غیب، حاضر و ناظر، مختار کل، نور و بشر، نداء لغیر اللہ) کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ یہ "داستان فرار" کا موضوع ہی نہیں تھا،15 صفحات میں "داستان فرار" کی بعض عبارات پر کلام کرنے کی کوشش کی ہے، 7 صفحات میں اشاریے لکھے گئے ہیں، 25 صفحات میں علامہ فضل حق خیرآبادی کے تعلق سے ایک مضمون نقل کیا ہے جس کا "داستان فرار" کے عنوان سے کوئی تعلق نہیں اور محض کتاب کی ضخامت بڑھانے کے لیے شامل کیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ مناظر اعظم صاحب نے اپنی خفت کم کرنے کے لیے طوعاً و کرہاً قلم تو اٹھالیا لیکن دیگر بریلوی مولویوں کی طرح آپ بھی "داستان فرار" کے ٹھوس اور مضبوط دلائل کے سامنے بالکل عاجز و بے بس نظر آئے۔ مزید تماشا دیکھئے کہ ایک دیوبندی طالب علم کے ناقابل تردید وزنی دلائل کو "ہند و پاک کے 15 محققین دیوبندی علماء کی مشترکہ کاوش ابوحنظلہ کے نام سے چھپوائی گئی ہے" کہہ کر اپنے حواریین کو یہ طفل تسلی دی کہ مجھے ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی نامی ایک طالب علم نے اکیلے پٹخنی نہیں دی بلکہ ہند و پاک کے 15 دیوبندی محققین علماء نے مل کر مجھے دبایا ہے۔ بریلوی علماء کو چاہیے کہ اگر "داستان فرار" کا جواب ہی لکھنا ہے تو ہند و پاک کے کم از کم 30 بریلوی محققین کی ایک کمیٹی تشکیل دیں اور پھر مشترکہ طور پر کوشش کریں شاید کچھ کام بن سکے ورنہ اکیلے اکیلے تو اسی طرح رسوا ہوتے رہیں گے۔ ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی داستان فرار کی ڈاؤنلوڈ لنک👇 archive.org/details/DastanEFarar
*داستان فرار آج بھی لاجواب ہے* آج سے تقریباً چار سال قبل بریلویوں کے مناظر اعظم مفتی مطیع الرحمان رضوی کے ساتھ ناچیز کا مناظرہ طے ہوا، شروع میں تو مفتی صاحب بڑے طمطراق کے ساتھ فرمانے لگے کہ میں آپ کو چھوڑوں گا نہیں؛ لیکن جب گفتگو آگے بڑھی اور موصوف کو اونٹ پہاڑ کے نیچے آتا دکھائی دیا تو بڑی ہوشیاری کے ساتھ مختلف بہانے کرکے فرار ہوگئے۔ مفتی صاحب موصوف کے ساتھ جو کچھ خط و کتابت ہوئی تھی ناچیز نے اسے "داستانِ فرار" کے نام سے کتابی شکل میں شائع کردیا، بحمداللہ یہ خط و کتابت اتنی معلومات افزاء اور قیمتی تھی اور اس میں بریلویوں کے مناظر اعظم کا ایسا ناطقہ بند کیا گیا تھا کہ ہندوستان و پاکستان کے ایک درجن سے زیادہ محققین علماء نے نہایت شاندار الفاظ میں ناچیز کو دادِ تحسین سے نوازا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد بریلویوں کی بڑی کِرکِری ہوئی کہ ہمارے مسلک کا سب سے بڑا مناظر ایک عام دیوبندی طالب علم کے سامنے مات کھا گیا؛ اس لیے متعدد بریلوی علماء نے "داستان فرار" کا جواب دینے کی کوشش کی، اولاً ہندوستان کے ہی کسی بریلوی مولوی نے قسط وار جواب لکھنے کی کوشش کی لیکن شروع کی دو تین قسطیں (جن میں کتاب کی تقاریظ میں زبردستی کی کچھ خامیاں نکالی گئی تھی) تو ہمیں ملیں اس کے بعد کیا ہوا کچھ نہیں پتہ۔ اس کے بعد پاکستان کے کسی نام نہاد بریلوی محقق انجینئر تیمور رضا نے "داستان فرار پر ایک نظر" کے عنوان سے ڈھائی سو صفحات کی کتاب کا بیس پچیس صفحات میں جواب لکھا۔ ان دونوں حضرات نے چند صفحات سیاہ کرکے اپنے حواریین کو یہ پیغام اور دلاسہ دینے کی کوشش کی تھی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم نے "داستان فرار" کا جواب ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں سے لکھ دیا ہے۔ اس کے بعد بریلی سے نکلنے والے "ماہنامہ اعلی حضرت" میں بھی "داستان فرار" پر رد و قدح کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ تمام ہی کاوشیں بریلوی عوام تو دور علماء کو بھی مطمئن کرنے اور مناظر اعظم کی خفت مٹانے کے لیے ناکافی تھیں اس لیے اب خود مناظر اعظم مفتی مطیع الرحمان صاحب نے محاذ سنبھالا اور "تحقیق و تعاقب" کے نام سے "داستان فرار" کا نام نہاد جواب لکھا ہے، مفتی صاحب موصوف نے "داستان فرار" کے تقریباً اٹھانوے فیصد مضامین سے کوئی تعرض نہیں کیا؛ تقریباً 280 صفحات کی کتاب کے 136 صفحات میں خوامخواہ کی تمہیدیں اور اپنے مناظروں اور فتوحات کی ڈینگیں ہانکی گئی ہیں، 48 صفحات میں "داستان فرار" سے اپنی اور ناچیز کی تحریروں کے طویل ترین اقتباسات نقل کئے ہیں، 53 صفحات میں اپنے عقائد خمسہ (علم غیب، حاضر و ناظر، مختار کل، نور و بشر، نداء لغیر اللہ) کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ یہ "داستان فرار" کا موضوع ہی نہیں تھا،15 صفحات میں "داستان فرار" کی بعض عبارات پر کلام کرنے کی کوشش کی ہے، 7 صفحات میں اشاریے لکھے گئے ہیں، 25 صفحات میں علامہ فضل حق خیرآبادی کے تعلق سے ایک مضمون نقل کیا ہے جس کا "داستان فرار" کے عنوان سے کوئی تعلق نہیں اور محض کتاب کی ضخامت بڑھانے کے لیے شامل کیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ مناظر اعظم صاحب نے اپنی خفت کم کرنے کے لیے طوعاً و کرہاً قلم تو اٹھالیا لیکن دیگر بریلوی مولویوں کی طرح آپ بھی "داستان فرار" کے ٹھوس اور مضبوط دلائل کے سامنے بالکل عاجز و بے بس نظر آئے۔ مزید تماشا دیکھئے کہ ایک دیوبندی طالب علم کے ناقابل تردید وزنی دلائل کو "ہند و پاک کے 15 محققین دیوبندی علماء کی مشترکہ کاوش ابوحنظلہ کے نام سے چھپوائی گئی ہے" کہہ کر اپنے حواریین کو یہ طفل تسلی دی کہ مجھے ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی نامی ایک طالب علم نے اکیلے پٹخنی نہیں دی بلکہ ہند و پاک کے 15 دیوبندی محققین علماء نے مل کر مجھے دبایا ہے۔ بریلوی علماء کو چاہیے کہ اگر "داستان فرار" کا جواب ہی لکھنا ہے تو ہند و پاک کے کم از کم 30 بریلوی محققین کی ایک کمیٹی تشکیل دیں اور پھر مشترکہ طور پر کوشش کریں شاید کچھ کام بن سکے ورنہ اکیلے اکیلے تو اسی طرح رسوا ہوتے رہیں گے۔ ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی داستان فرار کی ڈاؤنلوڈ لنک👇 archive.org/details/DastanEFarar
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ❤❤❤❤❤❤❤❤❤
Allah pak sayyad Saab ko
Nazre bad se mahfoz rahk khy
Apne khas Fazal se
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ
Pura bayan me Maza a gaya
Din ke liye allah aap ko ilm samandar banade Sayyad aminul qadri sahab din ke liye bahut mehnat bahut mehnat bahut karte hain
Beshaq
Aulad e gause aazam hai apne Ghar ke din ko phelana jante hai
ماشاءاللہ ماشاءاللہ سبحان اللہ
Masha allah❤❤❤subhan allah❤
Mashallah bahut khub hazrat Allah aap ko salamat rakhe ameen summa ameen
Aminul Qadri zindabaad
Wah Wah aap jaisa تقریر نھی سونا
❤❤❤❤ Masha Allah waahh koun Allah best part
Sayyad aminul qadri is a very bast mukarrir
Masa Allah bht khub 🙌❤
Mashallah kya Baat Hai ❣️......
