سورۃ الاعراف آیت نمبر: 59 لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ترجمہ: ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔ تفسیر: لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ: اوپر بیان فرمایا ہے کہ ہدایتِ الٰہی اور اس کی برکات سے فائدہ اٹھانے یا نہ اٹھانے میں لوگوں کی دو قسمیں ہیں، ایک پاکیزہ فطرت (طیب) جو ہدایتِ الٰہی اور اس کی برکات سے خود بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے علم و عمل سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے، دوسرے وہ جو شرارت پسند اور بد فطرت ہوتے ہیں، یہ لوگ ہدایت کی بارش سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹے جھاڑیاں اور کانٹے بن کر نکل آتے ہیں اور ان کے دلوں کی زمین چونکہ شور ہوتی ہے، اس لیے ان پر رحمت کی بارش اتنی فائدہ بخش نہیں ہو سکتی۔ اس کے بعد اب یہاں سے تاریخی شواہد کے طور پر پہلی قوموں کے واقعات بیان کر کے گویا تاریخی ثبوت پیش کیا ہے کہ ہمیشہ سے لوگ دو قسم کے چلے آئے ہیں۔ (کبیر) نوح علیہ السلام چونکہ سب سے پہلے نبی مرسل تھے جو مشرک قوم کی طرف بھیجے گئے، جیسا کہ حدیث شفاعتِ کبریٰ (بخاری : ۴۷۱۲) اور بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے انھی کا قصہ بیان فرمایا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ (سورۂ نوح میں مذکور بت) ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر نیک لوگوں کے نام تھے، جب وہ فوت ہو گئے تو شیطان نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ ان کی مجالس میں، جن میں وہ بیٹھا کرتے تھے، ان کے مجسمے نصب کر دو اور ان کے نام پر ان کے نام رکھ دو، یہاں تک کہ جب وہ نسل فوت ہو گئی اور علم مٹ گیا تو ان کی عبادت شروع ہو گئی۔ [ بخاری، التفسیر، باب : ودا ولا سواعا ولا يغوث و يعوق : ۴۹۲۰ ] تاریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح عراق میں آباد تھی، ان کا زمانہ ۳۸۰۰ تا ۲۸۰۰ قبل مسیح ہے، مگر اس زمانے کی صحت کی کوئی دلیل نہیں۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-ul-quran-al-kareem/1019/ سورۃ الاعراف آیت نمبر: 60 قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ترجمہ: ان کی قوم کے بڑے لوگوں نے کہا ہم تم کو صریح غلطی میں دیکھتے ہیں (١)۔ تفسیر: قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٖۤ ....: کھلی گمراہی میں اس لیے کہ اپنے آبائی دین کو چھوڑ کر ہمیں ایک نئے دین (توحید) کی طرف کھینچنا چاہتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے واقعات میں یہ بات قرآن نے نمایاں طور پر بیان فرمائی ہے کہ ان کی دعوتِ توحید کی مخالفت کرنے والوں میں امراء کا طبقہ ہر زمانے میں پیش پیش رہا ہے، کیونکہ انقلابی دعوت کا پہلا نشانہ یہی لوگ بنتے ہیں۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-ul-quran-al-kareem/1020/ سورۃ الاعراف آیت نمبر: 59 لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ترجمہ: ” بلاشبہ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اس نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں یقیناً میں تمہیں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈراتاہوں۔ (٥٩) تفسیر: جب اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے دلائل میں سے ایک اچھا حصہ ذکر فرمایا، تو اب اس کی تائید میں انبیائے کرام کا، جو اس کی توحید کے داعی تھے اور اس رویے کا جو ان کی امتوں کے منکرین توحید کی طرف سے پیش آیا، اسے بیان فرما رہا ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کیسے اہل توحید کی تائید فرمائی اور انبیاء و مرسلین سے عناد رکھنے والوں اور ان کی اطاعت نہ کرنے والوں کو ہلاک کردیا۔۔۔ اور کیسے انبیاء و مرسلین کی دعوت ایک ہی دین اور ایک ہی عقیدہ پر متفق تھی۔ چنانچہ نوح جو اولین رسول ہیں، کے بارے میں فرمایا :﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ﴾” ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔“ حضرت نوح علیہ السلام کفار کو اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے جبکہ وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ ﴿فَقَالَ﴾ نوح علیہ السلام نے ان سے فرمایا : ﴿ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ ﴾ ” اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو۔“ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ ﴿مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ﴾ ” اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں“ کیونکہ وہی خالق و رازق اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے اور اس کے سوا ہر چیز مخلوق اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر و تصرف کے تحت ہے اور کسی معاملے میں اسے کوئی اختیار نہیں۔ پھر انہیں عدم اطاعت کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴾ ” میں ڈرتا ہوں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے“ یہ ان کے لئے نوح کی خیر خواہی اور شفقت ہے کہ وہ ان کے بارے میں ابدی عذاب اور دائمی بدبختی سے خائف ہیں جیسے ان کے بھائی دیگر انبیا و مرسلین مخلوق پر ان کے ماں باپ سے زیادہ شفقت رکھتے تھے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-saadi/1019/
