دل پھٹا جاتا ہے سب اہل قلم روتے ہیں چاہنے والے بصد رنج و الم روتے ہیں شور گریے کا ہے سب اہل حرم روتے ہیں خاک پر بیٹھے ہوۓ شاہ ِ امم روتے ہیں زخم کے درد کا احساس بتاؤں کیسے مقتل ِ حضرت ِ عبّاس سناؤں کیسے لے کے مشکیزہ چلا جانبِ دریا ذی جا اشک آنکھوں سے مسلسل تھے رواں بھرتا تھا آ آ گئے بھائی کے نزدیک تڑپتے ہویے شاہ کاٹ کے فاتحہ کی آیت لکھی انّ للہ شہہ کو معلوم ہے غربت کا ہے مارا بھائی لوٹ کے اب نہیں آۓ گا ہمارا بھائی جاں فدا ِ شہہ ِ ابرار وفا دار ِ حسین تپتے صحرا میں مصیبت میں مدد گار ِ حسین مونس و چارہ گر و ناصر و غم خار ِحسین الغرض ا گیا دریا پہ علمدار ِ حسین مشک بھر کر جو چلا جانب ِ خیمہ ہاے تیر ہر سمت سے عبّاس پہ برسا ہاے آکے اک تیر ِ ستم مشک سکینہ پہ لگا چد گئی مشک سر خاک زمیں پانی بہا دل عبّاس دلاور کو بڑا رنج ہوا نہ گہاں آکے لگا آنکھ میں اک تیر جفا ظلم پھر ایسا ہوا غیرت الیاس کے ہاتھ خاک پر کٹ کے گرے شاہ کے عبّاس کے ہاتھ تیر کو کھینچنا زانو سے جو چاہا ہاے اس نے زانو کے قرین سر کو جھکایا ہاے گُرز پھر ایسا ستمگار نے مارا ہاے زخم گہرا تھا نہ رہوار پہ سمبھلا ہاے ہاتھ موجود نہ تھے ظلم کچھ ایسا ڈھایا منہ کے بل خاک پہ شبّیر کا بھائی آیا سن کے آواز سلام اشک بہا کر دوڑے جانب ِ نہر بن ِ ساقی ِ کوثر دوڑے خاک اڑاتے ہویے سر پیٹ کے سرور دوڑے تھام کر اپنی کمر بنت ِ پیمبر دوڑے تھی جو وابستہ بہت آس مگر ٹوٹ گئی بھائی کے مرنے سے بھائی کی کمر ٹوٹ گئی شاہ اب خون کے آنسوں نہ بہائیں کیسے دن دکھایا ہے یہ پردیس میں کیا قسمت نے ٹھوکریں کھاتے ہویے خاک پہ گرتے گرتے پاس عبّاس کے اس طرح شہہ دیں پہنچھے خاک پر بیٹھ کے فرمایا گزر جاتا میں کاش عبّاس سے پہلے یہاں مر جاتا میں شاہ جب آے تو عبّاس تڑپ کر بولے دیکھ لوں آپ کو جی بھر کے قضا سے پہلے دل پھٹا جاتا ہے ہوتی ہے گھٹن رہ رہ کے تیر ہے ایک میں اک آنکھ میں ہے خون میرے شہہ نے اک آنکھ سے خوں سن کے یہ پوچھا ہاے تیر اک آنکھ سے روتے ہویے کھینچا ہاے روۓ سجاد سبھی اہل حرم میر ہلال تھر تھرایا سر قرطاس قلم میر ہلال بڑھ گیا اور بھی سادات کا غم میر ہلال دل دو پارہ ہے نہیں تابے رقم میر ھلال ا گیا وقت قضا ساتھ یہیں چھوڑ دیا بھائی کے سامنے اک بھائی نے دم توڑ دی
Haay Haay 😢..Mere moula Abul fazlil Abbas as Al madad Adrikini,😢
ہاے ہاے 😭😭😭😭
😭
uskay lyrics kahan se mill sktay Hain????