narhe e takbir allhu akbar
Aamin Samman❤❤❤❤❤
Aise mukarrir ki jarurat hai humare majhab ko tabhi humare majhab ke logon mai badlaao a sakta hai
Beshaq haq hai bhai
Subhan Allah masha Allah
Allah aap ko Salamat Rakhe
Subhanallah mashaallah 🌷🌷❤
Masaallah huzur💗💗💗💗💗💗💗💗
Heart touching bayan
Mashallah 🌹🌹🌹🌹
S. A. W
Ya gaus all madad ❤
Assalamualaikum Hazrat aminul Qadri Sahab
☝🏾☝🏾☝🏾🕋🕋🕋🤲🏽🤲🏽🤲🏽🇮🇳🇮🇳🇮🇳🇸🇦🇸🇦🇸🇦🕌🕌🕌
Allah aapko salamat rakhe
Massa Allah
❤
Ya khwaja ji ❤
Heart touching bayan
Ameen
ماشاء الله سبحان الله
Ya gaus all madad
Subhan Allah
masaallah ❤️❤️❤️❤️
❤❤❤❤❤❤masallha masallha❤❤❤❤❤🎉🎉🎉🎉🎉🎉😮😮😮😮😮😮
Ameen ham tamaam muslim bhai behan ko Imaan ke saath mouth nikalne ki tufik aata farmay aur gunaha karne se pahle se ye yaad rakhe ki Allah dekh rahai hai
MASALLAH
Mashallha ❤ I-LOVE islam ☪️
Beshaq mhasa Allah suhban allah ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
Allah
Subhan Allah 🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
Mashallah 🌹🌹🌹💫💫💫💫💫🌹🌹
Allaho Akbar
Mashallah mashallah
Masallah masallah Subhanallah Subhanallah bahot khoob Alahajrat❤️❤️🥰😍
Mashalla mashalla very nice
Haq bat hai Haque hai
❤❤❤❤❤
Masallah
Beshak massha allah aamen
Masa Allah 🤲❤👈🤲🤲🤲🤲
Subhanalah
Thik thik sahi bat hai
Chach me aisa bayan karne abhi tak nahi dekhe hain
😟😈❤️❤️🤲🕋
Masha Allah
Mashallah mashallah Subhan Allah
Mashallah
માશાઅલાહ
Mashallah hazrat
❤
Aisa muqarrir kabhi dekha nahi
❤️❤️❤️❤️❤️❤️😢😢😢😢
👉🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹👈
Subhanallah
👍
Hi
Subhanallah ❤️
Mashaallah
Masha allah hazrat bahut khoob
AmeenAllah❤❤ 😂😂😂❤❤ I love you AllahMasahAllahSubhanAllah
Allah bachaye sabko
*داستان فرار آج بھی لاجواب ہے*
آج سے تقریباً چار سال قبل بریلویوں کے مناظر اعظم مفتی مطیع الرحمان رضوی کے ساتھ ناچیز کا مناظرہ طے ہوا، شروع میں تو مفتی صاحب بڑے طمطراق کے ساتھ فرمانے لگے کہ میں آپ کو چھوڑوں گا نہیں؛ لیکن جب گفتگو آگے بڑھی اور موصوف کو اونٹ پہاڑ کے نیچے آتا دکھائی دیا تو بڑی ہوشیاری کے ساتھ مختلف بہانے کرکے فرار ہوگئے۔
مفتی صاحب موصوف کے ساتھ جو کچھ خط و کتابت ہوئی تھی ناچیز نے اسے "داستانِ فرار" کے نام سے کتابی شکل میں شائع کردیا، بحمداللہ یہ خط و کتابت اتنی معلومات افزاء اور قیمتی تھی اور اس میں بریلویوں کے مناظر اعظم کا ایسا ناطقہ بند کیا گیا تھا کہ ہندوستان و پاکستان کے ایک درجن سے زیادہ محققین علماء نے نہایت شاندار الفاظ میں ناچیز کو دادِ تحسین سے نوازا۔
اس کتاب کی اشاعت کے بعد بریلویوں کی بڑی کِرکِری ہوئی کہ ہمارے مسلک کا سب سے بڑا مناظر ایک عام دیوبندی طالب علم کے سامنے مات کھا گیا؛ اس لیے متعدد بریلوی علماء نے "داستان فرار" کا جواب دینے کی کوشش کی، اولاً ہندوستان کے ہی کسی بریلوی مولوی نے قسط وار جواب لکھنے کی کوشش کی لیکن شروع کی دو تین قسطیں (جن میں کتاب کی تقاریظ میں زبردستی کی کچھ خامیاں نکالی گئی تھی) تو ہمیں ملیں اس کے بعد کیا ہوا کچھ نہیں پتہ۔