سورۃ الاعراف آیت نمبر: 60 قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ترجمہ: ان کی قوم کے بڑے لوگوں نے کہا ہم تم کو صریح غلطی میں دیکھتے ہیں (١)۔ تفسیر: جب نوح علیہ السلام نے ان سے یہ بات کہی تو انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کو بدترین جواب دیا : ﴿قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ﴾” ان کی قوم کے سرداروں نے کہا۔“ یعنی سرداروں اور دولت مند راہنماؤں نے کہا، حق کے سامنے تکبر کرنا اور انبیاء و مرسلین کی اطاعت نہ کرنا، ہمیشہ سے ان کی عادت رہی ہے۔ ﴿إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ ” ہم دیکھتے ہیں تجھ کو صریح بہکا ہوا“ انہوں نے اسی پر بس نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے کہ انہوں نے انبیا و رسل کی اطاعت نہیں کی بلکہ وہ جناب نوح سے تکبر کے ساتھ پیش آئے اور ان کی عیب چینی کی اور ان کو گمراہی سے منسوب کیا پھر انہوں نے آں جناب کو مجرد گمراہ کہنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ایسی گمراہی سے منسوب کیا جو ہر ایک پر واضح ہوتی ہے۔ یہ انکار حق اور عناد کی بدترین قسم ہے جو کمزور لوگوں میں عقل و فہم نہیں چھوڑتی یہ وصف تو قوم نوح پر منطبق ہوتا ہے جو بتوں کو خدا مانتے ہیں جن کو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے پتھروں کو تراش کر بنایا ہے۔ جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ان کے کسی کام آسکتے ہیں۔ انہوں نے ان خداؤں کو وہی مقام دے دیا جو اس کائنات کو پیدا کرنے والے کا مقام ہے اور ان کے تقرب کے حصول کی خاطر مختلف عبادات ان کے لئے مقرر کردیں۔ اگر ان کا ذہن نہ ہوتا جس کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوتی ہے تو ان کے بارے میں یہی فیصلہ ہوتا کہ فاتر العقل لوگ ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں بلکہ ان سے زیادہ عقل مند ہیں۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/1020/ سورۃ الاعراف آیت نمبر: 61 قَالَ يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي ضَلَالَةٌ وَلَٰكِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ترجمہ: انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم! مجھ میں تو ذرا بھی گمراہی نہیں لیکن میں پروردگار عالم کا رسول ہوں۔ تفسیر: نوح علیہ السلام نے نہایت لطیف پیرائے میں جواب دیا جو ان میں رقت پیدا کرے شاید کہ وہ اطاعت کرنے لگیں۔ ﴿يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي ضَلَالَةٌ﴾ ” اے میری قوم ! مجھے میں کسی طرح کی گمراہی نہیں ہے۔“ یعنی میں کسی بھی مسئلہ میں کسی طرح بھی گمراہ نہیں ہوں بلکہ میں تو ہدایت یافتہ اور راہ ہدایت دکھانے والا ہوں، بلکہ آنجناب کی راہنمائی، دیگر اولوالعزم رسولوں کی راہ نمائی کی جنس سے ہے اور راہنمائی کی نہایت اعلیٰ اور کامل ترین نوع ہے اور یہ ہے رسالت کاملہ و تامہ کی راہنمائی۔ بنابریں فرمایا ﴿وَلَـٰكِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” لیکن میں تو رسول ہوں رب العالمین کی طرف سے“ یعنی جو میرا، تمہارا اور تمام مخلوق کا رب ہے، جو مختلف انواع کی ربوبیت کے ذریعے سے مخلوق کو نوازتا ہے، اس کی سب سے بڑی ربوبیت یہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی طرف اپنے رسول بھیجے جو انہیں اعمال صالحہ، اخلاق حسنہ اور عقائد صحیحہ کا حکم دیتے ہیں اور ان کے منافی اور متضاد امور سے روکتے ہیں۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/1021/ سورۃ الاعراف آیت نمبر: 62 أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنصَحُ لَكُمْ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ترجمہ: تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے ان امور کی خبر رکھتا ہوں جن کی تم کو خبر نہیں۔ تفسیر: ﴿أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنصَحُ لَكُمْ﴾ ” پہنچاتا ہوں تم کو پیغام اپنے رب کے اور خیر خواہی کرتا ہوں تمہاری“ یعنی میری ذمہ داری نہایت خیر خواہی اور شفقت کے ساتھ تمہیں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے اوامرونواہی وضاحت کے ساتھ پہنچا دینا ہے۔ ﴿وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾ ” اور میں جانتا ہوں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جو تم نہیں جانتے“ اس لئے جو چیز متعین ہے وہ یہ ہے کہ تم میری اطاعت کرو اور اگر تم علم رکھتے ہو تو میرے حکم کی تعمیل کرو۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/1022/
