ایک نظم؛ پاکستان فِلم انڈسٹری کی یاد میں مَر گیا زِندگی ، حُسن ، آزادی اور خواب کا ایک چھوٹا سا رنگوں کا میلہ جو تھا مَر گیا سب کا سب مَر گیا (برسوں مَرتا رہا اَور پِھر برسوں سُلطان راہی اُسے مارتا ، دَفن کرتا رہا) مُڑ کے زندہ ہوا بھی نہیں اَور اُس مں سے آگے کا کچھ اِک کلی بھر بھی اُس پُر بہار ایک گلشن سا پَیدا ہوا بھی نہیں رَنگ جو دیکھنے ، کھیلنے آتے تھے وہ خود اندر سے بَد رنگ ، بے رَنگ , نِکلے وہ رنگوں کو چوری سےتو مانتے تھے کُھلے میں نہیں چاہتے تھے, نہیں مانتے تھے کُھلے میں تو اُن کو فلَک زاد رنگوں کو اور رنگ کاری کو دوزخ کی سڑکیں بتاتے تھے آخر میں تو اِس قدر رنگ کاری کے ، رنگوں کے دُشمن بنے وہ کہ اُن میں جو ہتھیار بند اور زیادہ جری تھے اُنہوں نے حِفاظت کے منصب کی بندوقوں ، سنگینوں سے کب سے کَن پٹیوں میں چِیختی دوزخی آگ کے اپنے ہاتھوں میں تھامےہوئے دوسروں کو تھمائے ہوئے گُرزوں بھالوں سے اور آگے آتے زمانوں میں بارودی خودکُش دھماکوں سے رَنگوں کو مَروا دیا رَنگ کاری کو کالے حجابوں میں چُنوا دیا رَنگ میلے کو زِندہ ہی جَلوا دیا '' اَب جو دیکھو تو جلوہ تو کوئی نہیں '' اَب وہ خوابوں کا رَنگوں کا میلہ تو کوئی نہیں صِرف خوف اور دہشت کی سڑکیں ہیں ہم جِن پہ سانسیں رُکی، کان اور ذہن سُن ، کانپتے ، بھاگتے ، دَفتروں اَور(زیادہ) دُکانوں سے اپنے گھروں تک پہنچتے ہیں اَور شُکر سے گھر کا دَر بند کرتے ہی خبروں کا ساری بُری خبروں کا خبروں پر بحثوں کا کتنے گھنٹوں کا رَنگین ٹیلیوژن دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں ۔ ۔ کاوش عباسی ( یہ نظم جناب حیدرقریشی ، مقیم جرمنی ، کےاُردو ادبی رِسالہ ''جدید اَدب '' میں ، شمارہ ۱۷ ،، جولائی تا دسمببر ۲۰۱۱ میں شائع ہوئی)
23:54: ناصر صاحب کی یہ پسند شاید ان کی زوجہ محترمہ کے بارے میں ہے لیکن وہ کھل کر نہ بول سکے اس لئے تعریفی الفاظ میں ان سے اپنے ناپسندیدگی کا اظہار کر ڈالا 😉
Behtreen,Nasir adeeb sahib BOHAT achi soch k maalik Hain BOHAT achaa izaar E khayal kia.
اللہ تعالی ملک پاکستان کو تمام فتنوں سے محفوظ رکھے. پاکستان کے حق میں بُرا سوچنے والوں کو اللّٰہ پاک قیامت تک کے لیے عبرت کا نشان بنا دے ❤️۔۔۔
سہی
@@M.Z.A548
چراغ بالی خوشاب سے ہماری قریب گلی سےتھا
ایک نظم؛
پاکستان فِلم انڈسٹری کی یاد میں
مَر گیا
زِندگی ، حُسن ، آزادی اور خواب کا
ایک چھوٹا سا رنگوں کا میلہ جو تھا
مَر گیا
سب کا سب مَر گیا
(برسوں مَرتا رہا
اَور پِھر برسوں سُلطان راہی اُسے مارتا ، دَفن کرتا رہا)
مُڑ کے زندہ ہوا بھی نہیں
اَور اُس مں سے آگے کا کچھ
اِک کلی بھر بھی
اُس پُر بہار ایک گلشن سا
پَیدا ہوا بھی نہیں
رَنگ جو دیکھنے ، کھیلنے آتے تھے
وہ خود اندر سے بَد رنگ ، بے رَنگ , نِکلے
وہ رنگوں کو
چوری سےتو مانتے تھے
کُھلے میں نہیں چاہتے تھے, نہیں مانتے تھے
کُھلے میں تو اُن کو فلَک زاد
رنگوں کو اور رنگ کاری کو
دوزخ کی سڑکیں بتاتے تھے
آخر میں تو
اِس قدر
رنگ کاری کے ، رنگوں کے دُشمن بنے وہ
کہ اُن میں جو ہتھیار بند اور زیادہ جری تھے
اُنہوں نے حِفاظت کے منصب کی
بندوقوں ، سنگینوں سے
کب سے کَن پٹیوں میں چِیختی
دوزخی آگ کے
اپنے ہاتھوں میں تھامےہوئے
دوسروں کو تھمائے ہوئے
گُرزوں بھالوں سے
اور آگے آتے زمانوں میں
بارودی خودکُش دھماکوں سے
رَنگوں کو مَروا دیا
رَنگ کاری کو کالے حجابوں میں چُنوا دیا
رَنگ میلے کو زِندہ ہی جَلوا دیا
'' اَب جو دیکھو تو جلوہ تو کوئی نہیں ''
اَب وہ خوابوں کا رَنگوں کا میلہ تو کوئی نہیں
صِرف خوف اور دہشت کی سڑکیں ہیں
ہم جِن پہ
سانسیں رُکی، کان اور ذہن سُن ،
کانپتے ، بھاگتے ،
دَفتروں اَور(زیادہ) دُکانوں سے
اپنے گھروں تک پہنچتے ہیں
اَور شُکر سے گھر کا دَر بند کرتے ہی
خبروں کا
ساری بُری خبروں کا
خبروں پر بحثوں کا
کتنے گھنٹوں کا
رَنگین ٹیلیوژن دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں ۔
۔ کاوش عباسی
( یہ نظم جناب حیدرقریشی ، مقیم جرمنی ، کےاُردو ادبی رِسالہ ''جدید اَدب '' میں ، شمارہ ۱۷ ،، جولائی تا دسمببر ۲۰۱۱ میں شائع ہوئی)
What a great waiter all time legend!!!!❤❤❤❤❤❤❤❤
Plz do interview of actor Kashif mehmood plzzzzzzzz
Graet writer great person. May he live long
The great sir NASIR ADEEB
Yes
Bohat acha interview
ناصر ادیب صاحب زبردست
Great personality
زبردست
Nasir Adeeb and Jaan Rahi...........
19:16: ناصر صاحب کا یہ تلخ حقیقت پہ مبنی جملہ اس سارے انٹرویو کا نچوڑ ہے باقی باتیں اپنی جگہ لیکن یہاں آج کل یہی چل رہا ہے!
Good
♥️👏👏👏♥️
Nice vedio
🌹👍🤲
23:54: ناصر صاحب کی یہ پسند شاید ان کی زوجہ محترمہ کے بارے میں ہے لیکن وہ کھل کر نہ بول سکے اس لئے تعریفی الفاظ میں ان سے اپنے ناپسندیدگی کا اظہار کر ڈالا 😉
Sab ke guod me bari hui hue
🥔🍆🍅🥕🌶️🍓
Fhgc