اس کے بعد پاکستان کے کسی نام نہاد بریلوی محقق انجینئر تیمور رضا نے "داستان فرار پر ایک نظر" کے عنوان سے ڈھائی سو صفحات کی کتاب کا بیس پچیس صفحات میں جواب لکھا۔
ان دونوں حضرات نے چند صفحات سیاہ کرکے اپنے حواریین کو یہ پیغام اور دلاسہ دینے کی کوشش کی تھی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم نے "داستان فرار" کا جواب ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں سے لکھ دیا ہے۔
اس کے بعد بریلی سے نکلنے والے "ماہنامہ اعلی حضرت" میں بھی "داستان فرار" پر رد و قدح کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ تمام ہی کاوشیں بریلوی عوام تو دور علماء کو بھی مطمئن کرنے اور مناظر اعظم کی خفت مٹانے کے لیے ناکافی تھیں اس لیے اب خود مناظر اعظم مفتی مطیع الرحمان صاحب نے محاذ سنبھالا اور "تحقیق و تعاقب" کے نام سے "داستان فرار" کا نام نہاد جواب لکھا ہے،
مفتی صاحب موصوف نے "داستان فرار" کے تقریباً اٹھانوے فیصد مضامین سے کوئی تعرض نہیں کیا؛ تقریباً 280 صفحات کی کتاب کے 136 صفحات میں خوامخواہ کی تمہیدیں اور اپنے مناظروں اور فتوحات کی ڈینگیں ہانکی گئی ہیں، 48 صفحات میں "داستان فرار" سے اپنی اور ناچیز کی تحریروں کے طویل ترین اقتباسات نقل کئے ہیں، 53 صفحات میں اپنے عقائد خمسہ (علم غیب، حاضر و ناظر، مختار کل، نور و بشر، نداء لغیر اللہ) کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ یہ "داستان فرار" کا موضوع ہی نہیں تھا،15 صفحات میں "داستان فرار" کی بعض عبارات پر کلام کرنے کی کوشش کی ہے، 7 صفحات میں اشاریے لکھے گئے ہیں، 25 صفحات میں علامہ فضل حق خیرآبادی کے تعلق سے ایک مضمون نقل کیا ہے جس کا "داستان فرار" کے عنوان سے کوئی تعلق نہیں اور محض کتاب کی ضخامت بڑھانے کے لیے شامل کیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ مناظر اعظم صاحب نے اپنی خفت کم کرنے کے لیے طوعاً و کرہاً قلم تو اٹھالیا لیکن دیگر بریلوی مولویوں کی طرح آپ بھی "داستان فرار" کے ٹھوس اور مضبوط دلائل کے سامنے بالکل عاجز و بے بس نظر آئے۔
مزید تماشا دیکھئے کہ ایک دیوبندی طالب علم کے ناقابل تردید وزنی دلائل کو "ہند و پاک کے 15 محققین دیوبندی علماء کی مشترکہ کاوش ابوحنظلہ کے نام سے چھپوائی گئی ہے" کہہ کر اپنے حواریین کو یہ طفل تسلی دی کہ مجھے ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی نامی ایک طالب علم نے اکیلے پٹخنی نہیں دی بلکہ ہند و پاک کے 15 دیوبندی محققین علماء نے مل کر مجھے دبایا ہے۔
بریلوی علماء کو چاہیے کہ اگر "داستان فرار" کا جواب ہی لکھنا ہے تو ہند و پاک کے کم از کم 30 بریلوی محققین کی ایک کمیٹی تشکیل دیں اور پھر مشترکہ طور پر کوشش کریں شاید کچھ کام بن سکے ورنہ اکیلے اکیلے تو اسی طرح رسوا ہوتے رہیں گے۔
ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی
داستان فرار کی ڈاؤنلوڈ لنک👇
archive.org/details/DastanEFarar
Mashaallah💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞❤️❤️❤️❤️❤️❤️
Masha allah hazrat bahut khoob❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
Masha allah
❤❤❤❤❤
Subhan Allah ❤️❤️❤️❤️
Mashallah mashallah mashallah
❤
Mashallah