سورۃ الانعام آیت نمبر: 78 فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَٰذَا رَبِّي هَٰذَا أَكْبَرُ ۖ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ترجمہ: پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ (١) یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں (٢)۔ تفسیر: 1- ”شَمْسٌ“ (سورج) عربی میں مونث ہے۔ لیکن اسم اشارہ مذکر ہے۔ مراد الطالع ہے یعنی یہ طلوع ہونے والا سورج، میرا رب ہے۔ کیونکہ یہ سب سے بڑا ہے۔ جس طرح کہ سورج پرستوں کو مغالطہ لگا اور وہ اس کی پرستش کرتے ہیں۔ (اجرام سماویہ میں سورج سب سے بڑا اور سب سے زیادہ روشن ہے اور انسانی زندگی کے بقا ووجود کے لئے اس کی اہمیت وافادیت محتاج وضاحت نہیں۔ اسی لئے مظاہر پرستوں میں سورج کی پرستش عام رہی ہے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے نہایت لطیف پیرائے میں چاند سورج کے پجاریوں پر ان کے معبودوں کی بے حیثیتی کو واضح فرمایا۔ 2- یعنی ان تمام چیزوں سے، جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو، میں بیزار ہوں۔ اس لئے کہ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے، کبھی طلوع ہوتے، کبھی غروب ہوتے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مخلوق ہیں اور ان کا خالق کوئی اور ہے جس کے حکم کے یہ تابع ہیں۔ جب یہ خود مخلوق اور کسی کے تابع ہیں تو کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر کس طرح قادر ہوسکتے ہیں؟ مشہور ہے کہ اس وقت کے بادشاہ نمرود نے اپنے ایک خواب اور کاہنوں کی تعبیر کی وجہ سے نو مولود لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا، حضرت ابراہیم (عليہ السلام) بھی ان ہی ایام میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے انہیں ایک غار میں رکھا گیا تاکہ نمرود اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جائیں۔ وہیں غار میں جب کچھ شعور آیا اور چاند سورج دیکھے تو یہ تاثرات ظاہر فرمائے، لیکن یہ غار والی بات مستند نہیں ہے۔ قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سے گفتگو اور مکالمے کے وقت حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے یہ باتیں کی ہیں، اسی لئے آخر میں قوم سے خطاب کرکے فرمایا کہ میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے بیزار ہوں۔ اور مقصد اس مکالمے سے معبودان باطل کی اصل حقیقت کی وضاحت تھی۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/872/ سورۃ الانعام آیت نمبر: 79 إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ترجمہ: میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں (١) جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ تفسیر: 1- رخ یا چہرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ چہرے سے ہی انسان کی اصل شناخت ہوتی ہے، مراد اس سے شخص ہی ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میری عبادت اور توحید سے مقصود، اللہ عزوجل ہے جو آسمان وزمین کا خالق ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/873/ سورۃ الانعام آیت نمبر: 79 إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ترجمہ: میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں (١) جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ تفسیر: ﴿ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ﴾” میں نے متوجہ کرلیا اپنے چہرے کو اسی کی طرف جس نے بنائے آسمان اور زمین سب سے یکسو ہو کر“ یعنی صرف الہ واحد کی طرف یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہو کر اور ہر ماسوا سے منہ موڑ کر ﴿وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ ” اور میں نہیں ہوں شرک کرنے الا۔“ پس یوں ابراہیم علیہ السلام نے شرک سے برأت کا اظہار کیا اور توحید کے سامنے سرتسلیم خم کیا اور توحید پر دلیل قائم کی۔۔۔ یہ ہے ان آیات کریمہ کی تفسیر جو ہم نے بیان کی ہے اور یہی صواب ہے، نیز یہ کہ یہ مقام جناب ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے اپنی قوم کے ساتھ مناظرے کا مقام تھا اور مقصد ان اجرام فلکی وغیرہ کی الوہیت کا بطلان تھا۔ رہا ان لوگوں کا موقف کہ یہ جناب ابراہیم کے ایام طفولیت میں غور و فکر کا مقام تھا تو اس پر کوئی دلیل نہیں۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/873/
