Akhtar Usman : Ghazal اِس عشقِ ناسپاس کی معیاد ہے کہ نئیں

Поділитися
Вставка
  • Опубліковано 29 сер 2024
  • اختر عثمان
    اِس عشقِ ناسپاس کی معیاد ہے کہ نئیں
    اے کاش علم ہوتا یہ اُفتاد ہے کہ نئیں
    میں اُس خراب خانے سے آیا تھا شہر میں
    اے قیس! میرا دشت اب آباد ہے ہے کہ نئیں
    کچھ لفظ لب تک آئے تھے اب تک لہو میں ہیں
    چشمِ خوش التفات کا ارشاد ہے کہ نئیں
    وابستگی تھی اور بدن و روح کی طرح
    پہلے ہم ایک ہی تھے، تمہیں یاد ہے کہ نئیں
    طبعاََ فقیر شخص ہُوں مجھ کو نہ چھیڑیے
    ذوقِ سلیم فطرتاََ آذاد ہے کہ نئیں
    کتنے خدا ہیں جن کو نہیں مانتا ہُوں مَیں
    اب آپ ہی بتائیں یہ الحاد ہے کہ نئیں
    گر کر گُلال گال سے بھیگا ہے برگ برگ
    للہ چپ ہوں، آپ سے فریاد ہے کہ نئیں
    بیدل نہیں ہیں سو مِرا مصرعہ اٹھائے کون !
    بزمِ ہنر میں اب کوئی استاد ہے کہ نئیں
    اُٹھتی سی جا رہی ہے یہ تیشہ زنی کی رسم
    اب دشت و کوہ میں کوئی فرہاد ہے کہ نئیں
    کیسے پڑھے گا کون پڑھے گا مِرا سخن
    شعرِ ابد شعار مرے بعد ہے کہ نئیں
    میں تو سَرِ مشاعرہ کرتا ہوں اپنی بات
    پڑھتا چلا گیا ہُوں، بھلے داد ہے کہ نئیں
    کردار ایک سے ہیں، کہانی کوئی بھی ہو
    میرے مطابق آپ کی روُداد ہے کہ نئیں
    میں نے تو زندگی میں بہت ہی ستم سہے
    یہ اور بات ہے ، ابد آباد ہے کہ نئیں
    اہلِ قفس کے حق میں بہت بولتا ہُوں مَیں
    میری بَلا سے باغ میں صیاد ہے کہ نئیں
    طوق و رسن کے ساتھ تعلق ازل سے ہے
    میں یوں بھی سرخمیدہ ہُوں، فولاد ہے کہ نئیں
    مصرعہ تراشنا کس و ناکس کا کام ہے؟
    بتلائیے یہ طبع خدا داد ہے کہ نئیں
    جانے یہ کیا مقام ہے، یہ کون لوگ ہیں؟
    اس حاشیے میں کوئی زمیں زاد ہے کہ نئیں
    نام و نسَب ہے اور مرا سلسلہ بھی ہے
    لفظیں تو دیکھیے میری اولاد ہے کہ نئیں
    جانے کدھر نکل گئے میرے غریب دوست
    محفل میں کوئی بوذرؓ و مقدادؓ ہے کہ نئیں
    اب تک مہاجرت ہے ابھی تک مسافرت
    ہم سا بھی کوئی دہر میں برباد ہے کہ نئیں
    نسلاََ شعار عشق ہے نیزے پہ سرفراز
    اصلاََ سخن سرائی کی بنیاد ہے کہ نئیں
    اختر یہ بندشیں، یہ نشستیں، یہ بستی و در
    مجھ کو پتہ نہیں ہے، یہ ایجاد ہے کہ نئیں
    اختر عثمان

КОМЕНТАРІ • 5

  • @PANGPIRAAN
    @PANGPIRAAN Рік тому

    💐💐💐💐💐💐💐💐💐

  • @khursheedabdullah2261
    @khursheedabdullah2261  Рік тому +4

    اِس عشقِ ناسپاس کی معیاد ہے کہ نئیں
    اے کاش علم ہوتا یہ اُفتاد ہے کہ نئیں
    میں اُس خراب خانے سے آیا تھا شہر میں
    اے قیس! میرا دشت اب آباد ہے ہے کہ نئیں
    کچھ لفظ لب تک آئے تھے اب تک لہو میں ہیں
    چشمِ خوش التفات کا ارشاد ہے کہ نئیں
    وابستگی تھی اور بدن و روح کی طرح
    پہلے ہم ایک ہی تھے، تمہیں یاد ہے کہ نئیں
    طبعاََ فقیر شخص ہُوں مجھ کو نہ چھیڑیے
    ذوقِ سلیم فطرتاََ آذاد ہے کہ نئیں
    کتنے خدا ہیں جن کو نہیں مانتا ہُوں مَیں
    اب آپ ہی بتائیں یہ الحاد ہے کہ نئیں
    گر کر گُلال گال سے بھیگا ہے برگ برگ
    للہ چپ ہوں، آپ سے فریاد ہے کہ نئیں
    بیدل نہیں ہیں سو مِرا مصرعہ اٹھائے کون !
    بزمِ ہنر میں اب کوئی استاد ہے کہ نئیں
    اُٹھتی سی جا رہی ہے یہ تیشہ زنی کی رسم
    اب دشت و کوہ میں کوئی فرہاد ہے کہ نئیں

    کیسے پڑھے گا کون پڑھے گا مِرا سخن
    شعرِ ابد شعار مرے بعد ہے کہ نئیں
    میں تو سَرِ مشاعرہ کرتا ہوں اپنی بات
    پڑھتا چلا گیا ہُوں، بھلے داد ہے کہ نئیں
    کردار ایک سے ہیں، کہانی کوئی بھی ہو
    میرے مطابق آپ کی روُداد ہے کہ نئیں
    میں نے تو زندگی میں بہت ہی ستم سہے
    یہ اور بات ہے ، ابد آباد ہے کہ نئیں
    اہلِ قفس کے حق میں بہت بولتا ہُوں مَیں
    میری بَلا سے باغ میں صیاد ہے کہ نئیں
    طوق و رسن کے ساتھ تعلق ازل سے ہے
    میں یوں بھی سرخمیدہ ہُوں، فولاد ہے کہ نئیں
    مصرعہ تراشنا کس و ناکس کا کام ہے؟
    بتلائیے یہ طبع خدا داد ہے کہ نئیں
    جانے یہ کیا مقام ہے، یہ کون لوگ ہیں؟
    اس حاشیے میں کوئی زمیں زاد ہے کہ نئیں
    نام و نسَب ہے اور مرا سلسلہ بھی ہے
    لفظیں تو دیکھیے میری اولاد ہے کہ نئیں
    جانے کدھر نکل گئے میرے غریب دوست
    محفل میں کوئی بوذرؓ و مقدادؓ ہے کہ نئیں
    اب تک مہاجرت ہے ابھی تک مسافرت
    ہم سا بھی کوئی دہر میں برباد ہے کہ نئیں
    نسلاََ شعار عشق ہے نیزے پہ سرفراز
    اصلاََ سخن سرائی کی بنیاد ہے کہ نئیں
    اختر یہ بندشیں، یہ نشستیں، یہ بستی و در
    مجھ کو پتہ نہیں ہے، یہ ایجاد ہے کہ نئیں
    اختر عثمان

  • @humanist110----
    @humanist110---- Рік тому

    عظیم شاعری۔۔۔یہ غزل ہوتی ہے نجانے کدھر گئی یہ تہذیب غزل گوئی۔۔۔