Mashaallah
Mashallah subhanallah
❤
Subhanallah
*داستان فرار آج بھی لاجواب ہے*
آج سے تقریباً چار سال قبل بریلویوں کے مناظر اعظم مفتی مطیع الرحمان رضوی کے ساتھ ناچیز کا مناظرہ طے ہوا، شروع میں تو مفتی صاحب بڑے طمطراق کے ساتھ فرمانے لگے کہ میں آپ کو چھوڑوں گا نہیں؛ لیکن جب گفتگو آگے بڑھی اور موصوف کو اونٹ پہاڑ کے نیچے آتا دکھائی دیا تو بڑی ہوشیاری کے ساتھ مختلف بہانے کرکے فرار ہوگئے۔
مفتی صاحب موصوف کے ساتھ جو کچھ خط و کتابت ہوئی تھی ناچیز نے اسے "داستانِ فرار" کے نام سے کتابی شکل میں شائع کردیا، بحمداللہ یہ خط و کتابت اتنی معلومات افزاء اور قیمتی تھی اور اس میں بریلویوں کے مناظر اعظم کا ایسا ناطقہ بند کیا گیا تھا کہ ہندوستان و پاکستان کے ایک درجن سے زیادہ محققین علماء نے نہایت شاندار الفاظ میں ناچیز کو دادِ تحسین سے نوازا۔
اس کتاب کی اشاعت کے بعد بریلویوں کی بڑی کِرکِری ہوئی کہ ہمارے مسلک کا سب سے بڑا مناظر ایک عام دیوبندی طالب علم کے سامنے مات کھا گیا؛ اس لیے متعدد بریلوی علماء نے "داستان فرار" کا جواب دینے کی کوشش کی، اولاً ہندوستان کے ہی کسی بریلوی مولوی نے قسط وار جواب لکھنے کی کوشش کی لیکن شروع کی دو تین قسطیں (جن میں کتاب کی تقاریظ میں زبردستی کی کچھ خامیاں نکالی گئی تھی) تو ہمیں ملیں اس کے بعد کیا ہوا کچھ نہیں پتہ۔
اس کے بعد پاکستان کے کسی نام نہاد بریلوی محقق انجینئر تیمور رضا نے "داستان فرار پر ایک نظر" کے عنوان سے ڈھائی سو صفحات کی کتاب کا بیس پچیس صفحات میں جواب لکھا۔
ان دونوں حضرات نے چند صفحات سیاہ کرکے اپنے حواریین کو یہ پیغام اور دلاسہ دینے کی کوشش کی تھی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم نے "داستان فرار" کا جواب ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں سے لکھ دیا ہے۔
اس کے بعد بریلی سے نکلنے والے "ماہنامہ اعلی حضرت" میں بھی "داستان فرار" پر رد و قدح کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ تمام ہی کاوشیں بریلوی عوام تو دور علماء کو بھی مطمئن کرنے اور مناظر اعظم کی خفت مٹانے کے لیے ناکافی تھیں اس لیے اب خود مناظر اعظم مفتی مطیع الرحمان صاحب نے محاذ سنبھالا اور "تحقیق و تعاقب" کے نام سے "داستان فرار" کا نام نہاد جواب لکھا ہے،
مفتی صاحب موصوف نے "داستان فرار" کے تقریباً اٹھانوے فیصد مضامین سے کوئی تعرض نہیں کیا؛ تقریباً 280 صفحات کی کتاب کے 136 صفحات میں خوامخواہ کی تمہیدیں اور اپنے مناظروں اور فتوحات کی ڈینگیں ہانکی گئی ہیں، 48 صفحات میں "داستان فرار" سے اپنی اور ناچیز کی تحریروں کے طویل ترین اقتباسات نقل کئے ہیں، 53 صفحات میں اپنے عقائد خمسہ (علم غیب، حاضر و ناظر، مختار کل، نور و بشر، نداء لغیر اللہ) کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ یہ "داستان فرار" کا موضوع ہی نہیں تھا،15 صفحات میں "داستان فرار" کی بعض عبارات پر کلام کرنے کی کوشش کی ہے، 7 صفحات میں اشاریے لکھے گئے ہیں، 25 صفحات میں علامہ فضل حق خیرآبادی کے تعلق سے ایک مضمون نقل کیا ہے جس کا "داستان فرار" کے عنوان سے کوئی تعلق نہیں اور محض کتاب کی ضخامت بڑھانے کے لیے شامل کیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ مناظر اعظم صاحب نے اپنی خفت کم کرنے کے لیے طوعاً و کرہاً قلم تو اٹھالیا لیکن دیگر بریلوی مولویوں کی طرح آپ بھی "داستان فرار" کے ٹھوس اور مضبوط دلائل کے سامنے بالکل عاجز و بے بس نظر آئے۔