سورۃ الاعراف آیت نمبر: 60 قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ترجمہ: ان کی قوم کے بڑے لوگوں نے کہا ہم تم کو صریح غلطی میں دیکھتے ہیں (١)۔ تفسیر: جب نوح علیہ السلام نے ان سے یہ بات کہی تو انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کو بدترین جواب دیا : ﴿قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ﴾” ان کی قوم کے سرداروں نے کہا۔“ یعنی سرداروں اور دولت مند راہنماؤں نے کہا، حق کے سامنے تکبر کرنا اور انبیاء و مرسلین کی اطاعت نہ کرنا، ہمیشہ سے ان کی عادت رہی ہے۔ ﴿إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ ” ہم دیکھتے ہیں تجھ کو صریح بہکا ہوا“ انہوں نے اسی پر بس نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے کہ انہوں نے انبیا و رسل کی اطاعت نہیں کی بلکہ وہ جناب نوح سے تکبر کے ساتھ پیش آئے اور ان کی عیب چینی کی اور ان کو گمراہی سے منسوب کیا پھر انہوں نے آں جناب کو مجرد گمراہ کہنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ایسی گمراہی سے منسوب کیا جو ہر ایک پر واضح ہوتی ہے۔ یہ انکار حق اور عناد کی بدترین قسم ہے جو کمزور لوگوں میں عقل و فہم نہیں چھوڑتی یہ وصف تو قوم نوح پر منطبق ہوتا ہے جو بتوں کو خدا مانتے ہیں جن کو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے پتھروں کو تراش کر بنایا ہے۔ جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ان کے کسی کام آسکتے ہیں۔ انہوں نے ان خداؤں کو وہی مقام دے دیا جو اس کائنات کو پیدا کرنے والے کا مقام ہے اور ان کے تقرب کے حصول کی خاطر مختلف عبادات ان کے لئے مقرر کردیں۔ اگر ان کا ذہن نہ ہوتا جس کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوتی ہے تو ان کے بارے میں یہی فیصلہ ہوتا کہ فاتر العقل لوگ ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں بلکہ ان سے زیادہ عقل مند ہیں۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/1020/ سورۃ الاعراف آیت نمبر: 61 قَالَ يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي ضَلَالَةٌ وَلَٰكِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ترجمہ: انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم! مجھ میں تو ذرا بھی گمراہی نہیں لیکن میں پروردگار عالم کا رسول ہوں۔ تفسیر: نوح علیہ السلام نے نہایت لطیف پیرائے میں جواب دیا جو ان میں رقت پیدا کرے شاید کہ وہ اطاعت کرنے لگیں۔ ﴿يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي ضَلَالَةٌ﴾ ” اے میری قوم ! مجھے میں کسی طرح کی گمراہی نہیں ہے۔“ یعنی میں کسی بھی مسئلہ میں کسی طرح بھی گمراہ نہیں ہوں بلکہ میں تو ہدایت یافتہ اور راہ ہدایت دکھانے والا ہوں، بلکہ آنجناب کی راہنمائی، دیگر اولوالعزم رسولوں کی راہ نمائی کی جنس سے ہے اور راہنمائی کی نہایت اعلیٰ اور کامل ترین نوع ہے اور یہ ہے رسالت کاملہ و تامہ کی راہنمائی۔ بنابریں فرمایا ﴿وَلَـٰكِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” لیکن میں تو رسول ہوں رب العالمین کی طرف سے“ یعنی جو میرا، تمہارا اور تمام مخلوق کا رب ہے، جو مختلف انواع کی ربوبیت کے ذریعے سے مخلوق کو نوازتا ہے، اس کی سب سے بڑی ربوبیت یہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی طرف اپنے رسول بھیجے جو انہیں اعمال صالحہ، اخلاق حسنہ اور عقائد صحیحہ کا حکم دیتے ہیں اور ان کے منافی اور متضاد امور سے روکتے ہیں۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/1021/ سورۃ الاعراف آیت نمبر: 62 أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنصَحُ لَكُمْ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ترجمہ: تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے ان امور کی خبر رکھتا ہوں جن کی تم کو خبر نہیں۔ تفسیر: ﴿أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنصَحُ لَكُمْ﴾ ” پہنچاتا ہوں تم کو پیغام اپنے رب کے اور خیر خواہی کرتا ہوں تمہاری“ یعنی میری ذمہ داری نہایت خیر خواہی اور شفقت کے ساتھ تمہیں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے اوامرونواہی وضاحت کے ساتھ پہنچا دینا ہے۔ ﴿وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾ ” اور میں جانتا ہوں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جو تم نہیں جانتے“ اس لئے جو چیز متعین ہے وہ یہ ہے کہ تم میری اطاعت کرو اور اگر تم علم رکھتے ہو تو میرے حکم کی تعمیل کرو۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/1022/
❤❤❤❤❤❤ alliha mohammd AliAli
Aamieen ❤❤❤
Allah Akbar
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 59
لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
ترجمہ:
ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔
تفسیر:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ: اوپر بیان فرمایا ہے کہ ہدایتِ الٰہی اور اس کی برکات سے فائدہ اٹھانے یا نہ اٹھانے میں لوگوں کی دو قسمیں ہیں، ایک پاکیزہ فطرت (طیب) جو ہدایتِ الٰہی اور اس کی برکات سے خود بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے علم و عمل سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے، دوسرے وہ جو شرارت پسند اور بد فطرت ہوتے ہیں، یہ لوگ ہدایت کی بارش سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹے جھاڑیاں اور کانٹے بن کر نکل آتے ہیں اور ان کے دلوں کی زمین چونکہ شور ہوتی ہے، اس لیے ان پر رحمت کی بارش اتنی فائدہ بخش نہیں ہو سکتی۔ اس کے بعد اب یہاں سے تاریخی شواہد کے طور پر پہلی قوموں کے واقعات بیان کر کے گویا تاریخی ثبوت پیش کیا ہے کہ ہمیشہ سے لوگ دو قسم کے چلے آئے ہیں۔ (کبیر) نوح علیہ السلام چونکہ سب سے پہلے نبی مرسل تھے جو مشرک قوم کی طرف بھیجے گئے، جیسا کہ حدیث شفاعتِ کبریٰ (بخاری : ۴۷۱۲) اور بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے انھی کا قصہ بیان فرمایا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ (سورۂ نوح میں مذکور بت) ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر نیک لوگوں کے نام تھے، جب وہ فوت ہو گئے تو شیطان نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ ان کی مجالس میں، جن میں وہ بیٹھا کرتے تھے، ان کے مجسمے نصب کر دو اور ان کے نام پر ان کے نام رکھ دو، یہاں تک کہ جب وہ نسل فوت ہو گئی اور علم مٹ گیا تو ان کی عبادت شروع ہو گئی۔ [ بخاری، التفسیر، باب : ودا ولا سواعا ولا يغوث و يعوق : ۴۹۲۰ ] تاریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح عراق میں آباد تھی، ان کا زمانہ ۳۸۰۰ تا ۲۸۰۰ قبل مسیح ہے، مگر اس زمانے کی صحت کی کوئی دلیل نہیں۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-ul-quran-al-kareem/1019/
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 60
قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
ترجمہ:
ان کی قوم کے بڑے لوگوں نے کہا ہم تم کو صریح غلطی میں دیکھتے ہیں (١)۔
تفسیر:
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٖۤ ....: کھلی گمراہی میں اس لیے کہ اپنے آبائی دین کو چھوڑ کر ہمیں ایک نئے دین (توحید) کی طرف کھینچنا چاہتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے واقعات میں یہ بات قرآن نے نمایاں طور پر بیان فرمائی ہے کہ ان کی دعوتِ توحید کی مخالفت کرنے والوں میں امراء کا طبقہ ہر زمانے میں پیش پیش رہا ہے، کیونکہ انقلابی دعوت کا پہلا نشانہ یہی لوگ بنتے ہیں۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-ul-quran-al-kareem/1020/
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 59
لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
ترجمہ:
” بلاشبہ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اس نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں یقیناً میں تمہیں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈراتاہوں۔ (٥٩)
تفسیر:
جب اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے دلائل میں سے ایک اچھا حصہ ذکر فرمایا، تو اب اس کی تائید میں انبیائے کرام کا، جو اس کی توحید کے داعی تھے اور اس رویے کا جو ان کی امتوں کے منکرین توحید کی طرف سے پیش آیا، اسے بیان فرما رہا ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کیسے اہل توحید کی تائید فرمائی اور انبیاء و مرسلین سے عناد رکھنے والوں اور ان کی اطاعت نہ کرنے والوں کو ہلاک کردیا۔۔۔ اور کیسے انبیاء و مرسلین کی دعوت ایک ہی دین اور ایک ہی عقیدہ پر متفق تھی۔ چنانچہ نوح جو اولین رسول ہیں، کے بارے میں فرمایا :﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ﴾” ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔“ حضرت نوح علیہ السلام کفار کو اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے جبکہ وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ ﴿فَقَالَ﴾ نوح علیہ السلام نے ان سے فرمایا : ﴿ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ ﴾ ” اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو۔“ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ ﴿مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ﴾ ” اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں“ کیونکہ وہی خالق و رازق اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے اور اس کے سوا ہر چیز مخلوق اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر و تصرف کے تحت ہے اور کسی معاملے میں اسے کوئی اختیار نہیں۔ پھر انہیں عدم اطاعت کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴾ ” میں ڈرتا ہوں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے“ یہ ان کے لئے نوح کی خیر خواہی اور شفقت ہے کہ وہ ان کے بارے میں ابدی عذاب اور دائمی بدبختی سے خائف ہیں جیسے ان کے بھائی دیگر انبیا و مرسلین مخلوق پر ان کے ماں باپ سے زیادہ شفقت رکھتے تھے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-saadi/1019/