دل پھٹا جاتا ہے سب اہل قلم روتے ہیں
چاہنے والے بصد رنج و الم روتے ہیں
شور گریے کا ہے سب اہل حرم روتے ہیں
خاک پر بیٹھے ہوۓ شاہ ِ امم روتے ہیں
زخم کے درد کا احساس بتاؤں کیسے
مقتل ِ حضرت ِ عبّاس سناؤں کیسے
لے کے مشکیزہ چلا جانبِ دریا ذی جا
اشک آنکھوں سے مسلسل تھے رواں بھرتا تھا آ
آ گئے بھائی کے نزدیک تڑپتے ہویے شاہ
کاٹ کے فاتحہ کی آیت لکھی انّ للہ
شہہ کو معلوم ہے غربت کا ہے مارا بھائی
لوٹ کے اب نہیں آۓ گا ہمارا بھائی
جاں فدا ِ شہہ ِ ابرار وفا دار ِ حسین
تپتے صحرا میں مصیبت میں مدد گار ِ حسین
مونس و چارہ گر و ناصر و غم خار ِحسین
الغرض ا گیا دریا پہ علمدار ِ حسین
مشک بھر کر جو چلا جانب ِ خیمہ ہاے
تیر ہر سمت سے عبّاس پہ برسا ہاے
آکے اک تیر ِ ستم مشک سکینہ پہ لگا
چد گئی مشک سر خاک زمیں پانی بہا
دل عبّاس دلاور کو بڑا رنج ہوا
نہ گہاں آکے لگا آنکھ میں اک تیر جفا
ظلم پھر ایسا ہوا غیرت الیاس کے ہاتھ
خاک پر کٹ کے گرے شاہ کے عبّاس کے ہاتھ
تیر کو کھینچنا زانو سے جو چاہا ہاے
اس نے زانو کے قرین سر کو جھکایا ہاے
گُرز پھر ایسا ستمگار نے مارا ہاے
زخم گہرا تھا نہ رہوار پہ سمبھلا ہاے
ہاتھ موجود نہ تھے ظلم کچھ ایسا ڈھایا
منہ کے بل خاک پہ شبّیر کا بھائی آیا
سن کے آواز سلام اشک بہا کر دوڑے
جانب ِ نہر بن ِ ساقی ِ کوثر دوڑے
خاک اڑاتے ہویے سر پیٹ کے سرور دوڑے
تھام کر اپنی کمر بنت ِ پیمبر دوڑے
تھی جو وابستہ بہت آس مگر ٹوٹ گئی
بھائی کے مرنے سے بھائی کی کمر ٹوٹ گئی
شاہ اب خون کے آنسوں نہ بہائیں کیسے
دن دکھایا ہے یہ پردیس میں کیا قسمت نے
ٹھوکریں کھاتے ہویے خاک پہ گرتے گرتے
پاس عبّاس کے اس طرح شہہ دیں پہنچھے
خاک پر بیٹھ کے فرمایا گزر جاتا میں
کاش عبّاس سے پہلے یہاں مر جاتا میں
شاہ جب آے تو عبّاس تڑپ کر بولے
دیکھ لوں آپ کو جی بھر کے قضا سے پہلے
دل پھٹا جاتا ہے ہوتی ہے گھٹن رہ رہ کے
تیر ہے ایک میں اک آنکھ میں ہے خون میرے
شہہ نے اک آنکھ سے خوں سن کے یہ پوچھا ہاے
تیر اک آنکھ سے روتے ہویے کھینچا ہاے
روۓ سجاد سبھی اہل حرم میر ہلال
تھر تھرایا سر قرطاس قلم میر ہلال
بڑھ گیا اور بھی سادات کا غم میر ہلال
دل دو پارہ ہے نہیں تابے رقم میر ھلال
ا گیا وقت قضا ساتھ یہیں چھوڑ دیا
بھائی کے سامنے اک بھائی نے دم توڑ دی