مزید تماشا دیکھئے کہ ایک دیوبندی طالب علم کے ناقابل تردید وزنی دلائل کو "ہند و پاک کے 15 محققین دیوبندی علماء کی مشترکہ کاوش ابوحنظلہ کے نام سے چھپوائی گئی ہے" کہہ کر اپنے حواریین کو یہ طفل تسلی دی کہ مجھے ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی نامی ایک طالب علم نے اکیلے پٹخنی نہیں دی بلکہ ہند و پاک کے 15 دیوبندی محققین علماء نے مل کر مجھے دبایا ہے۔
بریلوی علماء کو چاہیے کہ اگر "داستان فرار" کا جواب ہی لکھنا ہے تو ہند و پاک کے کم از کم 30 بریلوی محققین کی ایک کمیٹی تشکیل دیں اور پھر مشترکہ طور پر کوشش کریں شاید کچھ کام بن سکے ورنہ اکیلے اکیلے تو اسی طرح رسوا ہوتے رہیں گے۔
ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی
داستان فرار کی ڈاؤنلوڈ لنک👇
archive.org/details/DastanEFarar
Masha Allah Subhan Allah bahot khub hazrat
Subhanallah
Masha Allah
Mashallah
*داستان فرار آج بھی لاجواب ہے*
آج سے تقریباً چار سال قبل بریلویوں کے مناظر اعظم مفتی مطیع الرحمان رضوی کے ساتھ ناچیز کا مناظرہ طے ہوا، شروع میں تو مفتی صاحب بڑے طمطراق کے ساتھ فرمانے لگے کہ میں آپ کو چھوڑوں گا نہیں؛ لیکن جب گفتگو آگے بڑھی اور موصوف کو اونٹ پہاڑ کے نیچے آتا دکھائی دیا تو بڑی ہوشیاری کے ساتھ مختلف بہانے کرکے فرار ہوگئے۔
مفتی صاحب موصوف کے ساتھ جو کچھ خط و کتابت ہوئی تھی ناچیز نے اسے "داستانِ فرار" کے نام سے کتابی شکل میں شائع کردیا، بحمداللہ یہ خط و کتابت اتنی معلومات افزاء اور قیمتی تھی اور اس میں بریلویوں کے مناظر اعظم کا ایسا ناطقہ بند کیا گیا تھا کہ ہندوستان و پاکستان کے ایک درجن سے زیادہ محققین علماء نے نہایت شاندار الفاظ میں ناچیز کو دادِ تحسین سے نوازا۔
اس کتاب کی اشاعت کے بعد بریلویوں کی بڑی کِرکِری ہوئی کہ ہمارے مسلک کا سب سے بڑا مناظر ایک عام دیوبندی طالب علم کے سامنے مات کھا گیا؛ اس لیے متعدد بریلوی علماء نے "داستان فرار" کا جواب دینے کی کوشش کی، اولاً ہندوستان کے ہی کسی بریلوی مولوی نے قسط وار جواب لکھنے کی کوشش کی لیکن شروع کی دو تین قسطیں (جن میں کتاب کی تقاریظ میں زبردستی کی کچھ خامیاں نکالی گئی تھی) تو ہمیں ملیں اس کے بعد کیا ہوا کچھ نہیں پتہ۔
اس کے بعد پاکستان کے کسی نام نہاد بریلوی محقق انجینئر تیمور رضا نے "داستان فرار پر ایک نظر" کے عنوان سے ڈھائی سو صفحات کی کتاب کا بیس پچیس صفحات میں جواب لکھا۔
ان دونوں حضرات نے چند صفحات سیاہ کرکے اپنے حواریین کو یہ پیغام اور دلاسہ دینے کی کوشش کی تھی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم نے "داستان فرار" کا جواب ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں سے لکھ دیا ہے۔
اس کے بعد بریلی سے نکلنے والے "ماہنامہ اعلی حضرت" میں بھی "داستان فرار" پر رد و قدح کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ تمام ہی کاوشیں بریلوی عوام تو دور علماء کو بھی مطمئن کرنے اور مناظر اعظم کی خفت مٹانے کے لیے ناکافی تھیں اس لیے اب خود مناظر اعظم مفتی مطیع الرحمان صاحب نے محاذ سنبھالا اور "تحقیق و تعاقب" کے نام سے "داستان فرار" کا نام نہاد جواب لکھا ہے،