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 60
قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
ترجمہ:
ان کی قوم کے بڑے لوگوں نے کہا ہم تم کو صریح غلطی میں دیکھتے ہیں (١)۔
تفسیر:
جب نوح علیہ السلام نے ان سے یہ بات کہی تو انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کو بدترین جواب دیا : ﴿قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ﴾” ان کی قوم کے سرداروں نے کہا۔“ یعنی سرداروں اور دولت مند راہنماؤں نے کہا، حق کے سامنے تکبر کرنا اور انبیاء و مرسلین کی اطاعت نہ کرنا، ہمیشہ سے ان کی عادت رہی ہے۔ ﴿إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ ” ہم دیکھتے ہیں تجھ کو صریح بہکا ہوا“ انہوں نے اسی پر بس نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے کہ انہوں نے انبیا و رسل کی اطاعت نہیں کی بلکہ وہ جناب نوح سے تکبر کے ساتھ پیش آئے اور ان کی عیب چینی کی اور ان کو گمراہی سے منسوب کیا پھر انہوں نے آں جناب کو مجرد گمراہ کہنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ایسی گمراہی سے منسوب کیا جو ہر ایک پر واضح ہوتی ہے۔ یہ انکار حق اور عناد کی بدترین قسم ہے جو کمزور لوگوں میں عقل و فہم نہیں چھوڑتی یہ وصف تو قوم نوح پر منطبق ہوتا ہے جو بتوں کو خدا مانتے ہیں جن کو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے پتھروں کو تراش کر بنایا ہے۔ جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ان کے کسی کام آسکتے ہیں۔ انہوں نے ان خداؤں کو وہی مقام دے دیا جو اس کائنات کو پیدا کرنے والے کا مقام ہے اور ان کے تقرب کے حصول کی خاطر مختلف عبادات ان کے لئے مقرر کردیں۔ اگر ان کا ذہن نہ ہوتا جس کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوتی ہے تو ان کے بارے میں یہی فیصلہ ہوتا کہ فاتر العقل لوگ ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں بلکہ ان سے زیادہ عقل مند ہیں۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/1020/
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 61
قَالَ يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي ضَلَالَةٌ وَلَٰكِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ
ترجمہ:
انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم! مجھ میں تو ذرا بھی گمراہی نہیں لیکن میں پروردگار عالم کا رسول ہوں۔
تفسیر:
نوح علیہ السلام نے نہایت لطیف پیرائے میں جواب دیا جو ان میں رقت پیدا کرے شاید کہ وہ اطاعت کرنے لگیں۔ ﴿يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي ضَلَالَةٌ﴾ ” اے میری قوم ! مجھے میں کسی طرح کی گمراہی نہیں ہے۔“ یعنی میں کسی بھی مسئلہ میں کسی طرح بھی گمراہ نہیں ہوں بلکہ میں تو ہدایت یافتہ اور راہ ہدایت دکھانے والا ہوں، بلکہ آنجناب کی راہنمائی، دیگر اولوالعزم رسولوں کی راہ نمائی کی جنس سے ہے اور راہنمائی کی نہایت اعلیٰ اور کامل ترین نوع ہے اور یہ ہے رسالت کاملہ و تامہ کی راہنمائی۔ بنابریں فرمایا ﴿وَلَـٰكِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” لیکن میں تو رسول ہوں رب العالمین کی طرف سے“ یعنی جو میرا، تمہارا اور تمام مخلوق کا رب ہے، جو مختلف انواع کی ربوبیت کے ذریعے سے مخلوق کو نوازتا ہے، اس کی سب سے بڑی ربوبیت یہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی طرف اپنے رسول بھیجے جو انہیں اعمال صالحہ، اخلاق حسنہ اور عقائد صحیحہ کا حکم دیتے ہیں اور ان کے منافی اور متضاد امور سے روکتے ہیں۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/1021/
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 62
أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنصَحُ لَكُمْ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
ترجمہ:
تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے ان امور کی خبر رکھتا ہوں جن کی تم کو خبر نہیں۔
تفسیر:
﴿أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنصَحُ لَكُمْ﴾ ” پہنچاتا ہوں تم کو پیغام اپنے رب کے اور خیر خواہی کرتا ہوں تمہاری“ یعنی میری ذمہ داری نہایت خیر خواہی اور شفقت کے ساتھ تمہیں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے اوامرونواہی وضاحت کے ساتھ پہنچا دینا ہے۔ ﴿وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾ ” اور میں جانتا ہوں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جو تم نہیں جانتے“ اس لئے جو چیز متعین ہے وہ یہ ہے کہ تم میری اطاعت کرو اور اگر تم علم رکھتے ہو تو میرے حکم کی تعمیل کرو۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/1022/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 78
فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَٰذَا رَبِّي هَٰذَا أَكْبَرُ ۖ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
ترجمہ:
پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ (١) یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں (٢)۔
تفسیر:
1- ”شَمْسٌ“ (سورج) عربی میں مونث ہے۔ لیکن اسم اشارہ مذکر ہے۔ مراد الطالع ہے یعنی یہ طلوع ہونے والا سورج، میرا رب ہے۔ کیونکہ یہ سب سے بڑا ہے۔ جس طرح کہ سورج پرستوں کو مغالطہ لگا اور وہ اس کی پرستش کرتے ہیں۔ (اجرام سماویہ میں سورج سب سے بڑا اور سب سے زیادہ روشن ہے اور انسانی زندگی کے بقا ووجود کے لئے اس کی اہمیت وافادیت محتاج وضاحت نہیں۔ اسی لئے مظاہر پرستوں میں سورج کی پرستش عام رہی ہے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے نہایت لطیف پیرائے میں چاند سورج کے پجاریوں پر ان کے معبودوں کی بے حیثیتی کو واضح فرمایا۔
2- یعنی ان تمام چیزوں سے، جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو، میں بیزار ہوں۔ اس لئے کہ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے، کبھی طلوع ہوتے، کبھی غروب ہوتے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مخلوق ہیں اور ان کا خالق کوئی اور ہے جس کے حکم کے یہ تابع ہیں۔ جب یہ خود مخلوق اور کسی کے تابع ہیں تو کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر کس طرح قادر ہوسکتے ہیں؟ مشہور ہے کہ اس وقت کے بادشاہ نمرود نے اپنے ایک خواب اور کاہنوں کی تعبیر کی وجہ سے نو مولود لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا، حضرت ابراہیم (عليہ السلام) بھی ان ہی ایام میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے انہیں ایک غار میں رکھا گیا تاکہ نمرود اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جائیں۔ وہیں غار میں جب کچھ شعور آیا اور چاند سورج دیکھے تو یہ تاثرات ظاہر فرمائے، لیکن یہ غار والی بات مستند نہیں ہے۔ قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سے گفتگو اور مکالمے کے وقت حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے یہ باتیں کی ہیں، اسی لئے آخر میں قوم سے خطاب کرکے فرمایا کہ میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے بیزار ہوں۔ اور مقصد اس مکالمے سے معبودان باطل کی اصل حقیقت کی وضاحت تھی۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/872/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 79
إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ
ترجمہ:
میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں (١) جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
تفسیر:
1- رخ یا چہرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ چہرے سے ہی انسان کی اصل شناخت ہوتی ہے، مراد اس سے شخص ہی ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میری عبادت اور توحید سے مقصود، اللہ عزوجل ہے جو آسمان وزمین کا خالق ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/873/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 79
إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ
ترجمہ:
میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں (١) جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
تفسیر:
﴿ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ﴾” میں نے متوجہ کرلیا اپنے چہرے کو اسی کی طرف جس نے بنائے آسمان اور زمین سب سے یکسو ہو کر“ یعنی صرف الہ واحد کی طرف یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہو کر اور ہر ماسوا سے منہ موڑ کر ﴿وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ ” اور میں نہیں ہوں شرک کرنے الا۔“ پس یوں ابراہیم علیہ السلام نے شرک سے برأت کا اظہار کیا اور توحید کے سامنے سرتسلیم خم کیا اور توحید پر دلیل قائم کی۔۔۔ یہ ہے ان آیات کریمہ کی تفسیر جو ہم نے بیان کی ہے اور یہی صواب ہے، نیز یہ کہ یہ مقام جناب ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے اپنی قوم کے ساتھ مناظرے کا مقام تھا اور مقصد ان اجرام فلکی وغیرہ کی الوہیت کا بطلان تھا۔ رہا ان لوگوں کا موقف کہ یہ جناب ابراہیم کے ایام طفولیت میں غور و فکر کا مقام تھا تو اس پر کوئی دلیل نہیں۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/873/