مفتی صاحب موصوف نے "داستان فرار" کے تقریباً اٹھانوے فیصد مضامین سے کوئی تعرض نہیں کیا؛ تقریباً 280 صفحات کی کتاب کے 136 صفحات میں خوامخواہ کی تمہیدیں اور اپنے مناظروں اور فتوحات کی ڈینگیں ہانکی گئی ہیں، 48 صفحات میں "داستان فرار" سے اپنی اور ناچیز کی تحریروں کے طویل ترین اقتباسات نقل کئے ہیں، 53 صفحات میں اپنے عقائد خمسہ (علم غیب، حاضر و ناظر، مختار کل، نور و بشر، نداء لغیر اللہ) کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ یہ "داستان فرار" کا موضوع ہی نہیں تھا،15 صفحات میں "داستان فرار" کی بعض عبارات پر کلام کرنے کی کوشش کی ہے، 7 صفحات میں اشاریے لکھے گئے ہیں، 25 صفحات میں علامہ فضل حق خیرآبادی کے تعلق سے ایک مضمون نقل کیا ہے جس کا "داستان فرار" کے عنوان سے کوئی تعلق نہیں اور محض کتاب کی ضخامت بڑھانے کے لیے شامل کیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ مناظر اعظم صاحب نے اپنی خفت کم کرنے کے لیے طوعاً و کرہاً قلم تو اٹھالیا لیکن دیگر بریلوی مولویوں کی طرح آپ بھی "داستان فرار" کے ٹھوس اور مضبوط دلائل کے سامنے بالکل عاجز و بے بس نظر آئے۔
مزید تماشا دیکھئے کہ ایک دیوبندی طالب علم کے ناقابل تردید وزنی دلائل کو "ہند و پاک کے 15 محققین دیوبندی علماء کی مشترکہ کاوش ابوحنظلہ کے نام سے چھپوائی گئی ہے" کہہ کر اپنے حواریین کو یہ طفل تسلی دی کہ مجھے ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی نامی ایک طالب علم نے اکیلے پٹخنی نہیں دی بلکہ ہند و پاک کے 15 دیوبندی محققین علماء نے مل کر مجھے دبایا ہے۔
بریلوی علماء کو چاہیے کہ اگر "داستان فرار" کا جواب ہی لکھنا ہے تو ہند و پاک کے کم از کم 30 بریلوی محققین کی ایک کمیٹی تشکیل دیں اور پھر مشترکہ طور پر کوشش کریں شاید کچھ کام بن سکے ورنہ اکیلے اکیلے تو اسی طرح رسوا ہوتے رہیں گے۔
ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی
داستان فرار کی ڈاؤنلوڈ لنک👇
archive.org/details/DastanEFarar
Masha Allah
Mashallah
Subhanallah
*داستان فرار آج بھی لاجواب ہے*
آج سے تقریباً چار سال قبل بریلویوں کے مناظر اعظم مفتی مطیع الرحمان رضوی کے ساتھ ناچیز کا مناظرہ طے ہوا، شروع میں تو مفتی صاحب بڑے طمطراق کے ساتھ فرمانے لگے کہ میں آپ کو چھوڑوں گا نہیں؛ لیکن جب گفتگو آگے بڑھی اور موصوف کو اونٹ پہاڑ کے نیچے آتا دکھائی دیا تو بڑی ہوشیاری کے ساتھ مختلف بہانے کرکے فرار ہوگئے۔
مفتی صاحب موصوف کے ساتھ جو کچھ خط و کتابت ہوئی تھی ناچیز نے اسے "داستانِ فرار" کے نام سے کتابی شکل میں شائع کردیا، بحمداللہ یہ خط و کتابت اتنی معلومات افزاء اور قیمتی تھی اور اس میں بریلویوں کے مناظر اعظم کا ایسا ناطقہ بند کیا گیا تھا کہ ہندوستان و پاکستان کے ایک درجن سے زیادہ محققین علماء نے نہایت شاندار الفاظ میں ناچیز کو دادِ تحسین سے نوازا۔
اس کتاب کی اشاعت کے بعد بریلویوں کی بڑی کِرکِری ہوئی کہ ہمارے مسلک کا سب سے بڑا مناظر ایک عام دیوبندی طالب علم کے سامنے مات کھا گیا؛ اس لیے متعدد بریلوی علماء نے "داستان فرار" کا جواب دینے کی کوشش کی، اولاً ہندوستان کے ہی کسی بریلوی مولوی نے قسط وار جواب لکھنے کی کوشش کی لیکن شروع کی دو تین قسطیں (جن میں کتاب کی تقاریظ میں زبردستی کی کچھ خامیاں نکالی گئی تھی) تو ہمیں ملیں اس کے بعد کیا ہوا کچھ نہیں پتہ۔
اس کے بعد پاکستان کے کسی نام نہاد بریلوی محقق انجینئر تیمور رضا نے "داستان فرار پر ایک نظر" کے عنوان سے ڈھائی سو صفحات کی کتاب کا بیس پچیس صفحات میں جواب لکھا۔
ان دونوں حضرات نے چند صفحات سیاہ کرکے اپنے حواریین کو یہ پیغام اور دلاسہ دینے کی کوشش کی تھی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم نے "داستان فرار" کا جواب ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں سے لکھ دیا ہے۔
اس کے بعد بریلی سے نکلنے والے "ماہنامہ اعلی حضرت" میں بھی "داستان فرار" پر رد و قدح کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ تمام ہی کاوشیں بریلوی عوام تو دور علماء کو بھی مطمئن کرنے اور مناظر اعظم کی خفت مٹانے کے لیے ناکافی تھیں اس لیے اب خود مناظر اعظم مفتی مطیع الرحمان صاحب نے محاذ سنبھالا اور "تحقیق و تعاقب" کے نام سے "داستان فرار" کا نام نہاد جواب لکھا ہے،
مفتی صاحب موصوف نے "داستان فرار" کے تقریباً اٹھانوے فیصد مضامین سے کوئی تعرض نہیں کیا؛ تقریباً 280 صفحات کی کتاب کے 136 صفحات میں خوامخواہ کی تمہیدیں اور اپنے مناظروں اور فتوحات کی ڈینگیں ہانکی گئی ہیں، 48 صفحات میں "داستان فرار" سے اپنی اور ناچیز کی تحریروں کے طویل ترین اقتباسات نقل کئے ہیں، 53 صفحات میں اپنے عقائد خمسہ (علم غیب، حاضر و ناظر، مختار کل، نور و بشر، نداء لغیر اللہ) کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ یہ "داستان فرار" کا موضوع ہی نہیں تھا،15 صفحات میں "داستان فرار" کی بعض عبارات پر کلام کرنے کی کوشش کی ہے، 7 صفحات میں اشاریے لکھے گئے ہیں، 25 صفحات میں علامہ فضل حق خیرآبادی کے تعلق سے ایک مضمون نقل کیا ہے جس کا "داستان فرار" کے عنوان سے کوئی تعلق نہیں اور محض کتاب کی ضخامت بڑھانے کے لیے شامل کیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ مناظر اعظم صاحب نے اپنی خفت کم کرنے کے لیے طوعاً و کرہاً قلم تو اٹھالیا لیکن دیگر بریلوی مولویوں کی طرح آپ بھی "داستان فرار" کے ٹھوس اور مضبوط دلائل کے سامنے بالکل عاجز و بے بس نظر آئے۔
مزید تماشا دیکھئے کہ ایک دیوبندی طالب علم کے ناقابل تردید وزنی دلائل کو "ہند و پاک کے 15 محققین دیوبندی علماء کی مشترکہ کاوش ابوحنظلہ کے نام سے چھپوائی گئی ہے" کہہ کر اپنے حواریین کو یہ طفل تسلی دی کہ مجھے ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی نامی ایک طالب علم نے اکیلے پٹخنی نہیں دی بلکہ ہند و پاک کے 15 دیوبندی محققین علماء نے مل کر مجھے دبایا ہے۔
بریلوی علماء کو چاہیے کہ اگر "داستان فرار" کا جواب ہی لکھنا ہے تو ہند و پاک کے کم از کم 30 بریلوی محققین کی ایک کمیٹی تشکیل دیں اور پھر مشترکہ طور پر کوشش کریں شاید کچھ کام بن سکے ورنہ اکیلے اکیلے تو اسی طرح رسوا ہوتے رہیں گے۔
ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی
داستان فرار کی ڈاؤنلوڈ لنک👇
archive.org/details/DastanEFarar
Ma sha allah
Subhanallah