Aamieen ❤❤❤
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 60
قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
ترجمہ:
ان کی قوم کے بڑے لوگوں نے کہا ہم تم کو صریح غلطی میں دیکھتے ہیں (١)۔
تفسیر:
جب نوح علیہ السلام نے ان سے یہ بات کہی تو انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کو بدترین جواب دیا : ﴿قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ﴾” ان کی قوم کے سرداروں نے کہا۔“ یعنی سرداروں اور دولت مند راہنماؤں نے کہا، حق کے سامنے تکبر کرنا اور انبیاء و مرسلین کی اطاعت نہ کرنا، ہمیشہ سے ان کی عادت رہی ہے۔ ﴿إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ ” ہم دیکھتے ہیں تجھ کو صریح بہکا ہوا“ انہوں نے اسی پر بس نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے کہ انہوں نے انبیا و رسل کی اطاعت نہیں کی بلکہ وہ جناب نوح سے تکبر کے ساتھ پیش آئے اور ان کی عیب چینی کی اور ان کو گمراہی سے منسوب کیا پھر انہوں نے آں جناب کو مجرد گمراہ کہنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ایسی گمراہی سے منسوب کیا جو ہر ایک پر واضح ہوتی ہے۔ یہ انکار حق اور عناد کی بدترین قسم ہے جو کمزور لوگوں میں عقل و فہم نہیں چھوڑتی یہ وصف تو قوم نوح پر منطبق ہوتا ہے جو بتوں کو خدا مانتے ہیں جن کو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے پتھروں کو تراش کر بنایا ہے۔ جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ان کے کسی کام آسکتے ہیں۔ انہوں نے ان خداؤں کو وہی مقام دے دیا جو اس کائنات کو پیدا کرنے والے کا مقام ہے اور ان کے تقرب کے حصول کی خاطر مختلف عبادات ان کے لئے مقرر کردیں۔ اگر ان کا ذہن نہ ہوتا جس کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوتی ہے تو ان کے بارے میں یہی فیصلہ ہوتا کہ فاتر العقل لوگ ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں بلکہ ان سے زیادہ عقل مند ہیں۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/1020/
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 61
قَالَ يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي ضَلَالَةٌ وَلَٰكِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ
ترجمہ:
انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم! مجھ میں تو ذرا بھی گمراہی نہیں لیکن میں پروردگار عالم کا رسول ہوں۔
تفسیر:
نوح علیہ السلام نے نہایت لطیف پیرائے میں جواب دیا جو ان میں رقت پیدا کرے شاید کہ وہ اطاعت کرنے لگیں۔ ﴿يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي ضَلَالَةٌ﴾ ” اے میری قوم ! مجھے میں کسی طرح کی گمراہی نہیں ہے۔“ یعنی میں کسی بھی مسئلہ میں کسی طرح بھی گمراہ نہیں ہوں بلکہ میں تو ہدایت یافتہ اور راہ ہدایت دکھانے والا ہوں، بلکہ آنجناب کی راہنمائی، دیگر اولوالعزم رسولوں کی راہ نمائی کی جنس سے ہے اور راہنمائی کی نہایت اعلیٰ اور کامل ترین نوع ہے اور یہ ہے رسالت کاملہ و تامہ کی راہنمائی۔ بنابریں فرمایا ﴿وَلَـٰكِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” لیکن میں تو رسول ہوں رب العالمین کی طرف سے“ یعنی جو میرا، تمہارا اور تمام مخلوق کا رب ہے، جو مختلف انواع کی ربوبیت کے ذریعے سے مخلوق کو نوازتا ہے، اس کی سب سے بڑی ربوبیت یہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی طرف اپنے رسول بھیجے جو انہیں اعمال صالحہ، اخلاق حسنہ اور عقائد صحیحہ کا حکم دیتے ہیں اور ان کے منافی اور متضاد امور سے روکتے ہیں۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/1021/
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 62
أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنصَحُ لَكُمْ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
ترجمہ:
تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے ان امور کی خبر رکھتا ہوں جن کی تم کو خبر نہیں۔
تفسیر:
﴿أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنصَحُ لَكُمْ﴾ ” پہنچاتا ہوں تم کو پیغام اپنے رب کے اور خیر خواہی کرتا ہوں تمہاری“ یعنی میری ذمہ داری نہایت خیر خواہی اور شفقت کے ساتھ تمہیں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے اوامرونواہی وضاحت کے ساتھ پہنچا دینا ہے۔ ﴿وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾ ” اور میں جانتا ہوں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جو تم نہیں جانتے“ اس لئے جو چیز متعین ہے وہ یہ ہے کہ تم میری اطاعت کرو اور اگر تم علم رکھتے ہو تو میرے حکم کی تعمیل کرو۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/1022/
Aamieen ❤❤❤